مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی حیدر آبادکے شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز سے رسالہ تہذیب الاخلاق کے مدیر کی بات چیت

\"27343233725_55d308a021\"
شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز

\"04\"
پروفیسر ڈاکٹر صغیرافراہیم
مدیر،تہذیب الاخلاق ، علی گڑھ
شعبۂ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
Email:- s.afraheim@yahoo.in
seemasaghir@gmail.com

پروفیسر صغیر افراہیم: سب سے پہلے تو میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوںکہ آپ ملک کے ایک بڑے ادارے، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شیخ الجامعہ ہیں۔ آپ کی بے حد فعال کارکردگیوں سے سبھی واقف ہیں اسی لیے توقع تھی کہ جلد ہی آپ کو بڑی ذمہ داری ملے گی۔ اِس سینٹرل یونیورسٹی میں آنے سے قبل آپ دہلی میں ذاکر حسین کالج کے پرنسپل اور اُس سے پہلے وہاں شعبۂ نباتیات (Botany) میں اُستاد کی حیثیت سے علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیتے تھے۔ سائنسی فکر کو فروغ دینے کا منصوبہ آپ دورانِ طالب علمی، علی گڑھ میں ہی بناچکے تھے اور جب مارچ ۱۹۸۴ء میں آپ نے علی گڑھ کو خیر باد کہا تو ’’اردو سائنس ماہنامہ‘‘ کا لائحۂ عمل تقریباً تیار ہوچکا تھا۔ لہٰذا اس کے علاوہ جب بھی کوئی موقع ملتا آپ اردو دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے سائنس کی جانب عوام وخواص کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ دراصل یہی مقصد سر سید احمد خاں اور اُن کے رفقاء کا تھا اور خوش قسمتی ہے کہ ہم اور آپ بھی اُسی بابِ سرسید کے پروردہ ہیں۔ آپ ادارۂ سر سید سے ایک طویل عرصہ تک وابستہ رہے،آپ نے وہاں ہر طرح کا دور دیکھا ہے، نشیب وفراز سے واقف ہیں۔ ماضی اور حال کے پیش نظر آپ علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کے تعلق سے کیا رائے رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : میں مشکور ہوں آپ کی نوازشات کا کہ آپ نے مجھے وقت دیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ سرسید تحریک اور تہذیب الاخلاق مشن دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔دراصل اس سلسلے میںمیری فکر اور میرا عمل ایک عرصہ سے بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ آپ شاید واقف نہیں کہ میری تعلیم اردو میڈیم سے ہوئی اور ہوش سنبھالتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ معلوماتی مواد اُردو زبان میں تقریباً موجود نہیں ہے اور خاص طور سے سائنس کو توکوئی موضوع بناتا ہی نہیں، لکھتا ہی نہیں ہے اور یہ حقیقت ہے کہ چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا، وہ اپنے گرد و پیش میں جو کچھ دیکھتا ہے وہی سیکھتا ہے اور وہی اُس کی شخصیت کا حصہ بنتا ہے۔ چوںکہ انسانی شخصیت کے جو آدان (Inputs) ہیں وہ اُسے موصول تو سماج سے ہی ہوتے ہیں۔یعنی لکھنے پڑھنے سے سیکھتا ہے۔ مگر آج ہمارے یہاں ایک طرح سے حصولِ علم کا فقدان ہے۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ بھی پڑھتے لکھتے ہیں تو صرف نوکری پانے کے لیے،انھیں مطالعہ کا قلبی شوق نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے اب ہمیں مہمان خانوں میں علمی کتابیں نظر نہیں آتیں جہاں بیٹھ کر ہم کسی کتاب پر یا کسی سنجیدہ مسئلہ پر گفتگو کرسکیں۔ہماری گفتگو کا بڑا حصہ شاپنگ ، غیبت یا شکایتوںپر منحصر ہوتا ہے یعنی ہمیں اب صرف اور صرف سماج میں ، ملک میں یا قوم میں خرابیاں نظر آتی ہیں ۔ بس شکوہ ہے ، گِلہ ہے مگرمطالعہ کا مزاج نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں اگر انسان پڑھ لکھ گیا اور مطالعہ کی کوشش کی تو اردو میں مواد کیا ہے ؟اردو اخبارات، رسائل اورکتابوں میںصرف ادبی اصناف ہیں ۔ معلوماتی مواد اصل میں ذہن سازی کرتا ہے جو آج اخبار پڑھتا ہے یقینا وہ کل کتاب بھی پڑھے گا۔ کتابیں پڑھنے والا بھی اخبار پڑھتا ہے لیکن یہ مرحلہ عموماً اسی طرح طے ہوتا ہے خاص طور سے نا خواندہ طبقہ میں۔ آج کے اردو اخبارات میں آپ کو سوائے خبروں یا مذہبیات یا کچھ سماجی مسائل یا اشتہار کے سِوا اور کوئی مواد نہیں ملتا۔اب جو کچھ بھی اردو اخبارات سے دست یاب ہے اُس سے ذہن سازی تو ہے مگر وہ یا تو سیاست پر ہے یا مذہبیات پر۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ پچاس سال کا ثمرہ ہے جو کچھ ہم نے پڑھاہے وہی اُردو طبقہ میں نظر آتا ہے۔نہ توسائنسی فکر ہے اور نہ سائنسی مزاج ۔ مذہبیات بھی بڑی حد تک تخلیق سکھاتی ہے اور یہی ہم نے سوچا اور سمجھا ہے۔ جب کہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ ہم نے پڑھا اور سمجھا ہے وہی درست ہو۔جو کچھ ہم آج کے مذہبی رہنمائوں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہی تقلید کرتے ہیں۔ چاہے اُس کے نتائج بُرے ہوں اُن کو پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
صغیر صاحب آپ کے علم میں ہے کہ میرے کیرئیر کی ابتداء علی گڑھ سے ہی ہوئی اکتوبر ۱۹۸۲ء غالباً۱۵؍ اکتوبر تھی جب’ قومی آواز‘ میں میرا پہلا سائنسی مضمون شائع ہوا تھا ۔ اُس وقت سے مستقل سائنسی مضامین لکھتا رہا ہوں۔ بعد میں حالات کی بنا پر دہلی منتقل ہو گیا تھا ۔ دہلی قیام کے ابتدائی دور میں باقاعدہ اُردو میڈیم اسکولوں میں جاتا تھااور بچوں کو Motivational لکچرز کرتا تھا کہ وہ سائنس کے مضامین لیں ۔ نویں اوردسویں کلاس کے بچوں کو بتاتا تھاکہ سائنسی مضامین لینے سے کیا فائدے ہیں ۔ یہ کیرئیر کا نام نہیں ہے بلکہ یہ پوری سوچ اور فکر ہے جس کا درست ہونا بہت ضروری ہے۔ اُس کے بعد جب رسالہ ’سائنس‘ نکالنا شروع کیا تو رسالہ لے کر جاتا تھا۔ کافی پروموشنس کے کام اور کوششیں کیں۔ میں یہ عرض کروں کہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اُس نے میری ابتدائی زندگی جس میں شخصیت سازی زیادہ ہوتی ہے ، اس میں مجھے اینگلو عربک دہلی کالج اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دونوں جگہ سے وابستہ کردیا۔ چوںکہ دہلی کالج وہ کالج ہے جہاں سے ورناکُلر ٹرانسلیشن سوسائٹی نے سب سے پہلے سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کیا ۔ مولوی ذکا اللہ اور ماسٹر رام چندر اس کے روح رواں تھے۔ یہیں سے تحریک پا کر سر سید کی سائنٹفک سوسائٹی وجود میں آئی۔ اُس کالج سے میری وابستگی بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ تسلسل تھا کہ دہلی کالج میں جو کام ماسٹر رام چندر اور مولوی ذکا اللہ نے چھوڑا تھا یعنی اُردو میں سائنسی علوم کی منتقلی، اس کا اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں احیاء کرایا۔ میں ذاکر حسین دہلی کالج اور اینگلو عربک دہلی کالج کا طالب علم رہا۔ وہاں سے پڑھا اور وہاں پڑھایا پھر وہاں کی خدمت کی۔ یہ کام جس وقت شروع ہوا اُس وقت میںذاکر حسین دہلی کالج میں ہی Botany ڈپارٹمنٹ میں لکچرر تھا۔
صغیر صاحب میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۴ء کا عرصہ میرا علی گڑھ میں گزرا تو وہاں جو کچھ سر سید کی تحریک کو میں نے سمجھا، اُس میں بہت بڑا رول پروفیسر اسرار صاحب کا تھا جو فزکس کے پروفیسر تھے۔ میں انھیںبہت یاد کرتا ہوں، اللہ اُنہیں غریق رحمت کرے۔اس زمانے میں ایک زبردست جوڑی اللہ نے بنائی تھی سید حامد صاحب اور اسرار صاحب کی۔ اِن حضرات کی بدولت ’تہذیب الاخلاق‘ نے ایک نئی شکل لی اور میں کہوں گا کہ یہ زندہ ہوا۔ اُس وقت جو علمی مضامین کا آنے کا دور شروع ہوا اور اسرار صاحب نے لوگوں کی جو حوصلہ افزائی کی تھی،اُس کے ساتھ ہی مرکز فروغ سائنس کا قیام بھی عمل میں لایا گیااور اس مرکز کے ذریعہ مدارس کے لوگوں کو،منتظمین کو اور اساتذہ کو سامنے لانے کا موقع ملا۔ ہوتا یہ تھا کہ فرحان صاحب رات کو شعبۂ طبیعیات کی چھت پر دوربین لگائے بیٹھے ہیں اور ہمارے علماء کو ستارے دکھا رہے ہیںاور اس طرح ایک تحریک وجود میں آگئی تھی۔ اب تو شاید مرکز فروغ سائنس اُتنا فعال نہیں ہے وہ ہمہ ہمی وہاں پر اب نظر نہیں آتی۔ میں مدارس سے جڑا ہوا ہوں اور اُس مرکز کے حوالے سے اب خبریں نہیں آتیں۔ جب تک ہاشم صاحب انچارج تھے اور اُن کے بعد فزکس کے ایک صاحب اور تھے غالباً جعفری صاحب، تو اُس وقت تک میں بھی جڑا رہا کیوںکہ اُنھوں نے مجھے جوڑے رکھا ۔ اُس وقت میں سب مصروفیت چھوڑ کر علی گڑھ جاتا تھا۔ ۲دن ، ۳ دن ،۴ دن ان کے پروگرام میں شرکت کرتا تھا۔ اپنے طورپر علماء کو اوراساتذۂ مدارس کو سائنس پڑھا یاکرتا تھا۔ تو ان سب کی کوشش یہ تھی ایک سائنسی فکر اور سائنسی ذہن پیدا ہو کیوںکہ سائنس ایک مضمون سے زیادہ ایک فکر کا نام ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عین قرآنی فکر ہے۔ قرآن جتنا آپ کو تفکر و تدبر پر زور دیتا ہے اورآپ کے سمع و بصر اور فوأد کا ذکر کرتا ہے آ پ کے سننے کی قوتوں کو ، آپ کی دیکھنے کی قوتوں کو اورآپ کے ذہن کے استعمال کی بات کرتا ہے۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ اِن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا ۔جو آپ نے سنا اور جو دیکھا اور جو آپ کی عقل نے سوچا اُس کا آپ نے کیسے تجزیہ کیا ، کیا اُس کا استعمال کیا ، تو در حقیقت سائنسی فکر ایک عین قرآنی فکر ہے۔ اب کیا کریں کہ ہمارے آج کے اکابرین اور علماء نے جن کی ہم غیر سائنسی فکر کی وجہ سے ، انداز کی وجہ سے، اندھی تقلید کرتے ہیں۔ اسلام کے نام پر صرف ارکان کو جوڑ دیایعنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ اور اُس کے بعد حج اور عمرہ۔ اسلام مکمل اور اُس کے بعد جنت کی پرچی دے دیتے ہیں، اس ضمانت کے ساتھ کہ اب جنت پکی۔ قرآن کے بقیہ احکامات کا کوئی ذکر نہیں نہ ہی قرآن فہمی کا۔ کل جس طرح سے کچھ حضرات نے علم کو دو دھڑوں میں بانٹا تھا آج اصل دین کو اور ارکان کو دو دھڑوں میں بانٹ دیا ہے اور یہ دوسری تقسیم ہوئی ہے، وہ جو ہمارے لیے اب سمِ قاتل ہے۔ علم کی تقسیم نے تو ہمیں جھٹکا دیا ہی تھا لیکن جسم میں جان باقی تھی اور ہم Ventilator پر تھے ۔ اب اس نے تو Ventilator سے بھی ہمارا تعلق ختم کر دیا۔ ارکان والے ارکانی دنیا میں ہیں۔ جو لوگ سوچ سمجھ کر اللہ کی اس نعمت کو استعمال کرتے ہیں وہ پریشان ہیں کہ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔
پروفیسر صغیر افراہیم: اسلم صاحب مذہب میرا موضوع نہیں ہے۔ جدید علوم وفنون کے تعلق سے میں جو سوالات بناکے لایا تھا اب اس تفصیلی گفتگو کے بعد اُن کی نوعیت بدل گئی ہے۔ ابھی آپ نے ذکر کیاکہ آپ ۱۹۷۴ ء میں علی گڑھ تشریف لائے۔ اور وہاں کی جس فضا کا حوالہ دیا ہے تو عرض ہے کہ آپ کے آنے کے ایک سال بعد میں ۱۹۷۵ ء میں انٹر میڈیٹ کرکے لکھنؤ سے ملحق چھوٹے سے شہر اُنّائو سے علی گڑھ آیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور اُن کے ساتھیوں کی سرگرمیوں کی بدولت علی گڑھ تحریک میں بیداری آچکی تھی۔ اِسی باغ سرسید سے میں نے ۱۹۸۰ء میں ، امتیازی حیثیت سے ایم۔ اے۔ کیا۔فیکلٹی آف آرٹس میں جن طلبہ کی پوزیشن آئی تھی۔ سید حامد صاحب نے اُن تمام طلبہ کووی۔سی۔ لاج بلایا تھا۔ میں بھی ان میں موجود تھا اور جب میں نے دورانِ تعارف اُنہیں بتایا کہ میرا وطن اُنّائو ہے تو انہیں خوشی ہوئی کیوںکہ اُن کی تعلیم بھی اُنّائو میں ہوئی تھی بلکہ جس اسکول میں ہوئی تھی، وہیں میری بھی تعلیم ہوئی تھی ۔کچھ دنوں کے بعد ایک واقعہ کی بناپر ہم لوگ سید حامد صاحب سے ناراض ہوگئے تھے۔اُس دور کے آپ چشم دید گواہ ہیں۔ پھر جب وہ عمرہ کر کے آئے تو ہم لوگوں نے بھی تبدیلی کو محسوس کیا ۔ اُنھوں نے سوچا کہ قوم کے لیے ’تہذیب الاخلاق‘ کو پھر سے جاری کیا جائے اِس کام کے لیے تقریباً ہر شخص اُن کے لیے معاون ثابت ہو رہا تھا ۔ فزکس کا آپ نے ذکرکیا تو ایسے ہی ایک بار موصوف نے مجھ سے پوچھا کہ اب آپ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مضامین لکھ رہا ہوں، Competition کی تیاری کر رہا ہوں، اُنھوں نے مجھ سے کہا کہ صغیر میاں آپ سائنس کے ترجمے کیجیے ۔ میں نے حیرت سے کہا سائنس میں !دراصل ایک بار میں نے اُنھیں بتایا تھا کہ جونیر ہائی اسکول میں نے سائنس سے کیاتھا۔ پھر آرٹس میں آگیا تب اُنھوں نے کہا کہ آپ ترجمہ کیجیے۔ اتفاق کہ پھر ایک فنکشن میں محترم سید حامد سے ملاقات ہوئی تو اُنھوں نے اس بابت مجھ سے پھرپوچھ لیا۔ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ جب وائس چانسلر آپ سے کہہ رہے ہیں تو شروع کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ اسرار صاحب وائس چانسلر صاحب کے ساتھ تھے جیسا کہ ابھی آپ نے عرض کیا۔ میں نے مضمون لکھا اور پھر ایک موقع پر سید حامد صاحب کو بتایا تو انھوں نے کہا جائیے! اسرار صاحب کو دکھا لیجیے۔ میں جب اسرار صاحب کے پاس گیا تو انھوں نے معلوم کیا کہ میں نے اس سے پہلے یہ مضمون کسی کودکھلایا ہے تو میں نے بتایا کہ فزکس میں میرے دوست اور ہاسٹل فیلو ڈاکٹر احرار حسین صاحب ہیں ان کی مدد سے اسے تیار کیا ہے۔ اُنھوںنے پسند کیا اور کہا کہ آپ ترجمہ کرتے رہیے ۔میں سائنسی ترجمے کرتا رہا ۔ دو دو ، تین تین بارکی تیاری کرنے کے بعد جب وہ مضامین تیار ہو کر شائع ہوگئے تو آپ کو یاد ہو گاعلی گڑھ میں پروفیسرعبدالسلام صاحب تشریف لائے تھے۔ نوبل انعام یافتہ عبدالسلام صاحب نے میرے ترجموں پر دو ایوارڈ دئیے تھے۔ مجھے بہت خوشی تھی کہ ایک وائس چانسلر نے آرٹس کے اسٹوڈنٹ کوسائنس کی طرف موڑ دیا۔ آپ بھی وائس چانسلر ہیں ، اُسی علی گڑھ کی دین ہیں لہٰذا ایسا کیا کیاجائے کہ ہم اپنے طلبہ کو سائنس کی طرف رجوع کرا سکیں۔ ’’سائنس‘‘ اُردو میں آیا تو اس نے فضا کو ہموار کیا۔ آپ سائنس کے ترجمے عام فہم زبان میں کرتے تھے۔ انھیں پڑھ کر سائنس کی متعدد اصطلاحات ہم اردو والوں کو مل جاتی تھیں ۔اس طرح سے ایک بڑا کام آپ نے اُس وقت کیا تھا۔آج آپ کے پاس سید حامد صاحب سے بھی زیادہ وسائل ہیں ۔ آپ کے اس ادارے میں بھی پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا کچھ ضرور کیجیے کہ ہمارے طلبہ اس جانب راغب ہوں، تہذیب الاخلاق کو، سائنس کو پڑھیں۔ آخر سر سید کا مشن بھی تو یہی تھا یعنی ذہن سازی ہو، لیکن وہ کیسے ہو ؟
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز :مجھے لگتا ہے کہ ہمیں دیگر ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کرنا ہوگا کیوںکہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ ہے اوروہ قائم ہے۔ اسی لیے ہمارے یہ رسائل بھی قائم ہیں۔ میں بھی سائنس کا پرچہ نکال رہا ہوں ، تو ان کو دلچسپ بنانا ضروری ہے۔ وقت کا مزاج بدلتا رہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا ہماری اکثریت’ معارف‘ کو بہت سکون اور دل جمعی سے پڑھتی تھی آج ’ معارف‘ کو پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ اب نہ تو بڑے مضامین چاہئیں اورنہ مشکل زبان۔ اب تو چھوٹے مضامین ہوں جن میںبصری ریلیف بھی ہوں ، تصاویر بھی ہوں اور دل کشی بھی ہو۔ اب لوگ چلتے پھرتے Blog زیادہ آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ واٹس اپ کے پیغامات پڑھ لیتے ہیں۔ یوٹیوب پر لکچر دیکھ لیتے ہیں۔ ہمیں تمام ذرائع ابلاغ کو اس میں شامل کرنا ہوگا۔ میں اپنے طور پر کر بھی رہا ہوں۔میں نے اپنی قرآن اور سائنس سے متعلق ویڈیو لکچرس سیریز کا سید حامد صاحب سے اجراء کرایا تھا تو ان کا بہت مشہور قول تھا جو آپ کو یاد ہوگا کہ قلم اور قدم کا ساتھ ہمیشہ ہونا چاہیے، تو انھوں نے فرمایا تھاکہ قلم اور قدم کا ساتھ تو ہوہی چکا ہے ساتھ ہی عصری تقاضوں کے تحت جس طرح سے آپ اس میڈیا پر آئے ہیں یہ بہت ضروری ہے ۔
صغیر افراہیم صاحب میری زندگی میں ایک تبدیلی اور آئی، جو حیرت واستعجاب اور غوروفکر کی ہے کہ جب ہماری زندگی میں سائنسی فکر نہیں، سائنسی سوچ نہیں رہی، ہم نے سوال کرنے بند کر دئیے، جو کہا گیا اُسے کر لیا تو اُس کا اثربراہِ راست دین پر بھی پڑا۔ کیوںکہ یہ میرے سوال اُٹھا نے ہی کی شاید کوشش تھی جس نے مجھے قرآن کے راستہ پر ڈال دیا۔
پروفیسر صغیر افراہیم: آپ نباتیات اور ماحولیات کے ماہر ہیں ۔ عوام کو بیدار کرنے کے لیے ایک بڑی فائونڈیشن بھی آپ نے قائم کی۔ ہمارے قاری جاننا چاہتے ہیں کہ Global Warming جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہم لوگ کیا حکمت عملی اپنائیں ۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : دیکھئے اس موضوع پر ہندوستان میں تو بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہے۔ سوائے اس کے میں ماہنامہ’ سائنس‘ میں مضامین لکھتا رہتا ہوں اور ماحول سے متعلق موضوعات پر اپنے لکچر ز کو قرآن کے حوالوں کے ساتھ لکھنا اپنی دینی اور معاشرتی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ ماحول کے وسائل کی حفاظت اوراُن کا مثبت طریقے سے استعمال ہم سبھی کی دینی ذمہ داری ہے اور قرآن ہمیں اس کاحکم بھی دیتا ہے۔ ہماری اسلامی تنظیمیں چاہے وہ وقف بورڈس ہوں یاایسی ہی دوسری تنظیمیں وہ بہت سنجیدگی سے کام نہیںکر رہی ہیں۔ ہاں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب جب باحیات تھے تو انھوں نے میری ان کاوشوں کودیکھتے ہوئے یہ طے کر لیا تھا کہ جب بھی فقہ اکیڈمی کا کوئی اجلاس کسی ماحول یا سائنس سے متعلق مسئلہ کے لیے ہوتا تھا وہ مجھے ضرور بلاتے تھے۔ ایک بار میں نے اُن سے درخواست کی کہ ہماری فائونڈیشن کوآپ باضابطہ طور پر اپنا پارٹنر بنا لیجیے۔ تب ہمارا ایک MOU (مفاہمت کی یادداشت) عمل میں آیا،جس میں انھوں نے تحریراً دیا کہ سائنس اور ماحول کے جو بھی مسائل ہوں گے ان کوسمجھنے میں اسلامک فائونڈیشن کی مہارت (Expertise) کی رائے لیا کریں گے۔ جب بھی کوئی ایسا مسئلہ ہوتا تھا وہ مجھے بلاتے تھے اور میں علماء کو سمجھا تا تھا کہ یہ کیا ہے۔جیسے ممبئی میںکلوننگ ((Cloning پر اجلاس تھا اورجلیٹن (Gelatine) پر برہانپور میں تھا تو میں نے ان میں شرکت کی تھی۔ اسلامی فقہ اکیڈمی سے میں مستقل ربط رکھتا ہوں۔ جناب خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اور امیر عثمانی صاحب سے پچھلے دنوں ماحول پر ایک گفتگو ہوئی تھی لہٰذا اب ۲۰۱۷ ء میں ہونے والے فقہ اجلاس میںباقاعدہ ماحول کے معاملے کو رکھا جارہا ہے۔ تو یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو میں یہاں کر سکتا تھا ۔بین الاقوامی سطح پر کویت کی وزارت اوقاف نے ایک گروپ تشکیل دیا تھا،جس کا کام UKکی تنظیم ارتھ میٹس Earth Mates) (کے ساتھ مل کر ماحولیاتی مسائل کا مجموعی طو ر پر احاطہ کر کے ایک اعلامیہ (Declaration) تیار کرنے کے لیے تھا۔ میں بھی اُس کا حصہ تھا اور اُس کی تین چار میٹنگ کویت میںہوئیں۔ پھر استنبول میں ہوئی اور وہیں وہ اعلامیہ جاری بھی ہوا ۔اُس کے بعد مراکش (Morocco) کے ایک شہر صالح (Swaleh) کو آلودگی سے پاک یعنی گرین سٹی منتخب کیا گیا تو وہاں بھی میری شرکت رہی۔ اُس کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جو اسلامی اعلامیہ (Islamic Declaration) جس کا ابھی بین الاقوامی سطح پر استنبول میں اجرا کیا گیا اُس کا اردو ڈرافٹ میں نے ہی دیا ہے۔ وہ اردو زبان میں بھی چھپ رہا ہے۔ تو یہ کوششیںہیں جومیں اپنے طور پر کرتا رہتا ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ میرے ہی گرد گھوم رہی ہیں اور اس میں مزید افراد نہیں جڑسکے ۔ کام بہت بڑا ہے، اگر کچھ اس طرح کے مخصوص میدان (Interdisciplinary Fields) میں، اِس یونیورسٹی میں بنا سکا تو ایک بڑا کام ہوگا۔جس کی تجاویز (Proposals) اگلے پلان کے لیے میرے ذہن میںہیں۔ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ مذہب اور ماحولیات (Religion & Environment) اور مذہب اور سائنس (Religion & Science) کی Interface کے بین الشعبۂ مطالعاتی مراکز (Inter Deciplinary Study Centres) ہماری یونیورسٹیز میں نہیں ہیں جب کہ مغرب میں ہر اچھی یونیورسٹی میں اس طرح کے مراکز ہیں اور وہ کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح سے عوامی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی میرا ارادہ ہے۔
اِس اردو یونیورسٹی میں آنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ صحیح نہج پر نہیں چل رہی ہے اور اُس کی وضاحت بھی کردوں۔ ۱۸ سال اس یونیورسٹی کے قیام کو ہوچکے ہیں مگر علمی مواد یہاں تقریباً صفر ہے ۔ تو پھر اس یونیورسٹی کا قیام محض اردو زبان یا ادب کے فروغ کے لیے تو نہیں تھا۔ اللہ کاشکر ہے کہ پچھلے تقریباً ایک سال میں (میرے یہاں آنے کے بعد) میں نے اساتذہ کی حوصلہ افزائی Motivation) (کی اوراُن کوذمہ داری کا احساس دلایا کہ آپ جس بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں ان سبھی مضامین کو اُردومیںپڑھا رہے ہیں ۔ اب جب کہ اردو میں کتابیںنہیں ہیں تو ان کو لکھنے کی اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ یہ آپ کی ضرورتِ ملازمت بھی ہے کہ آپ حضرات ہی کورسز بھی تیار کریں۔ اگرآپ ایسا نہیںکر رہے ہیں تو آپ اپنی ذمہ داری پوری طرح نہیں نبھا رہے ہیں۔ اللہ کا شکرہے کہ اساتذہ کو اپنی ذمے داری کا احساس ہوا اور اردو کتابیں لکھنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ اساتذہ برادری نے اپنے نصابات پر نظر ثانی کی اور کورسز بانٹ لیے ہیں اور کام شروع ہو چکا ہے۔ چوںکہ اردو یونیورسٹی میں فاصلاتی تعلیم (Distance Education) اور باقاعدہ تعلیم(Regular Education) کے کورسز الگ الگ تھے، اب ہم دونوں ذریعہ تعلیم کے لیے ایک جیسے کورسز اور کتابیں بنا رہے ہیں۔ یعنی دونوں ذریعہ تعلیم کا معیار ایک ہی ہوگا اور کوئی کم تریا کوئی برتر نہیں ہوگا۔ اب بی۔اے۔ چاہے فاصلاتی ذریعہ سے ہو یا باقاعدہ ذریعہ سے، انشاء اللہ کورس ایک ہی ہوگا۔ اس کے لیے موضوع کے ماہرین کی کمیٹیاں بنا دی ہیں اور ان کی سفارشات کے مطابق بنا کوئی سمجھوتہ کیے کتابوںکی تیاری ہو رہی ہے۔یہاں یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ اردو یونیورسٹی میں عام طور پر اردو میڈیم سے تعلیم یافتہ یا مدارس سے فارغ طلبہ یا مرکزی دھارے کو چھوڑنے والے طالب علم ہی داخلہ لیتے ہیں۔یعنی اُن کی عصری علوم کی سطح تو زیادہ نہیں ہوتی مگر استعداداور صلاحیتیوں کی کمی نہیں ہوتی ۔تو اُن کے لیے ایسی معیاری کتابوں کی تیاری الحمدللہ یہاں شروع ہوچکی ہے ۔ اس کے علاوہ اگلی اکیڈمک کونسل میں ، میںیہ تجویز لارہا ہوں کہ یہاں ہر سال کم از کم اردو میںایک سماجی سائنس کانگریس اورایک سائنس کانگریس ہو اور کم ازکم سماجی علوم کا ایک جریدہ بھی شائع کر سکیں تاکہ اُردو میں جو لوگ لکھیں وہ جریدے میں شائع کرا سکیں تاکہ اُن کو API Score میں فائدہ ہو سکے۔ ’سائنس‘ میں جو مضمون شائع ہوتا ہے اس سے اساتذہ کوبہت زیادہ فائدہ نہیں ملتا جتناجریدے میں شائع ہونے سے ملتا ہے۔ یہ کوششیں ہیں جو یہاں میں نے شروع کیں ہیں یعنی ابھی تو ابتداء ہے انشاء اللہ آگے اور کرنا ہے اور یہی نصب العین لے کر یہاں آیا ہوں ۔
پروفیسر صغیر افراہیم: بہت خوب۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا کرے۔ سوالات کے انبار میں ایک سوال اور ہے کہ آپ کا سائنس اور اردو زبان دونوں سے گہرا رشتہ ہے۔ اردو اور سائنس آج کی صورت حال کے پیش نظر ایک دوسرے کے فروغ میں کس طرح معاون ہوسکتے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : دیکھئے اس طرح معاون ہوسکتے ہیں کہ ہر بچہ کو صحیح علم ،بنیادی سطح پر اُس کی مادری زبان میں دیاجاتا ہے۔ آج مادری زبان کے نقطۂ نظر سے ابتدائی حصے (Elementary Sections) ہیں اُس میں ہم سائنس اور ماحول کی ابتدائی کتابیں اگر اردو میں دیتے ہیں توصحیح معنوں میں اُن کی گھٹی میں سائنس اور ماحول کی تعلیم بھی آ جائے گی ۔ انگریزی اورہندی کی کتابوں میں تو یہ بخوبی موجود ہیں اگر اردو کی کتابیں اس نصاب پر تیار ہوںتو اُن کے اندر یہ سوچ بچپن سے پروان چڑھے گی اوراس کے ساتھ Support Materials یعنی بچوں کی کہانیوں کی کتابیں بھی ہوں۔کیوں کہ اردو میں علمی مواد اور بچوںکا مواد لکھا جانا تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ لیکن ہم ترغیب دیں تو لکھنے والے توبہت ہیں۔ ایک دلچسپ بات میں آپ کو بتاتا ہوں، پہلے ’’سائنس رپورٹر‘‘ اور ’’سائنس ٹوڈے‘‘ دو انگلش کے میگزین مشہور تھے۔ ’سائنس رپورٹر‘ کو CSIR اور ’سائنس ٹوڈے‘ کوٹائمس آف انڈیانکالتا تھا۔ تاہم کسی وجہ سے سائنس ٹوڈے بند ہوگیا۔ جس سال سائنس ٹوڈے بند ہوا ہے اسی سال ’ سائنس‘ شروع ہوا ۔ تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ انگریزی کی توسائنسی میگزین بند ہو رہی ہیں اور تم اردو میں چلائو گے، اِس میں لکھے گا کون۔ تو میں نے کہا لکھنے والوںکی کمی نہیں ہے ،وسائل کی کمی ضرور رہی اورآج تک درپیش ہے اوراللہ کاکرم ہے کہ جو اُس نے مجھے دیا ہے اُس سے میں اِس پرچہ کو نکال رہا ہوں۔ تجارتی طور پر تو بالکل بھی قابل عمل نہیںہے، اس کا خرچہ ہم نہیں نکال سکتے ۔ لیکن ایک تحریک، ایک مشن ہے۔ اِس کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ یہ ۲۳ ویں سال میں چل رہا ہے اور اس میں ابھی تک ایک بھی مضمون ترجمہ شدہ شامل نہیں کیا گیا۔ ہر مضمون کے لکھنے والے اردو میں موجود ہیں۔ جو لکھتے ہیں اور اس میں بھیجتے ہیں۔ توجو بات ۲۳ سال پہلے ٹھیک تھی آج بھی ہے۔ اردو میں مضامین لکھنے والے دست یاب ہیں، ہمیں مل رہے ہیں۔ پہلے اردو میں لکھنے والوں کو کوئی پلیٹ فارم نہیں ملتا تھا آج ایک پلیٹ فارم ’سائنس‘ ہے تو لوگ لکھ رہے ہیںاور میں چاہتا ہوں کہ اردو یونیورسٹی بھی اسے فروغ دے تاکہ اردو میں لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو۔
پروفیسر صغیر افراہیم:محترم!قرآن اور سائنس کے موضوعات پر اکثر بحث کی جاتی رہی ہے آپ نے ان موضوعات پر معیاری مواد سائنس کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ آپ قرآن اور سائنس کے درمیان کس رشتہ کوقبول کرتے ہیں جس سے دوسروں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : دیکھئے جناب اصل میں سائنس اورقرآن ہو یا اسلام ہو اس میںتنازعہ تب اُٹھتا ہے، جب اِس میں دو رُخ ہوں۔میں نے اس کی وضاحت اپنی تحریروں میں کی ہے ۔’سائنس‘ میں کئی بار یہ اعلان شائع کیا ہے اور ایک میری چھوٹی سے کتاب ہے ’قرآن مسلمان اور سائنس‘، اُس میں ضروری وضاحت کے نام سے وضاحتیں ہیں۔ مشکل تب آتی ہے، جب آپ سائنس سے قرآن یا اسلام کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ دیکھئے سائنس نے یہ اب ایجاد کیا یہ تو چودہ سوسال پہلے قرآن میں لکھا ہوا تھا۔ اس میں خطرہ یہ ہے کہ سائنس ایک علم ہے جو ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کی ہر تخلیق کو اپنی نشانی کہا،آیت کہا، قرآن وضاحت کرتا ہے اس کی ۔ اس لیے بہت سے لوگوں نے اس رُخ سے بھی لکھا ہے اس کو۔ بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ ایک کائناتی آیات ہیں جو ہر تخلیق کی شکل میں موجود ہیں اور ایک وہ آیات جو قرآن میں موجودہیں الفاظ کی شکل میں اور یہ حقیقت ہے قرآن خود یہ کہتا ہے ورنہ آپ دیکھئے کہ جمعہ کی نماز میں آپ جب یہ سنتے ہیں کہ کیا تم اُونٹوںکو نہیں دیکھتے، تو یہ کیا کہا جارہا ہے کہ تم نے اُونٹ کو نہیں دیکھا کہ کیسے پیدا کیا گیا ، تم نے آسمان کو نہیں دیکھا کیسا بلندکیا گیا، تم نے پہاڑوں کو نہیں دیکھا انہیں کیسے گاڑا گیا، زمین میں نصب کیا گیا میخوں کی طرح۔ تو یہ کس چیز کی طرف ذکر ہے اللہ کے قرآن کا ۔یہ اُس کی آیات ہیں کیوں کہ قرآن خود اس بات کو کہتا ہے کہ زمین اورآسمان اور اُس کے درمیان جتنی مخلوقات ہیں وہ سب ہماری آیات ہیں چوںکہ یہ اشارے ہیں جو تمہاری سوچ کو ہماری طرف منعکس کرسکتی ہیں رُخ دے سکتی ہیں۔ چوںکہ سائنس علم ہے اور علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اُس کا ثبوت بھی قرآن ہمیں بتاتاہے۔
سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ ( حٰم سجدہ: ۵۳)
] ہم عنقریب اُن کو اپنی نشانیاں (آیات) دیکھائیں گے۔[
اب سَنُرِیْہِمْلفظ جو ہے کہ عنقریب ہم دکھائیں گے اپنی آیات آفاق میں بھی اور انفس میں بھی حتیٰ کہ یہ اُنھیں ثابت ہوجائے کہ قرآن برحق ہے ۔ یعنی اللہ کی کائنات کی جو نشانیاں (آیات) ہیں ان کے کُھلنے کا اور دکھانے کا سلسلہ چلتا رہے گا قیامت تک ۔کیوںکہ یہ آیت عین قیامت ہونے والی ہوگی اور کوئی پڑھ رہا ہوگا تو گویا ان آیات کے کُھلنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ سائنس تو ارتقاپذیرہے۔ مثال کے طور پر آج ہم کسی آیت کو Big Bang سے جوڑتے ہیں، تو کل اگر Big Bang Theory بدل گئی تو کیا ہم اُس مطالبے کو برداشت کریں گے کہ قرآن بھی نعوذ باللہ تبدیل ہو۔ یہ جو مطابقت کی اسکیم ہے وہ غلط ہے میرے نزدیک۔ میری سوچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو علم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ آپ اُس کی کائنات کی آیات کو سمجھیں، کیوںسمجھیں تاکہ آپ اُس سے اللہ کی عظمت پہچانیں۔ علم جوہے ایک معرفت الٰہی کاذریعہ ہے۔ علم کی ایک وضاحت ضروری ہے۔ اگر آپ سائنس کی تعریفیں (Definitions) دیکھیں انگلش کی کتابوںمیں ، لغات میں ، Knowlege of Unknown جس کو ہم اُردو میں کہتے ہیں کہ ناواقف سے واقف ہونا یہ سائنس ہے۔ ہم عموماً سائنس کو مضمون سمجھتے ہیںسائنس مضمون نہیں ہے ایک طریقت ہے ایک Methodology ہے۔ ایک طریقہ جس سے چیزوںکو سمجھا جاتا ہے اور اسی چیز کو عربی میں علم کہاجاتاہے۔ اُس کاثبوت یہ دیکھیں کہ اَلمورد(Al-Mawrid) ایک انگلش-عربی، عربی-انگلش ڈکشنری ہے۔ مَورد میں آپ سائنس کی تعریف دیکھئے،علم ملے گا۔ کسی بھی عرب ملک میں آپ جائیے اُس کی یونیورسٹی میں جائیے تو سائنس Faculty پر لکھا ہوگا کہ کلیات العلوم ، گویا علم ترجمہ ہے سائنس کا۔ عربی کی لغات اگرآپ دیکھیں ، چاہے لسان العرب یا جو بھی پرانی لغات ہیں جن کو مفسرین استعمال کرتے ہیں توعلم کی تعریف یہی ہوگی کہ ناواقف سے واقف ہونا ، کماحقہ واقفیت حاصل کرنا ، یہی سائنس ہے۔ توبنیادی طور پر جو سائنس ہے وہی علم ہے اب اس کے لیے آپ دیکھیں کے قرآن کیا کہتا ہے سورۃ النّمل میں ہے تم نے میری آیتوں کو جھٹلا دیا، اُن کا علمی احاطہ کیے بغیر اگر تم یہ نہیں کر رہے تو تو کر کیا رہے تھے۔ یعنی قرآن کا تو حکم ہے کہ اُس کی آیات کا آپ علمی احاطہ کیجیے یہ حکم ہے اور اگر میں مسلمان ہوں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں تو مجھ پر یہ بھی اُسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے لیکن اِسے اِس رخ سے کوئی نہیں سمجھا۔ علمی احاطہ کرنا اُس کی آیات کا، بے حد ضروری ہے کیوںکہ حکم ہے اللہ کا اور یہ آخرت میں قیامت میں سوال کیا جائے گا تو میرا نقطۂ نظرصرف یہ ہے کہ ہم تخلیق کے ذریعہ خالق کو پہچانیں۔ کیوںکہ ہماری عقل اور ہماری سوچ محدود ہے۔ محدود سے لا محدود کا احاطہ نہیں ہوسکتا۔ آپ اللہ کو نہیں پہچان سکتے آپ اُسے پہچانیں گے اُس کی آیات سے۔ اُس کی تخلیقات سے یعنی جس کو ہمارے ہندو بھائی کہتے ہیں، کَن کَن میں بھگوان وہ سچ ہے ہر ہر چیز میں آپ کو اُس کا جلوہ نظر آتا ہے۔ دیدہ بینا ہونا چاہیے اور وہ دیدہ بینا قرآن سے پیدا ہوتا ہے کیوں کہ وہ نور ہے جو آپ کو اندھیروں سے روشنی میں لاتا ہے۔ نور وہ ہے اُس کو سنبھال لیجیے تو آنکھیں کھل جائیں گی ،بینائی کھل جائے گی۔ پھر آپ کو وہ چیزیں دِکھنے لگیں گی جو آپ کو صحیح انسان بنائیں گی۔
پروفیسر صغیر افراہیم: آپ نے چیزوں کو بغور دیکھا، سمجھا ہے اسی لیے آپ کے یہاں نکات واضح اور مدلل ہیں۔ ایک اور چھوٹا سا سوال ہے کہ آپ رسالہ تہذیب الاخلاق سے بھی وابستہ رہے ہیں آپ کے مضامین تہذیب الاخلاق میں چھپتے رہے ہیں اُس دور کے رسالہ کے معیار میں اور آج کے معیار میں آپ نے کوئی فرق محسوس کیا ہے ؟
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : دیکھئے ایک بات بلاشبہ کہوں گا، اور اُس میں میری بھی کوتاہی ہے کہ ایک زمانہ میں Exchange کی بنیاد پر تہذیب الاخلاق میرے پاس آتا تھا اور سائنس میں وہاں بھیجتا تھا تو اُس وقت میں تہذیب الاخلاق مستقل دیکھتا تھا۔ اب ایک عرصہ سے میں نے اُسے نہیں دیکھا ہے لیکن کہیں کہیں دیکھنے کو مجھے ملا تواس معنی اچھا لگا کہ سرورق بہتر لگا ، چھپائی اچھی لگی، اداریہ نے متاثر کیا۔ اب کمپیوٹرائزڈ ہے ۔وہ انٹر نیٹ سے جڑ گیا ہے اور تحریریں اُس میں اچھی ملتی ہیں۔ یقینا بہتر ہوا ہے، بلکہ بہت بہتر ہواہے۔ میں نے تہذیب الاخلاق میں لکھا ہے بلکہ اُس وقت میری تہذیب الاخلاق کی تحریریں ہندی میں بھی چھپتی تھیں ۔ بعد میری مصروفیتیں بڑھ گئیں۔ اُس وقت کے جو ذمہ دار تھے ، وہ یہ کوئی شرط نہیں لگاتے تھے کہ کہیں چھپا تو نہیں۔ وہ میرا مضمون چھاپ لیتے تھے کیوںکہ نیامضمون لکھناوقت کی کمی کی وجہ سے مشکل ہوتاہے ۔بہر حال میں یہ سمجھتا ہوں کہ تہذیب الاخلاق میں یقینا بہت سدھار ہوا ہے اور مستقل ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ رسالہ تہذیب الاخلاق زیادہ طاقتور وسیلہ ہے ،جس سے ایک مشن کی تکمیل کی جاسکتی ہے ۔
پروفیسر صغیر افراہیم: کیا تہذیب الاخلاق موجودہ دور میں سرسید کے مشن کو پورا کر رہا ہے ۔؟
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : شائدنہیں کر سکتا ، تہذیب الاخلاق ہی نہیں بلکہ دنیا کے اِس بدلے ہوئے منظر نامے میں کوئی بھی پرچہ نہیں کر سکتا ۔ دیکھئے سر سید نے ایک ماحول پیدا کیا، اُن کی تحریک نے یونیورسٹی بنائی تھی، توسرسید کسی رسالہ کے مدیر نہیں بلکہ ایک رسالہ کے علمبردار تھے۔ ہمیں شخصیات چاہئیں اور مجھے کہنے دیجیے کہ وہ شخصیات اب علی گڑھ سے خال خال پیدا ہو رہی ہیں۔آج علی گڑھ تحریک کی بدولت یقینا علی گڑھ کی شاخیںکچھ جگہوں پر قائم ہوئی ہیں یہ بہت اچھا قدم ہے تاہم اگر وہ بھی عمارات، نصاب اورڈگریوں تک محدود رہ گئیں تو خدا نہ کرے یہ ایک سے زائد ناکامی Multiple Failure) ( ہو گی۔ دراصل ہمیںفعال شخصیتیں چاہئیں، اسرار صاحب جیسے لوگ چاہئیں ہمیں، عبدالحکیم صاحب، سیدحامد صاحب جیسے لوگ پیدا کرنا پڑیں گے اور وہ پیداہو سکتے ہیں اگر ہمارے اساتذہ اپنے کام کے تئیں اورسنجیدہ ہوجائیں ۔مجھے علی گڑھ سے شکایت یہ ہے کہ وہاں کی اکثرشخصیات ذاتی مفاد کی تکمیل میں لگی رہتی ہیں۔
پروفیسر صغیر افراہیم: شیخ الجامعہ صاحب! قریب سے دیکھیے۔ آج بھی ہمارے اساتذہ اور ادارے کے بہی خواہ ملک، ملت اورقوم کی فلاح وبہبود کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں۔ اللہ اُن کے حوصلوں کو تقویت دے۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : میں اِس سے انکار نہیں کررہا ہوں لیکن جناب! کچھ کو تو یہ بھی پتہ نہیںہے کہ سرسید کانظریہ کیا تھا۔کتنے لوگ ہیں جنہوںنے تفسیر سر سید دیکھی ہے اور وہ یہاں تو ملتی بھی نہیں مجھے پاکستان سے منگانی پڑی۔ کیسا المیہ ہے کہ سر سید کی قرآن کی تفسیر میں نے پاکستان سے منگائی یہاں مجھے کہیں نہیں ملی۔ کیا یہ علی گڑھ کا کام نہیں ہے؟ یہ ان کا حق اور یہ قرض ہے مسلم یونیورسٹی پریس کے اوپر کہ وہ سر سید کی تفسیر شائع کریں۔ ہمیں اپنی یہ سوچ بدلنا ہوگی کہ اگر ہم کسی نقطۂ نظر سے متفق نہیں ہوتے تو اُسے نیست و نابود کردیتے ہیں۔ اگر اُن کی تفسیر میں کچھ باتیں کسی کے لیے قابل اعتراض ہوں تو بھی اُس کی علمی اہمیت اور اُن کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے، تحقیق کے لیے اُس کا وجود ضروری ہے۔ ہمیں ہر قسم کے نقطۂ نظر اور اختلافات کے درمیان پُر امن طور پر رہنا سیکھنا ہوگا۔ قرآنی احکامات کے مطابق حسن سلوک سیکھنا ہوگا۔
پروفیسر صغیر افراہیم: آخری سوال آپ تہذیب الاخلاق کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ ، طالبات، اساتذہ اور دیگر ملازمین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : میںاُنھیں یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ اگر واقعی ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس اور ماتھے پر کلمہ لا الہ الا اللہ کا تاج ہے تو کسی حد تک ہم نے سائنس کو تو اپنا لیا قرآن نہیں اپنا یا۔پہلی بات تویہ ہے کہ سر سید کے مشن کا حصہ ہے کہ آپ قرآن کو سمجھیں۔ سر سید اگر قرآن کو نہ سمجھتے تو وہ نہ لکھتے کہ قرآن اصل علم کا سرچشمہ ہے۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں ترجمہ سے پڑھیں اور سر سید کی اس تحریک کو اس مشن کو جو ایک مکمل علم کی شکل میںبڑھا تھا مزید آگے بڑھائیں کیوںکہ اُن کی فکر میں علم کی تقسیم نہیں تھی علم ایک مکمل اکائی تھا۔ اس کو دین دنیا میںنہیں بانٹا جا سکتاہے۔ یہ معرفت الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے آج کے زمانہ میں۔ علم کو اس کی صحیح شکل میں حاصل کریں اور علم کی سوغات گھر گھرتک پہنچائیں اور اپنے وقت اور اپنے مال میں سے کچھ حصہ ضرور اُن لوگوںکے لیے رکھیں جن کے پاس یہ چیزیں نہیںہیں۔ علم کو مفت پھیلائیں، مال کو تقسیم کریں، ان لوگوںکی تعلیم پر خرچ کریں ،ہم جو کچھ کما رہے
ہیں وہ دے رہا ہے ہمیں اللہ، لیکن یہ نہیں کہہ رہا ہے صرف تمہارے لیے ہے قرآن Define کردیتا ہے کہ تمہاری ضرورت سے زیادہ جو ہے وہ دوسروںپر خرچ کرو۔ ہم لینے والے سماج سے دینے والے سماج بنیں۔ قرآن کا حکم ہے دینے والے بنیں، تو مال خرچ کیجئے لوگوں کی فلاح کیلئے، اپنی علم کی صلاحیتیں خرچ کیجئے یہی سر سید کا مشن تھا ۔ یہی میرا پیغام ہے ۔
بہت بہت شکریہ شیخ الجامعہ صاحب چوںکہ میں آپ کو ایک عرصہ سے جانتا ہوں، آپ کی تحریروں سے متاثر ہوں لہٰذا میں نے یہ موقع مناسب سمجھا کہ آپ سے بانئ درس گاہ کے تعلق سے گفتگو کروں، ہم سرسید کا دوسو سالہ جشن منارہے ہیں ۔ اِس موقع پر بہی خواہان کا پیغام منظرِ عام پر آنا ضروری ہے تاکہ اُس سے وہ تحریک پیدا ہو جس سے سرسید اور ان کے رفقاء کی روح کو تسکین پہنچ سکے۔
٭٭٭
\"aslam-pervez\"

Leave a Comment