میں اکیلی ہی چلی تھی۔۔۔۔

\"\"
علم و ادب کا گہوارہ اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے مذہبی گھرانے میں جنمی لڑکی جہاں خط و کتابت سے زیادہ کتابوں سے دوستی گناہ کبیرہ کے متبادل سمجھا جاتا تھا ،جہاں لڑکیوں کی دنیا گھر کی چہاردیواری کے اندر ،جہاں زندگی کی ابتدأ ماں باپ کے گھر اور موت سسرال……… جن کی سوچ اور دنیا ایک گھر سے دوسرے گھر کا سفر طے کرنے تک محدود ……یہ کوئی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ پورے معاشرے میں جنمی، پلی ہر گھر کی ہر لڑکی کی کہانی ہے ……. ایسے کٹر ماحول کی زنجیروں کو توڑ کر اپنے خوابوں کو پورا کرنے والی ،علم و ادب کی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے کی خواہش رکھنے اوراس راہ میں سرگرم عمل رہنے والی لڑکی صالحہ صدیقی کی کہانی ہے ،جنھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسۃ البنات منگراواں اعظم گڑھ میں حاصل کیں،اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ الہٰ آباد آگئی جہاں انھوں نے انٹر میڈیٹ کے بعد الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی۔اے اور ایم ۔اے کی تعلیم حاصل کی ساتھ ہی راشین لینگویج سے ڈپلوما بھی کیا ۔جس کے بعد جے ۔آر ۔ایف جیسے مشکل امتحان کو پاس کر دہلی آگئی ،آج صالحہ صدیقی جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی سے پروفیسر وجیہ الدین، شہپر رسول کی نگرانی میں ’’اقبال کی اردو شاعری میں ڈرامائی عناصر ‘‘ پر اپنے پی۔ایچ ۔ڈی کا کام انجام دے رہی ہے۔
پی ایچ ڈی کے علاوہ ان کی دیگر مصروفیات بھی قابل دید ہے ،صالحہ صدیقی کے بے شمار مضامین اب تک اردو ہے ہی نہیںبلکہ ہندی میں بھی رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں ،وہ نہ صرف مضمون بلکہ فکشن میں بھی دست آزمائی کرتی رہتی ہے ان کے افسانے ،ڈرامے ،بچوں کی کہانیاں اور ان پر مضامین بھی لکھتی ہیں ۔ ان کا ڈراما’’ علامہ‘‘ جو بہت مقبول ہوا ،اس ڈرامے کے سلسلے میں حقانی القاسمی صاحب لکھتے ہیں ’’ صالحہ صدیقی نے ڈرامہ کے فنی لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر ڈرامہ لکھا ہے جس پر اس سے پہلے کوئی ڈرامہ تخلیق یا تشکیل نہیں دیا گیا ۔ایک نئی جہت کی جستجو ،صالحہ صدیقی کی ذکاوت کی دلیل ہے ۔‘‘اسی طرح فکشن کی دنیا کی نامور ہستی پروفیسر خالد جاوید لکھتے ہیں ’’اس ڈرامے سے صالحہ صدیقی کی تخلیقی صلاحیتوں کا حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے ۔‘‘
اس ڈرامے کے علاوہ صالحہ صدیقی کی مشہور تصانیف میں اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں ،ضیائے اردو ،سورج ڈوب گیا ،نیاز نامہ قابل ذکر ہیں ۔ ڈراما ’’علامہ ‘‘ہندی ترجمہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔صالحہ صدیقی کی کتابوں اور ان کی ادبی خدمات کے لیے کئی انعامات سے نوازا جا چکا ہے ،ان کی کتاب ڈراما ’’علامہ‘‘ اور ’’نیاز نامہ ‘‘ کے لیے اتر پردیش اردو اکیڈمی کی طرف سے انعام دیا گیا ،اس کے علاوہ احمد نگر ضلع اردو ساہتیہ پریشد نے انھیں ’’اردو خدمت گار ایوارڈ ‘‘ ہلپ کیئر فاؤنڈیشن نے انھیں ’’جہانگیر لٹریری ایوارڈ ‘‘ سے نوازا۔صالحہ صدیقی ’’ضیائے حق فاؤنڈیشن ‘‘کی چیئر مین ہے ۔اس فاونڈیشن کا مقصدلڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور اردو زبان کو فروغ دینا ہے۔اس کے علاوہ وہ کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہے ۔وہ مختلف ادبی پروگراموںاورسرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں ۔
آج ان کے جیسی لڑکیاں معاشرے میں تبدیلی کا باعث بن رہی ہے ،صالحہ صدیقی نے جس بندش کو توڑ کر علم حاصل کرنے کی راہ چنی تھی آج اسی روشنی میں ان کے گاؤں میں بہت سی صالحہ سامنے آئی ہیں ۔ہمیں اس طرح کی بچیوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ ان کی مدد بھی کرنی چاہیے۔ تبھی ہم صحیح معنوں میں سماج اور معاشرے میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔پنڈت نہرو نے کہاتھا ’’ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے لیکن ایک عورت کی تعلیم پورے نسل کی تعلیم ہے ‘‘ اسی لیے اگر ہمیں ابھی آنے والی نسلوں کو سنوارنا ہے تو اپنی بچیوں کو پڑھانا ہوگا ۔سہ ماہی عالمی اردو ادب صالحہ صدیقی کو مبارکباد پیش کرتا ہے اور ان کے روشن مستقبل کے لیے دعا کرتی ہے ۔

صالحہ صدیقی
(رسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی)

Email- salehasiddiquin@gmail.com

Leave a Comment