ممتاز افسانہ وناول نگار، پروفیسر قاضی عبدالستار 86 برس کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئے

معروف تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو بنیاد بناکر متعد ناول تحریر کیے جن میں غالب، داراشکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید، اور صلاح الدین ایوبی اہم ہیں، اردو دنیا میں غم کی لہر

\"\"
٭ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی خصوصی رپورٹ

\"\"

علی گڑھ، 29 /اکتوبر(اسٹاف رپورٹر) اردو ادب کے مشہور و معروف افسانہ، ناول اور تنقید نگار پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستار کا آج صبح راجدھانی دہلی کے گنگا رام اسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستار  86 برس کے تھے۔ پروفیسر قاضی عبدالستار   کا شمار موجودہ عہد میں ہندوستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے یا کہانی کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔مرحوم کے جسد خاکی کو ابھی ان کے بیٹے شاہویز کے گھر دریا گنج سے غسل دلا کر تدفین کیلئے لے جانے کا عمل شروع ہے. مرحوم کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ مرحوم گزشتہ کچھ دنوں سے دہلی کے گنگا رام اسپتال میں زیر علاج تھےآج اچانک ان کا انتقال ہو گیا۔ اس خبر سے ادبی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے. ان کے لواحقین اور ادب نواز لوگوں کا ان کے یہاں جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

 اردو فکشن کے اہم ستون پروفیسر قاضی عبدالستار 9 فروری  1932کو لکھنو سے متصل سیتاپور کے ایک گاوں مچھریٹہ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قاضی عبدالعلی عرف بڑے بھیا اور والدہ کا نام عالمہ خاتون تھا۔ انھوں نے جب آنکھیں کھولیں تو تعلقداری اور زمینداری کا طمطراق پورے شباب پر تھا۔ ایسے ماحول میں ان کی پرورش ناز و نعم سے ہوئی ان کی تعلیم و تربیت ان کے ماموں قاضی جمیل الدین ایڈوکیٹ اور چچا محمود علی رئیس مچھریٹہ کے زیر سایہ ہوئی۔ بچپن سے ہی ان کی ذہانت اور فطانت کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ ا نھوں نے 1948ء میں میٹرک اونچے نشانات سے کامیاب کیا، پھر 1950ء میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات آر۔جی۔ ڈی کالج سیتا پور سے پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آبائی وطن کو خیر باس کیا اور لکھنو پہنچے۔ وہاں انھوں نے یونیورسٹی سے 1954 میں ایم اے (اردو)، فرسٹ ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا۔ اس بنا پر وہ شنکر دیال شاد گولڈ میڈل کے مستحق ہوئے۔ اس وقت لکھنو یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ پروفیسر احتشام حسین ، پروفیسرآل احمد سرور،اور پروفیسر محمد حسن ،جیسی اردو ادب کی نامی گرامی ہستیاں تھیں۔

قاضی صاحب نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1957 میں \”اردو شاعری میں قنوطیت\” کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالہ کے نگراں اردو کے معتبر ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنے سے پیشتر ہی وہ 1956 میں عارضی طور پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو میں بحیثیت لیکچرار منسلک ہوگئے اور وہ 1961شعبہ اردو میں مستقل ہوگئے تھے۔ اسی شعبہ میں وہ 1967ریڈر اور1981 میں پروفیسر ہوئے۔ 1988 میں وہ صدر شعبہ اردو کے پروقار عہدے پر فائز ہوئے۔ 37/ سال تک شعبہ اردو کی قابل قدر خدمات انجام دے کر وہ 14/ جولائی 1993 کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ درس و تدریس کے دوران انھوں نے اپنی معیاری تحریروں اور بصیرت افروز تقریروں سے جو شہرت حاصل کی وہ بہت کم اساتذہ کو نصیب ہوتی ہے۔ افسانوی ادب میں قاضی صاحب کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

قاضی عبدالستار نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز اسی وقت سے کردیا تھا جب کہ وہ مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے 1946 میں اپنا پہلا افسانہ \”اندھا\” لکھا جو لکھنو سے شائع ہونے والے جریدے \”جواب\” میں شائع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کی تھی۔ یہ افسانہ اتنا مقبول ہوا کہ رسالہ\”مضراب\” میں بھی شائع ہوا۔ لیکن ان کی شہرت ’’کتاب‘‘ لکھنؤ میں شائع ہونے والے افسانے \”پیتل کا گھنٹہ\”سے ہوئی۔اس وقت وہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ صہبؔا ان کا تخلص تھا ۔ وہ بابو گرچرن لال شیداؔ نبی نگری سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کا کلام 1957 تک ہندو ہاک کے رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔ 1954 کا زمانہ ان کی زندگی کا اہم موڑ ہے۔ اسی سال انھوں سے ایم اے اردو امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ان کا پہلا ناول \”شکست کی آواز\” منظر عام پر آیا اور اسی سال ان کی ایک نظم \”گومتی کی آواز\” رسالہ شاہراہ میں شائع ہوئی۔ وہ قاضی صاحب کا تشکیلی دور تھا۔ اس وقت وہ اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ آیا وہ شاعری کے میدان میں آگے بڑھیں یا فکشن میں لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے شاعری کو ترک کیا اور نثر کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اسی راستے پر آگے بڑھتے گئے۔ وہ تنقید و تحقیق کی طرف بھی راغب ہوئے۔ تحقیقی مقالہ کے علاوہ انھوں نے \”جمالیات اور ہندوستانی جمالیات\” کے موضوع پر معرکتہ الآرا تنقیدی مقالہ لکھا اس کے بعد ان کا تخلیقی سفر برق رفتاری سے آگے بڑھتا گیا۔ ناول نگاری کے میدان کو انھوں نے اپنے لیے مختص کیا اسی میدان میں انھوں نے اپنے قلم کا جوہر دکھایا اور ان کے ایک کے بعد ایک ناول تواتر سے منظر عام پر آنے لگے۔ \”شب گزیدہ، مجو بھیا ، صلاح الدین ایوبی، بادل، غبار شب، دارشکوہ، غالب ،حضرت جان، خالد بن ولید، تاجم سلطان،اور تاج پور جیسے ناول لکھ کر انھوں نے تاریخی ناول نویسی میں بھی بلند مقام حاصل کیا۔ چوں کہ قاضی عبدالستار کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے۔ اسی لئے ان کے ناولوں میں زمینداروں کی طرز زندگی اور معاشرتی نظام کا بہت گہرا مشاہدہ اور تجزیہ ملتا ہے۔جس میں زمیندار اور تعلقداروں کا کردار ہی بنیادی ہوتا ہے۔اس میدان میں ان کی بڑی قدر افزائی ہوئی۔ ناول کی بہ نسبت انھوں نے افسانے کم لکھے لیکن جو کچھ بھی لکھا ہے وہ معیاری اور ادبی شاہکار ہے۔ ان کی مقبولیت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ ان کے ادبی کارنامے کا اعتراف ارباب ادب نے کیا ہے اور انھیں قومی اور عالمی سطح پر پدم شری، غالب ایوارڈ، بہادرشاہ ظفر ایوارڈ، عالمی اردو ایوارڈ، یو پی اردو اکادمی ایوارڈ، اقبال سمان، مہاراشٹر اردو اکادمی ایوارڈ ، جیسے اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ وہ ادب کی اس بلند ی پر پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کی تخلیقات پر کئی جامعات میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاچکے ہیں نیز دیگر یونیورسٹیوں میں ان کی ادبی خدمات پر تحقیقی کام ہورہے ہیں۔ تقریباً نصف صدی سے وہ اردو ادب کی خدمات کررہے تھے۔

Leave a Comment