مکاتیبِ سرسید کی انفرادیت اور اہمیت

سر سید احمد خان کی یوم پیدائش پرخصوصی پیش کش

\"04\"
٭ڈاکٹر صغیر افراہیم

پروفیسرشعبۂ اردو
ایڈیٹر’تہذیب الاخلاق‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ۔۲
s.afraheim@yahoo.in

\"Sir
سرسید مشن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مکاتیبِ سرسید کاتحقیقی وتنقیدی مطالعہ ناگُزیر ہے۔ اُن کی قومی، علمی، تاریخی، تہذیبی اور صحافتی خدمات کو سلسلۂ تسلسل کے ساتھ مرکز توجہ بنایا گیا ہے مگر اُن کے خطوط پر خاطر خواہ کام نہیں ہوسکا ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ سے لے کر ڈاکٹر نسرین ممتاز بصیر تک نے مکاتیب سرسید کی ترتیب وتنظیم کی رفتار پر افسوس کا اظہارکیا ہے کہ مصلح قوم کے نادر ونایا ب خطوط کو شایانِ شان یکجا نہیں کیاجاسکا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اس قومی اور علمی اثاثے پر دل جمعی اور یکسوئی سے کام کیاجائے تاکہ کچھ اور مثبت اثرات سامنے آسکیں۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سرسید نے اپنے پچاس سالہ آئینۂ افکار میں سرکاری خطوط کے علاوہ رفیقوں، عزیزوں، ٹرسٹیوں اور طلبہ کے والدین کے نام سینکڑوں خطوط لکھے ہیں۔ سید احمد الدین، وحید الدین سلیم، سرراس مسعود، شیخ عطاء اللہ، اسماعیل پانی پتی، مشتاق حسین وغیرہ نے سرسید کے بہت سے خطوط شائع بھی کردئیے ہیں مگر اس سلسلہ میں ابھی کئی گوشے تشنہ ہیں۔
تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اِس جانب پہلی کوشش حکیم احمدالدین نواسۂ سرسید احمد خاں کی ہے۔ جنھوں نے اپنے نانا کے ایک سو بائیس خطوط کو ان کی وفات (۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء) سے پہلے ہی یکجا کرنا شروع کردیا تھا۔ اِس ذخیرہ میں ایک خط ہمشیرہ (عجبۃ النساء جنھیں حالیؔ نے صفیۃ النساء لکھا ہے) کے نام، ایک خط پوتی (احمدی بیگم) کے نام، تین سید حامد کے نام اور بقیہ ایک سو سترہ خطوط خود اُن کے نام ہیں۔ مجموعہ کی اشاعت کب ہوئی، اس کے شواہد نہیں ہیں۔ البتہ یہ نسخہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری کے اردو مخطوطات کے سیکشن میں ، کلکشن نمبر ۱۰۰ پر موجود تھا جسے ایک عرصہ بعد (فروری ۱۹۹۵ء) ڈاکٹر نسرین ممتاز بصیر نے ایک مبسوط مقدمہ کے ساتھ ’’خطوطِ سرسید‘‘ کے نام سے شائع کرایا۔ وہ اس کا تعارف کراتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’سرسید کے خطوط کازیر نظر نادر مجموعہ قلمی صورت میں ہے اور خطی نسخے کی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ مخطوطہ ۱۶۴ اوراق پر مشتمل ہے۔ اس کاسائز ۲۱×۱۳، ۱۳×۱۰ ہے۔ اس کے مرتب حکیم احمدالدین صاحب ہیں جو بقولِ خود سرسید احمد خاں کے نواسے ہیں۔ اس مجموعے کی ابتداء میں انھوں نے لکھا (میں سرسید مغفور کا نواسہ ہوں اور اسی تعلق سے میرے نام جو شفقت نامہ مغفور کے قلم کے یادستخطی آئے ہیں، ان کی یہ جلد بندی ہے)‘‘۔ص:۹
۵۵ رقعات پر مشتمل دوسرا مجموعہ سرسید احمد خاں کے لٹریری سکریٹری مولانا وحیدالدین سلیم کا ہے جنھوں نے اپنے پیرومرشد (سرسید احمد خاں) کی وفات کے بعد اسے مرتب کیا اور حالی پریس پانی پت سے غالباً ۱۹۰۱ء میں شائع کرایا۔ یہ مجموعہ اب نایاب ہے تاہم اس کاایک نسخہ نہایت بوسیدہ شکل میں آصفیہ لائبریری حیدرآباد میں موجود ہے جس پر تاریخ وسنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ زمانی اعتبار سے تمام خطوط ۱۸۶۹ء سے ۱۸۹۱ء تک پر محیط ہیں۔
تیسرامجموعہ محمدعثمان مقبول کا قرار دیا جاسکتا ہے جنھوں نے سرسید اور محسن الملک کے مابین خط وکتابت کوموضوع بناکر ’’مکاتبات الخلان فی اصول التفسیر وعلوم القرآن‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیا جسے مکاتیب رشید احمد انصاری کے زیر اہتمام مطبع احمدی علی گڑھ نے ۱۹۱۵ء میں شائع کیا۔
سرراس مسعود نے ۲۴۹خطوط پر مشتمل مجموعہ ’’خطوطِ سرسید‘‘ کے نام سے ۱۹۲۴ء میں نظامی پریس بدایوں سے شائع کرایا۔ اس کادوسرا ایڈیشن ۱۹۳۱ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ مذکورہ مجموعہ میں مرتب نے مکتوب الیہم کامختصر مگر جامع تعارف بھی پیش کیاہے۔
شیخ عطاء اللہ نے سرسید کے چالیس خطوط پر مشتمل مجموعہ ’’انتخاب خطوط سرسید‘‘ کے عنوان سے ۱۹۵۸ء میں لاہور سے شائع کیا۔ اس میں مکتوب الیہم کے تعارف کے ساتھ خطوط پر تبصرہ بھی ہے۔
’’مکتوبات سرسید‘‘ کو شیخ محمداسماعیل پانی پتی نے دو حصوں میں ترتیب دیا۔ پہلا حصہ ۱۹۵۹ء میں ۳۴۲ خطوط کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ زمانی اعتبار سے اس میں ۱۸۴۹ء سے ۱۸۹۰ء کے مابین لکھے گئے خط شامل ہیں پھر دیگر مطبوعہ اور غیر مطبوعہ رقعات کو یکجا کرکے دوسرا حصہ جون ۱۹۷۶ء میں شائع کیا۔ اس میں ۶۶۵ خطوط ہیں۔ رقعات کے اس ضخیم مجموعہ پر ناظم مجلس ترقی ادب لاہور، احمد ندیم قاسمی نے اپنے مقدمہ میں مدلل گفتگو کی ہے____
مکاتیبِ سرسید کی اِس کڑی میں مشتاق حسین بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے دو جلدوں پر مبنی ۱۳۹ خطوط کامجموعہ ’’مکاتیب سرسید احمد خاں‘‘ کے نام سے اکتوبر ۱۹۶۰ء میں یونین پرنٹنگ پریس دہلی سے شائع کرایا۔ ڈاکٹر سید عابد حسین تعارف کے طور پر اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’مولوی مشتاق حسین صاحب کا کارنامہ صرف یہی نہیں ہے کہ انھوں نے سرسید مرحوم کے بہت سے خطوط جو اب تک کسی مجموعے میں شائع نہیں ہوئے تھے، نادر اخباروں اور رسالوں سے اور نایاب کتابوں سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر یکجا کردئیے بلکہ انھوں نے متن کی صحت اور مفید حواشی کے اضافے میں بڑ ااہتمام کیا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے جو ان خطوط کو مسلمانانِ ہند کی انیسویں صدی کے نصف آخر کی تعلیمی اور ذہنی تاریخ کے خام مواد کے طور پر استعمال کرناچاہیں، خاصی آسانی ہوگئی ہے‘‘۔ ص:۵
خطوط کی اشاعت کا یہ سلسلہ ہنوز برقرار ہے تاہم اعداد وشمار کے اعتبار سے کوئی حتمی شکل ابھی نہیں ابھر پائی ہے کیوں کہ بعض خطوط کئی مجموعوں میں موجود ہیں اور اس طرح بہ تکرار ان خطوط کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے لیکن جن محققین نے اس جانب یکسوئی سے توجہ دی ہے اُن کے اعتبار سے یہ تعداد ایک ہزار سے اوپر نہیں پہنچتی ہے۔
سرسید احمد خاں نے جس قومی نصب العین کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی، اُس کی تمام جھلکیاں اُن کے خطوط میں موجود ہیں۔ علاوہ بریں ان مکاتیب میں سوانح اور سیرت کے بعض اہم پہلوؤں کے علاوہ ان کے خاندانی حالات کا عکس بھی دیکھنے کو ملتاہے۔ بہن، بیٹے، بہو اور نواسے کے نام لکھے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرسید قوم کے ساتھ ساتھ اہل وعیال کی ذمہ داریوں سے بھی غافل نہیں ہوئے تھے۔ وہ خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کابھی خیال رکھتے تھے، اُن کے دُکھ سُکھ میں شریک رہتے اور ہر ممکن مدد کرتے تھے۔ کوچہ والی نانی، بُوا صاحبہ، ہمشیرہ صاحبہ اور احمدی بیگم کے نام درجنوں خطوط میں روپے ارسال کرنے کی تفصیلات موجود ہیں۔ اِس نوعیت کے بیش تر خطوط حکیم احمدالدین کے نام ہیں جو سرسید احمد خاں کے نواسے تھے اور دہلی میں واقع سرسید کی حویلی کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ سرسید نے مدرسہ کے لیے بہت سی چیزوں کی حصولیابی بھی ان ہی کے سپرد کررکھی تھی۔ لکھتے ہیں:
’’…سوروپیہ کامنی آڈر تمہارے نام بھیجا گیا ہے۔ اس میں سے پچاس روپیہ سیدحامد کے گھر میں دے دو اور پچاس روپیہ ہمشیرہ صاحبہ کو بابت تنخواہ دے دو…‘‘۔
(بنام احمدالدین ۴؍جنوری ۱۸۸۴ء)
سید حامد کی علالت اور گرتی ہوئی صحت کی طرف سے فکر مند ہوتے ہوئے احوال دریافت کرتے ہوئے کچھ روپے بھی ارسال فرماتے ہیں:
’’سید حامد کی علالت طبع سے نہایت تردّد ہے۔ امید ہے کہ اب طبیعت اچھی ہوگی اور تمہارے خط سے جوکل تک آجاوے گا، مفصل حال معلوم ہوگا۔ تم روز خط ان کے مزاج کے حال کا لکھتے رہو ۔ روپیہ وصول کرکے دوسو روپیہ سید حامد کو دے دو اور اسّی روپیہ ہمشیرہ عجبۃ النساء بیگم پاس پہنچادو‘‘۔
(خطوط سرسید، مرتبہ نسرین ممتاز، ص:۵۹)
اپنی پوتی احمدی بیگم کے تعلق سے نواسے کو لکھتے ہیں:
’’بوا صاحب سے کہہ دینا کہ میں نے دو تھان زربفت کے اور دو تھان مشروع کے اور ایک سرخ دوشالہ احمدی بیگم کے لیے لیا ہے، بہت اچھا ہے مگر احمدی بیگم کے کام میں یہ چیزیں آویں تو لیتا آؤں، ورنہ نہ لاؤں‘‘۔
(خطوط سرسید، مرتبہ نسرین ممتاز، ص: ۵۲)
ایک اور خط ملاحظہ ہو:
’’کیایہ سچ ہے کہ میاں ابراہیم نے جو حویلی اور دیوان خانہ ہم سے خریدلیا تھا، اس کو وہ فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہو تو میں اس کو احمدی بیگم کے لیے خریدنا چاہتا ہوں‘‘۔
(خطوطِ سرسید ، مرتبہ نسرین ممتاز، ص:۸۶)
احمدالدین کے نام لکھاایک اور خط ملاحظہ ہو:
’’…سو روپیہ کامنی آرڈر مرسل ہے۔ اس کا روپیہ وصول کرکے سید حامد کی بیوی کو دے دو اور اُن کو سمجھا دو کہ جب تک سید حامد رخصت پر ہیں او راپنی نوکری پر نہیں جاتے پچاس روپیہ مہینہ میں ان کو گھر کے خرچ کے بھی بھیجتا رہوں گا…‘‘۔
سرسید کو تراہا بیرم خاں پر و اقع اپنا آبائی مکان بے حد عزیز تھا۔ جب علی گڑھ اُن کا اپنا گھر اور قوم اولاد بن گئی تب بھی وہ گھریلو ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوئے۔ دہلی والے مکان کا محل وقوع ، بناوٹ اور آرائش وزیبائش کے بارے میں تمام تر تفصیلات ’’خطوطِ سرسید‘‘ میں محفوظ ہیں۔ اُس گھر میں سب کے ساتھ چھٹیوں کے دن گزارنے کی خواہش بھی نیم بنددریچوں سے نظر آتی ہے:
’’عزیزی حکیم احمدالدین سید حامد کی طبیعت کاحال لکھو کہ کس طرح ہے۔ باری کے دن ان کو بخار آیا کہ نہیں ۔ اسے کہہ دینا کہ ماہ نومبر میں سب لوگ دہلی آویں گے اور محمود بیگم کاارادہ ہے کہ مسعود کی دودھ چھوٹنے کی شادی کریں گی۔ پس اس مکان میں جس میں تم رہتے ہو، تمہارے ساتھ سب رہیں گے۔ محمود بیگم نے کہا کہ میںتو جس قدر روپیہ کہیں گی ان کو یعنی عجبۃ النساء بیگم صاحبہ کو دے دوں گی۔ ان کو اختیار ہوگا جس طرح چاہیں کریں وہی بڑی ہیں اور وہی سب کچھ کریں گی‘‘۔
(۱۶؍نومبر ۱۸۹۴ء)
اٹھارہ سو ستاون سے پہلے ایک ذہین اور باشعور شہری کی طرح سرسید اپنے اہل وعیال کے روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے لیکن اس ذہنی انقلاب نے سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے زاویہ کو بدل دیا۔ دانش ورانہ بصیرت نے اجتہادی نظریے کو فروغ دیا۔ پھر انھوں نے اپنی بقیہ تمام زندگی ملک اور قوم کی خوشحالی اور سربلندی کے لیے وقف کردی کہ ’’عمدہ تعلیم وتربیت ہی قومی عزت اور قومی ترقی کا اصل ذریعہ ہے‘‘۔ ۱۲؍جون ۱۸۶۹ء کولندن سے محسن الملک کو لکھتے ہیں:
’’میں ہر دم اپنے ملک کی بھلائی کے خیال میں ہوں اور عنقریب کچھ نہ کچھ انشاء اللہ تعالیٰ مشتہر کرنا شروع کرتاہوں‘‘۔
ہندوستانیوں کی کسمپرسی، بے بسی اور بدحالی کی کراہ سید حامد کی موت پر بھیجے گئے تار کے جواب میں بھی ملتی ہے:
’’مخدومی ومکرمی نیاز احمد خاںصاحب!
آپ کاتار ہمدردی کا پہنچا۔ جو دلی محبت اور عنایت آپ کی مجھ ناچیز پر ہے اس کا میں صرف شکر گزار ہی نہیں ہوں بلکہ میں اس کو نہایت محبت اور قدر سے دیکھتا ہوں۔ اگرچہ سید حامد مرحوم کے انتقال سے سخت صدمہ ہوا ہے، لیکن خدا نے صبر دیا ہے کہ قومی بھلائی کے کام میں زیادہ مصروف رہوں، کیوں کہ وقت موت معلوم نہیں ہے اور تو بھی جلد آنے والا اور دنیا اور عزیز قوم کو چھوڑنے والا ہے۔ پس قومی بھلائی میں زیادہ کوشش کرو۔
فقط والسلام
خاکسار سید احمد
علی گڑھ ۳۱؍جنوری ۱۸۹۴ء‘‘
قوم کے لیے کچھ کر گُزرنے کی للک اور تڑپ ۲۱؍فروری ۱۸۷۰ء کے اُس خط سے بھی سنائی دیتی ہے جو انھوں نے لندن سے ایک اور خط میں محسن الملک کے نام لکھا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوبے جاتے ہیں اور کوئی ان کا نکالنے والا نہیں۔ ہائے افسوس امرت تھوکتے اور زہر اُگلتے ہیں اور مگر کے منھ میں ہاتھ دیتے ہیں۔ اے بھائی مہدی! فکرکرو اور یقین کرلو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آگیا ہے۔ اب ڈوبنے میں بہت کم فاصلہ باقی ہے‘‘۔
اُن کے قومی ہمدردی کے جذبے کو جو لوگ ڈھونگ سمجھتے، اُن پر پھبتی کستے، تہمت لگاتے، سرسید اُن سے بھی بھلائی کی اُمید رکھتے تھے:
’’پنجاب کے بعض دوستوں نے مجھ سے بہت اصرار کیا کہ اگر تم اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لینا چاہتے تو مدرسۃ العلوم کی نسبت جو مخالفین اتہام لگاتے ہیں ان کا انتقام ضرور لو__ میں بھی کچھ لکھتا ہوں اور کسی قدر قانون سے بھی واقف ہوں۔ میں خوب جانتا ہوں کہ میں انتقام لے سکتا ہوں اور قانونی سزا دلاسکتا ہوںمگر میرے لیے کیا یہ مناسب ہوگا کہ جس قوم کے ساتھ میں ہمدردی کرناچاہتا ہوں اور جس قوم کو اپنی گود میں بٹھانا چاہتا ہوں اس کو قانون کے حوالے کردوں‘‘۔
(مکاتیب سرسید احمد خاں، جلد اول، ص: ۱۶۰)
سرسید قوم کو منجدھار میں چھوڑنے والے نہیں تھے۔ انھوں نے اسباب وعلل تلاش کیے اور قوم کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا۔ مدرسۃ العلوم قوم کو بھنور سے نکالنے والا بیڑہ ثابت ہوا۔ اُس کی خوش حالی کے لیے ہر پل ہاتھ پھیلاتے اور دعا کرتے رہتے۔ علی گڑھ سے ۳؍مئی ۱۸۹۵ء کو نواب عماد الملک کو لکھے گئے خط سے ان کی ملی تڑپ ظاہر ہے:
’’آپ کا عنایت نامہ مورخہ ۲۵؍اپریل پہنچا اور میرے جان ومال اور روح کا باعثِ افتخار ہوا… اگر خدا کو مسلمانوں کے حق میں کچھ بہتر کرنا ہے تو یہ مدرسہ قائم اور سرسبز رکھے گا ورنہ جو خدا کی مرضی… جہاں تک ہم سے ہوسکتا ہے قوم کی بھلائی اور بہتری میں کوشش کرتے ہیں۔ آئندہ اس کاقائم رہنا خدا کے اختیار میں ہے۔ آپ کا یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ قوم اس کی کچھ قدر نہیں کرتی اور نہیں جانتی کہ کیاکچھ اس کی بہتری کے لیے ہورہا ہے۔ اگر قدر کرتی تو ہم کو روپے کی بابت کسی سے کچھ پروا نہیں رہتی اور نہ کبھی اس بابت تردّد ہوتا کہ نواب سرسالار جنگ مرحوم کی جاگیر کاروپیہ، جوبند ہوگیا، وہ کمی ہم کیوں کر پوری کریں‘‘۔
والسلام مع الاکرام
کمترین شما، سید احمد
عالمی سطح پر سرسید مسلمانوں کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے تھے اور ان کے توسط سے ہندوستانی مسلمانوں کو خبردار کرتے رہتے تھے۔ ان کی اس وسیع النظری کا ثبوت نواب سید علی حسن کو لکھے خط سے بھی عیاں ہے:
’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس اب کے سال الٰہ آباد میں ہوگا۔ ۲۸،۲۹ اور ۳۰؍دسمبر تواریخ اجلاس مقرر ہوئی ہیں۔پہلے اجلاس میں وہ اُمور تنقیح پاویں گے جو بحث کے لیے پیش ہوں گے مگر تمام بحثیں تعلیم مسلمانانِ سے متعلق ہوں گی۔ نواب محسن الملک مولوی سید مہدی علی غالباً اسبابِ تنزل مسلمانان پر لکچر دیں گے۔ ہمارے کالج کے ایک نہایت قابل اور عالم پروفیسر انگریز مسٹر آرنلڈ چین اور جاوہ میں اسلام کی ترقی اور وہاں کے مسلمانوں کی حالت پر لکچر دیں گے‘‘۔
(از علی گڑھ ۲۰؍نومبر ۱۸۹۰ء)
تعلیمی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں پرسرسید احمد خاں گہری نظر رکھتے تھے اور دشواریوں پر احتجاج بھی کرتے تھے۔ سید حسین بلگرامی کو لکھے خط کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’حال یہ ہے کہ گورنمنٹ شمال مغرب نے حکم دیا ہے کہ کل گورنمنٹ کالجوں اور ایڈڈکالجوں میں ، جیسا کہ ہمارا کالج ہے، کالج کلاس کے طالب علموں کی فیس میں اضافہ کردیا جاوے … اس وقت ہمارے کالج کی کلاسوں میں ایک سو پچھتر سے زائد طالب علم صرف مسلمان ہیں، لیکن فیس کے اضافے کے بعد شاید بمشکل صرف نصف طالب علم باقی رہیں گے اور وہ بھی اس صورت میں کہ وظیفہ یا اسکالر شپ سے ان کی اعانت کی جائے…‘‘۔
اس دور میں جدید تعلیم کی طرف مسلمانوں کارجحان بہت ہی کم تھا۔ اُنھیں مغرب میں ہونے والی نت نئی تبدیلیوں کی طرف راغب کرنا ایک مشکل امر تھا۔ پھرسُودوزِیاں سے مبرّا ہوکر تعلیمی مشن کو آگے بڑھانا اور بھی دشوار تھا لیکن سرسید جہدِ پیہم میں لگے رہے۔ مغرب کی برق رفتار ترقی کا ذکر اُن کے کئی خطوط میں ہے۔ ۱۰؍ستمبر ۱۸۶۹ء کو محسن الملک کے نام لکھتے ہیں:
’’…یہاں کا حال دیکھ دیکھ کر اپنے ملک اور اپنی قوم کی حماقت اور بے جا تعصب، وتنزل موجودہ اورذلتِ آئندہ کے خیال سے رنج وغم زیادہ بڑھ گیا ہے اور کوئی تدبیر اپنے ہم وطنوں کے ہوشیار کرنے کی نہیں معلوم ہوتی‘‘۔
سرسید کو اپنے اس اصلاحی وتعلیمی مشن جس کو علی گڑھ تحریک کے نام سے یاد کیا جاتاہے، عملی جامہ پہنانے میں سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ کبھی بھی مخالفین کے اعتراضات پر مشتعل نہیں ہوئے۔ اُن میں برداشت اور درگزر کی بے پناہ قوت تھی۔ منشی سراج الدین کو لکھے گئے خط کا یہ اقتباس ثبوت کے طور پر پیش کیاجاسکتاہے:
’’…میں نے آپ کا اخبار مورخہ ۸؍جنوری پڑھا۔ بلاشبہ میں آپ کی محبت کا، جو آپ کو مجھ ناچیز سے ہے، بوجہ جوشِ محبت معذور سمجھا ہوں۔ مگر جانے دو، جس کاجو دل چاہے کہے، ہمارا کیا بگڑتاہے، اگر ہمارے بُرا کہنے سے ان کا دل خوش ہوتا ہے، خوش کرلینے دو، تم بھی اس بُرا کہنے سے خوش ہو کیوں کہ وہ ہمارے دھوبی ہیں۔ ہم کو گناہوں سے پاک کرتے ہیں‘‘۔
عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اکبر الٰہ آبادی نے علی گڑھ تحریک کی سخت مخالفت کی لیکن رقعات کے مطالعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سرسید نے چندہ جمع کرنے کے لیے ہندوستان کے مختلف شہروں کادورہ کیاتھااور انھیں اس سلسلہ میں حیدرآباد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی جس پر اکبر الٰہ آبادی نے اپنی مسرّت کااظہار کیاتھا اور انھیں ایک تفصیلی خط لکھا۔ سرسید کا جواب ملاحظہ ہو:
’’مخدومی ومکرمی منشی اکبر حسین خاں بہادر
آپ کانوازش نامہ پہنچا۔ آپ نے جو کامیابی حیدرآباد کی مبارک باد دی ہے اُس کادل سے شکر گزار ہوں۔ یہ مبارک بادی درحقیقت قوم کی مبارک بادی ہے جس میں آپ بھی شامل ہیں، پس میںآپ کو بھی مبارک بادی دیتاہوں…
خاکسار
سید احمد‘‘
۱۰؍جون ۱۸۷۹ء کو شملہ سے لکھے ایک خط سے حالی ؔسے تعلقِ خاطر اور ادبی پذیرائی واضح ہوتی ہے:
’’جناب مخدوم ومکرم من!
عنایت نامہ بمع پانچ جلد مسدس پہنچے۔ جس وقت کتاب ہاتھ میں آئی، جب تک ختم نہ ہوئی، ہاتھ سے نہ چھوٹی، اور جب ختم ہولی تو افسوس ہوا کہ کیوں ختم ہوگئی۔ اگر اس مسدس کی بدولت فنِ شاعری کی تاریخ جدید قرار دی جاوے تو بالکل بجاہے۔ کس صفائی اور خوبی اورروانی سے یہ نظم تحریر ہوئی ہے، بیان سے باہر ہے… میری نسبت جو اشارہ اس نثر میں ہے اُس کاشکر ادا کرتا ہوں اور آپ کی محبت کااثر سمجھتاہوں…‘‘۔
سرسید کے رفیقِ خاص نواب وقار الملک کو اُن کی ملازمت کے دوران ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے عدالت کے اوقات میں جماعت کے ساتھ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لیے منع کیاتھا۔ وقار الملک نے سرسید کو یہ واقعہ لکھتے ہوئے مشورہ طلب کیا۔ موصوف کاجواب ملاحظہ ہو:
’’بھائی مشتاق حسین!
…تم کو پہلے ہی اپنی طرف سے ایسا طریقہ اختیار کرناتھا جو کبھی اس قسم کی بحث نہ آتی، اور جب ایسا طریقہ نہیں کیاتھاتو پھر لجلجانا اور گِڑگِڑانا کیسا۔ ’’حضور رخصت ہی دیں‘‘،’’ تنخواہ کاٹ لیں‘‘ کہنا واہیات تھا۔ تڑاق سے استعفا دے دینا تھا اور صاف کہہ دینا تھا کہ’’میں اپنے خدائے عظیم الشان‘‘ قادر مطلق کے حکم کی اطاعت کروں گا نہ کی آپ کی‘‘۔ کیا ہوتا، نوکری نہ میسر ہوتی، فاقے سے مرجاتے؟ نہایت اچھا ہوتا۔
والسلام
خاکسار۔ سید احمد
از بنارس، ۹؍جنوری ۱۸۷۵ء‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ سرسید نے ایم۔اے۔او۔کالج کی بہتری کے لیے اپنا سب کچھ نثار کردیا تھا اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اس کی آبیاری کے لیے وقف کردی تھیں۔ طلبہ کے داخلے، وظائف، ان کی تعلیم، تربیت اور صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ، تدریسی اور غیر تدریسی عملہ کی تقرری پر بھی وہ گہری نظر رکھتے تھے۔ ایک لائق استاد کو کالج میں لانے کے جتن کی کہانی سنیے:
’’مُشفِقی منشی حافظ سعید احمد صاحب!
مولوی عبداللہ صاحب کا خط جو آپ نے بھیجا، میں نے نہایت خوشی سے پڑھا۔ قبل اس کے کہ میں اس کا جواب دوں، اپنے خیالات کاظاہر کرنا مناسب سمجھتاہوں۔ سب سے اول یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے ہم ایک بزرگ اور مقدس شخص کو بورڈ نگ ہاؤس میں رکھناچاہتے ہیں وہ ایسا ہو کہ درحقیقت اِس کام میں اُس کو مالی فائدے پر نظر نہ ہو اور نہ مالی فائدے کو مقدم سمجھے بلکہ ان کااصلی مقصد اور ان کی سچی نیت خالصتاً للہ یہ ہو کہ مدرسۃ العلوم ایک ایسی جگہ ہے جہاں کثرت سے مسلمان نوجوان جمع ہیں۔ ان میں نیکی اور اخلاق محمدیؐ اور محبت اسلامی اور پابندئ فرائض مذہبی کو پھیلانا اور ان کے دلوں کو نرمی اور اخلاق سے … نیکی کی طرف مائل کرنا ایک مذہبی اورثواب کاکام ہے … پس یہ مقصد ایسے ہی شخص سے حاصل ہوسکتا ہے جس کی نیت اور ارادہ خالصتاً بلاکسی قسم کے لالچ اور دنیاوی طمع کے اس کام کے کرنے کاہو اور یہ سمجھے کہ میں اسلام کی خدمت کرتا ہوں۔ پس اگر مولوی عبداللہ صاحب اِسی نیت سے یہاں آناچاہیں تو ہماری عین خواہش اور خوشی ہے‘‘۔
خاکسار
سیداحمد
(علی گڑھ، ۵؍جون ۱۸۹۳ء)
ہوسٹل میں رہنے والے طلبہ کی صحت اور ان کے ناشتہ اورکھانے پر سرسید کی سخت نگاہ ہوتی تھی۔ چنانچہ ایک اچھے باورچی کے لیے احمدالدین کو لکھتے ہیں:
’’…بورڈنگ ہاؤس کے لیے ایک باورچی درکار ہے۔ تنخواہ چھ روپیہ ماہواری اور کھانا ہے۔ کام سالن پکانا اور کبھی پلاؤ پکادینا ہے، مگر سالن یاپلاؤ بیس سیر سے کم نہیں پکتا۔ سالن دونوں وقت اسی قدر پکانا ہوگا‘‘۔
قوم کے اِس آشیانے کو سجانے سنوارنے کاایک اور قصہ سنیے:
’’محبی ومکرمی مولوی ممتاز علی صاحب
…امید ہے کہ میرے پاس رہنے سے تمہارا دل خوش رہے گا اور سب توہمات دور ہوجاویں گے۔ میری کوٹھی ظاہراً خوش فضا ہے۔ ہمیشہ دو کمرے عمدہ مع تمام ضروریات متعلقہ کے خالی رہتے ہیں۔ سب چیز تمہارے آرام کی موجود ہے… بعض میرے نہایت دلی دوست خصوصاً مولوی زین العابدین میرے مکان کے نہایت متصل رہتے ہیں۔ آپ ان سے مل کر نہایت خوش ہوں گے اور آپ کا دل خوش رہے گا۔ مولوی محمدشبلی صاحب بھی اسی طرح قریب رہتے ہیں … آپ علی گڑھ کو بلاتکلف اپناگھر سمجھیں گے اور کسی قسم کا خیال دل میں نہ لاویں گے‘‘۔
(از علی گڑھ ۱۸؍دسمبر ۱۸۹۱ء)
سرسید کی بے حد فعال اور متوازن شخصیت کانقش اُن کے مکاتیب کے مطالعہ سے اور بھی گہرا ہوجاتا ہے۔ حالاںکہ اُن کے متعدد خطوط ضائع ہوگئے ہیں کیوں کہ وہ خود بہت سے ذاتی خطوط کو چاک کرنے کی ہدایت دیا کرتے تھے۔ (یہ الگ بات ہے کہ چاک کرنے کی ہر وصیت پر عمل نہیں ہوا جس کی وجہ سے نہایت قیمتی سرمایہ محفوظ رہ گیا۔) ۹؍نومبر۱۸۸۵ء کو اپنے نواسے سید احمد الدین کو لکھتے ہیں:
’’…مرزا سرور حسین کل یہاں سے دہلی جاویں گے۔ وہ کہتے تھے کہ میں سید حامد کو اپنے ساتھ مدراس لے جاؤں گا۔ تم سید حامد کو یہ خط دکھادو اور ان سے کہہ دو کہ مرزا سرور حسین صاحب کتنا ہی اصرار کریں، وہ ہرگز ہرگز مدراس جانا قبول نہ کریں۔ کسی طرح پر اُن کے ساتھ جانے پر رضا مند نہ ہوں۔ ہرگز ہرگز نہ جاویں۔ اِس خط کو دکھلانے کے بعد چاک کردو‘‘۔
سرسید کے یہ خطوط انیسویں صدی کے سیاسی اور سماجی پس منظر کو نمایاں کرتے ہیں، اُس کے آئینہ خانہ میں وہ تمام حالات و حادثات اور اُن کے نشیب وفراز نظر آتے ہیں جن سے قوم دوچار ہوئی۔ یورپ کا قیام، تہذیب الاخلاق، انسٹی ٹیوٹ گزٹ، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ، سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ کے منصوبے کن کن مراحل ومنازل سے گزرے، جاں فشانی اور صبرآزما لمحات کا سامنا کرنا پڑا، یہ سب تفصیل اِن خطوط میں موجود ہے۔ انگریزی زبان و ادب کے اثرات، اردو نثر کو مافوق الفطرت کرداروں اور محیر العقل باتوں سے آزاد کرانے کا جتن، تصانیف وتراجم کے احوال، تبادلوں اور سفرناموں کے کوائف، ذاتی دلچسپی، شوق، پسند ناپسند سب کا ذکر مکتوبات میں ہے۔ باہمی خیالات و جذبات، اختلافات، نوک جھونک کے ساتھ مختلف افراد کے نقطۂ نظر، تاریخی حالات اور نئے رجحانات کا عکس بھی ان میں جلوہ گر ہے۔ خصوصاً کالج کی تعمیر کے سلسلہ میں بہت سی اہم معلومات رقعات میں درج ہیں مثلاً قوم کی سربلندی اور علم سے سرفرازی کے خواب کو حقیقت میں بدلتے ہوئے دیکھنا بلکہ اس کی تعمیر میں ہر چھوٹی بڑی چیز کا باریکی سے خیال رکھنا اور یہ خیال محض نقش و نگار اور در ودیوار کی پائیداری پر ہی منحصر نہیں بلکہ آرائش وزیبائش کے لیے ستون، پتھر، فرش، آئینہ جات، لیمپ وغیرہ کیسے ہوں اور انھیں کم سے کم قیمت پر کہاں سے خریدا جائے، اِن سب کی روداد بھی مکاتیب سرسید میں ملتی ہے۔ چند خطوط کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’…میں مدرسۃ العلوم کے لیے سولیمپ اسی طرح کے، جس میں معمولی تیل جلے بنوانے چاہتا ہوں۔ ٹین کے لیمپ تو بعینہٖ اسی قطع کا اور صرف چمنی اس میں ہو… ہانڈی کی ضرورت نہیں۔ بس تم وہاں کے کاریگروں سے پوچھو کہ بنادیں گے؟ اور فی لیمپ کیا دام لیں گے…‘‘۔
(بنام احمدالدین ۵؍نومبر ۱۸۸۹ء)
’’…تم نے جو ستون بھیجے ہیں اسی ساتھ کے دوستون اور در کار ہیں۔ اس لیے کہ سہدری کی جگہ پنچ دری بنائی جاوے گی… پس جس قدر جلد ممکن ہو اسی ساتھ کے دو ستون اور بنواکر جلد بھیج دو…‘‘۔
(بنام احمدالدین ۲۵؍نومبر ۱۸۹۳ء)
’’…عزیز ی احمدالدین… رام لال سنگتراش تمہارے پاس پہنچتا ہے۔ اس کو ساتھ لے جاکر جامع مسجد دکھا دو۔ اس کو جامع مسجد کے اگلے در اور اس کے پائے دیکھنے ہیں کہ کس صورت کے بنے ہوئے ہیں۔ شاید کوئی شخص اس کو مسجد میںجانے نہ دیتا ہے۔ اسی لیے تم کو رقعہ لکھاہے کہ تم اپنے ساتھ جاکر دکھادو…‘‘۔
(۱۵؍جنوری ۱۸۹۴ء)
’’…کواڑوں کے آئینوں کاحال لکھو کہ ان کی تیاری کابندوبست ہوگیا… اور کب تک تیار ہوکر آجاویں گے…‘‘۔
(بنام احمدالدین ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء)
مکاتیب کے توسط سے جہاں مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے کمالات ظاہر ہورہے ہیں وہیں اِس بات پر بھی روشنی پڑرہی ہے کہ علی گڑھ تحریک کابنیادی مقصد حب الوطنی اور انسان دوستی کے ساتھ ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کو جدید علوم وفنون سے روشناس کرانا اور سائنس اور مذہب میں امتزاج پیدا کرناتھا۔ پچھلے سو سال سے اِس موضوع پر کام ہورہا ہے لیکن اب بھی یہ گوشہ تشنہ ہے۔ اور خصوصی توجہ کامستحق ہے۔ تاریخی، سیاسی، سماجی، اصلاحی، ادبی، صحافتی، نفسیاتی نجی اور رسمی جیسے عنوانات کے تحت مکتوبات کی شیرازہ بندی کی جاسکتی ہے۔مثلاًتاریخی اعتبار سے لندن سے محسن الملک کے نام یا پھر نواب صدیق حسن خاں کے صاحبزادے نواب سید محمدعلی حسن خاں کو لکھے گئے خطوط تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ سیاسی اعتبار سے بدر الدین طیب جی یا ریاست کے حکمرانوں کو لکھے گئے خطوط آج بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ قومی یکجہتی پر بھی اُن کے کئی خطوط ہیں۔ انھوں نے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حدیث تشبہ کے سلسلے میں اُٹھے ایک سوال کاجواب وہ اِن الفاظ میں دیتے ہیں:
’’کیا ہم دیوالی، دسہرہ میں اپنے ہندو دوستوں سے اور نو روز میں اپنے پارسی دوستوں سے اور بڑے دن میں اپنے عیسائی دوستوں سے مل کر اور معاشرت وتمدن کی خصوصیت حاصل کر کر کافر ہوجاویں گے۔ نعوذباللہ منہا‘‘۔
(مکتوبات سرسید،جلد دوم، ص: ۳۵۴)
محبت، مروت، بھائی چارے، پاسداری اور خیرسگالی جیسے جذبات واحساسات سے اُن کے خطوط بھرے پڑے ہیں۔ رفیقِ خاص مولوی سمیع اللہ سے کسی بات پر اختلاف بڑھا جس کی وجہ سے انھیں تکلیف پہنچی۔ نواب محسن الملک کے نام لکھے خط سے جذبۂ دوستی اور تکلیف دونوں کا احساس جلوہ گر ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’میں تو اس شخص کوکافر وبے ایمان سمجھتا ہوں جو دوست کی نسبت یہ خیال کرے کہ اس نے خلاف دوستی ومحبت کے کوئی بات کی یا کہی، میں تو دوست کو گالی دینے اور بُرا کہنے کو بھی دوستی پر محمول کرتاہوں۔ مگر جب کہ حقیقت میں خلاف محبت اور دوستی کے کوئی بات ہو تو پھر شیشہ محبت جو نہایت نازک ہے کس طرح ثابت نہیں رہ سکتا… مولوی سمیع اللہ خان کو اب بھی میں اپنے بھائی سے کم نہیں سمجھتا مگر جو ملال کہ میرے دل میں ہوا وہ اب تک کم نہیں ہوا۔ پھوٹ جاوے وہ آنکھ جو کسی کودیکھے اس نگاہ سے جو اُس کے دل میں نہیں ہے، گل جاوے وہ زبان جو وہ کہے جو اُس کے دل میں نہیں ہے۔ ٹوٹ جاوے وہ ہاتھ جو وہ لکھے جو اُس کے دل میں نہیں ‘‘۔
(مکتوبات سرسید، جلد اول، ص:۴۴۵)
سفارشی، رسمی، دوستی اور خیر سگالی کے متعدد ایسے خطوط ہیں جو ادبی چاشنی سے لبریز ہیں۔ سید زین العابدین کو لکھا ایک خط ملاحظہ ہو:
’’مکرمی زینو بھیاّ!
ابھی تمہاراخط پہنچا۔ کچھ پتہ نہیں کہ تم کو مجھ سے جُدا ہونے کا ایسا ہی رنج ہے جیسا کہ تم نے لکھا ہے، مگر تم تو اس رنج کوکسی قدر لکھ بھی سکے، مگر مجھ کو تمہارے جانے سے جو رنج ہے وہ لکھا بھی نہیںجاسکتا۔ زبان کھجلاتی ہے اور کوئی یہاں نہیں کہ اس کو بُرا کہوں، دل میں غصہ آتا ہے اور کوئی یہاں نہیں ہے جس پر غصہ نکالوں۔ ہاتھ کھجلاتے ہیں اور کوئی یہاں نہیں ہے جس کو ماروں، حقیقت میں تمہارے جانے سے مکان سونا نہیں ہوا بلکہ دل سونا ہوگیا‘‘۔
(مکتوبات سرسید، جلد اول، ص:۲۱۹)
محسن الملک کو لکھے گئے خط کا انداز ملاحظہ ہو:
’’…آپ خیال کیجیے کہ محبت اور دوستی ایسی سخت اورمضبوط چیز ہے کہ کسی طرح نہیں ٹوٹ سکتی اور کوئی اس کو نہیں توڑ سکتا مگر وہ نازک بھی ایسی ہے کہ باریک سے باریک شیشے اورحباب کو بھی اس سے نسبت نہیں ہے۔ وہ ہتھوڑوں اور ہزار صدموں سے نہیں ٹوٹتی اور ایک ادنیٰ سی خلاف محبت بات کرنے سے ٹوٹ جاتی ہے اور جوں جوں محبت زیادہ بڑھتی ہے اس کی نزاکت زیادہ ہوتی جاتی ہے‘‘۔
(مکتوبات سرسید، جلد اول، ص:۴۴۵)
مکتوبات کو بھی دیکھنے اور پرکھنے کے مختلف زاویے ہوسکتے ہیں ۔ ایک آسان طریقہ ان کی درجہ بندی کا ہے ۔ دراصل اِس موضوعاتی درجہ بندی سے انسانی نفسیات، تعمیری خواہشات، ملی جذبات اور قومی خدمات کے مختلف گوشوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ کام مشکل ہے مگر اس سے سرسید کی اہمیت اور معنویت پوری طرح واضح ہوسکے گی۔ بے مقصد گفتگو سے گُریز کرتے ہوئے محض کام کی باتیں لکھنے والا یہ مصلح قوم اپنے خطوط کے توسط سے کوئی نیا طرز ایجاد نہیں کرناچاہتا تھا، مگر لاشعوری طور پر مکاتیب سرسید ہماری ادبی، سیاسی اور ثقافتی زندگی کامستند حوالہ بن گئے ہیں۔ ان میں سادگی، اختصار اور جامعیت ہے۔ انگریزی الفاظ کے ساتھ روز مرہ محاورات اور ضرب الامثال کابرمحل استعمال ہے جس کی وجہ سے کہاجانے لگا کہ سرسید نے غالب کی طرح بے ساختہ، براہ راست اور بے تکلف انداز اختیار کیا اور اِس صنف کو مضمون کی قطعیت، زبان کی سادگی اور تخاطب کے خلوص سے آشنا کیا۔ حشووزوائد سے پاک سرسید کے خطوط میں نہ تو انشاء پردازی ہے نہ مبالغہ آرائی اور نہ ہی شاعرانہ اظہار۔ دل سے نکلنے اور دل پر اثر کرنے والا یہ انداز اُن کے عہد کو کچھ اس طرح بھاگیا کہ علی گڑھ تحریک کے بانیوں کی تحریروں میں عبارت آرائی کم سے کم ہوتی گئی، تکلف اور تخیل کی جگہ سادگی اور حقیقت نے لے لی نتیجتاً براہِ راست بات کہنے کا رُجحان بڑھا جو اردو نثر کے فروغ میں معاون ثابت ہوا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر اور بھی قوی ہوتا جارہا ہے کہ ’’مکاتیب سرسید‘‘ کی قدروقیمت کے صحیح تعین کی روشنی میں، ہم سرسید اور اُن کے عہد کو اور بھی قریب سے دیکھ سکتے ہیں، ذہنی اتھل پتھل کو جان سکتے ہیں، اس کی عصری حسیت کو پہچان سکتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں تعلیم وتربیت کے جو معیار سامنے آرہے ہیں، اُن کے تناظر میں علی گڑھ تحریک کو کس طرح مشعل راہ بناسکتے ہیں، یہ خطوط اس جانب بھی رہنمائی کرسکتے ہیں اور مذکورہ تحریک کے تازہ دم ہونے کے ضامن بن سکتے ہیں۔
٭٭٭

Leave a Comment