٭اسد رضا
ناقدانہ ادب کی عزت ، سیاہ و سفید زلفوں سے آراستہ سر، دمکتی ہوئی پیشانی، تنقیدی بصارت کی نشانی، محققانہ ادب کی توقیر میں اضافہ کرنے والی ناک، اردو کے شعر وادب کی طرح بھرے بھرے رخسار، جن پر شرعی ریش اور غیر شرعی مونچھوں کی بہار، جمالیات کی بارش کرنے والے بلند ادبی قدلیکن جسمانی طور پر بوٹا سا قد اور فطری شرافت وذہانت کاحامل کوئی دانشور اگر کسی سمینار یا ادبی جلسے میں ناقدانہ انفرادیت اور عبرانی آمیز اردو میں فصاحت کی فرات اور بلاغت کی دجلہ بہاتا ہوا نظر آئے تو تسلیم کرلیجئے کہ آپ اکیسویں صدی کے مفکر اردو، منفرد ناقد ومحقق صحافت وادب کے دلکش امتزاج اور ادیب ناطق حقانی القاسمی کی زیارت بابرکت سے مشرف بہ تنقید ہوگئے۔
جناب حقانی القاسمی نے 15جولائی1970کو بہار پربہار کے ضلع ارریا میں ایک علم پرور خاندان میں آنکھیں کھولیں اور دارالعلوم دیوبند میں دینی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دنیوی تعلیم حاصل کرکے بڑے دانشوران اردو کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے ہوش اڑادیے۔ حقانی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی ادبیات میں ایم اے اورایم فل کیا اور عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل کی اور پیشے کے طور پر انہوںنے اپنے لئے اردو صحافت کو منتخب کیا لیکن ان کارجحان ادب اور تنقید کی جانب زیادہ ہے لہٰذا اردو راشٹریہ سہارا سے حقانی القاسمی نے صحافتی سفر شروع کیا پھر وہ ہفتے وار ’اخبار نو ‘اورویکلی ’’نئی دنیا ‘‘ سے وابستہ رہے۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین ’’استعارہ‘‘ کو بام مقبولیت تک پہنچانے میں صلاح الدین پرویز کے ساتھ ساتھ حقانی صاحب کا بھی اہم رول تھا۔ اس میگزین کو حقانی القاسمی نے اپنی تنقیدی بصارت اور تحقیقی بصیرت سے آگے بڑھایا۔ استعارہ کے بند ہوجانے کے بعد حقانی صاحب نے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور عالمی سہارا میں اپنے قلمی اور علمی جوہر دکھلائے اور نہایت اہم ادبی مباحث شروع کئے۔ اردو میں طنزومزاح کو گیا گزرا اور دوسرے تیسرے درجے کاادب تصور کرنے والے قد آور ناقدین کرام اور دانشوران عظام کے قائم کردہ نظریاتی بتوں کو توڑنے کے لیے ہی حقانی صاحب نے ماہ نامہ’’بزم سہارا‘‘ میں اس سوال پر بحث کرائی تھی کہ کیا طنزومزاح دوسرے درجے کا ادب ہے۔اس چھوٹے قد کے بڑے ناقد نے تنقید کو ایک نیا علمی وجمالیاتی رخ عطاکیا اورمغرب ومشرق کے من گھڑت اصولوں اور نظریات کی جم کر پول کھولی۔ چونکہ موصوف عربی، فارسی، اردو ، انگریزی اور ہندی کی ادبیات بالخصوص کلاسیکی ادبیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تنقید پر بڑے بڑے پروفیسر انگلی اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حقانی القاسمی اپنے ایک مضمون ’واقیموالوزن بالقسط‘ میں رقم طراز ہیں: تنقید، تجسس اور تفحص کا عمل ہے، تنقید تخلیق کا مکاشفہ بھی کرتی ہے اور محاسبہ بھی، تنقید دراصل ایک طرح سے تخلیق کی توسیع وتفریج ہے، تنقید کوئی سائنسی ، طبیعیاتی یا ریاضیاتی عمل نہیں ہے۔‘‘
حقانی القاسمی کی تنقیدی بصیرت اور نظریاتی بصارت کا پرتو ہمیں ان کی کتب میں نظر آتا ہے۔ فلسطین کے چار ممتاز شعرائ، طواف دشت جنوں، لاتخف، دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، تکلف برطرف، رینو کے شہر میں، خوشبو روشنی اور رنگ، بدن کی جمالیات، تنقیدی اسمبلاژ، ادب کو لاژ، شکیل الرحمن کاجمالیاتی وجدان اور آنگلیات وغیرہ حقانی القاسمی کی قابل ذکر کتب ہیں جن کی اردو دنیامیں کافی پذیرائی ہوئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہماری اردو زبان کا ہر چھوٹا بڑا،اعلیٰ وادنیٰ اور اہم وغیراہم مصنف ،مولف اور مترجم اپنے اور اپنی کتاب کے بارے میں حقانی صاحب سے مضمون لکھوانا او را س طرح اپنی قدر ومنزلت میں اضافہ کرانا چاہتا ہے۔ اب یہ بات دیگرہے کہ اپنی نسبی نجابت اور ادبی شرافت کے باعث حقانی القاسمی کسی کو مایوس نہیں کرتے۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ اپنی شرافت اور انکساری کے باوصف وہ غیور ہیں اور کسی بڑے سے بڑے افسر یا دانشور کی غلط باتوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اگرچہ انہوںنے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور ویکلی ’’عالمی سہارا‘‘ کو شہرت ومقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا لیکن راشٹریہ سہارا اردو، ادارہ کے ایک گروپ ایڈیٹر نے جب حقانی صاحب کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی تو انہوںنے اس بڑی کمپنی کی ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ حالانکہ گروپ ایڈیٹر کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوںنے ادارہ کے کئی سینئر صحافیوں سے سفارش کرائی کہ حقانی صاحب سہارا میں دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن ہمارے اس غیر ت مند ادبی صحافی نے دوبارہ سہارا میں قدم نہیں رکھا۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ حقانی صاحب معاشی لحاظ سے ثروت مند نہیں ہیں البتہ ان کے پاس علم وادب کے بیش بہا خزانے ہیں جنہیں وہ اکثر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لٹاتے رہے ہیں۔ وہ اگرچہ خود حالات کی وجہ سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہیں کرسکے لیکن کئی ریسرچ اسکالروں کی تھیسس لکھنے میںعلمی وتحقیقی مدد کرکے انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی بنواچکے ہیں۔ آج کل وہ یک موضوعاتی مجلہ ’انداز بیان‘ کی ادارت کررہے ہیں۔
حقانی القاسمی کی زبان قدرے مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے مرحوم مظہر امام نے ایک مرتبہ ان کی اردو تحریروں اور فکر کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاتھا: ’’ارے بھئی حقانی میاں اردو میں کب لکھو گے؟‘‘۔ یہ صحیح ہے کہ تنقید وتحقیق کی زبان عموماً مشکل ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقانی صاحب چونکہ عربی زبان کے بھی ماہر ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان کے معنی عام اردو لغات میں نہیں ملتے ۔ دراصل اردو لغات میں عربی ،فارسی اور ہندی کے الفاظ کے معنی ومفہوم تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں عربی ،عبرانی اور یونانی کے الفاظ واصطلاحات کے معنی تلاش وجستجو کے بعد بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لیے اردو کے بڑے بڑے پروفیسر اور دانشور حقانی القاسمی کی زبان وبیان کی روانی ،فکر کی جولانی اور بین السطور کی کہانی کو پڑھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔اس لیے ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے حقانی کو ’طرحدار ناقد‘ قرار دیاہے۔
حقانی القاسمی ایک ماہر مترجم بھی ہیں۔ انہوںنے انگریزی اور ہندی زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کئے ہیں۔ وہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ اس کی روح اور مفہوم کی گہرائی تک اتر کر اور جسم الفاظ ومعنی کو چھوکر کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے تراجم کی عموماً ستائش کی جاتی ہے۔ جس کازندہ جاوید ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے گجراتی کے معروف ناول نگار جوزف میکوان کے مقبول ناول ’’انگلیات‘‘ کا اردو میں اتنا شاندار اور جاندار ترجمہ کیاتھا کہ اس پر حقانی القاسمی کو 2016میں پروقار ادارہ ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ برائے ترجمہ سے سرفراز کیاتھا۔ اگرچہ اردو دنیا اور ادبی حلقوں نے حقانی صاحب کی اتنی قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ انہیں بالکل نظر انداز کردیا گیا ہو لہٰذا دہلی اردو اکادمی نے انہیں تخلیقی نثر کا ایوارڈ دیاتو اترپردیش اردو اکادمی اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے بھی حقانی القاسمی کو ایوارڈ دے کر اپنی معتبریت اور توقیر میں اضافہ کیا۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقانی صاحب اگرچہ متعدد اہم کتب کے مصنف ہیں لیکن وہ اپنی کتب مختلف اردو اکادمیوں کو برائے انعام نہیں بھجواتے۔ اس سلسلہ میں انہیں میں نے کئی بار سمجھایا بھی اور پیار سے ڈانٹا بھی لیکن اس بے لوث ادیب پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دریں اثنا حقانی القاسمی کے حساس د ل پر ایک بہت بڑا غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ ان کی ہونہار، قابل اور پیاری منجھلی بیٹی انیقہ اپنے اسکول میں ایک حادثہ میں گرکر فوت ہوگئیں۔ تاہم اس صابر وشاکر ادیب نے اس صدمۂ عظیم کو برداشت کیا اور وہ پھر اپنی علمی تنقیدی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے لیکن اب بھی کبھی کبھی اپنی اس چہیتی بیٹی کو یادکرکے ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
تخلیقی نقاد حقانی القاسمی کی شہرت بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا بڑی بڑی دانش گاہوں، ادبی اداروں اور اردو اکادمیوں میں انہیں سمیناروں، اردو میلوں اور جلسوں میں مقالات پیش کرنے اور ادبی موضوعات پر تقریریں کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ چونکہ حقانی صاحب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور ایڈیٹوریل صلاح کار ذمے داری پوری کررہے ہیں لہٰذا وہ ہر دعوت کو مشکل ہی سے قبول کرپاتے ہیں۔ بہرحال اپنے اس شعر کے ساتھ میں حقانی القاسمی کایہ خاکہ تمام کرتا ہوں کہ:
یوں ہی چلتا رہے یارب قلم اس کا صدیوں
رنگ تنقید کو تخلیق دیا ہے جس نے
Asad Raza
97- F, Sector-7
Jasola Vihar
New Delhi – 110025
Mob.: 9873687378