منفرد لب و لہجے کی خوبصورت شاعرہ ۔ارم زہرا

\"10527373_781866988535708_8123816288398386735_n\"
٭ محمد ایو ب صابرؔ ۔ سیالکوٹ
\"28383532_1549691658402096_2073883092_n\"
\"28449551_1549691731735422_1620437142_n\"
ادب ایک آسمان ہے اس میں ہر ایک ستارہ اپنے حصے کی روشنی سے اس آسمان کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ کر رہا ہے۔
اس میں ہر روز لاتعدار ستارے ہر شب نمودار ہوتے ہیں اور اپنے محدود وقت تک اپنی روشنی سے اہلِ زمین کو مستفید کرتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ایک ستارے کا وجود چھوٹا سا نظر آتا ہے اس کے باوجود اس کی موجودگی اپنے ہونے کا احساس اجاگر کرتی ہے۔ ستاروں کی روشنی سے ہی آسمان کی جاذبیت برقرار ہے۔ ستاروں کی حرکات سے مسافر اپنے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ جس طرح کہا جاتاہے کہ علم ایک سمندر ہے تو سمندر میں راستوں کی تلاش ستاروں کی جگمگاہٹ کی مرہونِ منت ہے۔آج ادبی آسمان کے ایک ایسے ہی درخشندہ ستارے کافن اور شخصیت میرا موضوع ہے۔
ارم زہراء ادبی فلک کا وہ ستارہ ہے جس کی ضوفشانی آسمان ادب کی خوبصورتی کو چار چاندلگا رہی ہے۔ ان کی شخصیت تہہ در تہہ ہے اور ہر تہہ اپنے اندر ایک بھر پور حوالہ رکھتی ہے۔ناول نگار،افسانہ نگار،کالم نگار، کہانی کار اور شاعر ہ کی حیثیت سے ہر پہلو مکمل اکائی ہے۔ان کی تخلیقات میں جذبوں کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے ۔ان کی تحریر یں قاری کو فکروعمل کی دعوت دیتی ہیں۔ ان کا تعلق شعبہ تدریس سے ہے جس کا یہ پوری طرح حق اداکر رہی ہیں ۔ان کے کالموں میں تعلیمی مسائل کو احسن انداز میں اجاگرکیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ارم زہراء کے تین مختلف تخلیقی پہلوئوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ سب سے پہلے ان کے ناول ــ’’چاندمیرامنتظر‘‘ پر روشنی ڈالی جائے گی ۔اس کے بعد کہانیوں کے مجموعے ‘‘میرے شہر کی کہانی ‘‘پر اظہارِ خیال ہو گااور سب سے آخرمیں ان کی شعرگوئی پر جائزہ پیش کیا جائے گا۔
’’چاند میرا منتظر‘‘ایسے کرداروں کہانی ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔ارم زہراء کے والدین کا تعلق لکھنئو سے ہے شاید اسی لئے ان کے ناول میں لکھنوی تہذیب کی چاشنی اور رکھ رکھائو نظر آتا ہے ۔کہانی میں زبان کی شگفتگی اور سلاست کا حسین امتزاج پیش کیا گیا ہے ۔ مصنفہ نے قدیم تہذیبی ورثے اور فکر جدید کے تغیرو تبدل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے نسل در نسل سوچ کے مدو جزر کو مختلف زاویوں سے قلم بند کیا ہے۔ ناول کا مرکزی خیال روزمرہ زندگی سے ماخوذ ہے ۔ اس میں ہر کردار ایک نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے ۔ ناول کے کردار قاری کو انگلی پکڑ کر اسے ایک ایسی وادی میں لے جاتے ہیں جہاں ہر قدم پر حیرت وہ انبساط کا منظر محوِ انتظار نظر آتا ہے۔
ناول پڑھتے ہوئے قاری کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ پردہ ء سیمیں پر کرداروں کو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہے۔ جہاں ایک منظر ختم ہوکر دوسر ا شروع ہوتا ہے وہاں کہانی کے تسلسل کو اس طرح مربوط کیا گیا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا دروازہ خود بخود ہی کھل جاتا ہے۔ رشتوں کے تقدس کو اس سلیقے سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر ایک کردار اپنے دائرے میں حرکت کرتاہے۔ جزیات نگاری میں ارم زہراء کو ایک خاص مہارت حاصل ہے ۔ انہوں نے ناول کو اس طرح پیش کیا ہے کہ 400صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود قاری اس کو ایک ہی نشست میں ختم کرنے کی جانب مائل ہونے لگتا ہے ۔ ناول کے کرداروں کو اس طرح کہانی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے کہ کوئی بھی کردار غیر ضروری نہیں لگتا۔
ناول میں جملہ بازی کو خاص اہمیت دی گئی ہے جس سے نہ صرف زبان کی تازگی نکھر کر سامنے آئی ہے بلکہ ارم زہراء کا زبان پر عبور حاصل ہونا بھی ظاہر ہو تاہے۔یہی سب خوبیاں کسی بھی تحریر کو مقبول ِ عام کے مقام تک پہچانے میں سیڑھی کا کردار ادا کرتی ہیں۔یہ تمام حوالے ارم زہراء کو ایک بہترین ناول نگار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
اب ذرا کہانی کار ارم زہراء کا ذکر ہوجائے۔ ایک حقیقی قلمکار وہی ہے جواپنے قلم سے عصری مسائل کو سطحِ قرطاس پر لاتا ہے جب یہ آلام ومصائب اخبارات ،رسائل اور کتب کے صفحات پر ابھرتے ہیں تو کسی نہ کسی وسیلے سے اربابِ اختیار تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ قلمکار اِن مسائل کو زیر ِبحث لاکر معاشرے کے درد بانٹتا ہے۔
ارم زہراء کی تصنیف’’میرے شہرکی کہانی ‘‘در اصل پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں وقوع پذیر واقعات و حادثات کا احاطہ کرتی ہے ۔عروس البلاد کہلانے والا روشنیوں کا شہر تقریباًربع صدی سے آگ میں جل رہا ہے۔ کبھی ان واقعات کو لسانی رنگ دیا جاتا ہے تو کبھی فرقہ واریت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔لوگ کہتے تھے کہ کراچی ماں کی طرح ہے جو اپنے کسی بچے کو بھوکا نہیں سونے دیتی۔ وہی غریب پرور شہرآج شہرِ بے امان میں تبدیل ہو چکاہے ۔خدا کا شکر ہے آج کراچی کے مسائل حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔
ارم زہراء کی یہ کتاب امن کے ہاتھوں وقت کے دروازے پر دستک ہے۔ یہ کتاب ایسے وقت پر شائع ہوئی ہے جب تمام طبقات کراچی کے مسائل حل کرنے کی خاطر سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں ۔ان حالات میں ارم زہراء کی یہ کاوش روشنیوں کے شہر میں ایک شمع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ارم زہراء نے سچے واقعات کو رپورٹنگ سے زیادہ تخلیقی انداز میں رقم کیا ہے ۔انہوں نے کہانیوں میں مسائل کی نشاندہی کی ہے اور کہانی جب اپنے اختتام کی حد چھونے لگتی ہے تو اس میں حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔
مجھے اس کتاب پڑھ کر حیرت ہوئی کی ارم زہراء نے کرائم رپورٹنگ کو کس طرح افسانوی انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے باوجود کہانی کا اصل واقعہ اور تحقیقی مواد پورے اہتمام کے ساتھ مہیا کیا ہے۔ اس طرح ارم زہراء نے نئے قلمکاروں کے لئے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ کرائم رپورٹنگ کو افسانوی انداز کا جامہ پہناناایک مشکل کام ہے جسے ارم زہراء نے آسانی
سے کر لیا ہے ۔ میںپورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ارم زرہراء ایک قدرتی قلمکار ہیں ۔ان کی سوچ کا زاویہ منفرد اور بلند ہے جو مقام انہوں نے حاصل کیا ہے وہ صرف ان کی جداگانہ سوچ کا مرہونِ منت ہے۔ ’’میرے شہر کی کہانی‘‘پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس کتاب کو ضبطِ تحریر میں لانے کے لئے انہوں نے خود کس کربناک راستے سے اپنا سفر طے کیا ہے ۔ جہاں ہر قدم پر پائوں کانٹوں سے الجھتے ہوں وہاں جہدِ مسلسل سے چلتے رہنا ایک کارنامے سے کم نہیں ۔انہوں نے ہر ایک کہانی کو تحریر کرتے ہوئے کئی دفعہ اپنی پلکوں کی منڈیر ٹشو پیپر سے خشک کی ہو گی۔
اب ارم زہر اء کی شعر ی تخلیقات کا ذکر ہوجائے۔ انہوں نے شعرگوئی کا آغاز نثر نگاری کے ساتھ ہی کیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی پہچان نثرنگارکی حیثیت سے ابھی تک لوگوں کے سامنے آئی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ابتداء میں انہوں نے نثر نگاری کو زیادہ وقت دیا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے ار م زہراء تواتر کے ساتھ شاعری سے منسلک ہو چکی ہیں۔انہوں نے محض قافیہ پیمائی نہیں بلکہ ان کے شاعر ی دل سے نکل کر دل میں اترجاتی ہے۔ انہوں نے غم دوراں اور غمِ جاناں کے درمیا ن ایک توازن کے ساتھ اپنا شعری سفر جاری رکھا ہواہے۔ شعری اصناف میں غزل اور نظم دونوں کی جانب ان کا رحجان یکساں نظر آتا ہے۔
ارم زہراء کی غزل اپنے دور کی نمائندہ ہے جس میں گل وبلبل اور لب ورخسار کا تذکرہ اور عصر ی مسائل کا ذکر بھی ہے ۔ ارم زہرا اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ علامہ اقبال ، فیض احمد فیض اور منیر نیازی جیسے عظیم شعراء نے غزل کے موضوعات کو بند گلی سے نکال کر ایک کھلی فضاء میں پھیلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ آج کی غزل صرف ہجرو وصال تک محدود نہیں ہے بلکہ اب جدید غزل کا اسلوب تبدیل ہوچکاہے۔ ارم زہراء نے بھی اس تبدیلی کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس رحجان کو اپنی غزل میں سمویا ہے۔ ارم زہراء نے آزاد نظمیں تخلیق کی ہے ۔ ان کی نظموں کے موضوعات اچھوتے اور دلکش ہیں ۔ ان کی نظم ایک آبشار کی طرح مانوس زمیں سے نکل کر وادیوں کا رخ کرتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی دلوں کی زمیں کو سر سبزو شاداب کرتی ہوئی دور تک چلی جاتی ہے۔
ارم زہرا ء کا فن ان کی ریاضت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج جب ہر کوئی پہچان کی دوڑ میں شامل ہے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ارم زہراء اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیا ب نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے دوسروں کے خیالات کی جگالی کرنے کی بجائے اپنا ایک الگ راستہ منتخب کیا ہے۔ ان کا فن وقت کے ساتھ سفر کرتا رہے گا۔ ان کو بلاشبہ نئی نسل کی نمائندہ تخلیق کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ہماری دُعا ہے کا ارم زہراء کا قلم اسی طرح شاہکار تخلیق کرتا رہے۔
\"28383532_1549691658402096_2073883092_n\"
\"28313017_1549691551735440_1091139165_n\"
\"28383774_1549691861735409_574960959_n\"
\"28313663_1549692028402059_1402347653_n\"

غزل
مرے پہلو سے آئی ہے مرے ہمزاد کی دستک
مگر دل میں سنائی دے تمھاری یاد کی دستک
میں اپنی داستاں سارے زمانے کو سنائوں گی
گلی کوچوں میں گونجے گی مری روداد کی دستک
جہاں ناپید ہو جائے محبت کا حسیں جذبہ
کوئی شیریں نہیں سنتی وہاں فرہاد کی دستک
جسے پر کاٹ کے پنجرے کے اندر قید رکھا ہو
اُسے سونے نہیں دیتی کبھی صیاد کی دستک
یہ آوازیں بھیانک زلزلے کا پیش خیمہ ہیں
در و دیوار سے آنے لگی بنیاد کی دستک
ارمؔ کی شاعری میں جابجا ہے تذکرہ اُس کا
مرے ہر شعر پہ آنے لگی ہے داد کی دستک
ارم زہراء۔کراچی

غزل
جب بھی میں تیرے گھر سے خفا لوٹ کے آئی
کوچے سے تیرے بادِ صبا لوٹ کے آئی
اب کون سی وادی میں بسیرا ہے تمھارا
جب میں نے پکارا تو صدا لوٹ کے آئی
ہر جھونکے نے اک درد چھپا رکھا ہے خود میں
یہ کون سی نگری سے ہوا لوٹ کے آئی
اِس بار بھی اک سنگِ گراں رکھا تھا سر پہ
وہ آیا نہیں اُس کی انا لوٹ کے آئی
دھرتی ہی نہیں مجھ سے تو نالاں ہے فلک بھی
جب ہاتھ اٹھائے تو دُعا لوٹ کے آئی
رُت بدلی تو پھر ملنے کا آیا ہے زمانہ
ہاتھوں پہ وہی طرزِ حنا لوٹ کے آئی
چہرے پہ نیا چہرہ ارمؔ اُس نے لگایا
میں سمجھی کہ پھر میری وفا لوٹ کے آئی

غزل
ساری دنیا میں مجھے اک مہرباں اچھا لگا
پا لیا ہے جب اُسے سارا جہاں اچھا لگا
زندگی کی راہ میں تنہا سفر کرتی رہی
ساتھ جب وہ چل پڑا تو کارواں اچھا لگا
اُس کو رہتی ہے خبر ہر پَل مرے احساس کی
وہ میرے جذبوں کا سچا ترجماں اچھا لگا
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں اُسی کا نام ہے
دل کا دریا اُس کی خاطر بیکراں اچھا لگا
چاند تاروں سے میں کرتی ہوں اُسی کا تذکرہ
رازداں جب کر لیا تو آسماں اچھا لگا
اُس کی یادیں بن کے سایہ ساتھ ہیں محوِ سفر
سر پہ میرے پیار کا وہ سائباں اچھا لگا
دل کے بدلے جان کا سودا کوئی کرتا نہیں
ہاں ارمؔ کو تو یہی کارِ زیاں اچھا لگا

غزل

منتظر میری طرح ہر اک ستارا چاند کا
اس لئے سارے فلک پر ہے اجارہ چاند کا
موج میں پھر لہر بھی اٹھکیلیاں کرنے لگی
عکس سطحِ آب پر جونہی اتارا چاند کا
منتظر میں چاند کا اور چاند میرا منتظر
ہو نہیں سکتا اکیلے میں گذارا چاند کا
رات بھر میں دیکھتا رہتا ہوں اپنے چاند کو
دل کی سرحد تک اتر آیا کنارہ چاند کا
وہ میری نظروں سے اوجھل ہو نہیں سکتا کبھی
نقش اپنے ذہن میں ایسا اُبھارا چاند کا
اُس کا کوئی ہم شکل سارے زمانے میں نہیں
ساری دنیا کیوں نہ پھر کرتی نظارہ چاند کا
دل تو کیا اُس پر فدا کرتا ہوں اپنی جان بھی
بس مجھے کافی ہے یارو اک اشارہ چاند کا

غزل
کہکشاں پہ جانے کا راستہ نہیں دیکھا
ہم نے آج تک کوئی معجزہ نہیں دیکھا
تیرے چہرے پر غموں کی دھند سی آئی نظر
ٓآج صبح تم نے کیا آئینہ نہیں دیکھا
میرے شانوں پر گھٹا چھائی ہوئی ہے اس طرح
تم نے بادلوں کا وہ سلسلہ نہیں دیکھا
جب میں مسکرائوں تو گھنٹیاں سی بجتی ہیں
تم نے تو میری ہنسی کا دائرہ نہیں دیکھا
چاند نے کہا سب سے بام پر میں آئوں گی
منتظر کیا جگنوئوں کا قافلہ نہیں دیکھا
جس کو دل دیا ہے وہ جان سے فدا ہوا
ہم نے بے وفائی کا مرحلہ نہیں دیکھا
جس کو مان کر ارمؔ پیار کرنا چھوڑ دے
میں نے ایسا کوئی بھی ضابطہ نہیں دیکھا

کتنی دور سے چلتے چلتے خواب نگر تک آئی ہوں
پائوں میں کتنے چھالے سہہ کر اپنے گھر تک آئی ہوں
کالی رات کے سناٹے کو میں نے پیچھے چھوڑ دیا
شب بھر تارے گنتے گنتے دیکھ سحر تک آئی ہوں
لکھتے لکھتے لفظوں سے میری بھی کچھ پہچان ہوئی
ساری عمر کی پونجی لے کر آج ہنر تک آئی ہوں
شاید وہ مٹی سے کوئی تیری شکل بنا پائے
تیرے خدوخال بتانے کوزہ گر تک آئی ہوں
سورج کی شدت نے مجھ کو کتنا ہے بے حال کیا
دھوپ کی چادر اوڑھ کے سر پہ ایک شجر تک آئی ہوں
بابل کے آنگن سے اک دن ہر بیٹی کو جانا ہے
ٓآنکھوں میں نئے خواب سجا کر تیرے در تک آئی ہوں
اپنے ہاتھ میں علم کی شمع ارمؔ نے تھامے رکھی ہے
میں تو ایک اجالا لے کر دیدہ ور تک آئی ہوں

لفظ کہانی
آئو میں تمھیں’’لفظ‘‘ کی کہانی سنائوں
لفظً تم کو یہ روداد بتائوں
لفظ کو کچھ اس طرح لفظ سے زنجیر کروں
چھوٹی سی بات کو میں طویل کروں
یاد کے آنسوئوں کو مرثیے کا روپ دوں
چاہت کی پہلی نظر کو سپاس لکھوں
کبھی صدیوں پہ محیط باتوں کے لب پر
میں محاورے کی انگلی رکھ دوں
تو کبھی ایک سیاسی بیان پر
میں پورا کالم لکھ دوں
اپنے الفاظ کو نئے نئے روپ دوں
کبھی غزل کبھی نظم
کبھی فسانہ اور ناول تحریر کروں
سچ تو یہ ہے
الفاظ پر میری حکمرانی ہے
جبھی تو جملوں کی فراوانی ہے
خاموشی سے نقطوں کا کاروبار کروں
میں لفظ بہ لفظ تفریق و جمع کروں
یونہی الفاظ کا ذخیرہ کرتی جائوں
اور لفظی محفل سجاتی جائوں
ضبطِ تحریر کو میں اپنا فرض سمجھتی ہوں
جبھی قرطاس کا حق ادا کرتی ہوں

Leave a Comment