کراچی(اسٹاف رپورٹر) ڈاکٹر آصف فرخی سینئر خاکہ نگار، مدرس، محقق اور قلم کار ڈاکٹر اسلم فرخی کے صاحب زادے تھے، ان کی نماز جنازہ آج(منگل)کو بعد نماز عصر جامعہ مسجد کراچی یونیورسٹی میں ادا کی جائیگی جبکہ تدفین کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں ہوگی۔
ڈاکٹر آصف فرخی 16 ستمبر 1959 میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق فرخ آباد سے تھا اور ان کے خاندان کے بہت سے افراد ادب اور شاعری سے وابستہ رہے،آصف فرخی کے ننھیال کا تعلق معرف ادیب ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تھا،ڈاکٹر آصف فرخی نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک اسکول سے حاصل کی اور ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا، بعدازاں انھوں نے معروف امریکی یونیورسٹی ہارورڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی،1985 سے 1993 تک انھوں نے آغا خان یونیورسٹی کی فیکلٹی میں کام کیا۔
سن 2010 میں ڈاکٹر آصف فرخی نے پاکستان میں ادبی میلوں کا کلچر متعارف کرایا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعاون سے کراچی لٹریچر فیسٹیول کا آغاز کیا،انھوں نے مختصر کہانیوں کے 6 مجموعے اور ادبی تنقید پر مبنی 2 کتابیں لکھیں۔ وہ معروف ادبی پرچے دنیازاد کے مدیر اور پبلشر تھے،ادارہ ’’ہم سب‘‘ سے ان کی ابتدائی برسوں سے ہی وابستگی رہی، ان دنوں وہ وڈیو بلاگ کے ذریعے اپنے خیالات ’’ہم سب‘‘ پر شائع کرا رہے تھے،وہ اردو میں “دنیایاد” کے نام سے ایک ادبی متفرق کی تدوین اور اشاعت بھی کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے 8 سال صحت عامہ کے علمبردار پروفیسر جان ایچ برائنٹ کی نگرانی میں آغا خان یونیورسٹی کی فیکلٹی میں بھی کام کیا، پھر 2010 میں انھوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور برٹش کونسل کے ساتھ اشتراک کیا اور وہ اس کے بانیوں میں سے ایک ہیں،1994 سے 2014 تک فرخی ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن پروگرام آفیسر کی حیثیت سے یونیسیف کراچی سے منسلک رہے،2014 میں انہوں نے شہر کی نجی یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی ، 2016 میں وہ حبیب یونیورسٹی میں عبوری ڈین اور ایسوسی ایٹ پروفیسر اسکول آف آرٹس ، ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز بن گئے۔1995 انھیں ادبی خدمات کے عوض ادب ایوارڈ سے نوازاگیا،جبکہ 2005 میں انھیں صدر پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا، ذیابیطس کے مریض تھے،ان کے ذاتی معالج کے مطابق آصف فرخی کا انتقال فوڈ پوائزن کے سبب ہونے والی شدید نقاہت کی وجہ سے ہوا،انھوں نے عالمی ادب کی کئی شاہ کار تخلیقات کو اردو روپ دیا، دنیا زاد کے نام سے ایک منفرد پرچہ نکالا، شہزاد کے نام سے انھوں نے پبلشنگ ہاوس شروع کیا،آصف فرخی مختلف اخبارات میں اورجرائد میں خدمات انجام دیتے رہے،ان کے انتقال پراردو کے ادبی حلقوں میں شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
دریں اثنا آصف فرخی اپنی ذات میں ایک ادبی کاررواں تھے، وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، اپنی تخلیقی جہتوں اور دیگر ادبی سرگرمیوں کے ساتھ انھوں نے پاکساتی ادب خصوصا اردو شعرونثر کے فروغ میں نہایت فعال کردار ادا کیا، ادب کا کوئی بھی شعبہ ہو اردو ادبی اصناف کے قاری نے کسی نہ کسی طور ان سے فیضان حاصل کیا کہ وہ افسانہ نویس، تنقید نگار، مترجم، منتظم ادبی رسالے ’’دنیازاد‘‘ کے مدیر اور معتبروفعال اشاعتی ادارے شہرزاد کے منتظم تھے۔
انھوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں ہر طرف علم وادب کے چرچے تھے اور جس کی شناخت اور فخر تصنیف وتالیف کا روشن سلسلہ تھا، ان کے دادا محمد احسن، والد اسلم فرخی اور چچا انور احسن صدیقی ادیب تھے اور والدہ تاج بیگم اردو کے اولین ناول نویس ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی تھیں۔
آصف فرخی نے اپنی دمکتی خاندانی روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا، ایک طرف ان کا تخلیقی وفور افسانوں کی صورت میں سامنے آیا تو دوسری طرف بہ طور نقاد، مترجم، مدیر اور ناشر ذہنوں کی آبیاری کرتے رہے۔
انھوں نے کالم بھی لکھے اور جدید ترین ابلاغی صنف وی لاگ کے ذریعے بھی علم وادب اور فکر وآگاہی کے موتی بکھیرتے رہے، آصف فرخی کی تصانیف اور تالیفات کہکشاں کی صورت ہمارے آسمان ادب پر جگمگارہی ہیں، ان کتابوں میں ’’ آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘‘، ’’اِسم اعظم کی تلاش‘‘، ’’چیزیں اور لوگ‘‘، ’’شہربیتی‘‘، ’’شہر ماجرا‘‘، ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘، ’’اِیک آدمی کی کمی اور’’میرے دِن گزررہے ہیں‘‘ آصف فرخی کے افسانوں کے مجموعے ہیں اور ’’عالم ایجاد‘‘ اور ’’نگاہ آئینہ سازمیں‘‘ تنقیدی مضامین کی کتب۔
آصف فرخی نے نہ صرف آئن رینڈ، ہرمن ہیس، گریش کرناڈ، ستیہ جیت رائے، اگنارزیو سلونے، ساتو کی زاکی، ارنستو سباتو، عمر ریوابیلا، نجیب محفوظ، ارون دھتی رائے، رفیق شامی اور کئی دوسرے اہم لکھنے والوں کے انگریزی متون ترجمہ کرکے اْردو کو مالامال کیا۔
انھوں نے انگریزی میں بھی مسلسل لکھا ہے، ساتھ ہی اپنے ہاں کے ادب کے کئی اہم موضوعاتی انتخاب مرتب کیے ہیں، ممتاز شیریں کے تنقیدی مضامین ’’منٹو نوری نہ ناری‘ فسادات کے افسانوں پر مشتمل کتاب‘ ’’ظلمتِ نیم روز‘‘ اور’’ منٹو کا آدمی نامہ ‘ ‘ کے علاوہ دیگر متعدد کتب، ان کی وہ ادبی خدمات ہیں جنھیں بھلایا نہ جاسکے گا۔ اس واقعے پر اردو کے ادبی حلقوں میں شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔