مہاراشٹر میں جامعاتی اردو تحقیق کے موضوعات : ایک جائزہ

\"\"\"\"
٭ڈاکٹر سلیم محی الدین
پروفیسر،صدر شعبہ اُردو شری شیواجی کالج،پربھنی

اردو میں ادبی تحقیق کا مفہوم نئے حقائق کی دریافت یا معلوم حقائق کی نئی تعبیر ہے ۔ اردو تحقیق کی عمارت اسی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اور روایت بھی یہیں سے ارتقاء پاتی ہے ۔ اس کی روایت کے آغاز کا سہرا تنقید ہی کی طرح قدیم تذکروں کے سرباندھا جاتا ہے ۔ قدیم تذکرہ نگاروں کو بھی اندازہ نہیں ہوگاکہ وہ جادوکی ایک ایسی پٹاری ادب کے طالب علموں کے حوالے کر رہے ہیں جس سے کئی اصناف برآمد ہوتی ہیں۔ تنقید، تحقیق، سوانح اور تاریخ نویسی سبھی کے ابتدائی نقوش ہمیں قدیم تذکروں میں ملتے ہیں ۔میر تقی میر کے ’’نکات الشعراء‘‘کو اردو کا پہلا تذکرہ تسلیم کہا جاتا ہے۔ جو ۱۱۶۵ھ میں لکھا گیا ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اسی سال لکھے گئے حمید اورنگ آبادی کے تذکرے ’’گلشن گفتار ‘‘ کو پہلا تذکرہ نہیں مانا جاتا ۔ قطع نظر اس بحث کے۔ کہنا یہی ہے کہ اگر قدیم تذکرے اردو کی ادبی تحقیق کے اولین نقوش ہیں تو ادبی تحقیق کے آغاز اور اس کے ارتقاء میں مہاراشٹر کسی سے پیچھے نہیں کیونکہ ’’ نکات الشعراء‘‘ کے ساتھ ہی ساتھ مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد میں خواجہ خان حمید اورنگ آبادی نے بھی اسی سال ’’گلشن گفتار‘‘ لکھا ۔ اورنگ آباد میں اردو شعراء کے تذکروں کی یہ روایت اپنے ٓاپ میں بڑی مستحکم ہے ۔ ۱۱۷۵ھ میں لالہ لچھمی نرائن شفیق نے ’’چمنستان شعراء ‘‘ لکھا اور اس سے چند سال بعد اسد علی خان تمنا نے ’’گل عجائب‘‘ کی تصنیف کی۔
جہاں تک اردو تحقیق کی روایت کے باقاعدہ آغاز و ارتقاء کا تعلق ہے ۔ ہمیں پھر ایک بار اورنگ آباد ہی کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ۔ جہاں بیسویں صدی کے اوائل میں بابائے اردو مولوی عبدالحق تحقیق کے حوالے سے زبان و ادب کی بے مثال خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ بلاشبہ عبدالحق اردومیں ادبی تحقیق کی باضابطہ روایت کے بنیاد گزارہیں اور زبان و ادب کی خدمت کی ان کی دیوانگی کے باعث ہی اردو زبان و ادب اس قدر قدیم و ضخیم سرمائے کی حامل ہے ۔بقول انور سدید
’’مولوی عبدالحق کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے تحقیق ادب کو ایک قومی نصب العین کی طرح قبول کیا اور اسے عمر بھر جاری رکھا ۔‘‘ ۱؎
(ڈاکٹر انور سدید ’’ اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ ۔ ایم آر پبلی کیشنز ۔ نئی دہلی ۲۰۱۳ء ص ۳۸۵)
عبدالحق نے نہ صرف دکنی ادب کے قدیم مخطوطوں کو تلاش کیا بلکہ ان پرمبسوط مقدمے اور حاشیے بھی لکھے۔ ان کا یہی کا م مستقبل میں اردو تحقیق و تنقید کے لیے ایک مثال بنا۔ قدیم دکنی سرمائے سے خوا جہ بندہ نواز گیسو دراز ؒ کی ’’معراج العاشقین‘‘ جسے ایک عرصے تک اردو کی پہلی تصنیف تسلیم کیا جاتا رہا۔ملاوجہی کی ’’ سب رس‘‘ ، دکن کی اہم ترین مثنویاں ’’قطب مشتری‘‘ ، ’’گلشن عشق‘‘ اور ’’ علی نامہ ‘‘ کی تدوین و اشاعت اردو زبان وادب پر بابائے اردو کا احسان عظیم ہے ۔ ان کامختصر مگر وقیع مقالہ ’’ اردو کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ ‘‘ اردوتحقیق کے طالب علموں کے لئے ایک مثال اور بنیادی ماخذ کا درجہ رکھتا ہے ۔
جہاں تک جامعاتی تحقیق کا تعلق ہے ۔ اردو میں جامعہ عثمانیہ سے پہلا تحقیقی مقالہ مرزا محمد رفیع سودا پر مولوی عبدالحق ہی کی زیر نگرانی لکھا گیا۔ اور اس کے لکھنے والے شیخ چاند کا تعلق مہاراشٹر کے قدیم تاریخی شہر پٹن سے تھا جو آج اورنگ آباد کا تعلقہ ہے ۔ ڈاکٹر شیخ چاند ہی کی مزید دو تصانیف ’’ ملک عنبر‘‘ اور ’’ سنت ایکناتھ‘‘ ادبی تحقیق کی عمدہ مثال ہیں ۔ یہ مقالے اردو میں بین العلومی اور بین اللسانی تحقیق کا نقش اول ہیں۔ ملک عنبر کے مقالے میں اس کی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی ، سماجی ، تہذیبی و عسکری صلاحیتوں کابھی تحقیقی جائزہ ہے ۔ یہی نہیں شیخ چاند نے ملک عنبر کے قائم کردہ آب رسانی کے نظام پر عرق ریزی سے تحقیق کی اور کسی ماہر انجینئر کی طرح اس کی نہروں کا نقشہ بھی تیار کیا ۔سنت ایکناتھ مراٹھی کے ایک اہم ترین شاعر تھے ۔ ان کی شاعری اور تعلیمات سے اردو والوں کو روشناس کرانے کا اہم فریضہ بھی شیخ چاند نے انجام دیا۔
جہاں تک جامعاتی تحقیق کا تعلق ہے مہاراشٹر کی گیارہ میں سے آٹھ جامعات میں اردو میں تحقیق کی جا رہی ہے ۔ ان آٹھ جامعات میں سے صرف چار میں باضابطہ شعبۂ اردو قائم ہیں ۔ جو الگ الگ وقتوں میں قائم ہوئے ۔ جن چار جامعات میں باضابطہ شعبہ ٔ اردو قائم نہیں ہیںان میں اردو کی تحقیق کی کمان ان سے ملحقہ کالجوں کے اردو شعبوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ میں نے اپنے اس تحقیقی مقالے کے لیے ان جامعات میں ہوئی تحقیق کے موضوعات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔ میرا یہ جائزہ اس لئے بھی مکمل نہیں ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود مجھے یقین نہیں کہ میں تمام مقالات تک پہنچ سکا ہوں۔ اس سلسلے میںمیرا اہم ماخذ ان جامعات کی ویب سائٹس رہی ہیں جو اپ ڈیٹ نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر مقبول سلیم کی تصنیف ’’ مہاراشٹر میں اردو ریسرچ‘‘ بھی مواد کی فراہمی میں بے حد معاون ثابت ہوئی ۔ ڈاکٹر مقبول سلیم نے یہ تحقیق یو جی سی کے ایک منصوبے کے تحت کی تھی۔ انھوں نے مہاراشٹر کی چھ جامعات سے بڑی عرق ریزی اور تلاش و جستجو کے بعد یہ مواد حاصل کیا اور ہر مقالہ پر مختصر خاکہ اور اپنا تنقیدی تجزیہ بھی شامل کیا ۔ ڈاکٹر مقبول سلیم کی یہ تصنیف مہاراشٹر میں اردو تحقیق کے باب میںایک اہم اور قابل ستائش اقدام ہے ۔ اس اس کتاب میں ۱۹۶۰ء سے لے کر ۲۰۱۵ء تک کے مقالہ جات کی تفصیل ہے جن پر ڈگری تفویض کی جا چکی ہے ۔ پتہ نہیں کن وجوہات کی بناء پر انھوں نے ریاست کی دو اہم جامعات کو نظر انداز کیا ۔ حاصل مواد کی بناء پر ان تحقیقی مقالوں کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے گا ۔
ممبئی یونیورسٹی میں پہلا مقالہ جس پرڈگری تفویض کی گئی ۱۹۶۱ء میں داخل کیا گیا جس کا موضوع علاقائی تھا ۔ ’’ممبئی میں اردو (ابتداء سے ۱۹۱۴ء تک) ’’ یہ مقالہ بغیر کسی نگراں کے داخل کیاگیاتھا اور مقالہ نگار تھیں میمونہ عبدالستار دلوی ۔ممبئی یونیورسٹی میں۲۰۱۷؁ء تک کل ترسٹھ ۶۳؎ مقالوں پر ڈگری تفویض کی گئی جن میں سے ۳۱؎ مقالوں کا موضوع’’فن اور شخصیت‘‘ تھا جو تقریباً ۵۰ فی صد ہوتا ہے ۔ اضاف ادب کے مطالعہ سے متعلق ۱۲؎ مقالے ملتے ہیں جو کل تعداد کا لگ بھگ ۲۰؍ فی صد ہیں جبکہ ۹ مقالے علاقائی ادب سے متعلق ہیں۔ زبان و ادب اور لسانیات کے زمرے میں محض دو۲؎ مقالے ہیں جن میں سے اہم ’’اردو زبان و ادب پر عربی زبان و ادب کا اثرــــــــــــــ؛ ہے جو ڈاکٹر عالی جعفری کی زیر نگرانی میں محمد شفیع شیخ نے ۱۹۸۴ء میں تحریر کیا تھا۔ تین مقالے خالص مذہبی نوعیت کے ہیں اور دو۲؎ متفرق موضوعات پر جبکہ ۶؎ مقالے بین العلومی یا تقابلی مطالعہ کے موضوع پر محیط ہیں ان میں اہم ڈاکٹر یونس اگاسکر کا مقالہ ’’ اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘‘ ہے جو پروفیسر نظام الدین اور گوریکر کی نگرانی میں ۱۹۸۵ میں تحریر کیا گیا۔ اس کے عالوہ اس زمرے میں ’’کرشن چندر اور یشپال کے افسانوں کا تقابلی مطالعہ( عبدالرشید خان۔۱۹۸۶) ’’ اردو خود نوشت سوانح عمریوں میں ہندوستانی سماج اور ثقافت کی عکاسی‘‘ (مولوی شمیم محمد ۔۲۰۰۱) اور ’’ آزادی کے بعد اردو اور ہندی کے ادبی ناولوں کا تقابلی مطالعہ(عبداﷲ امتیاز احمد؍ ڈاکٹر صاحب علی مرحوم ۲۰۱۰ء) اہم ہیں۔
جامعاتی سطح پر تحقیق میں مہاراشٹر میں ناگپور یونیورسٹی کو اس لئے بھی سبقت حاصل ہے کہ یہاں جامعات کی سطح پر اردو میں تحقیقی کام کا آغاز سب سے پہلے ہوا۔ یہاں پہلا مقالہ جس پر ڈگری تفویض کی گئی ۱۹۵۸؁ء میں داخل کیا گیا تھا۔ ۱۹۵۸؁ء سے لے کر ۱۹۷۳؁ء تک تقریبا ۱۵؍ سال کا عرصہ اس جامعہ سے پانچ مقالوں پر بغیر کسی نگراں کے ڈگری تفویض کی گئی۔ حاصل مواد سے پتہ چلتا ہے کہ ناگپور یونیورسٹی میں پہلے گائیڈ ڈاکٹر خوا جہ محمد حامد تھے جن کی زیر نگرانی پہلا مقالہ ۱۹۷۳؁ء میں داخل کیا گیا اسی یونیورسٹی مین داخل کیے گیے پہلے مقالے کا موضوع اصنافی مطالعے کا حامل تھا جو ’’ اردو سفر نامے‘‘ کے زیر عنوان قطب النسا ہاشمی نے تحریر کیا تھا۔ اسی سال امین چند شرما نے بھی ’’ اردو رباعیات کا تاریخی و تنقیدی مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان مقالے پر ڈگری حاصل کی ۔
حاصل مواد کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ناگپور یونیورسٹی میں سب سے زیادہ تحقیقی کام ہوا ہے۔ یہاں کل ۱۱۰ مقالے پیش کئے گئے ۔ لیکن یہاں بھی ’’فن اور شخصیت‘‘ کے زمرے میں سب سے زیادہ یعنی ۶۱ مقالے تحریر کئے گئے ۔ جو کل تعداد کا نصف سے بھی زائد ہوتے ہیں۔ یہاں کے محققین میں تحقیق کا دوسرا محبوب زمرہ اصناف ادب کا مطالعہ ہے جس میں کل ۱۳؍ مقالے تحریر کئے گئے جبکہ تیسرے نمبر پر علاقائی ادب کے موضوعات ٓاتے ہیں جن پرکل ۱۱؍ مقالے لکھے گیے ہیں۔ زبان ادب اور لسانیات کے زمرے میں بھی تین مقالات، متفرق موضوعات پر ۶؎ اور خالص مذہبی موضوع پر ۲؎ مقالے لکھے گئے ۔ بین العلومی اور تقابلی مقالوں کے زمرے میں بھی چار مقالے لکھے گئے۔ جن میں اردو شاعری میں انگریزی اصناف(مہر النساء علی؍۱۹۹۶) قابل ذکر ہیں ۔
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو اگر چیکہ ۱۹۹۸؁ء میں قائم ہوا لیکن یہاں اردو میں تحقیق کا آغاز کافی پہلے ہوگیا تھا۔ عصمت جاوید شیخ یہاں کے پہلے کامیاب مقالہ نگار ہیں جنہیں ۱۹۷۲؁ء میں ’’ اردو میں فارسی کے دخیل الفاظ میں تعرف کا عمل‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر سیّد نعیم الدین کیی زیر نگرانی ڈگری تفویض کی گئی۔ ڈاکٹر سیّد نعیم الدین ہی کی زیر نگرانی پروفیسر عتیق اﷲ نے ’’ جدید یت اور اردو نظم‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ ۱۹۷۶؁ء میں پیش کیا ۔ جبکہ ۱۹۸۰؁ء میں صادق نے ’’ ترقی پسند افسانہ‘‘ کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا۔مہاراشٹر میں ادبی تحریکات کے موضوع پرلکھے جانے والے یہ اولین مقالے ہیں۔ان مقالوں کے بعد بھی ادبی تحریکات اور رجحانات کا موضوع مہاراشٹر کے محققین کے درمیان زیادہ مقبول نہیں رہا۔ ۱۹۷۲تا حال یہاں ۵۵؎ مقالوں کا پتہ چلتا ہے اور ان کے موضوعات کے انتخاب کا رجحان ریاست کی دیگر جامعات سے زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ یہاں بھی ۵۵؎ کے مجملہ ۲۴؎ مقالہ جات شخصیات کے زمرے میں آتے ہیں ۔جبکہ ۱۷ اصناف ادب کے مطالعے کی ذیل میں۔ علاقائی ادب ۶؎ ، لسانیاتی ۲؎ ، مذہبی ۱ اور بین العلومی و تقابلی زمرے میں محض تین مقالے تحریرکئے گئے۔ جن میں قابل ذکر ’’ علی سردار جعفری اور ونداکر ندیکر کے شعری نظریات کا تقابلی مطالعہ ‘‘ (فاروقی فیاض احمد ۲۰۱۲ء ) اور ’’ آگ کا دریا اور اداس نسلیں کا تقابلی مطالعہ‘‘ (شیخ شاہین سلطانہ۔۲۰۱۲ء ) قابل ذکر ہیں۔
سنت گاڑگے بابا امراوتی یونیورسٹی ایسی جامعہ ہے یہاں آج بھی شعبۂ اردو قائم نہیں لیکن اردو تحقیقی سرگرمیوں میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ یہاں ۱۹۸۷ء سے اردو میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ۱۹۸۷ء سے لے کر ۱۹۹۴ء تک یہاں ڈاکٹر محمد سعد اﷲ واحد گائیڈ تھے اور اس عرصے میں انھوں نے کل گیارہ امیدواروں کی نیا پار لگائی ۔ ان گیارہ میں سے ۱۰؎ کے موضوعات اصناف ادب کے مطالعے پر محیط تھے جبکہ صرف ایک مقالے کا موضوع علاقائی ادب کے مطالعے سے متعلق تھا۔ یہاں کل ۶۶؎ مقالوں کا پتہ چلتا ہے اور موضوعات کی سطح پر ایک حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے ملتی ہے۔ دیگر جامعات کی طرح یہاں شخصیت کے زمرے سے زیادہ اصناف ادب کے مطالعے کا رجحان زیادہ مقبول عام ہے ۔ جس کے نتیجے میں کل ۶۶؎ میں سے ۴۴؎ مقالے اصناف ادب کے مطالعے پر تحریر کئے گئے ہیں۔ یہاں دوسرا مقبول زمرہ علاقائی مطالعات کا ہے جس میں ۹؎ مقالے ملتے ہیں جبکہ شخصیت کا زمرہ یہاں اپنی مقبولیت کھوکر تیسرے نمبر پر پہنچ جاتا ہے۔ ایک اور خصوصیت کل ۶۶؎ میں سے ۳۱ مقالات یونی تقریبا نصف مقالہ جات ایک ہی گائیڈ کی زیر نگرانی تحریر کئے گئے ہیں۔
پونہ یونیورسٹی میں اردو کا پہلا تحقیقی مقالہ ۱۹۶۲ء میں برکت رام سونی نے ’’ اردو سماجی ناول کا آغاز و ارتقاء‘‘ کے زیر عنوان بغیر کسی نگراں کے پیش کیا تھا۔ دوسرا مقالہ پورے دس سال بعد ۱۹۷۲ء میں ’’ سیماب اکبر آبادی اور دبستان سیماب‘‘ کے زیر عنوان بغیر کسی نگراں کے افتخار احمد فخر نے پیش کیا جبکہ یہاں پہلے اردو گائیڈ کی موجودگی کا پتہ ہمیں ۱۹۸۲ء میں چلتا ہے ۔جب پروفیسر مجید بیدار ’’دکنی تذکروں‘‘ پر اپنا مقالہ ڈاکٹر امانت شیخ کی نگرانی میں تحریر کرتے ہیں۔ پونہ یونیورسٹی میں کل ۲۸؎ مقالہ جات کا پتہ چلتا ہے۔ موضوعاتی سطح پر یہاں بھی فن اور شخصیت کے حوالے سے ۱۴؎ مقالے، اصناف کے مطالعے پر ۱۰؎، علاقائی ۲؎ اور ادبی و لسانی زمرے میں ۲؎ مقالات داخل کئے گئے ہیںَ
کاویتری بہنا بائی نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی میں اردو تحقیق کا آغاز کافی دیر سے ہوا یہاں پہلا مقالہ جس پر ڈگری عطا کی گئی ۲۰۰۰ء میں پیش کیا گیا۔ ابھی تک جملہ دس مقالے ڈگری کی منزل کو پہنچے ہیں ۔حیرت انگیز طور پر ان ۱۰؎ میں سے ۷؎ کا موضوع اصناف ادب کا مطالعہ ہے ۔ جبکہ ۲؎ خالص مذہبی موضوعات کے حامل ہیں جبکہ محض ایک شخصیات پر تحریر کیا گیا ہے۔
سوامی راما نند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی ناندیڑ بھی یا دم تحریر شعبہ ٔ اردو سے محروم ہے ، یونیورسٹی کے قیام ۱۹۹۵ء ہی سے یہاں اردو تحقیق کا آغاز ہوگیا تھا۔ ابھی تک ۳۶؎ مقالے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ موضوعاتی سطح پر یہاں حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ ۳۶؎ میں سے محض ۹؎ مقالے شخصیت پر ہیں جبکہ اصناف ادب پر ۱۷؎، علاقائی ادب پر ۴؎، مذہبی موضوعات پر ۴؎ اور تقابلی مطالعے ۲؎ شامل ہیں۔
اس مطالعے کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست مہاراشٹر میں اردو تحقیق کی رفتار مناسب اور اطمینان بخش ہے ۔ موضوعاتی سطح پر اس میں بہتری کی گنجائیشیں اور امکانات موجود ہیں۔ بین العلوم اور تقابلی مطالوں کی جانب خصوصیٰ توجہ کی ضرورت ہے۔

Leave a Comment