شعبہ اردوتلنگانہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام توسیعی لیکچر سے ڈاکٹر تقی عابدی کا خطاب
نظام آباد(اسٹاف رپورٹر) مولانا ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کے ایک عبقری شخص تھے ۔ جن کی ہمہ جہت علمی وادبی خدمات اور ان کی دانشوری کی وراثت سے نئے ہندوستان کی تعمیر ہوئی ہے۔ وہ ہندوستان کی جد و جہد آزادی کے عظیم قائد‘صحافی‘ ادیب ‘شاعر ‘مفسر قرآن ‘ماہر تعلیم ‘آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور ہندوستان کے تعلیمی ڈھانچے کے معمار تھے۔ ہندوستان میں غالب‘ آزاد ‘سرسید‘ حالی ‘شبلی اوار اقبال وغیرہ عظیم تر دانشورانہ روایت کا سلسلہ رہے جس سے ہندوستان کی تعمیر میں مدد ملی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے مولانا آزاد کی اپنی ذات میں انجمن شخصیت اور کارناموں کا جو ورثہ ہمیں ملا ہے اس کی روشنی میں ہم اپنی اور ہندوستان کی تعمیر کو آگے بڑھائیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید تقی عابدی ماہر اقبالیات و غالبیات اور وزیٹنگ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی نے شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام تلنگانہ یونیورسٹی کے آرٹس ایند کامرس آڈیٹوریم میں منعقدہ خصوصی توسیعی لیکچر بعنوان’’ بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ ابوالکلام آزاد شخصیت اور فن ‘‘ کے دوران خطاب سے کیا۔ قبل ازیں وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی پروفیسر پی سامبیا اور یونیورسٹی کے نئے نرجسٹرار پروفیسر شیوشنکر نے وی سی چیمبر میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کا استقبال کیا اور ان کی گلپوشی و شال پوشی کی گئی۔ ڈاکٹر اطہر سلطانہ پرنسپل کالج آف آرٹس اور صدر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے ڈاکٹر تقی عابدی اور مہمان اعزازی جناب محمد نصیر الدین صاحب سابق رکن اکزیکٹیو کونسل یونیورسٹی و ماہر تعلیم کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ڈاکٹر سید تقی عابدی پیشے کے ڈاکٹر ہیں اور ادب کے مریض ہیں ۔ شعبہ اردو کے وزینٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کی بے لوث خدمات فروغ اردو کے لئے کام آرہی ہیں۔ جناب محمد نصیر الدین صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ شعبہ اردو کی مثالی ترقی یونیورسٹی کے دیگر شعبہ جات کے لئے مثال ہے اور اہلیان نظام آباد کے لئے ایک تحفہ ہے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کہا کہ مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے تقسیم کی مخالفت کی۔ تاریخ کو لوگوں نے اپنے طور پر لکھا ہے لیکن ہمیں لوگوں کے دلوں میں محبت بڑھانے والی حقیقی تاریخ لکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد کا بڑا کارنامہ ان کا اسلوب نگارش ہے غبار خاطر میں انہوں نے زندگی کے فلسفے اور دیگر امور پر جس دلکش اسلوب میں لکھا ہے اسے نئی نسل کے طلبا کو مطالعے میں رکھنا چاہئے۔مولانا کے علمی خیالات انسان سازی کا کام کرتے ہیں۔مولانا آزاد کو خراج پیش کرتے ہوئے ان کے یوم پیدائش کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے افکار کو آگے بڑھایا جائے ۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو کے سوال پر کہ مولانا آزاد کی ہمہ پہلو شخصیت سے آج کے نوجوان کیسے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ عظیم انسانوںنے قربانی کی عظیم مثالیں پیش کی ہیں آج کے نوجوانوں کو جہد مسلسل کے ساتھ کام کرتے ہوئے مولانا آزاد کی شخصیت کی اہم خوبیوں شاعر۔صحافی۔ ادیب۔ سیاسی قائد۔ ماہر تعلیم وغیرہ کو اپنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے طلبا پر زور دیا کہ وہ مولانا آزاد کی حیات اور خدمات کے ان گوشوں پر تحقیق کریں جس پر ابھی تک کام نہیں ہوا ہے۔ جناب محمد نصیر الدین صاحب نے کہا کہ مولانا آزاد نے وزیر تعلیم بننے کے بعد تعلیم سب کے لئے۔ یوجی سی۔ آئی آئی ٹی۔ سنگیت ناٹک اکیڈیمی۔ اور دیگر اکیڈیمیاں قائم کیں جس سے ان کی علمی دور اندیشی کا اندازہ ہوتا ہے اور آج ہندوستان تعلیمی سوپر پاور کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر پروین شعبہ مائکر بیالوجی نے ڈاکٹر تقی عابدی کے لیکچر پر انہیں مبارک باد دی۔ دیگر شعبے کے اساتذہ نے بھی اس لیکچر میں شرکت کی۔ شعبہ اردو کے طلبا و طالبات کے مختلف سوالات کے جوابات دئے گئے۔ ڈاکٹر گل رعنا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ڈاکٹر موسیٰ اقبال اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے نظامت کی۔ تقریب کے بعد سبھی مہمانوں اور شعبہ اردو کے اساتذہ کی گلپوشی کی گئی۔ اس لیکچر میں شعبہ اردو کے طلبا و طالبات کے علاوہ بودھن نظام آباد کاماریڈی وغیرہ سے کثیر تعداد میں طلبا اور محبان اردو اور صحافیوں جناب احمد علی خان اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔وائس چانسلر کے چیمبر میں مہمانوں کے لئے ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔