٭ محمد عامر اقبال
معلم شعبہ اردو،چناب کالج جھنگ،پنجاب،پاکستان۔
Email-amirmphil69@gmail.com
In this essay the poetic traits ( characteristics ) of Mir are shed light on.The riddles of Mir\’s life and the pang of Delhi\’s ruin are the salient features of his poetry.All these elements of Mir\’s poetry are enlightened in this essay.All the poetic verses and miscellaneous books are cited in this essay so that the authenticity of everything could be ascertained.Moreover,other poets who wanted to be like Mir or were inspired by Mir in any way are also refered in this essay.Through this essay the poetic brilliance and the thought process of Mir would come to sight.In the end the bibligraphy and references are also quoted for convenience.
1722ء کا زمانہ، آگرہ کی سرزمین ۔ تاج محل کے نظاروں سے قبل اس سرزمین نے اردو شاعری کے حسین محل کو پروان چڑھایا۔ خدائے سخن میرتقی میر ؔنے اس فضامیں جنم لیا۔ حالات شروع ہی سے سازگار نہ ملے ۔ اپنوں اور غیروں نے دکھ دینے میں برابر کا حصہ ڈالا ۔ غم خوار بھی دشمن جاں ملے تو دکھ کون بانٹتا ۔ اِدھر اُدھر کی خاک چھانی ،عشق مجازی کاعذاب جھیلا اوراپنے دکھوں کو اپنے اشعار میں سمونا شروع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ میرتقی میرؔ کاکلام روایت نہیں بلکہ حکایت ہے۔ میرؔ کامیدان غزل رہا (1 )اور اِس میدان میں کوئی بھی میرؔ ؔ کاہمسر نہ ہوسکا۔ سچائی اورخلوص نے میرؔ کی شاعری کوعظمت اوردائمی زندگی عطا کی۔ میرؔ نے ہر بات عوام کے لہجے میں کہی اوریہی وجہ ہے کہ میر کا دکھ بھی عوام ہی کا دکھ محسوس ہوتاتھا۔ خدا کرے کہ میرؔ کا جنت میں مکان ہو کیونکہ اس نے ہربات ہماری ہی بیان کی ہے۔ میرؔ کے ہاں احساس کی شدت پائی جاتی ہے۔ میرؔ کی شاعری میں تجربے کی گہرائی کو بھی دیکھا جا سکتاہے۔ جو میرؔ ہی کا وصف ہے۔ مشاہدے کی وسعت نے تو میرؔ کو سرتاجِ شعرائے اردو بنادیا۔ مضامین کی جدت سے ہر شخص کا غم میرؔ ہی کے غم میں پوشیدہ دکھائی دیا۔ نشتریت بھی کی مگر زبان کی باوقار شیرینی سے لبوں کی صفت بھی کہہ دی۔ آہنگ میں خوشگوار نرمی تھی تو اس صفت نے سوز و گداز کاتاثر اوربھی گہرا بنا دیا۔ ہرشعر میں درد اور اثر کی دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔
آلام ِروزگار نے خاک چھاننے پر مجبور کیا مگر پھر بھی غم عشق کا پرخلوص بیان میرؔ کی شاعری کا وصف بنا۔ خلوص وصداقت ایسی کہ خود کو شاعر نہ مانتے بلکہ کہتے کہ یہ تودرد اورغم جمع کیے ہیں تو دیوان ہوا۔ اندازخالصتاً خطابیہ تھا۔ لوگوں کو باقاعدہ مخاطب کرتے اورکہتے کہ اگر چلنا ہوتو چمن کو چلوسنتے ہیں کہ وہاں بہار ہے۔ میرؔ کی ادا میں ایسی ندرت تھی کہ تشبیہ اور استعارہ بھی اشعار میں کھیلتے نظر آتے ۔ شام ہی سے دل کابجھا سا رہنا ،گویا کسی مفلس کا چراغ ہونا ۔
٭ پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد
آگے چل کر کلی کا محبوب کی آنکھوں کی نیم خوابی سے کھلنے کافن حاصل کرنا ۔ تشبیہہ اوراستعمارہ کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔ اشاروں سے موسیقیت بھی میرؔ کی
* پی۔ایچ۔ڈی ریسرچ سکالر۔معلم شعبہ اردو،چناب کالج جھنگ
غزل کو خوبصورت بنادیتی ہے ۔
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا (2 )
میرؔ کی شاعری میں الفاظ کی تکرار بھی حسن پیدا کرتی ہے۔
پتہ پتہ ، بوٹا بوٹاحال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سا ر ا جانے ہے (3 )
میرؔ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دو سے زیادہ صدیاں گزر گئیں مگرمیر تقی میرؔ کی عظمت کا ستارہ کل بھی بامِ عروج پر تھا اور آج بھی ان کی شہرت کا چاند نہیں گہنایا۔میرؔ کے غموں کا قصہ ہو تو پارینہ گیامگر آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرؔ نے ہمارا ہی دکھ بیان کیا ہو۔میرؔ کے آلام میں اپنوں کی سازشیں‘طوافِ کوئے جاناں میں قدم قدم پر بلائیں اور پھر ستم ظریفیٔ حالات کی لمبی فہرست نظر سے گزرتی ہے۔دلی سے لکھنؤ پھر لکھنؤ سے دلی اور پھر دوبارہ لکھنؤ کا رُخ کرنا اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ میرؔ کو کسی بھی قدم پر چین نصیب نہ ہوا۔
میرؔ کی زندگی جن دکھوں سے عبارت ہے اس نے ایمانداری‘خلوص اور صداقت سے اپنے غموں کا نقشہ کہیں مختصر بحرمیں اور کہیں لمبی بحروں میں کھینچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے شعراء نے میرؔ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
مرزا محمد رفیع سوداؔ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ میرؔ جیسے استاد شاعر کا سا مقام حاصل کرنا ہو تو پھر میرؔ ہی کی طرح غزل در غزل کا انداز اپنانا ہو گا۔
؎ سودا ؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ ہونا ہے تجکومیر سے استاد کیطرف (4 ) غالبؔ بھی استاد امام بخش ناسخؔ کی اس بات کے قائل تھے کہ جو میرؔ کا معتقِد نہیں وہ خود ہی بے بہرہ ر ہے گا ۔
؎ غالبؔ ! اپنا یہ عقیدہ ہے،بقول ناسخؔ آپ بے بہرہ ہے،جو معتقد میرؔ نہیں (5 )
غالبؔ نے خود سے مخاطب ہو کر یہ بھی کہا کہ تم ہی ریختہ کے استاد نہیں ہو بلکہ تم سے پہلے ایک دور میں میرؔ نامی شاعر بھی گزرا ہے۔
؎ ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو، غالبؔ! کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا (6 )
حسرت موہانیؔ نے میرؔ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ میرے اشعار بھی پرُ درد ہیں مگر میں میرؔ کا سا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں۔
؎ شعر میرے بھی ہیں پُر دردہ ولیکن حسرتؔ میر کا شیوئہ گفتار کہاں سے لائوں(7)
ابنِ انشاء بھی میرؔ کی تعریف میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔آپ تو میرؔ کے لیے جنت میں مکاں کی دعا کرتے تھے۔
؎ اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی (8 )
ان نگارشات سے عیاں ہے کہ غزل کے میدان میں میرؔکے ہم عصروں میں کوئی میرؔ کا ہمسر نہیں۔اور پھر میرؔ کے اندازِ گفتار سے تو ہر شاعر ہی متاثر ہے۔ میرؔ کا کلام روایت نہیں بلکہ حکایت ہے۔روایت تو تقلید ہے اس انداز کی جو رائج تھا۔وہی محبوب کے لب و رخسار کے دل نشیں قصے،وہی محبوب کی ذلفِ گرہ گیر کے لیے آفریں آفریں کی صدائے رندانہ،وہی اندازِ ناز و ادا پر قربان ہونے کا جنونِ دیوانگی۔جبکہ حکایت تو سبق آموز کہانی کا نام ہے۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے میرؔ کو شعرائے اردو کا سرتاج کہا ہے۔(9 )ــــ’’ خدائے ـسخن‘‘ میر تقی میرؔ کے کلام میں وہ عالمگیر حسن پایا جاتا ہے جو کسی بھی وقت اور جگہ کی قید و بند سے آزاد ہے۔میرؔ کی شاعری اس کی دلی کیفیات کی تفسیر و تشریح ہے جو میرؔ کی سادگی، سچائی اور خلوص کی مظہر ہے۔ میرؔ نے ارد گرد کے حالات و واقعات سے جو سبق سیکھا اور جو بھی محسوس کیا اسے نہایت ہی سادگی ،خلوص اور صداقت سے عوام کے سامنے پیش کر دیا۔کہتے ہیں،
؎ مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا (10)
میر نے اپنی دلی کیفیات کا اظہار نہایت ہی خلوص اور صداقت سے کیا ہے گویا اپنی دلی واردات کی تفسیر و تفصیل بغیر کسی عارضی اور فرضی اضافے کے بیان کر دی ہے۔اس طرح میر کی شاعری کا معیار روایتی شاعری کے معیار سے بڑھ کر شہرت کی بلندیوں کو چھو گیا۔
؎ اس پردے میں غمِ دل کہتا ہے میر ؔ اپنا کیا شعر و شاعری ہے یارو شعیارِ عاشق (11 )
میرؔ کے خلوص اور صداقت کا اثر میرؔ کے اسلوب پر بھی دکھائی دیتا ہے۔اس خلوص نے میرؔ کے کلام میں گدازاور سوزکوٹ کوٹ کر بھردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میرؔ کے اشعار زخمی دلوں کواپنی طرف کھینچتے چلے جاتے ہیں۔
؎ کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میرؔ کے کچھ طرز ایسے بھی نہیں ابہام بھی نہیں (12)
میر ؔ قدرت کے حسین مناظر سے دیوانگی کی حد تک متاثر تھے۔وہ کائنات کے ہر ذرے میں حسن تلاش کر لیتے تھے۔یہی تلاشِ حسن ان کی زندگی میں رنگ بھرتی گئی ،اسی کے دم سے وہ شعر کہتے رہے اور صداقت کے روپ میں پر خلوص انداز سے بات بیان کر تے رہے۔ غزل کے اس بادشاہ نے ایسے ایسے مضامین باندھے کہ دوسرا کوئی بھی ان کا مقابل نہ ہو سکا۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے دنیا میں بلند رتبہ ملے۔ کچھ لوگ خدا کی مہربانی سے عمدہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں مگر یہ کامیابی سب کو راس نہیں آتی ۔ کچھ لوگوں میں تکبر پیدا کردیتی ہے۔ اگر ایسی عادت کے مالک افراد کو سرداری یابادشاہت مل جائے تووہ غرور اور تکبر کی بدصفات سے مالا مال ہوجاتے ہیں پھر وہ ظالم بن جاتے ہیں ۔ اور ظالم بھی ایسے کہ ان کی گرفت تپاں سے اپنی ساعدِنازک کو بچانا بھی مشکل ہوجائے ۔ ایسے سردار فصیل قصر کے رخنوں میں بے کسوں کی ہڈیاں بھر لیتے ہیں۔ مگر وہ پھول جاتے ہیں کہ سیل زماں کے ایک ہی تھپڑے کی دیر ہے۔ جب حالات کی زد میں آتے ہیں تو معلوم ہوجاتاہے کہ خدا ہے کہ نہیں ہے پھر جب یہ سردار ، یہ عظیم رتبے والے ،طرے والے اور کلاہ کے وارث، اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیںتو پھر ان کے پیچھے بھی ایسا ہی رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے جیسا کسی غریب آدمی کے مرنے پر ۔ جتنی بھی عظمت مل جائے ۔ مرنے کے بعد سب کے گھرکہرام ضرور مچتاہے۔ جو بھی کسی بلند مقام پر پہنچے اسے غرور اور تکبر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مرنے کے بعد امیر ہو یا غریب سب نے اس رمین کی غذابن جاناہے۔ میر نے ان مضامین کو بھی انتہائی سوز و گداز کے ساتھ باندھا ہے۔ میرؔ نے اپنے سوز و گداز کا اظہار عوامی لب و لہجہ میں کیا ہے۔میرؔ کے اشعار کو خاص لوگ شوق سے پڑھتے تھے مگر میرؔ کا دعویٰ تھا کہ وہ تو عام لوگوں سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میر ؔکا لب و لہجہ خالصتاََ عوامی ہوا کرتا تھا۔
؎شعر میرے ہیں سب خواص پسند پر مجھے گفتگو عوام سے ہے (13)
میرؔ کے کلام میں باتوں کا انداز پایا جاتا ہے۔میرؔ خود بھی اپنی شاعری کو ’’ باتیں کرنا‘‘ کہتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ ۔
’’ میر صاحب شعر کیا کہتے ہیں ،باتیں کرتے ہیں اور شاید اسی لیے وہ اپنے اشعار کو باتیں کہتے ہیں ‘‘(14)
میرؔ کو خطاب ا ور گفتگو کا انداز اچھا لگتا تھا۔وہ کبھی خود سے مخاطب ہو کر باتیں کرتے تھے اور کبھی دوسروں سے۔شاعر خود پر بھی طنز کرتاہے اور پھرنہ صرف معاشرہ پر بلکہ معاشرے کی کہنہ روایات کو بھی نقاد کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔معاشرے کے بارے میں میرؔ کا تجربہ خاصا وسیع تھا اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ میرؔ کا طنز ان کی شخصیت کا عکاس ہے۔میرؔ کی تو پوری زندگی ہی طنز سے عبارت ہے۔
اپنی شاعری کو موثر بنانے کے لیے میرؔ نے تشبیہات اور استعارات کا استعمال بھی فراخ دلی سے کیا ہے۔میرؔ کی استعمال کردہ تشبیہ اور استعارے میں حرکت اور حرارت پائی جاتی ہے۔میرؔ کا استعمال کردہ تشبیہ اور استعارہ کوئی جامد چیز نہیںبلکہ میر ؔنے تو ان سے مختلف کیفیات کی تصویر کھینچی ہے۔محبوب کے نازک لبوں کو پھول کی پنکھڑی سے تشبیہ دینا،محبوب کی قامت کو سرو سے تشبیہ دینا اور پھر محبوب کے لیے اداؤں سے چلتی ہوئی ہرن کا استعارہ ،یہ سب حقیقت ہی تو ہے۔
؎ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے (15)
میرؔ کے نزدیک محبوب کے چہرے کے سامنے تو پریوں کے رخسار بھی ماند پڑ جاتے ہیں ۔میرؔ کو محبوب کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ دلکش نظر آتا تھا۔چکور جو کہ چاند کا شیدائی ہے وہ بھی چاند کی بجائے میرؔ کے محبوب کے چہرے پر اس طرح قربان گیا کہ پھر اس کی محبت میں مبتلا ہوا،اور پھر اس کی محبت سے نجات نہ پا سکا۔
؎ شرمندہ ترے رُخ سے ہے رُخسار پری کا چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا (16)
محبوب کے گیسو اور رخسار ہی میرؔ کی آنکھوں کے سامنے رہتے تھے اس لیے کہتے تھے کہ دیکھتے ہیں یہ کیفیت کب تک طاری رہتی ہے۔
؎ گیسو و رخسارِ یار آنکھوں ہی میں پھرتے ہیں میرؔ یہ لیل و نہار دیکھیے کب تک رہے (17) میرؔ نے جس انداز سے اپنے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے اس سے غزل میں موسیقی کا رنگ بھی ابھر آیا ہے۔میرؔ نے تکرارِ لفظی سے بھی کام لیا ہے اور اپنی شاعری کی رنگین عمارت کو استوار کیا ہے۔
؎ پتّا پتاّ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے (18)
میرؔ نے سادگی اور صداقتِ کلام سے اپنی غزل کو سنوارا،چوٹ کھائے ہوئے دل سے اگرچہ آہ نکلتی ہے مگرمیرؔ کی آہ میں زندگی اپنی پوری رعنائی کے ساتھ نظر آتی ہے۔اس لیے میرؔ کو دنیائے غزل کے تمام شعرا سے افضل کہنابا لکل درست ہو گا۔میرؔ بلا کے حسن پرست تھے۔کائنات کے ہر ذرے میں حسن تلاش کر لیتے تھے۔یہی تلاشِ حسن ان کی زندگی میں رنگ بھرتی رہی اور اس کے دم سے وہ شعر کہتے رہے۔وہ تلاشِ حسن کو ہی کبھی صداقت کے روپ میں ،کبھی محبوب کے روپ میںاور کبھی زندگی کے روپ میں دیکھتے تھے۔وہ بلا کے حساس آدمی تھے۔ان کا اندازِ بیان اگرچہ سوگوارانہ ہے مگر اس میں مایوسی کی بجائے امید کی جھلک نمائیاں ہے۔میرؔ کے یہاں غمِ دوراں اور غمِ جاناں ہم آہنگ نظر آتے ہیںجو صرف میرؔ ہی کا خاصہ ہے۔
میرؔ نے اپنی زندگی میں جو غم اُٹھائے وہ رنگا رنگ صفات لیے عیاں ہوتے ہیں۔کہیں غم پسندی ہے تو کہیں کیف و سرودِ رفتہ،کہیں نشاط انگیزی کا انداز دکھائی دیتا ہے تو کہیں درد مندی ۔جو بھی رنگ ہو مگر کہیں بھی زندگی سے فرار کا عندیہ نہیں دیتے۔میر ؔ کی ان صفات نے میرؔ کے اشعار کو زبانِ زدِ عام بنا دیااور وہ اردو زبان میں ایک روایت کا درجہ پا گئے۔ان اشعار کو میر ؔ کے نشتر بھی کہہ سکتے ہیں۔ان کی تعداد بہتر بتائی جاتی ہے اور وہ اشعار ایک محاورہ بن چکے ہیں۔میر ؔ کی پوری شاعری نشتروں سے لبریز ہے۔میرؔ بھی چونکہ انسان تھے اور غمِ حیات سے جو کچھ انسانی دل پر گزرتی ہے اس کا اظہار میرؔ کے شاعری میں کچھ یوں نظر آتا ہے۔
؎ میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو قشقہ کھینچا دَیر میں بیٹھا،کب کا ترک اسلام کیا (19)
اس شعر میں بطور مسلمان بڑی پستی نظر آتی ہے مگر جب مسلمانوں نے بے شمار دکھ دیے ہوں تو میرؔ جیسا حساس شاعر یہی کہہ سکتا تھا۔ میرؔ کے بہتر نشتر مشہور ہیں جن کی چبھن،کسک،تڑپ،ٹیس اور نشتریت کئی اشعار میں محسوس بھی کی جا سکتی ہے۔
؎ ہم ہوئے،تم ہوئے ،کہ میرؔ ہوئے اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے(20)
میرؔ پر ساری عمر ظلم و جبر کے نشتر چلتے رہے پھر کیسے ممکن تھا کہ میرؔ کا تصورِ غم نشتر سے بچ پاتا۔میرؔ کی جوانی کا عہد رو رو کر کٹا اور پھر پیری میں تو آنکھ ویسے ہی بند ہو جاتی ہے۔میرؔ کوجوانی کا دور بھی تاریک رات ہی لگتا تھا۔میرؔ کے لیے تو زندگی شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہی رہی اس میں کہاں کا سویرا،کہاں کا جالا،کہاں کا نور۔اسی لیے تو میرؔ کے اشعار نشتر بن گئے اور محاورہ بن کر زبانِ زدِ عام پر آ گئے۔
؎عہدِ جوانی رو رو کاٹاپیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا(21)
میرؔ کا ایک اور نشتر دیکھیے کس قدر دکھ لیے ہوئے ہے۔کہتے ہیں۔
؎ سرھانے میر ؔ کے کوئی نہ بولو ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے (22 )
میرؔ نے قفس میں جو طرزِ فغاں ایجاد کی تھی اس پر تو کسی نے کان نہ دھرا یوں وہ آہ و بقا گلشن میں طرزِ بیان ہی بن گئی۔
؎ میں وہ رونے والاجہاں سے چلا ہوں جسے ابر ہر سال روتا رہیگا (23)
میرؔ عشق کے ہاتھوں برباد ہوئے،اس کے ایجاد کرنے والوں کو سخت کافر قرار دیتے رہے۔میرؔ کے قلم سے اشعار نہیں نکلتے تھے بلکہ خونِ جگر کے ٹکڑے قطروں کی شکل میں نکلتے ہیں۔تنِ شاعر میں سیروں خون خشک ہوتا ہے تب کہیں مصرعۂ تر کی صورت نظر آتی ہے۔میرؔ کے نشتروں نے شاعری میں وہ تاثیر پیدا کی جو بعد کے کسی بھی شاعر کو نصیب نہ ہو سکی گویا میرؔ وہ چاند ہے کہ جس کی عظمت تک کوئی بھی چکور پرواز کے ذریعے نہ پہنچ سکا۔میرؔ کا ہر شعر اپنے اندر معانی کا جہان لیے ہوئے ہے۔
میر ؔ کے موضوعات میں اگر دلی کا ذکر نہ ہو توبات مکمل نہ ہو گی۔میرؔ کا زمانہ سیاسی اور معاشرتی طور پر پُر آشوب دور تھا۔ ابدالی اور درانی فاتحین کے حملوں سے اور دلی میں قتلِ عام اور لوٹ مار کی وجہ سے ایک قیامت کا عالَم تھا۔ دلی کی ویرانی اور بربادی پر بہت سے شعرا نے نظمیں اور غزلیں لکھیں جو شہرِ آشوب کہلاتی ہیں۔آشوب کے لغوی معنی ہیں ’’ فتنہ، فساد ‘‘ (24) شاعری کی اصطلاح میں شہرِ آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی شہر کی پریشانی،گردشِ آسمانی اور زمانے کی ناقدری کا بیان ہو۔(25) ۔دلّی کے حالات کی ابتری کے باعث شاعری میں ماحول سے کنارہ کشی اور زندگی کی بے ثباتی کے احساس نے شدت اختیار کر لی،شاعری کے مزاج میں تبدیلی آئی جو مجلسی اور اجتمائی سے زیادہ داخلی اور انفرادی ہو گیا۔1739 ء میں نادر شاہ کا دہلی پر حملہ محض سیاسی تاریخ کا ہی نہیں بَرّ ِ عظیم کے تہذیبی ماحول کا بھی ایک المناک سانحہ تھاجس نے افراد کے جسم و روح پر گہرے اثرات مرتب کیے۔شعرا کے حساس ذہنوں پر اس کے جو نقوش مرتب ہوئے وہ آگے چل کر میرؔ کی غم بسندی کی صورت میں عیاں ہوئے۔یوں شاعری میںالمناک رجحانات اور ظلم و ستم سے آزادی کے جذبات پیدا ہو ئے۔میرؔ نے بھی اپنے کلام میں دہلی کی نوحہ خوانی کی اوردلی کے مرثیے کہے ۔
’’ میر کے کلام میں دہلی کی نوحہ خوانی دوسرے شاعروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ہے۔
میرؔ کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے غزلیں نہیں کہیں ،دل اور دلی کے مرثیے کہے ہیں‘‘(26)
دل کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ:
؎ چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ کہ ہر غنچہ دل پُر آرزو تھا (27)
میرؔنے زندگی کی جس داستان کو موضوعِ سخن بنایا تھا ،اس میں ان کی آپ بیتی شامل تھی جو کہ جگ بیتی تھی۔میرؔ کی داستان درد کی علامات و رموز،اپنے عہد کے جذبات و احساسات کی پوری کیفیت بیان کرتے ہیں۔میر ؔ نے جہاں باغ،گلستان،گلزار،چمن اور آشیاں کا ذکر کیا ہے ایسے لگتا ہے کہ اشاروں اور کنایوں میں ملک ،وطن اور گھر کا ذکر کر رہے ہیں۔
؎ رنگ اُڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا (28)
میرؔ نے چمن کے شاداب گلوں کو لہو سے لبریز قرار دیایہ لہو دلی کے حالات و واقعات ہی کی وجہ سے بہایا گیا ہے۔
؎یہ عیش گہ نہیں ہے یھاں رنگ اور کچھ ہے ہر گل ہے اس چمن میں سا غر بھرا لہو کا (29)
میرؔ نے غارت گروں کو کبھی گل چیں کہا،کبھی ظالموں کو صیاد کہا اور چمن و آشیاں کے باسیوں کو غنچہ،گل،پھول اور بلبل سے تشبیہ دی۔
؎ سن اے بیدرد گلچیں غارتِ گلشن مبارک ہے پہ ٹک گوش مروت جانبِ فریاد بلبل کر (30)
میرؔ نے حالات کی ابتری کے باعث یہ جانا کہ زندگی قید میں ہی بسر ہو ئی ہے۔
؎ چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی (31)
امن و امان کا دور بہار سے کم نہیں ہوتا جبکہ انتشار کا دور اور اضطراب کی کیفیت کو خزاں سمجھنا غلط نہ ہو گا۔
؎ بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی (32)
میرؔ کہتے کہ جلد ہی چمن کی سیر کر لینی چاہیے کیونکہ خزاں سراغ لگائے بیٹھی ہے۔کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اچھا دور روانہ ہونے والا ہے۔حالات خراب ہونے والے ہیں۔اس مضمون کو اپنے اشعار میں باندھتے ہوئے میرؔ نے کہا۔
؎ سیر کر میرؔ چمن کی جلد شتاب ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے (33)
میرؔ نے بہت سوں کو مرتے دیکھا،بہت کے حالات کو بدلتے دیکھا۔کئی امرا کو فراز سے نشیب میں پھسلتے دیکھا۔اس الم کو دلّی کی تباہی سے تعبیر کیا اور کہا۔
؎ گل پھول کوئی کب تک جھڑ جھڑ کے گرتے دیکھے اس باغ میں بہت اب جوں غنچہ میں رُکا ہوں (34)
غزل کو اردو شاعری کی سب سے مقبول اور مستعمل صنفِ سخن سمجھا جاتا ہے۔میرؔ نے اپنے غموں کے اظہار کے لیے اس صنفِ سخن کو اختیار کیا اور اپنے جذبات کو بلا کم و کاست بیان کر دیا۔اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنایا۔
؎ اب شہر ہر طرف سے میدان ہو گیاہے پھیلا تھا اس طرح کا کا ہیکو یاں خرابا (35)
میرؔ نے اپنے دور کے سیاسی اور تہذیبی حالات پر مقابلتََہ بہتر تنقید اور تبصرہ کیا۔دلّی کی طوائف الملوکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے۔
؎ دلّی میں آج بھیکھ بھی ملتی نہیں انہیں تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا (36)
اپنے دور کی بے کسی اور بے چارگی کا نوحہ،گزری ہوئی عظمت و حشمت کا گہرا احساس،مغلوں کی عسکری قوت کا زوال و انحطاط،شاہوں اور امیروں کی نا اہلی اور خود غرضی،نظامِ سلطنت سے ذمہ داروں کی بیگانگی،امن و امان کے فقدان خصوصاََ معاشی بدحالی اور بے چینی کے ساتھ ساتھ مختلف پیشوں اور طبقوں کی زبوں حالی نے میرؔکے لیے موضوعات اور عنوانات کا دائرہ وسیع کر دیا ۔ ایک قطعہ میں ان مضامین کو اس طرح باندھا ہے۔
جس راہ ہو کے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک کافر کا بھی گزار الٔہی ا دھر نہو
یکجا نہ دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ جس میں بجائے نقشِ قدم چشمِ تر نہو
ہر اک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے ہاں ہاں کسو شہید ِ محبت کا سر نہو
چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدانِ عشق ہیں تیرا گزار تاکہ کسو نعش پر نہو
لیکن،عبث نگاہ جہاں کریے اس طرف امکان کیا کہ خون مرے تا کمر نہو(37)
ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔گھر مسمار ہو گئے۔جینا مشکل ہو گیا،ان حالات میں میرؔ نے کہا۔
؎ اب خرابا ہوا جہاں آباد ورنہ ہر اک قدم پہ یہاں گھر تھا (38)
دلّی کے بارے میں میرؔ نے کہا۔
؎ ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں دلّی سے بھی دیار ہوتے ہیں (39)
ایک رباعی میں کہتے ہیں۔
؎ دلّی تھی طلسمات کہ ہر جا گہ میر ان آنکھوں سے ہمنے آہ کیا کیا دیکھا(40)ؔ
میرؔ کے کلیات میں کوئی باقاعدہ شہر آشوب نظر سے نہیں گزرتامگر چند مخمس ہیں جو شہر آشوب کے موضوعات لیے ہوئے ہیں۔بنیادی طور پر وہ لشکر کی ہجو ہیں ،ان میں سپاہیوں کی مفلسی،بھوک اور بے سر و سامانی کا ذکر ہے۔لیکن معاشرے کی اقتصادی بدحالی اور درباری ماحول کی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ان مخّمسوں میں چند بند ایک زوال آمادہ سلطنت کے انتشار اور انحطاط میں امرا و سپاہ کے حالات کا نقشہ کھینچتے ہیں۔
جس کسو کو خدا کرے گمراہ آوے لشکر میں رکھ امید رفاہ
یاں نہ کوئی وزیر ہے نے شاہ جسکو دیکھو سو ہے بحال تباہ
طرفہ مردم ہوئے اکٹھے آہ
فوج میں جس کو دیکھو سو ہے اداس بھوکھ سے عقل گم نہیں ہیں حواس
بیچ کھایا ہے سب نے ساز و لباس چیتھڑوں بن نہیں کسو کے پاس
یعنی حاضر براق ہینگے سپاہ (41)
ایک پوری مخمس میں میرؔ نے کہا۔
زندگانی ہوئی ہے سب پہ وبال کنجڑے چھینکیں ہیں روتے ہیں بقال
پوچھ مت کچھ سپاہیوں کا حال ایک تلوار بیچے ہے اک ڈھال
بادشاہ و وزیر سب قلاش
جبّے والے جو تھے ہوئے ہیں فقیر تن سے ظاہر رگیں ہیں جیسے لکیر
؎؎ ہیں معذّب غرض صغیر و کبیر مکھیاں سی گریں ہزاروں فقیر
دیکھیں ٹکڑا اگر برابر ماش
چار لچّے ہیں مستعدِ کار دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار
ہیں وضیع وشریف سارے خوار لوٹ سے کچھ ہے گرمی بازار
سو بھی قند سیاہ ہے یا ماش (42)
میرؔ نے شہر آشوبوں کے اعتبار سے اپنے زمانے کی سیاسی صورتِ حال کی بہتر انداز میں عکاسی کی،اس طرح واقعات اور حالات کی عام تصویر اصل کے قریب نظر آئی۔قطعات میں بھی ملکی حالات پر مبنی موضوعات نظر آتے ہیں۔ایسے قطعات جو غزل کے ضمن میں آتے ہیں،ان کا مضمون کم و بیش یکساں ہے۔ان میں بھی وہی مضامین ،جن میں زمانے کی شکایت،ملکی حالات کا بیان،معاشی بد حالی اور بے روز گاری کا اظہار نظر آتے ہیں۔میرؔ کا ایک قطعہ ماحول سے پیدا ہونے والے احساس نا پا ئیداری،بے ثباتی اور زمانے کی شکایت اور بے زری کے گِلے کا حامل ہے۔
بے زری کا نہ کر گلہ غافل رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا
اتنے منعم جہان میں گزرے وقتِ رحلت کس کنے زر کا
صاحبِ جاہ و شوکت و اقبال اک ازاں جملہ ایک سکندر تھا
تھی یہ سب کائنات زیر نگیں ساتھ مور و ملخ لشکر تھا
لعل و یا قوت ہم زر و گوہر چاہیے جس قدر میسر تھا
آخرِ کار جب جہاں سے گیا ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا (43)
میرؔ کے ان اشعار سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ دلّی کی بربادی پر کڑھتے تھے اور اپنے اس کرب کا اظہار اپنی شاعری میں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طبیعت میں روانی پائی جاتی تھی۔جیسے برسات کے موسم میں بوچھاڑ ہوتی ہے ویسی ہی اشک فشانی میرؔ کے اشعار میں بھی موجود ہے۔میرؔ کی آنکھ سے بھی مسلسل اشک بہتے تھے جس کی جھلک میرؔ کے اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
میرؔ کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے بارے میں لکھ کر دفتر کے دفتر بھر دیے گئے مگر افسوس کہ زندگی میں کسی نے بھی میرؔ کی قدر نہ جانی۔اگرچہ شاعروں کو اپنی ناقدری کا گلہ زمانے سے ہمیشہ ہی رہا اور غالبؔ کا گلہ تو جھنجھلاہٹ کی حد تک پہنچا ہوا تھا اور یہاں تک کہاکہ۔
؎ نہ ستایش کی تمنا، نہ صلے کی پروا گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی ،نہ سہی (44)
میرؔ کو بھی اپنی ناقدری کا گلہ رہا۔میرؔ کے اشعار میں دریا کی سی وسعت اور گہرائی ہے۔میرؔ کا ہر شعر دل سے نکلتا تھا اور سیدھا دل پر اثر کرتا ہے۔میرؔ کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے۔میرؔ کی شاعری پر حالات کی ریشہ دوانیوں اور تلخئی ایام کاشدید اثر تھا۔میرؔ کی شاعری ان کی زندگی کی کہانی اور ان کی غزلیں ان کی آپ بیتی ہے۔میرؔ نے کرب ناک انداز میں اپنی درد بھری داستانِ حیات سنائی مگر افسوس زمانے نے میرؔ کی طرف غور نہ کیا۔میرؔ اس قدر حساس تھے کہ ذرا سی ٹھیس لگنے پر آبلے کی طرح پھوٹ بہتے تھے۔
20 ستمبر 1810ء کو لکھنؤ میں وفات پا جانے والے میرؔ کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ۔
؎ اب گئے اس کے جُز افسوس نہیں کچھ حاصل حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی (45)
حوالہ جات
( 1) انور سدید،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر تاریخ(لاہور۔عزیز بک ڈپو)طبع سوم 1997 صفحہ153
( 2)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،مقدمہ،عبدالباری آسی (لاہور۔سنگِ میل پبلیکیشنز )1999 ء دیوانِ اول صفحہ4
(3 )ـ میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوان پنجم، صفحہ 606
( 4) مرزا محمد رفیع سوداؔ،کلیاتِ سودا،مکمل( لاہور۔سنگِ میل پبلیکیشنز) 2006 ء صفحہ 84
(5 ) اسد اللہ غالب،دیوانِ غالب،نادر ٗ نفیس اور معتبر جرمن ایڈیشن،ترجمہ ٗ پیش لفظ،ڈاکٹر سید معین الرحمٰن( لاہور۔کلاسک 42۔دی مال) جنوری 2001ء صفحہ 92
(6 ) اسد اللہ غالب،دیوانِ غالب ،صفحہ 41
(7 ) حسرت ؔ موہانی،کلیاتِ حسرت،مرتبہ،مرحومہ بیگم حسرتؔ موہانی( لاہور۔علی ھجویری پبلشرز) س ن ،صفحہ 107
(8 )ابنِ انشا، چاند نگر( لاہور۔لاہور اکیڈمی۲۰۵ سرکلر روڈ)طبع پنجم1978ء صفحہ 89
( 9)محمد حیات خان سیال،پروفیسر،شمیم اختر سیال،پروفیسر،ہمارے نثر نگار اور شاعر ( لاہور۔الائیڈ بک سنٹراردو بازار)نیا ایڈیشن 2011-12 صفحہ 94
(10 )میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،مقدمہ،عبدالباری آسی (لاہور۔سنگِ میل پبلیکیشنز )1999 ء د یوانِ سوم صفحہ370
(11) ــــ میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،دیوانِ دوم، صفحہ 279
(12) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،دیوانِ دوم، صفحہ 293
(13) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،دیوانِ دوم، صفحہ 367
(14)ناصر کاظمی،خشک چشمے کے کنارے،مضمون،میر ہمارے عہد میں(لاہور۔مکتبۂ خیال) دوسری باراپریل 1986ء صفحہ 100
(15) میر تقی میرؔ، کلیاتِ میر ،دیوانِ اول ،صفحہ 158
(16)میر تقی میرؔ، کلیاتِ میر ،دیوانِ اول ،صفحہ 6
(17) میر تقی میرؔ، کلیاتِ میر ،دیوان ششم،صفحہ 676
(18) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوان پنجم، صفحہ 606
(19) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول ،صفحہ4
(20) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،دیوانِ اول ،صفحہ 172
(21) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول ،صفحہ4
(22) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول، صفحہ 207
(23) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،دیوانِ اول، صفحہ 48
(24) وارث سرہندی،علمی اردو لغت جامع ( لاہور۔علمی کتاب خانہ)طبع 2014 ء صفحہ 20
(25)علی محمد خان ،ڈاکٹر،اصنافِ نظم و نثر (لاہور۔الفیصل ناشران و تاجرانِ )اپریل 2014ء صفحہ 91
(26) معین الدّین عقیل،ڈاکٹر،تحریکِ آزادی میں اردو کا حصہ ( لاہور۔مجلس ترقی ادب) 2008ء صفحہ 84
(27) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 29
(28)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 30
(29) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 36
(30) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 66
(31) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 145
(32)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ148
(33)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 158
(34)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ دوم،صفحہ299
(35) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 25
(36)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ 34
(37)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ127
(38)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ42
(39)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ103
(40) میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، رباعیات،صفحہ704
(41)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، مخمّس دیگر در ہجوِ لشکر،صفحہ806
(42)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، مخمّس در حال لشکر،صفحہ952
(43)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ اول،صفحہ43
(44)اسد اللہ غالب،دیوانِ غالب، صفحہ172
(45)میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر، دیوانِ دوم،صفحہ 325
کتابیات
ٌ ابنِ انشا، چاند نگر( لاہور۔لاہور اکیڈمی۲۰۵ سرکلر روڈ)طبع پنجم1978ء
ٌ اسد اللہ غالب،دیوانِ غالب،نادر ٗ نفیس اور معتبر جرمن ایڈیشن،ترجمہ ٗ ڈاکٹر سید معین الرحمٰن ( لاہور۔کلاسک 42۔دی مال)جنوری 2001ء
ٌ ٌ انور سدید،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر تاریخ(لاہور۔عزیز بک ڈپو)طبع سوم 1997ء
ٌ حسرت ؔ موہانی،کلیاتِ حسرت،مرتبہ،مرحومہ بیگم حسرتؔ موہانی( لاہور۔علی ھجویری پبلشرز)س ن
ٌ علی محمد خان ،ڈاکٹر،اصنافِ نظم و نثر (لاہور۔الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب)اپریل 2014ء
ٌمحمد حیات خان سیال،پروفیسر،شمیم اختر سیال،پروفیسر،ہمارے نثر نگار اور شاعر ( لاہور۔الائیڈ بک سنٹراردو بازار)نیا ایڈیشن 2011-12
ٌ مرزا محمد رفیع سوداؔ،کلیاتِ سودا،مکمل( لاہور۔سنگِ میل پبلیکیشنز) 2006 ء
ٌ معین الدّین عقیل،ڈاکٹر،تحریکِ آزادی میں اردو کا حصہ ( لاہور۔مجلس ترقی ادب)2008ء
ٌ میر تقی میرؔ،کلیاتِ میر،مقدمہ،عبدالباری آسی (لاہور۔سنگِ میل پبلیکیشنز )1999 ء
ٌ ناصر کاظمی،خشک چشمے کے کنارے،مضمون،میر ہمارے عہد میں(لاہور۔مکتبۂ خیال) دوسری باراپریل 1986ء
ٌ وارث سرہندی،علمی اردو لغت جامع ( لاہور۔علمی کتاب خانہ)طبع 2014 ء
٭ محمد عامر اقبال ،معلم شعبہ اردو،چناب کالج جھنگ،پنجاب،پاکستان (923015516347+) amirmphil69@gmail.com