عبدالصمد
9810318692
ناول”شبنمی لمس کے بعد“سے کوئی چالیس برس قبل پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا ایک اور ناول ”آنچ 1978“ میں شائع ہوا تھا اور ان کا ایک افسانوی مجموعہ”بکھری اکائیاں“ 2016میں منظرعام پر آیا۔ جب کہ 1962سے گاہے ماہے ان کے افسانے اب تک رسالوں کی خوبصورتی بڑھارہے ہیں۔ یعنی وہ فل ٹائم فکشن نگار نہیں ہیں،تاہم اپنے طویل ادبی سفر کے دوران وہ ”سرائے فکشن“میں بھی ٹھہر تے رہے۔ ادیب کبھی بھی ایک صنف پر لکھتے رہنے کا حلف لیتا ہے اور نہ ہی اس کے فریضے میں ایسا کچھ شامل ہے۔اسی طرح نہ وہ یہ عہد کرتا ہے کہ ایک دفعہ اس نے کسی ایک صنف پر لکھ دیا تو ہمیشہ اسی صنف پر ہی لکھتا رہے گا۔ادب ایک داخلی ابال ہے۔اس ابال کے ساتھ ادیب کے اندرون میں پکنے والی چیز یں باہر آتی ہیں۔ اس اخراج واظہار سے گویا اسے سکون ملتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اس سکون کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے، جس صورت /شکل /فارم کا تقاضہ ادیب کا اندرون کرے۔ گویا اصناف کا معاملہ نہ صر ف فنون کے ساتھ جڑا ہوا ہے،بلکہ تسکینِ قلب کے تناظر میں ادیبوں کی نفسیات سے بھی مربوط ہے۔اس لیے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے اس قدم پر کوئی کلام نہیں ہونا چاہیے کہ انھوں نے اتنے دنوں کے بعد ناول کیوں لکھا۔ یا پھر وہ افسانہ لکھتے ہیں تو انھیں افسانہ ہی لکھتے رہنا چاہیے۔ تنقید کے مرد ِ مجاہد ہیں تو تنقید ی مراقبے میں ہی رہنا چاہیے۔ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے کوئی ٹھائی سو کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ ان کتابوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کثیر تعدا د مصنف ہیں اور انھوں نے متعدد اصنافِ ادب پر طبع آزمائی کی۔ گویا وہ نہ صرف تصانیف کے لحاظ سے ثروت مند ہیں بلکہ اصناف کی ثروت مندی بھی ان کے یہاں نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی افسانوی تحریروں کے لحاظ سے بھی وہ قابل التفات ہیں۔ پیش نظر ناول ”شبنمی لمس کے بعد“میں ہیئت وتکنیک کے لحاظ سے جدت ہے تو اس میں موضوعات خصوصاً بدن کی جمالیات کا پہلو بھی نمایاں ہے۔یعنی پروفیسر ہرگانوی نے ضعیفی میں ایک جوان ناول دیاہے۔ جس کی جوانی میں بدن کی جمالیات چار چاندلگاتی ہے اور تکنیک کی جدت کاری اس جوانی کو رعنائی بخشتی ہے۔ اساسی طورپر اس ناول کے چار پہلو ہیں۔اول، ضعیف کی نفسیات۔ دوم،بدن کی جمالیات۔ سوم،مسلکی کشمکش۔ چہارم،معیشت کی جھلکیاں۔ پنجم، گہر ا تجرباتی رنگ۔ فکشن میں عورتوں کے تئیں مردوں کی ہوسناکی کی ایک سے ایک داستان ہے، مگر ضعیفوں خصوصاً”ٹھنڈے بوڑھے“ کی نفسیات کوموضوع بناکرکم کم ہی لکھا گیا لیکن ”شبنمی لمس کے بعد“ میں از ابتدا تا انتہا ٹھنڈے بوڑھے کی نفسیات بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔فرحت اور کاشف کی عمر میں خاصا تفاوت ہے بلکہ کاشف شادی شدہ بھی ہے اوروہ اپنی شادی کو چھپاتا ہے۔ان دونوں کی ملاقات کسی پروگرام میں ہوتی ہے۔ ملاقات،راہ ورسم میں بدل جاتی ہے اورراہ و رسم شادی کے بند ھن میں۔ کاشف سعودی عربیہ چلا جاتا ہے اور فرحت سے خط وکتابت ہوتی رہتی ہے۔اسی عمل میں کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں (آئندہ سطور میں اس پہلو کو زیر بحث لا یا جائے گا)۔ کاشف جس انداز سے خطوط میں فرحت کی خوبصورتی کا تذکرہ کرکے بدن کی جمالیات اجاگرکرتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بوڑھے کی نظر گہری ہے لیکن اس کا جسم ٹھنڈا ہے۔ اس لیے وہ شبنمی لمس کے بعد کچھ کرپاتا ہے اور نہ ہی فرحت سے دوبارہ ملنے آتا ہے۔ وقت پر وقت بدلتا ہے۔ اس طرح ان کے درمیان وصال کے لمحات دوبارہ نہیں آتے ہیں۔ گویا دور رہ کر فرحت کے جسم کی تعریف میں ہی اس کی نفسیاتی تسکین کا معاملہ پوشیدہ ہے۔اس لیے کبھی کاشف کے خطوط میں واضح طور پر فرحت کے جسمانی خط وخال ابھرتے ہیں تو کبھی قدرتی خوبصورتی کا ذکر ہوتا ہے: ”تمھاری آنکھوں کی خوبصورتی بھنووں کی وجہ سے بھی ہے جو اس طرح سے آنکھوں کا حصار کیے ہیں کہ بالکل سجی ہوئی شکل میں ہیں۔ کمان کی طرح یہ قاتلانہ بھنویں مکمل اور pefectہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے قینچی سے کاٹ کر بھنووں کو چپکا دیا گیا ہے۔ جانو! کاش تم میری نظروں سے خود کو دیکھ سکتی۔“(ص:195) ان جملوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فرحت کی خوبصورتی کے بیان کے لیے کیسے کیسے جملے تراشے گئے ہوں گے۔بہت سے مقامات پر جسمانی جمالیات اور اعضا وجوارح کا نقشہ انتہائی واضح لفظوں میں کھینچا گیا ہے۔گویا ضعیف کاشف فقط لفظوں سے تلذ ذ حاصل کرتا ہے اور بڑھاپے میں اس کی یہی نفسیات بن گئی ہے۔ بوڑھے کی نفسیات کا معاملہ اس وقت ذرا مختلف شکل اختیار کرلیتا ہے،جب وہ اپنی بیوی فرحت سے اصرار کرتا ہے کہ وہ اس کے مسلکی فروعات کی بجا آوری کرے۔ اس عمل سے واضح ہوتا ہے کہ کاشف دہرا معیار رکھتا ہے۔ایک طرف وہ اسلام پسندی یا اسلامی فروعات کو فروغ دینا چاہتا ہے،دوسری طرف وہ اپنی ہوسناکی کی تسکین کر تاہے۔اس سطح پر اس کے کردار میں دو طرح کی نفسیات واضح ہوتی ہیں۔ ایک جنسی نفسیات۔دوم، مسلکی نفسیات۔ کیوں کہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ کاشف لذت یابی کا بھوکا تو کبھی لگتا ہے کہ وہ محبت کی آڑ میں مسلک کو فروغ دے رہا ہے۔ گویا ناول میں ایک کریہہ اصطلاح ”لوجہاد“ کی طرح ”لَو مسالک“ کی اصطلاح سامنے آرہی ہے۔کاشف کے ایک خط میں کچھ یوں ہے: ”پتہ نہیں ایام محرم میں تم نے میری ہدایتوں پر دھیا ن دیا تھا کہ نہیں۔ تمہارے خط سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ بہر حال یہ ایک اچھا موقع تھا کہ تم اپنے آپ کو معاشرے میں میری بیوی کی حیثیت سے پہچنوا سکو۔…خیرماہ صفر میں ایک اور موقع ہے۔گیارہ صفر سے بیس صفرتک غالباً…“(ص:127) اس اقتباس میں لفظ ”ہدایتوں“ سے ازخود اندازہ ہوتا ہے کہ بوڑھا کاشف نہ صرف فروعا
ت کی بجاآوری کی ترغیب دے رہا ہے بلکہ دبے لفظوں میں جبری طور پر فرحت کو ہم مسلک بنا نا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کو عام بھی کرنا چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اسی کی ہم خیا ل ہے۔ اس لیے کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اس کے رومانی انداز میں مسلک کی تبلیغ کا منشا پوشیدہ ہو۔پروفیسر ہرگانوی نے اس پہلو کو نفسیاتی بلکہ فلسفیانہ انداز میں پیش کیا جو مسلکی معاملات پر لطیف طنز ہے۔مذکورہ سطور میں ناول کے تین اہم پہلوؤں پر با ت کی گئی،یعنی ضعیف کی نفسیات،بدن کی جمالیات اورمسلکی کشمکش۔ اس ناول کا چوتھا اہم پہلو’معیشت کی جھلکیاں‘ہے۔ ہندوستانی معیشت کا مسئلہ جب سعودی عربیہ سے جڑ جائے تو موضوع اور بھی اہم ہوجاتا ہے۔یوں تو دنیا کے کونے کونے میں ہندوستانی بسے ہوئے ہیں۔ کسی ملک میں ان کی تعداد بیس ہزار ہے تو کسی میں پانچ ہزار۔ کم ہی ملکوں میں ہندوستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی لیکن سعودی میں کوئی چالیس لاکھ ہندوستانی رہتے ہیں۔اس اعداد وشمار کے بعد ازخود اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سعودی سے ہندوستانی معیشت کس طرح جڑی ہوئی ہے۔اس لیے کسی ناول میں اس طرف اشارہ کیا جائے تو یہ اشارہ انتہائی توجہ طلب ہو گا۔ ناول ”شبنمی لمس کے بعد“ سے پہلے غضنفر نے اپنے ناول ”شوراب“ میں اس طرف اشارہ کیا تھا لیکن اب اشاروں سے آگے بڑھ کر اس اہم موضوع پر باضابطہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر لکھنے سے دہرا فائدہ ہوگا۔ اردو ناولوں میں معاشی پہلوؤں کی شمولیت ہوگی اور ہند- عرب رشتہ بھی نئے انداز سے سامنے آئے گا۔ ساتھ ہی ساتھ بیرون ممالک میں بسنے والے ہندوستانیوں کی ہندوستانی فکشن میں شمولیت ہوگی۔ناول ”شبنمی لمس کے بعد“ میں تخلیق کار کا منشا معاشی پہلوؤں کو اجاگر کرنانہیں ہے۔ انھوں نے جنسی اورمسلکی نفسیات کو زیادہ اہمیت دی ہے،اس لیے اس میں معاشی معاملات کی طرف اشارے کی ہی گنجائش تھی۔ متعدد مقامات پر وہ کچھ اس طرح اشارے کرتے ہیں ”میں تمہیں لکھ چکاہوں کہ ان دنوں کمپنی کی حالت دگر گوں ہے اور مجھے وقت پر پورے پیسے نہیں مل رہے ہیں۔“ ناول کا پانچواں پہلو تکنیک کا تجربہ ہے جو انتہائی جدید تجریہ ہے۔ 235صفحات مشتمل یہ ناول خطوط کی تکنیک میں ہے۔44خطوط کے سہارے ناول کو اختتام تک پہنچایا گیا ہے۔ خطوط کی تکنیک اپنے آپ میں نیا نہ سہی،انوکھا ضرور ہے۔ قاضی عبدالغفارکے ”لیلیٰ کے خطوط“اور ”مجنوں کی ڈائری“ کے بعد کسی بھی تخلیق کار نے اس تکنیک پر خصوصی توجہ نہیں دی۔پھران کی کتابوں کے متعلق یہ اشکال بھی ہے کہ آیا یہ ناول ہے یا نہیں۔ قاضی صاحب نے خود لکھا ہے ”مجھ پر ظلم ہوگا اگر ان صفحات کو ناول یا افسانہ سمجھ کر پڑھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کاغذی پیرہن میں خراب آباد ہندوستان کی نسوانی زندگی کے چند نقوش پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔“ہوسکتا ہے کہ قاضی صاحب نے عاجزی یا فروتنی میں یہ لکھا ہو، تاہم ان جملوں کی روشنی میں اِن کتابوں کو دوبارہ پڑھنے اور اس کے موضوع اور تھیم پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ان کتابوں کے بعد باضابطہ خطوط کی تکنیک میں پورا ناول لکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ ناولوں کو آگے بڑھانے میں کہیں کہیں خطوط کا سہارا لیا گیا۔یہاں تک کہ چند افسانوں میں چھوٹے چھوٹے خطوط سے پلاٹ کو دل چسپ بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن از اول تا آخر اس تکنیک کو استعمال میں نہیں لایا گیا۔غضنفر کے ”شوراب“ میں بھی کئی ایک طویل خطوط ہیں لیکن پروفیسر ہرگانوی کے خطوط کی تکنیک ان سب سے بالکل الگ ہے۔ ان سطور میں خطوط کی تکنیک پر بات ہوئی اور آئند ہ سطور میں خطوط کی تکنیک میں پائی جانے والی جدت کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔ خطوط میں ترسیل وتبادلے کا مفہوم پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطو ط کی تکنیک کا ذکر آتے ہی ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ دو کرداروں کے درمیان خطوط کے تبادلے ہوں گے۔ہیرو، ہیروئن ایک دوسرے کو خطوط ارسال کرتے ہوں گے،اس طرح کسی ناول کا پلاٹ آگے بڑھا ہوگا۔ اس جانب ذہن کا منتقل ہونا فطری ہے لیکن پروفیسر ہرگانوی نے ہیرواور ہیروئن کے خطوط سے ناول کو آگے نہیں بڑھایا،بلکہ انھوں نے ہیروکے خطوط میں ہی ایسا انداز اختیار کیا، جسے پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس خط سے پہلے ہیروئن کا کوئی نہ کوئی خط ضرور آیا ہو گا۔گویا ہیروکے خطوط ہیروئن کے خطوط کا جواب بھی ہوتے ہیں اور خودہیرو کا مدعا بھی۔ اگر ناول میں دونوں کے خطوط الگ الگ شامل کیے جاتے تو ناول کی ضخامت بھی بڑھ جاتی اور کوئی نئی تکنیک وجود میں نہیں آتی۔ خطوط کی تکنیک میں پروفیسر ہرگانوی کی یہی جدت طرازی ہے کہ انھوں نے ہیرو کے خطوط میں ہی ایسے نقوش ابھارے کہ ہیروئن کے خطوط کا پورا پس منظر سامنے آ گیا۔ یہ وہ تکنیک ہے، جس کے سہارے کم از کم اردو میں تو کوئی ناول نہیں لکھا گیا۔ پروفیسر ہرگانوی کا یہ ناول نہ صرف تکنیک کے نئے پن کے لحاظ سے انتہائی پرکشش ہے،بلکہ’لومسالک‘کے پیش نظر مسلک کے انتہا پسند اختلافات پر لطیف طنز بھی۔ بدن کے جمالیاتی پہلوؤں اور سرد بوڑھے کی نفسیات پر یہ ناول ایک انوکھا تجربہ ہے۔ اس طرح یہ ناول اردو فکشن کے لیے ایک بزرگ ادیب کی طرف سے ”نوجوان تحفے“ کی مانند ہے۔الغرض جمالیات، نفسیات، معاشیات اورمسلکی معاملات کو ایک ساتھ جوڑ کر ’پال‘ دیا گیا ہے۔پال ڈالنے کے اس عمل سے خیالات پک گئے اور خوشنما ناول منصہ شہود پرآیا۔