معروف صحافی معصوم مرادآبادی کی مرتب کردہ کتاب کی رسم اجراء میں مختلف شخصیات کی شرکت
نئی دہلی
معروف اور بزرگ صحافی کلدیپ نیر نے کہا ہے کہ ہندوستان پر یہ دور بہت مشکل ہے کیونکہ اس وقت لبرل آوازیں خاموش ہیں۔وہ آج یہاں مرحوم جاوید حبیب کی حیات وخدمات پر معروف صحافی معصوم مرادآبادی کی مرتب کردہ کتاب ’جاوید حبیب ہجوم سے تنہائی تک‘کی رسم اجرا کے بعد خطاب کر رہے تھے۔اس تقریب کی صدارت پروفیسر شمیم حنفی نے کی اور مہمان خصوصی کے طورپر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر سراج الدین قریشی شریک ہوئے۔سینئر خاتون صحافی نینا ویاس نے بھی اس موقع پر جاوید حبیب کے تعلق سے کچھ واقعات بیان کئے۔کلدیپ نیرنے کہا کہ جاوید حبیب مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری ہندوستانی قوم کے لئے فکر مند رہتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ جاوید حبیب کو مختلف وزراء اعظم نے راجیہ سبھا کی ممبری اوردوسرے عہدوں کی پیش کش کی لیکن انہوں نے کبھی اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح نہیں دی۔کلدیپ نیر نے تقسیم وطن کے بعض واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس مسموم فضا میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہم ربط کی قابل رشک مثالیں نمودار ہوئیں ۔انہوں نے کہا کہ مرحوم جاوید حبیب اسی نسل کی نمائندگی کرتے تھے۔انہوں نے سیکولر طاقتوں پر زور دیا کہ وہ کسی ایک لیڈر پر انحصار کے بجائے ایک نیا متبادل جلد سامنے لانے کی کوشش کریں، بصورت دیگر منفی ووٹوں کی انتخابی سیاست ملک کے لئے مضرت رساں ثابت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بدلے ہوئے حالات میں ناگزیر ہوگیا ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں کی لبرل آوازیں بلند ہوں تاکہ اس ہندستان کی بازیابی عمل میں آسکے جس میں آزادی کے بعد کسی اکثریت کا نہیں آئین کا راج قائم کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے قرآن، بائبل اور گیتا کی جو محفلیں آراستہ کی تھیں وہی اس ملک کی اصل وراثت ہیں جن کی بازیابی کے لئے لبرل قوتوں کو عملاً سرگرم ہو نا ہوگا۔
مشہور زمانہ ہفت روزہ ہجوم اور جاوید حبیب کو لازم و ملزوم قراردیتے ہوئے مسٹر نیئر نے کہا کہ آج ایک بار پھر مرحوم کی طرح اپنے عہد کی پاسداری کرنے والے جیالوں کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمانوں میں فرقہ وارانہ عدم تحفظ کا احساس دیگر اسباب سے زیادہ ایسے لوگوں کی کمی کی وجہ سے ہے جو اپنی لبرل آواز کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔
سنیئر صحافی اور تجزیہ نگار محترمہ نینا ویاس نے کہا کہ جاوید حبیب ایک اچھے انسان ضرور تھے لیکن اجودھیا کے راستے پر انہیں وی پی سنگھ کے عہد کا شکار ہونا پڑا جو سیاسی خلفشار کا عہد تھا جس میں ایک طرف بی جے پی اور دوسری طرف بائیں بازوکی پارٹیوں کی تائید سے ایک ایسی موقع پرستانہ حکومت چل رہی تھی جس میں اس وقت کے وزیر اعظم اور بی جے پی میں داخلی مفاہمت کو جاوید حبیب سمجھ نہیں پائے اور راستہ کھو بیٹھے۔
مہمان خصوصی سراج الدین قریشی نے کہا کہ جاوید حبیب قوم و ملت دونوں کے لئے فنا ہونے کا جذبہ رکھتے تھے۔ ایسا اس لئے تھا کہ ان کے پاس کوئی ذاتی ایجنڈہ نہیں تھا۔وہ سیاست، صحافت اور معاشرت کے لئے ہمیشہ سرگرم رہے لیکن کسی بھی طرح کے ذاتی مفاد کے بغیر ۔ یہی قلندری انہیں اپنے عہد کے دیوانوں میں ممتاز کرتی ہے۔پروگرام کے آغاز میں ’’جاوید حبیب: ہجوم سے تنہائی تک‘‘ کے مرتب معصوم مرادآبادی نے بتایا کہ کہ اس کتاب کو مرتب کرنے کی تحریک انہیں اسی روز ملی تھی جس روز انہوں اپنے غریق رحمت رفیق کو سپرد خاک کیا تھا۔جاوید حبیب کی جس سب سے بڑی خوبی نے انہیں ان کا گرویدہ بنا دیا تھا وہ خوبی یہ تھی کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک سے زیادہ مقتدرات کی موجودگی میں بس قلندری راس آئی۔جاوید حبیب کا انتقال 64 برس کی عمر میں 11 اکتوبر 2012 کو ہوا تھا۔ انڈیا اسلامک سنٹر میں منعقدہ تقریب کی صدارت پروفیسر شمیم حنفی نے کی۔پروفیسر شمیم حنفی نے مرحوم جاوید حبیب کی زدگی کے مختلف گوشوں پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی۔انہوں نے بتایا کہ جاوید حبیب کو وہ زمانہ طالب علمی سے جانتے تھے۔واضح رہے کہ پروفیسر شمیم حنفی جاوید حبیب کے استاذ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جاوید حبیب تعلیم کے دوران بھی پڑھنے کی بجائے لوگوں کے مسائل پر بات کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جاوید حبیب کے اندر بہت سے اوصاف ایسے تھے کہ جو انہیں اپنے معاصرین میں سب سے ممتاز مقام عطا کرتے ہیں لیکن ان کی دیوانگی اس درجہ تھی کہ انہوں نے اپنے مقام ومرتبہ کے مطابق کچھ حاصل نہیں کیا۔اس موقع پر معصوم مرادآبادی نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ جاوید حبیب نے ہجوم سے تنہائی تک کا سفر کس طرح طے کیا۔تقریب کے آخر میں جاوید حبیب کی شریک حیات پروفیسر زبیدہ حبیب نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے مرحوم کے تعلق سے دئے جانے والے اس حوالہ پر کہ انہوں نے ناکام زندگی گزاری وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے جاوید حبیب ایک کامیاب زندگی گزارنے والے انسان تھے۔انہوں نے کہا کہ اگر کامیابی اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے پیچھے اپنے بچوں کے لئے حرام دولت چھوڑ جائے تو وہ واقعی کامیاب نہیں تھے لیکن ہماری نظر میں وہ ایک کامیاب انسان تھے اور ہمارے لئے ان سے بڑا سرمایہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔اس موقع پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندے بڑی تعدادا میں موجود تھے۔