ٌمحمد نصیر الدین
سکریٹری حج سوسائٹی، نظام آباد
Mobile: 9440603210
mohd.naseer41@gmail.com
حکومت ہند نے اگلے پانچ سالوں 2018 تا 2022کیلئے حج سے متعلق امور کے بارے میں ایک نئی پالیسی وضع کر نے کی خاطر ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ عازمین حج کو بہتر سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اس کمیٹی نے گذشتہ دنوں اپنی رپورٹ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور جناب عباس نقوی کو پیش کر دی ہے۔ لیکن اس کمیٹی کی سفارشات نہ صرف شریعت میں صریح مداخلت ہیں بلکہ یہ عازمین حج کی خدمات کو بہتر بنا نے کے بجا ئے ان کیلئے مصیبت اور پریشانی کا سامان لے آئی ہیں ۔ اس کمیٹی کی یہ سفارش کہ 45سال سے کم عمر کی خواتین کیلئے ہی محرم کی شرط ہو اور
45سال سے زائد عمر کی خواتین بغیر محرم کے گروپ کی شکل میں حج کیلئے جا سکیں گی۔ شرعی اعتبار سے بالکل یہ غلط اور پرسنل لا میں مداخلت کی ایک اور مدموم کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔ بلکہ اس سفارش کے ذریعہ کمیٹی نے عازمین حج کے لگیج میں چپکے سے مسلک کی چھری کا اضافہ کر دیا ہے تاکہ ملت کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا عمل تیز تر ہو جا ئے۔ اب حج کے فارم میں مسلک کا خانہ ہو گا جس میں عازمین حج کو واضح کر نا ہو گا کہ وہ حنفی ہے، شافعی ہے یا حنبلی کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ ویسے بھی پہلے ہی سے جحفہ کے نام پر شیعہ حضرات کیلئے فارم میں ایک کالم موجود ہے۔ اس سفارش میں سازش کا پہلو س لئے بھی جھلکتا ہے کہ ڈی ڈی نیوز نے دوسرے ہی دن اس مسئلہ پر فوراً مباحثہ کا اہتمام کر دیا اور نام نہاد ترقی پسند خواتین نے سفارشات کی تعریف میں زمین آسمان کے قلا بے ملا دیئے اور عورتوں کو با اختیار بنا نے کی طرف اسے ایک اور قدم قرار دیا ۔ مرکزی وزیر جناب عباس مختار نقوی نے
بھی صاف طور پر کہہ دیا کہ45سال سے زائد عمر کی خواتین کو محرم کے بغیر سفر کی اجازت سے خواتین کو بھی مردوں کے مطالق مساویانہ حقوق دینے سے متعلق مودی حکومت کے سیاسی عزم و عہد کا اظہار ہو تا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلاق ثلاثہ پر حکومت کے موقف کی طرح یہ فیصلہ بھی ہندوستانی
سماج میں مسلمانوں کی بدلتی ہوئی ہیت و نوعیت کی توثیق ہے۔ ہم نے امتناع ہٹا دیا اور اب یہ مسلم برادری پر منحصرہیکہ وہ اصلاحات پر کام کریں۔
معزز وزیر نے ا س کمیٹی میں علمائے دین کے شامل رہنے کی بات بھی کہی ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی بھی عالم دین شامل نہیں ہے۔ یہ کمیٹی پانچ
ارکان افضل امان اللہ، شفیع پرکار، قیصر شمیم، کمال فاروقی اور جے عالم پر مشتمل تھی اور یقینا ان میں کوئی بھی عالم نہیں ہے ۔ ہاں البتہ تعجب اس بات پر ضرور ہے کہ کمال فاروقی جو مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر ہیں وہ اس کمیٹی میں شامل تھے انہوں نے اس سفارش کو کیسے مان لیا۔ مولانا خلیل الرحمن سجاد ندوی ترجمان مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملک کے دیگر علماء اکرام نے اس کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ حج ایکٹ 2002ء کے مطابق حج کمیٹی کا کام حاجیوں کیلئے سفر کے انتظامات ، زر مبادلہ کی فراہمی ، ٹریننگ، ٹیکہ اندازی ،اور ان کیلئے سہولتیں فراہم کر نا ہے۔ حج اور عمرہ کا طریقہ کیا ہو کس مسلک کے تحت ہو یہ حج کمیٹی کی ذمہ داری نہیں۔ لہذا خواتین کوبااختیار بنا نے کے نام پر بغیر محرم کے سفر کی اجازت حج کمیٹی کے فرائض میں نہیں۔ اب اسطرح
مسا وات کے نام پر اگر مداخلت کا دروازہ کھل جا تا ہے تو پھر کل کے دن یہ بھی طئے ہو گا کہ محرم کون ہو اور کون نہیں۔ عورت بھی امامت کیوں نہ کرے، حالت چاہے کیسی ہو مسجد حرم میں کیوں نہ جا ئے، طواف کیوں نہ کرے،اس کیلئے علحدہ کوٹہ کیوں نہ ہو، ریزرویشن کیوں نہیں، اس لئے قبلہ بدلنے کی ان کوششوں پر لگام لگنی چاہئے۔ بہتر ہے حج کمیٹی اپنے آپ کو انتظامات تک محدود رکھے اورکوئی نئی شریعت وضع کر نے کی کوشش نہ کرے۔
اس کمیٹی نے اپنی ایک سفارش کے ذریعہ چوتھی بار کے درخواست گذار اور 70سال سے زائد عمر کے عازمین کے بنا قرعہ انتخاب کو یکسر ختم کر دیا۔ اس سے یہ تمام عازمین حج جن کا انتخاب طئے تھا سخت مایوسی کا شکار ہو گئے۔ ان دو کیٹگری کے عازمین سے اس سے بد تر نا انصافی ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ سب اپنے آ پ کو اس اعتبار سے خوش نصیب سمجھ رہے تھے کہ کم از کم اس سال ان کا انتخاب یقینی ہے ۔ لیکن کمیٹی کی سفارش نے انہیں بے حد مایوس کر دیا۔ اب خا ص کر معمر حضرات یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ آیا انہیں حج نصیب بھی ہو گا کہ نہیں۔
اس کمیٹی کی سفارشات میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز پر مہربانی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ عازمین حج کیلئے ایک لاکھ ستر ہزار کا کوٹہ پہلے ہی سے کم ہے گذشتہ سال تک اس میں سے 45ہزار نشستیں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو مختص کی جا تی رہی ہیں۔ اصولاً اسی پرائیویٹ کوٹہ میں کمی کر کے حج کمیٹی کے
کوٹہ میں اضافہ کر نا چاہئے تھا لیکن اپنی سفارش کے ذریعہ کمیٹی نے 70:30کی نسبت سے پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو 30%کوٹہ مختص کر نے کی سفارش ہے۔ اس کا مطلب سیدھے ان کیلئے 51ہزار نشستیں حوالے کرنا ہے اس طرح سابق کے مقابلہ میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے کوٹہ میں 6ہزار نشستوں کا اضافہ ہو جا ئیگا جو حج کمیٹی کے ذریعہ سے روانہ ہو ئے عازمین کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ کمیٹی نے اپنی ایک سفارش کے ذریعہ ایمبارکیشن پوائنٹس کی تعداد کو گھٹا کر صرف 9تک محدود کر نے کی بات کہی ہے۔ ان 9مراکز میں دہلی، لکھنو، کولکتہ ، احمد آباد، ممبئی، چینائی، حیدر آباد، بنگلور ، اور کوچین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ باقی ایر پورٹس سے حج کی فلائیٹس کو بند کر دینے کی سفارش کی گئی ہے نتیجہ میں وجئے واڑہ، سرینگر ، احمد آباد ، پٹنہ ، گوہاٹی جیسے
ایر پورٹس سے حج کی فلائیٹس ممکن نہ ہو سکیں گی۔ کمیٹی کی یہ سفارش بھی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کے مترادف ہے۔ ایمبارکیشن پوائنٹس میں اضافہ کر نے کے بجائے ان میں کمی کرنا یقینا عازمین حج کیلئے بڑی پریشانی کا باعث ہے مثلاً2018ء میں وجئے واڑہ سے حج فلائٹس کا آغاز طئے کیا گیا تھا۔ لیکن اب تلنگانہ حج کمیٹی کو آندھرا کے عازمین کیلئے بھی خدمات فراہم کر نی ہوں گی۔ گذشتہ سال ہی تا ل میل میں کمی کے باعث تلنگانہ اور آندھرا کی حج کمیٹیوں کو اس مسئلہ پر بات چیت کرنی پڑی تھی۔ اور اگر ایسے میں مرکزی حج کمیٹی دیگر ریاستوں کے عازمین کو اپنی مرضی سے ایمبارکشن پوائنٹ الاٹ کر تی ہے تو اس سے نہ صرف عازمین حج کو پریشانی ہو گی بلکہ متعلقہ ریاست کیلئے بھی اخراجات سے متعلق مسائل کھڑے ہو جا ئیں گے۔ در اصل یہاں بھی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ایر انڈیا کو خانگیانہ پرسنگین نتائج لاحق ہو نے کا ذکر کر کے اس بات کا اشارہ دے دیا کہ ایر انڈیا کو خانگی اداروں کے
حوالہ کر نے کا پلان زیر غور ہے۔
اس کمیٹی نے مشورہ دیا ہیکہ بحری جہازوں کے ذریعہ عازمین حج کو جدہ پہنچا نے کیلئے پیش رفت کی جا سکتی ہے لیکن اس نے ایک طرف یمن کے حالات اور صومالی قزاقوں کے حملوں کو بنیاد بنا کر عازمین حج کی حفاظت و صیا نت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ مشورہ بھی دیا کہ حج ایکٹ 2002ء میں ترمیم کے ذریعہ عمرہ کے ساتھ ساتھ شام، ایران، عراق،اور اُردن کے مقدس مقامات کی زیارت کو شامل کیا جا ئے۔ یہاں پہلی بات تو یہ ہیکہ حج کمیٹی سے حج کے امور ہی نہیں سنبھلتے اور اگر اس میں عمرہ اور دیگر ملکوں کی زیارت کو شامل کر لیا جا ئے تو کیا یہ آسان
کا م ہو گا۔ ویسے بھی شام اور عراق کے حالات سب کے سامنے ہیں کیا وہاں جا نے پرعازمین کیلئے حفاظت اور صیانت کے مسئلے پیدا نہیں ہو ں گے۔ در اصل اس زیارت کے پیچھے بھی ایک مخصوص ذہن کار فرما ہے۔
کمیٹی نے حقیقت میں سطحی معاملات میں سفارشات پیش کر کے اپنے اصل فرائض سے پہلو تہی کی ہے۔ عازمین حج کی جانب سے درخواست داخل کئے جا نے سے لیکر ان کی واپسی تک کے تمام مسائل کا جائزہ لیا جا نا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کمیٹی نے اس کی سفارش کی کہ مکہ اور مدینہ میں حاجیوں کی رہائش گاہوں میں بکٹ، مگ، وائپر، جھاڑو، لوٹا، بیڈ شیٹ ، تکیہ کا غلاف قونصل جنرل آف انڈیا نہ خریدے بلکہ یہ ساری چیزیں فراہم کر نے کیلئے مالک مکان سے ہی معاہدہ کیا جانا چاہئے لیکن کمیٹی نے عازمین کے انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کی۔
ہر سال درخواستوں کے ادخال کے ذریعہ حج کمیٹی فی کس 300روپئے وصول ہو تی ہے اور تقریباً 5لاکھ درخواست گذار وں سے اس طرح حج کمیٹی کو تقریباً 15کروڑ روپئے کی خطیررقم وصول ہو تی ہے۔ اور ہر سال پھر سے رجسٹریشن کروانا پڑ تا ہے جبکہ صرف ایک بار کا رجسٹریشن کا فی ہو نا چاہئے۔
جب رجسٹریشن آئن لائن کیا جا رہا ہے تو پھر درخواست گذار کوکوئی ایک نمبر کیوں نہیں الاٹ کیا جا سکتا پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر اگر سیناریٹی طئے کر دی جا ئے پھر ہرسال رجسٹریشن اور قرعہ کا مسئلہ بھی ختم ہو جا ئے گا اور سینیاریٹی کی بنیاد پر ہر درخواست گذار کو اس بات کا اندازہ ہو جا ئے گا س کا انتخاب
کب تک ممکن ہو پائیگا۔ اس طرح بار بار فارم کا ادخال اور پیسے کا اتلاف دونوں سے بچا جا سکتا ہے۔
اس کمیٹی نے حج سبسیڈی کو ختم کر نے کے عمل کو جاری رکھنے کی سفارش کی ہے۔ حج سبسیڈی سوائے ایر انڈیا کا خزانہ بھر نے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اگر حکومت ہند گلوبل ٹنڈر ز طلب کر تی ہے تو کرایہ بے انتہا کم ہو سکتا ہے۔ آج بھی 50،55ہزار میں رہائش طعام اور آنے جانے کی تمام سہولتوں کے ساتھ 15دن کا عمرہ ہو سکتا ہے تو پھر ایر انڈیا کرایہ کے نام کیسے 60ہزار روپئے وصول کر تا ہے۔ حالانکہ اتنی بڑی تعداد میں کسی بھی ایر لائنس کو مسافرین دستیاب نہیں ہو تے۔ ایر فلائٹس کا واپسی میں خالی آ نے کا بہانہ بھی وزن نہیں رکھتا کیوں کہ عام طور پر کسی بھی کمرشیل فلائٹ میں 100% Occupancyنہیں ہو تی۔ ویسے ایر لائنس ایڈوانس میں ٹکٹ بک کر وانے پراور بڑے گروپس ہوں تو پر کشش ڈسکاؤنٹ دیتی ہیں۔ لیکن حاجیوں
کو ان تمام سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
کمیٹی نے اس بات کو بھی نظر انداز کر دیا ہیکہ عازمین حج کی خدمت صرف مرکزی حج کمیٹی یا ریاستی حج کمیٹی کے بس کی بات نہیں۔ زمینی سطح پر ہر ضلع میں حج سوسائٹیز ریاستی حج کمیٹی کی رہنمائی میں رضاکارانہ طور پر کام انجام دیتی ہیں ۔ آن لائن فارم داخل کر نے، رقم ادا کرنے، تربیتی اجتماعات اور روانگی و واپسی تک کے کام کی رہنمائی حج سوسائٹیز مفت انجام دیتی ہے۔ لیکن حج ایکٹ 2002ء جہاں مرکزی حج کمیٹی اور ریاستی حج کمیٹی کی تشکیل کا طریقہ کار موجود ہے ایسا ضلع کی سطح پر کسی کمیٹی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے بہتر تھا کمیٹی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعہ ضلع کمیٹیوں کی
تشکیل کی بھی گنجائش فراہم کر تی۔
کمیٹی نے قربانی کی رقم ایڈوانس میں ادا کر نے کو لازمی کر دیا ہے لیکن اس سے قبل اس قسم کی کوششیں نا کام ثابت ہوئی۔ کمیٹی نے منی اور عرفات میں معلم کی جانب سے طعام فراہم کر نے پر معیار کی برقراری کا ذکر تو کیا لیکن عازمین حج کو مکہ یا مدینہ میںحج کمیٹی کی جانب سے طعام کی فراہمی کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کی۔ اس سے قبل مدینہ منورہ میں حج کمیٹی کی جانب سے غلط کیٹرر کا انتخاب طعام کی فراہمی کو نا کام کر نے کے باعث بنا تھا۔ لیکن اس سمت میں اقدامات کئے جا ئے تو عازمین کیلئے بڑی راحت ہو سکتی ہے۔ حیدر آباد نظام رباط میں تقریباً 1260عازمین کا
مفت قیام و طعام حاجیوں کو سہولتیں پہنچا نے کی بہترین مثال ہے۔ کمیٹی کو اس سلسلہ میں سفارش کر نی چاہئے تھی تا کہ حاجیوں کی بہتر انداز میں خدمت ہو سکے۔ اُمید کہ ان سفارشات پر کوئی قطعی فیصلہ کر نے سے قبل حکومت ہند اور معزز وزیر برائے اقلیتی امور جناب مختار عباس نقوی ان تمام نکات پر
مثبت انداز میں غور فرمائیں گے اور حاجیوں کیلئے راحت رسانی کا باعث بنیں گے۔