مولاناابوالکلام آزاد:غبارخاطرکےآئینےمیں

٭صالحہ صدیقی
ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی۔

\"B-czSyACIAA4R74\"

مولانا ابوالکلام آزاد وہ نام ہے جنھوں نے ادب مذہب اور سیاست میں قابل رشک مقام حاصل کیا ،خطابت و صحافت میں ان کا رتبہ بہت بلند ہے،ان کے مضامین اور اداریے قارئین کے دلوں میں ہلچل بر پا کردیتے تھے ۔ان کا نام احمد ،تاریخی نام فیروز بخت ،لقب ابوالکلام اور قلمی نام آزاد تھا ۔1857ء کی جنگ آزادی میںآزاد کے والد محمد خیر الدین کو ہندستان سے ہجرت کرنی پڑی کئی سال وہ عرب میں ہی رہے ۔ان کا آبائی وطن دہلی تھا لیکن ولادت 11نومبر 1888میں مکہ معظمہ میں ہوئی ،ان کا بچپن وہیں گزرا۔ان کے گھر کا ماحول بے حد مذہبی تھا ۔والد کے عقیدت مند ہر وقت موجوود رہتے ،انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی ،پھر وہ جامعہ ازہر (مصر ) چلے گئے ،چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا ۔ان کا حافظہ نہایت غیر معمولی تھا ،جو نظر سے گزرتا ازبر ہوجاتا ،نتیجہ یہ ہوا کہ بارہ برس کی عمر میں عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم مکمل کر لی اور پندرہ برس کی عمر میں طلبہ کے ایک حلقے کو درس دینے لگے ۔ان کی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار’’ جریدہ لسان الصدق‘‘ جاری کیا ۔اس کے علاوہ انھوں نے 1914ء میں الھلال نکالا ۔یہ رسالہ اپنی طرز کا منفرد رسالہ تھا جو ترقی پسند تخیلات ،مذہبی ہدایت اور سنجید ہ ادب کا عمدہ نمونہ تھا ۔
مولانا نے کم عمری سے سیاست و صحافت کی طرف توجہ کی ،وہ بیک وقت عمدہ انشا پرداز ،جادو بیان خطیب ،صحافی،اور ساتھ ہی بہترین مفسر بھی تھے ۔وہ سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا اور اس کمیٹی کے صدر تھے ملک کی آزادی کے بعد وزیر تعلیم مقرر ہوئے لیکن ان کے دل میںمسلمانوں کا درد ضرور تھا ۔انھوں نے جدید تعلیم ،سائنس اور ٹکنالوجی کے علاوہ ملک کی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے انھوں نے بہت کام کیا ۔ مولانا نے 1958ء میں دہلی میں وفات پائی ۔دہلی کی جامع مسجد اور لال قلعے کے درمیانی میدان میں سپرد خاک ہوئے ۔
مولانا کی زندگی کا ایک اہم مقصدملک کی آزادی تھا چنانچہ وہ تحریک آزادی سے وابستہ ہوگئے زندگی کا نہایت بیش قیمت زمانی جیل میں گزرا ،جیل ہی میں تھے کی ان کی شریک حیات نے اس جہان فانی کو الوداع کہہ دیا ۔حکومت پیرول پر رہا کرنے کو آمادہ تھی ،مگر انھوں نے انگریزی حکومت سے کوئی رعایت حاصل کرنی گوارا نہیں کی غبار خاطر کے خطوط قلعۂ احمد نگر کی جیل میں ہی لکھے گئے ۔ایک بار حکومت نے ان پر بغاوت کا الزام لگایا تو مولانانے اپنے تحریری بیان میں بڑے فخر کے ساتھ ’’جرم ‘‘ کا اعتراف کیا ۔یہ بیان ’’قول فیصل ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میںشائع ہوا۔
اگر ہم بات کریں غبار خاطر کی تو یہ مولانا کے ان مکاتیب کامجموعہ ہے جو انھوں نے قلعۂ احمد نگر کے زمانۂ اسیری میںنواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے ۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان لکھے گئے۔ابتدا میں وہ احمد نگر کے قلعہ میں مقید رہے اور آخری ڈھائی مہینے احمد نگر قلعہ سے بانکو ڑہ جیل میں منتقل کر دیئے گئے تھے مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید وبند میں گزرامگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار کے مقابلہ میں سخت تھی ،کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی ۔اس لیے مولانا نے اپنے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ نکالااور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیا ۔یہی وجہ ہے کہ مولانانے خود اس کا نام ’’غبار خاطر‘‘ دیا ۔اور غبار من است این غبار خاطر سے تعبیر کیا ۔ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ ’’ جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی ،تاہم طبع نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد وو شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے ۔‘‘
’غبار خاطر ‘‘میں ہمیں مولانا آزاد کی شخصیت اپنی تمام تر نفاست ،بلند خیالی اور انانیت و انفرادیت کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ’’غبار خاطر ‘‘ ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں مولانا کی انفرادیت و انانیت ،فلسفہ و نشاط و غم مطالعہ فطرت ،مجتہدانہ خیالات ،طنز و مزاح ،زندگی کا سامنا کرنے کا بے پناہ حوصلہ سب کچھ نظر آتا ہے ۔یہی نہیں مولانا ایک ایسے آرٹسٹ کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں جواپنے قلم کی سحر کاری سے معمولی اور خشک موضوعات کوبھی شعری رنگ و آہنگ عطا کر دینے کا ہنر جانتے ہے ۔غبار خاطر کے سلسلے میں عبدالقوی دسنوی رقم طراز ہے کہ ’’ غبار خاطر ‘‘اردو میں غالبا واحد کتاب ہے جس نے اپنی طباعت کی پہلی منزل سے بڑی دھوم مچائی اور شائع ہو کر جب منظر عام پر آئی تو ہا تھوں ہاتھ لی گئی اور اگر تنقید و تعریض کا نشانہ بنی توعرصے تک لوگوں کے ذہن و دماغ پر اس کا جادو بھی چلتا رہا۔اس نے قلب و نظر ،عل و شعور ،گفتار و کردار اور تحریر و تقریر سب کو متا ثر کیا ۔صاحب دل ،صاحب نظر ،صاحب قلم ،اور صاحب علم سبھوں نے اس سے فیض اٹھایا اور اس کی عظمت ،اس کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت کا اعتراف کیا ،لیکن ایک گروہ ایسے (نقطہ ٔ نظررکھنے والے ) حضرات کا بھی رہاہے جوو خط نگاری میں اسے کوئی درجہ دینا تو الگ بات وہ خطوط میں شمار کرنا بھی پسند نہیں کرتے ،کسی نے اس کتاب کو مضامین کا دفتر کہا ،کسی نے انشائیہ کا مجموعہ قرار دیا،کسی نے خود کلامی سے تعبیر کیا ،کسی نے روزنامچہ کی خصوصیات اس میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور کسی نے اس میں خودنوشت کی خوبیاں پائیں ۔‘‘ (بحوالہ : غبار خاطر ِ،ابوالکلام آزاد ،سن اشاعت 2011،ایجولیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، )
اس طرح ہم دیکھتے ہے کہ غبار خاطر کو لے کر اردو ادب کے ماہرین قلم کے درمیان اختلافات بھی رہے لیکن اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم رہی۔اگر ہم بات کرے اس کے اسلوب کی توغبار خاطر کے اسلوب کے سلسلے میں سجاد انصاری لکھتے ہے کہ :
’’ اگر قرآن اردو میں نازل ہوتاتو اس کے لئے ابوالکلام کی نثر یا اقبال کی نظم منتخب کی جاتی ۔‘‘
مولانا نے غبار خاطر میں عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے ۔قاری بنا رکے پڑھتا ہی چلا جاتا ہے اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
ؓؓ’’ لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیںکہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لئے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کا ٹ دینا ۔یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے ،جس نے مشکل حل کر لی ۔اس نے زندگی کاسب سے بڑا کام انجام دے دیا ۔‘‘
غبار خاطر کی زبان عام فہم کے ساتھ مولانا نے شعری زبان کا پیرایہ اختیار کیا ہے اور یہ غبار خاطر کا وصف خاص ہے ۔یہی وہ وصف بھی ہے جس کے سبب یہ کتاب اتنی مقبو ل ومعروف ہوئی ۔یہاں تک کہ ایک زمانے تک اس طرز کی پیر وی کی جاتی رہی ۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ اس کار خانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں ۔‘‘
غبار خاطر کا اہم وصف یہ بھی ہے کہ مولانا نے اشعار کا استعمال کثرت سے کیا ہے کہیں کہیں انھوں نے اپنی بات مکمل کرنے کے لیے اشعار کا استعمال کیا ہے تو کہیں عبارت میں کوئی بات کہی اس پر کوئی شعر یاد آگیا تو وہ دہرا دیا ۔ اور کہیں کہیں مولانا نے شعر سے کوئی ترکیب یا الفاظ کا مجموعہ مستعار لیا اور اس کو نثرمیں استعمال کیا۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں :
’’ کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائیں ۔بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجیئے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہوونی چاہیے کہ جب بھی چاہا اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی ۔‘‘
اس موقع پر ایک شعر درج کرتے ہیں ۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دین تو فرشتے وضو کریں
غبار خاطر کاا ہم وصف یہ بھی ہے کہ مولانا نے عربی طرز تحریر بھی استعمال کیا ہے اس سلسلے میںمشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ ’’ آزاد پہلے ادیب ہیں جنھوں نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی ۔‘‘
غبار خاطر کے تمام اوصاف کو اس مختصر مضمون میں بیان کر دینا ممکن نہیں ،یہ اپنے آپ میں مولاناکی ایک شاہکار تخلیق ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ۔علامہ نیاز فتح پوری نے مولاناکے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا :
’’ مولانا ! آپ کا اسلوب بیان میں مجھ و داع جاں چاہتا ہے ۔اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل مند مذید کہتا رہونگا ۔‘‘
غبار خاطر کے تمام اوصاف کومولانا حسرت موہانی نے ایک شعر کے مصرعے میں یوں باندھاہیں کہ :
جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا

Leave a Comment