نثری ادب: خواب سراب بارش اور جگنو

اُردوادب 2017: ایک جائزہ

\"proo\"
٭محمد حمید شاہد

فکشن نگار ،نقادلاہور

\"Seemi
\"07_05\"
\"07_06\"
\"08_01\"
\"08_02\"
\"08_03
\"08_04\"
\"08_05\"
\"08_06\"
\"07_04\"
\"07_03\"
\"07_02\"
\"07_01\"
ایک اور سال گزر گیا۔ اس سال بھی لکھنے والے اپنے قلم کا قرض ادا کرنے میں منہمک رہے اور اس کا اندازہ ان کتابوں اور ادبی جرائد سے لگایا جاسکتا ہے جو مجھ تک پہنچتی رہیں ۔ یقیناًایسی کتب بھی کم تعداد میں نہ ہوں گی جن تک میری رسائی نہ ہو سکی مگر پھر بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لکھنے والوں نے لکھنے کا حق ادا کیا۔ معاملہ افسانے اور ناول ہو یا تحقیق وتنقید اور دوسری اصناف کا؛ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ سو یہ ادب کہانی ہے ۔ وہ کہانی جو مجھے ملی۔
نثر کی پہلی کتاب ’’کہانی مجھے ملی ‘‘ کا ذکر ہو جائے۔ یہ اصغر ندیم سید کی ایسی دس کہانیوں کا مجموعہ ہے جن سے حقیقی زندگی میں ان کی ملاقات رہی ہے ۔ اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ ’’یہ کہانیاں اور ان کے کردار کہیں پر بھی ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ کہنے کو انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ’’آپ انہیں فرضی کردار بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ فرضی یوں نہیں ہے کہ ان میں کئی کرداروں سے ہم زندگی میں مل چکے ہوتے ہیں ۔ اصغر ندیم سید اپنے جادواثر قلم سے حقیقت کو کہانی اور کہانی کو حقیقت کا سا بنالینے کاہنر جانتے ہیں۔
انتہائی افسوسناک خبر یہ ہے کہ نجم الحسن رضوی ہم میں نہیں رہے ۔ وہ سرطان کے عارضے میں مبتلا تھے اور ان دنوں امریکا کے شہر لاس ویگاس میں مقیم تھے ۔ نجم الحسن رضوی اپنی زندگی کے آخری لمحات تک لکھنے پڑھنے میں مصروف رہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی موت کی خبر ملنے سے ایک ماہ پہلے مجھے ان کا ایک ایسا مضمون موصول ہوا تھا جو وہ اپنی آنے والی تنقیدی کتاب میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس سال مجھے نجم الحسن رضوی کے افسانوں کانیا مجموعہ’’بوری میں بند آدمی‘‘ اور مضامین کا مجموعہ ’’ہمارا بدمعاشی نظام‘‘ ملے ۔’’بوری میں بند آدمی‘‘ نجم الحسن رضوی کے افسانوں کا ساتواں مجموعہ ہے جس کے افسانوں کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ ہمارے عہد کی زندگی کے آئینے ہیں جس میں ایک آدمی کی نہیں ہم سب کی شکلیں نظر آتی ہیں۔‘‘
اس سال بچھڑنے والوں میں مختار مسعود بھی شامل ہیں۔ ان کی نئی کتاب’’حرف شوق‘‘ اسی سال ، ان کے مرنے کے بعد منظر عام پر آئی ۔ مختار مسعود اپنی نثر کے اسلوب کی وجہ سے بہت معروف ہیں ۔ یہ شہرت انہیں ’’آواز دوست‘‘،’’سفر نصیب‘‘ اور ’’لوح ایام‘‘ نے دی ۔ ’’حرف شوق‘‘ نہ صرف مصنف کی وفات کے ایک ماہ بعد منظر عام پر آئی ، اس کتاب کے آنے سے بہت پہلے مصنف کو اس کتاب کی تحریک دینے والے بھی نہیں رہے تھے ۔ کتاب علی گڑھ سے مختار مسعود کی محبت کی تفسیر ہو گئی ہے ۔ کتاب کا اہم حصہ سرسید کے حوالے سے ہے ۔ تحریر کا وہی دلکش اسلوب جو قاری کو گرفتار کر لیتاہے۔ مختار مسعود کے وفات پر ان کی یاد میں شائع ہونے والی کتاب’’مختار مسعود:محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے امر شاہد نے مرتب کرکے بہت خوب صورت چھاپا ہے ۔ اس کتاب میں صاحب آواز دوست کی شخصیت اور فن پر مختلف مصنفین کے مضامین اور خود مختار مسعود کی تحریروں کے اقتباسات اور انٹرویوز جمع کر دیے گئے ہیں ۔
جمیل احمد عدیل کے حوالے سے میرا یہ ماننا ہے کہ وہ محض ایک شخص نہیں بھرپور شخصیت ہے ۔ اپنے تخلیقی وجود کی خوشبو کے حصار میں لینے والی شخصیت۔ ’’موم کی مریم‘‘ ،’’زرد کفن میں نخل ایمن‘‘،’’بے خواب جزیروں کا سفر‘‘،’’تو جو ہم سفر ہو جائے‘‘،’’ہاویہ‘‘ اور ’’کانپتی شاخیں‘‘ جیسی اہم تخلیقی کتب ان کے کریڈیٹ پر ہیں۔ اس برس ان کے مضامین کے دو مجموعے موصول ہوئے ہیں جن کی نثر کی دھاک میرے دل پر بیٹھی ہوئی ہے ۔ ’’نئے ستارے نیا آسمان‘‘ اور’’ذوق تحقیق‘‘۔ایک تخلیق کار کی دانش، عمدہ نثر اور تنقیدی بصیرت سے لبالب ان مضامین میں ہماری ملاقات ایک ایسے محقق اور ناقد سے ہوتی ہے جو پورے استدلال اور حوالہ جات کے ساتھ انتہائی سلیقے سے بات کرنے کا ہنر جانتا ہے۔
اپنی کتاب’’فرد، سماج اور تہذیبی تجزیہ‘‘ کے آغازیے میں معروف شاعر،مدیر اور نقاد قاسم یعقوب نے لکھا ہے کہ ’’ فرد اورسماج کا مقدمہ لڑنا آسان نہیں ۔‘‘ تاہم اس کتاب میں قاسم یعقوب نے یہ مشکل مقدمہ لڑنے کی کوشش کی ہے ۔زیر نظر کتاب میں شامل مضامین ایک سماجی ویب سائٹ کے لیے لکھے گئے تھے ۔ جس میں دانش ورانہ استدلال، ادیب اور سماج، سماجی ضابطے اور فرد، دفاع کا پیدا کردہ بیانیہ، انتہا پسندی اور صوفیانہ طرز حیات، میڈیا زبان اور پاکستانی معاشرہ جیسے موضوعات پر بہت خوبی سے مکالمہ قائم کیا گیا ہے۔ عورت کی تعلیم اور سماجیات، زبان کی تعلیم اور لوک ورثہ جیسے موضوعات بھی کتاب کا حصہ ہیں ۔ قاسم یعقوب ایسے ادیبوں میں نمایاں ہیں جو مکالمے کی ضرورت پر ایقان رکھتے ہیں۔ یہ کتاب اسی ایقان کی مظہر اور تفسیر ہو گئی ہے۔ قاسم یعقوب کے تنقیدی مضامین کا ایک اور مجموعہ ’’لفظ اور تنقید معنی‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے ۔ اس مجموعے میں ان کے سولہ مضامین شامل ہیں جو ادبی تھیوری، تانیثیت،گلوبلائزیشن اور ثقافتی تنوع،اسلوب، زبان کی تشکیل، تخلیق اور تخلیقیت، تاریخ اور نو تاریخیت اور اس طرح کے ان کے محبوب موضوعات پر ایک بھر پور نقطہ نظر سامنے لاتے ہیں ۔
عرفان جاوید بہت عمدہ افسانہ لکھتے ہیں ۔ ان کی ایک اور شہرت وہ خاکے یا شخصیت نامے ہیں جو ایک تسلسل سے ہم پڑھتے اور سراہتے آئے ہیں ۔ عرفان جاوید کے ایسے ہی مقبول عام مضامین پر مشتمل کتاب “دروازے” اسی سال کے آغاز میں چھپی ہے ۔ اس کتاب میں احمد ندیم قاسمی، شکیل عادل زادہ ، احمد فراز،عطالحق قاسمی ، مستنصر حسین تارڑ، احمد بشیر اور دوسری اہم شخصیات پر مضامین شامل ہیں اور اس سلسلے کے دیگر مضامین باقاعدگی سے جنگ میں شائع ہو رہے ہیں
مسلسل سفر، مسلسل لکھنا اور مسلسل چھپنا ؛ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سلمیٰ اعوان یہ سب کچھ کیسے کر لیتی ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ ایسا سب کچھ کر رہی ہیں اور بہت سلیقے سے کر رہی ہیں ۔ افسانہ، ناول، سفرنامہ اور نہ جانے کیا کچھ ؛یہ سب ان کے مفتوحہ علاقے ہیں ۔ ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں ‘‘ ان کی اس برس چھپنے والی ایم کتاب ہے ۔ اس کتاب کے ذریعے وہ دنیا بھر کے نمایاں ترین ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں سے ملاقات کروارہی ہیں ۔ شام کے نژار قبائی اور مونا عمیدی، روس کے بورس پاسترک، پشکن، ٹالسٹائی ، صوفیہ۔ دستوئیفسکی،ترکی کے رومی،یونس ایمرے، اپنے ہاں کے ٹیگور، سری لنکا کے کرونیرتن ابی سکارا اور عراق کے یوسف سعدی سے ملاقات کرکے ہم جان جانتے ہیں کہ فطرت جنہیں تخلیقی جوہر عطا کرتی ہے وہ کیسے مختلف ہو کر محبوب ہو جایا کرتے ہیں۔
’’پوسٹ مارٹم‘‘ نوجوان افسانہ نگار عثمان عالم کے اکیس افسانوں کا مجموعہ ہے۔ میں اس افسانہ نگار میں پہلے ہی کہہ آیا ہوں کہ ’عثمان عالم کے افسانوں کو روا روی میں نہیں پڑھا جاسکتا ۔ ایسا کیا جائے گا تو نہ صرف کہانی پڑھنے والے کی فہم سے آنکھ مچولی کھیلے گی ، اس میں گندھی ہوئی دانش کو بھی اوجھل کر دے گی۔ ان افسانوں کو اپنی ساری حسوں کو حاضر رکھ کر پڑھنا ہوگا ۔‘
خبر یہ ہے کہ عرفان احمد عرفی کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ’’کنٹرول روم شائع ہو گیا ہے۔ ابھی یہ مجموعہ میری دسترس میں نہیں ہے کہ مزید اس پر کچھ کہہ سکوں ۔ عرفان اپنی بات مختلف ڈھنگ سے کہنے کا ہنر جانتے ہیں اور ایسا ان کے پہلے مجموعے ’’پاؤں‘‘ کے افسانوں میں ہم دیکھ چکے ہیں ۔
‘‘جاوید انور کے افسانوں کے مجموعے ’’برگد‘‘ کی اوپر تلے دو اشاعتیں بھی اس سال کی اہم خبرہیں ۔ برگد کے افسانوں پر میری رائے اس کے فلیپ پر درج ہے وہیں سے مقتبس کر دیتا ہوں۔ ’’جاوید انور کو اپنی بات کہانی میں ڈھال لینے ، اور اس کہانی کو سادہ واقعات کی کھتونی بنانے کی بہ جائے ،لشٹم پشٹم گزرتی زندگی کی گہری علامت بنانے ،اور پھر اس علامت کو اپنے جادو ئی بیانیے سے بھیدوں بھرا افسانہ بنانے کا ہنر آتا ہے۔ ‘‘جاوید انور کے اس مجموعے میں چودہ افسانے اور تیرہ مختصر ترین کہانیاں شامل ہیں۔
جواد حسنین بشر، جو ابن مسافر کے نام سے لکھتے ہیں ان باصلاحیت نوجوانوں میں سے ایک ہیں کہ فکشن کے میدان میں کچھ الگ سے کر ناچاہتے ہیں ۔ مسلسل محنت اور سیکھنے کے عمل سے وابستگی نے ان کے تخلیقی توفیقات میں خوب خوب اضافہ کیا ہے جس کا مظہر اس کے افسانوں کا مجموعہ’’سفر ناتمام‘‘ ہو گیا ہے۔ ابن مسافر کی اس کتاب میں ان کی ۳۳ تخلیقات ہیں ۔ یہ کتاب یوں بھی اہم ہو جاتی ہے کہ ابن مسافر نے محض ماجرا نگاری کو شعار کرنے کی بہ جائے بات کہنے کی کچھ نئی راہیں سجھائی ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ فکشن کے بیانیے کی تشکیل محض ماجرا نگاری سے ممکن نہیں ہے۔
مریم تسلیم کیانی کے افسانوں کے مجموعے’’اسیر خواب‘‘ کو بھی ادبی حلقوں میں خوب خوب پذیرائی ملی ہے ۔ سائرہ غلام نبی ان کے فن کو سراہتے ہو ئے لکھا ہے کہ وہ جو چاہتی ہیں برملا تحریر کر دیتی ہیں ۔ آتی جاتی سانسوں کو بحال کرتے یہ افسانے ان کی تخلیقی ہنرکاری کا کٹھا میٹھا اسلوب بناتے ہیں‘‘ مریم کے افسانوں کے حوالے سے میں لکھ چکا ہوں کہ مریم کے افسانوں کی عورت محض مرد کی ضرورت بن کر نہیں رہنا چاہتی کہ اسے لمس کے کلاوے میں آکر اپنے پورے وجود سے کلام کرنا ہے اور یہ کہ اپنے محبوب موضوع کو برتتے ہوئے مریم کی کامیابی یہ ہے کہ وہ ہر بار لذیذ زندگی سے ایک مقدس چہچہا ہٹ اور بے ساختہ لپک تخلیق کر لیتی ہیں۔
’’مکمل کچھ نہیں ہوتا‘‘ نوجوان افسانہ نگارسائرہ اقبال کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں ان کے بارہ افسانے شامل ہیں۔ ’’پلک بسیرا‘‘ میمونہ صدف کے سترہ افسانوں پر مشتمل کتاب ہے۔ ’’انسانے‘‘ عثمان غنی رعد کے ۲۳ افسانوں کا مجوعہ ہے۔ ’’نَے رنگِ زندگی‘‘ شوکت افضل اور ’’دبیز پانیوں کے نام ایک خط‘‘ الطاف فیروز کی بارہ، بارہ کہانیاں ہیں۔ یہ سارے مجموعے اس سال منظر عام پر آئے ہیں۔ان مجموعوں میں کہانی کہنے کا اسلوب سادہ اور رواں ہے ۔شوکت افضل کی کہانیوں کے بارے میں ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا نے کہا ہے کہ ان کہانیوں میں سب سے بڑی خوبی ان کا دلچسپ ہونا ہے۔ یہی بات الطاف فیروز،میمونہ صدف، سائرہ اقبال اور عثمان رعد کی کہانیوں کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔
’’فرشتہ نہیں آیا‘‘ ناصر عباس نیر کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے ۔ اس دوسرے مجموعے میں بھی انہوں نے اپنے مختلف ہونے کی پہچان کو اور گہرا کیا ہے ۔ اس مجموعے میں ’’اباکے صندوق‘‘،’’ہو سکتا ہے یہ خط آپ کے نام لکھا گیا ہو‘‘،’’ فرشتہ نہیں آیا‘‘،’’کنویں سے کٹورے تک‘‘،’’ لوگو فوبیا ‘‘ اور’’ نیا حکم نامہ‘‘ نام کے افسانوں کے علاوہ حکایات و مابعد جدید کے عنوان سے گیارہ نثری پارچے بھی کہانی کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔ اسی کتاب سے ایک اقتباس:
’’میں اپنے تجربے سے کہہ سکتی ہوں کہ آدمی نے اصل لذت پر دماغ کی لذت کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ ان کا دماغ ہماری قطار کی طرح چلتا ہے۔ چلتا ہی رہتا ہے۔ تم دیکھنا ، انہوں نے ابھی سور کا چہرہ پہنا ہے ۔کچھ دیر میں یہ بھیڑیے بنیں گے پھر خون خوار کتوں کی مانند ایک دوسرے پر غرائیں گے پھر بدمست ہاتھی بن جائیں گے۔‘‘
’’بات کہی نہیں گئی‘‘سیمیں کرن کے افسانوں کا نیا مجموعہ ہے۔ قبل ازیں ان کا ایک مجموعہ’’شجر ممنوعہ کے تین پتے‘‘ شائع ہو چکا ہے ۔ اس تازہ مجموعے میں سیمیں کرن کے ستائیس افسانے شامل ہیں ۔ مستنصر حسین تارڑ کی نظر میں ’’اس کی کہانیاں حیرت انگیز اور عجیب خوابوں میں مبتلا ایسی ہیں کہ وہ یکدم بڑے نثر نگاروں میں شامل ہو گئی ہیں‘‘ اس کتاب کے فلیپ پر میری رائے بھی موجود ہے جس میں سے ایک ٹکڑا یہاں مقتبس کر رہا ہوں’’میں نے ان کی کئی کہانیاں پرھی ہیں اور محسوس کیا ہے کہ جہاں جہاں انہوں نے موضوع کو سہار کر لکھا ہے ، محض بتانے کے لیے نہیں ؛دکھانے اور کرداروں کے ذریعے سجھانے کے لیے ، وہاں وہ فکشن کا بیانیہ کامیابی سے مرتب کر لیتی ہیں ۔ یہ ایسی توفیقات نہیں ہیں جو ہر لکھنے والے کا مقدر ہوں۔‘‘
معروف فکشن نگار اور مترجم سید سعید نقوی کا نیا اہم کام’’بارش سے پہلے‘‘ کے نام سے ایک ناول کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ قبل ازیں ان کا ناول ’’گرداب‘‘ آیا تھا جبکہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے اور تراجم کی بھی تین سے زیادہ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ’’پانی کی کمی تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے‘‘کتاب کھولتے ہی اس سرخی پر نظر پڑتی ہے جس کا حوالہ ناسا کا ایک تحقیقی مقالہ ہے ۔ سیاسی سماجی زندگی کو گرفت میں لینے والا یہ ناول بہت قریب کے زمانے کا ہے لہذابیانیے میں سارا منظر نامہ اور کردار دیکھے بھالے لگتے ہیں ۔ اس سال شائع ہونے والا خالد فتح محمد کا نیا ناول’’کوہ گراں‘‘ بھی پانی کے بحران اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی المیے کو موضوع بناتا ہے ۔ خالد فتح محمد اس ناول میں عورت اور زمین کے درمیان نمو کا تعلق پیدا کرکے اسے نئی معنویت عطا کرتے ہیں۔حلیم، گڈو، دیسو، مادو اور فاطمہ جیسے کرداروں سے ایسی بستی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو سوکھے کی مار سے اجڑ گئی تھی ۔ ناول اسی بستی کو پھر سے آباد کرنے کی جدوجہد کا بیان ہے ۔ ناول کا بیانیہ کہیں کہیں بہت موثر ہو گیا جس کی ایک مثال:’’ گڈو! جب کوئی مرتا ہے، تو وہ مرتا نہیں زندہ ہو جاتا ہے۔مرنے والا جب زندہ تھا ۔۔تو ہمارے اندر اس کی شکایتوں سے بھرے ہوتے ۔ مر کر وہ ہمارے اندر زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘
محمد عامر رانا کا ناول ’’سائے ‘‘ بھی ہمارے قریب کے منظر نامے سے اگا ہے تاہم اس میں کرداروں کے وجودی کرب کو موضوع بنایا گیا ہے۔ محمد عامر رانا کے ناول میں کردار جس اذیت سے گزر رہے ہیں وہ رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں سائے بنا رہا ہے۔ لاہور کو لوکیل کرتے اس ناول میں کا اصل قضیہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ زندگی کی نامعقولیت کو کسی نظام، کسی ضابطے ، اصولوں کی کسی ترجیحاتی ترتیب سے معقول نہیں بنایا جاسکتا اور یہ کہ انسان اپنی ہونی شدنی کے کھونٹے سے بندھ کر یوں گھٹتے بڑھتے سائے جیسا ہو جاتا ہے کہ قنوطیت اور رجائیت جیسے الفاظ بھی وجودیت کے عذاب( جس کی ایک حد تک ہی اس ناول میں تظہیر ہو ئی ہے) میں اپنی معنویت کھونے لگتے ہیں۔
اختر رضا سلیمی کا دوسرا ناول ’’جندر‘‘ اس برس شائع ہوا ہے ۔ان کا پہلا ناول ’’ جاگے ہیں خواب میں‘‘علمی اور ادبی حلقوں میں بہت توجہ سے دیکھا گیا ۔ ’’جندر ‘‘میں بھی وقت اختر رضا سلیمی کا مسئلہ ہوا ہے تاہم یہ ناول اپنے موضوع ، کرداروں اور ٹریٹمنٹ کے حوالے سے مختلف ہو گیا ہے۔ اختر سلیمی عمدہ شاعر کے طور پہلے سے معروف تھے مگر ایک ناول نگار کے طور پر وہ غیر معمولی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ناول کی کہانی ’’ جندر‘‘ یعنی پن چکی اور اس سے وابستہ ماحول کے اندر سے بہت آہستہ رو مگر گہرے معنویت والے بیانیے سے مرتب ہوتی ہے جو اپنی جمالیات مرتب کرتا ہے ایسی جمالیات جو ایسی زندگی کا مظہر ہو جاتی ہے جو جندر کے پاٹوں کی سریلی گونج سے بندھی ہوئی ہے ۔
’’مشک پوری کی ملکہ‘‘ کے بعد’’گرد باد‘‘ کے نام سے محمد عاطف علیم کا نیا ناول بھی اس سال کی اہم خبر بنا ہے ۔اس نئے ناول میں آمریت کے زمانے میں سماج کے اندر در آنے والے انتشار اور منفی تبدیلیوں کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اپنے افسانوں کے مقابلے میں ناول میں محمد عاطف علیم کا بیانیہ زیادہ صاف ، اجلا اور رواں ہوا ہے عاطف علیم کے اس ناول میں زیادہ کردار نہیں ہیں تاہم جتنے بھی کردار ہیں انہیں انہوں نے بنانے اور ان کی الگ الگ شباہتیں قائم کرنے میں بہت سلیقہ دکھایا ہے ۔
محمود ظفر اقبال ہاشمی کے چار ناول مجھے اس سال پڑھنے کو ملے جن میں سے دو’’اندھیرے میں جگنو‘‘ اور ’’میں جناح کا وارث ہوں‘‘ ۲۰۱۷ میں شائع ہوئے ہیں ۔ ہاشمی صاحب ان ادیبوں میں ہیں جو آج کے بیمار معاشرے اور علیل انسانیت کے علاج کے لیے ادب کو ایک طبیب کا سا منصب عطا کرتے ہیں ۔ ناول ’’اندھیرے میں جگنو‘‘ اگر امید اور روشنی اور مستقبل کے اجلے خوابوں کی علامت ہے تو ناول ’’میں جناح کا وارث ہوں‘‘ پاکستانیت کی روح کا مقدمہ ہے۔محمود ظفر اقبال ہاشمی ماجرا بہت سہولت سے کہہ لیتے ہیں ۔
’’دیوار چین کے سائے تلے‘‘ افسانہ نگار حسنین نازش کا سفر نامہ ہے ۔ یہ چین کا سفر نامہ ہے جب کہ اس سے قبل وہ ’’قاردش‘‘ کے نام سے ترکی کا سفر نامہ لکھ چکے ہیں۔ اس سفر نامے کا اسلوب افسانوی ہونے کی وجہ سے بہت دلچسپ ہو گیا ہے ۔ سفری منظر نامے کی حقیقتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ انہوں نے فکشن کے کرداروں سے کام لیا ہے انہی میں سے ایک کردار کافر آنکھوں والی ہے جو آخر تک متن کو رومانوی لطف عطا کرتا رہتا ہے۔
معرو ف شاعر نسیم سحر عمدہ نثر بھی لکھتے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے خاکوں کا ایک مجموعہ’’خاکہ گردی‘‘ ہماری نظر سے گزر چکا ہے ۔ ’’رشحات نسیم سحر‘‘ کے نام سے ان کے مضامین اور تبصروں پر مشتمل مجموعہ اسی برس شائع ہوا جس میں انہوں نے کئی کتابوں کے لیے لکھے گئے دیباچے اور تبصرے شامل کر دیے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان نے گبریل گارشیا مارکیز کا معروف ناول’’وبا کے دنوں میں محبت‘‘ کا ناول نگارارشد وحید کا کیا ہوا ترجمہ ایک بار پھر چھاپ دیا ہے۔ یہ کتاب بہت اہتمام سے چھاپی گئی ہے ۔ ارشد وحید نے اس نئی اشاعت کے لیے ۱۹۹۵ء میں چھپنے والے ترجمے کو ایک بار پھر دیکھا اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی اس میں تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ مارکیز کے اس ناول کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کے لیے ارشد وحید اس انگریزی ترجمے کو بنیاد بنایا ہے جو خود ناول نگار کی نگرانی میں مکمل ہوا تھا۔ ’’معاصر چینی افسانے‘‘ نوجوان شاعر،انگریزی ادبیات کے استاد اور مترجم منیر فیاض نے اردو میں ڈھالے ہیں ۔ چینی زبان کے ۲۰ مختلف افسانہ نگاروں کے افسانوں پر مشتمل اس مجموعے کی خوبی یہ ہے کہ اردو میں منتقل کرتے ہوئے زبان کو رواں اور سادہ رکھا گیا ہے۔حقیقت نگاری کے اسلوب میں لکھے گئے بیشتر چینی افسانوں کا لوکیل دیہات ہے۔ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بارچین کے ناول نگارفآن وِن کا کہا یاد آگیاجو میں نے کن منگ میں ہونے والی ادبی کانفرنس کے دوران سنا تھا ۔ فآن وِن کے مطابق’’ ینان کے لکھنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے قدموں تلے کی وسیع زمین کو، اور اس وسعت میں پھیلے ہوئے اور بسے ہوئے لوگوں کیسے شناخت کریں۔ چین کے وسیع لینڈ سکیپ میں رکھ کر دیکھیں تو صوبہ ینان میں چھپن مختلف نسلی گروہ ہیں اور لگ بھگ پچیس متنوع تہذیبیں ہیں اور ان سب کو ایک تیز تبدیلی کے دھارے کا بھی سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا ،سماجی ترقی کے نام پر تہذیبی ترقی اور روایات کو کیسے قربان کر دیا جائے ۔ ابھی اس خوب صورت زمین کے تاریخی اور ثقافتی خزانوں کی پوری طرح سامنے نہیں لایا جاسکا ہے ، ادب ہی اس مشکل سے ہمیں نکال سکتا ہے اور اس خزانے کو انسانیت کی جھولی میں ڈال سکتا ہے ۔‘‘
’’نوبل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘ افسانہ نگار اور مترجم نجم الدین احمد نے منتخب کرکے ترجمہ ہیں ۔ اس مجموعے میں وی ایس نیپال، امرے کیرٹیس، جے ایم کوئٹزی، اورحان پامک، ڈورس لیسنگ، جے ایم جی لی کلیزیو، ہیر ٹامُلر، ماریو برگس یوسا، مویان ، ایلس منروکے علاوہ سویتلانا الیگزائی وچ کے افسانوں کو شامل کیا گیا ہے ۔ ان افسانوں کے علاوہ نوبل انعام یافتہ ادیبوں کے تعارفی نوٹ کو بھی اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بین الاقومی فکشن کے تراجم کے سلسلے کی ایک اور اہم کتاب حوزے ساراماگو کا ناول’’التوائے مرگ‘‘ ہے جسے مبشر احمد میر نے ترجمہ کیا ہے۔ منتخب عالمی کہانیوں کا ایک انتخاب معروف افسانہ نگار محمود احمد قاضی نے کرکے اردو میں ڈھال دیا ہے ۔اس انتخاب میں نجیب محفوظ، مبار ک رابی، یوکیو مشی ما، محمد مرابط، یاسوناری کاوا باتا، چنگیز آتماتوف، میلان کنڈیرا ، مراد سرخانوف، ریمنڈ کارور اورگبرئیل گارشیا مارکیز اور دوسرے اہم فکشن نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں۔’’ای سی او کے رکن ممالک کی منتخب کہانیاں‘‘کے نام سے ایک انتخاب اختر رضا سلیمی نے کیا ہے ۔ اس انتخاب میں آذر بائیجان، ازبکستان، افغانستان، ایران، تاجکستان ترکمانستان ، قازقستان، اور کرغزستان کے علاوہ پاکستان کے فکشن نگاروں کی کہانیوں شامل ہیں۔
حمرا خلیق کی ’’چار کتابیں‘‘ کے نام سے چھپنے والی کتاب میں ’’نمکین چائے اور باقر خوانیاں ‘‘مطبوعہ ۲۰۰۳ء،’’عورت گھوڑا اور سمندر‘‘مطبوعہ ۲۰۰۶ء،’’کبوتروں کی پرواز‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۷ء اور ’’خدا میں اور تم‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۷ ء یکجا کی گئی ہیں ۔ ان کتب کے علاوہ ان تصانیف کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی تنقیدی اور تاثراتی تحریروں کو بھی کتاب کا حصہ بنا یا گیا ہے۔حمرا افسانہ لکھ رہی ہوں یا آپ بیتی یاپھرکسی فن پارے کا ترجمہ کریں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی نثر کا ایک خاص آہنگ بنا لیتی ہیں ۔
ناہید سلطان مرزا کے نئے ناول کا نام ’’روڈ ٹو موہنجوڈارو‘‘ ہے۔ انہوں نے اپنے اس ناول کے نام کے نیچے اس عبارت کا اضافہ کر رکھا ہے ’’آگے سمندر نہیں موہنجوڈارو ہے‘‘۔یہ ایسی کہانی ہے جس کے کردار کئی ہجرتوں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکاررہتے ہیں ، اپنے خوابوں سے بچھڑتے ہیں اوراپنے اندر کئی طرح کے خوف پالے ہوئے ہیں۔ اس ناول کی کہانی محض موہنجوڈارو کا قصہ نہیں کہتی آج کا نوحہ بھی بیان کرتی ہے ۔ اس میں ایک نسل کا نمائندہ موہنجوڈورو پر محض ایک فلم بنانا چاہتا ہے جب کہ دوسرا جو نئی نسل کا نمائندہ ہے ، اپنے ملک کو موہنجوڈورو بننے سے روک دینا چاہتاہے۔ ارشد وحید کا ایک اور ترجمہ میلان کنڈیرا کی فکشن کی تنقید’’ناول کا فن‘‘ کے نام سے اکادمی ادبیات نے ہی چھاپا ہے ۔ یادرہے ’’ناول کا فن‘‘ کے نام سے ہی میلان کنڈیر ا کی کتاب کا محمد عمر میمن کا کیا ہوا ترجمہ بھی پہلے سے مارکیٹ میں موجود ہے ۔پانچ مضامین اور دو انٹرویوز پر مشتمل میلان کنڈیرا کی تحریروں کا ارشد وحید کا کیا ہوا ترجمہ بھی بہت عمدگی سے چھاپا گیا ہے۔
نئی نسل کی اہم افسانہ نگار منزہ احتشام گوندل کے افسانوں کا مجموعہ ’’آئینہ گر‘‘ اس سال شائع ہونے والے لائق توجہ مجموعوں میں سے ایک ہے۔ منزہ کا افسانہ اپنے بیانیے اور موضوعات کی ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے مختلف ہو جاتا ہے اور ایسا منزہ کا بیانیے کی تشکیل میں ایک خاص تناؤ کا اہتمام اور موضوعات کوغیر معمولی جرات سے برتنے اورایسے زاویے سے دیکھنے کے سبب ممکن ہوا ہے جہاں سے دیکھنے کو ہمارے ہاں بالعموم معیوب سمجھا جاتا ہے ۔خود منزہ کا کہنا ہے کہ ’’میرے پاس اور تو کچھ نہیں ، ہاں اس بات پر فخر ضرور ہے کہ میں کسی کی طفیلیہ نہیں ہوں۔‘‘عملی زندگی میں شعار کیا گیا وتیرہ ان کے افسانوں میں بھی جھلک دے گیا ہے۔ اس مجموعے میں منزہ کے اکیس افسانے شامل ہیں۔
نوجوان افسانہ نگار اور مترجم حمزہ حسن شیخ کا تازہ کارنامہ کامل داؤد کے شہرہ آفاق ناول ’’موسیٰ کا مقدمہ‘‘ کے اردو ترجمے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حمزہ شیخ انگریزی اور اردو ، دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کی کتب امریکہ کے ناشر بھی شائع کر چکے ہیں ۔ ’’موسی کا مقدمہ‘‘ کے مصنف کامل داؤد ایک الجیرین صحافی ہیں بالعموم کہا جاتا ہے کہ فکشن کی حقیقت محض کاغذ کے احاطے سے باہر موجود نہیں ہوتی مگر واقعہ یہ ہے کہ فکشن کی حقیقت عمومی حقیقت کو بھی اپنے احاطے میں لے لیا کرتی ہے اس ناول میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ مصنف کا پہلا ناول ہے اور اس میں بھی فکشن کا ایسا تجربہ کیا جاتا ہے جس میں پہلے سے معروف کردار کو از سر نو تخلیق کرکے نئی حقیقت کو گرفت میں لیا گیا ہے۔
اس سال آغاز میں خالدہ حسین کے افسانوں کا ایک انتخاب اوکسفرڈ نے شائع کیا جسے معروف افسانہ نگار آصف فرخی نے ترتیب دیا تھا جب کہ اکادمی ادبیات پاکستان کی ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ سلسلے کی ایک اہم کتاب’’خالدہ حسین:شخصیت و فن‘‘ بھی اس برس شائع ہوئی ہے ۔یہ مونو گراف امینہ بی بی نے تحریر کیا ہے۔آصف فرخی نے آکسفرڈ والے انتخاب میں اٹھارہ اہم افسانوں کو شامل کیا ہے۔ امینہ بی بی نے خالدہ حسین پرکتاب بہت سلیقے، محبت اور محنت سے لکھ کر اسے اس سلسلے کی اہم کتابوں میں سے ایک کر دیا ہے۔
اس برس میری تین کتابیں’’پیکر جمیل‘‘ ،’’اردو افسانہ:صورت و معنٰی‘‘ اور ’’افسانہ کیسے لکھیں‘‘ شائع ہوئی ہیں۔ پہلی کتاب کا یہ ساتواں ایڈیشن ہے دوسری کا ایک ایک ایڈیشن پاکستان اور بھارت سے پہلے شائع ہوئے تھے یہ اس کی تیسری اشاعت ہے ۔ تیسری کتاب ’’افسانہ کیسے لکھیں‘‘ اکادمی ادبیات نے نئے لکھنے والوں کے لیے رہنما کتاب سیریز کے تحت افسانے کے فن اور تیکنیک پر لکھواکر شائع کی ہے ۔ نئے لکھنے والوں کے لیے رہنما سلسلے کی کتب میں اس سال شائع ہونے والی دو اور اہم کتب احمد حسین مجاہد کی’’رموز شعر‘‘ اور شعیب خالق کی’’ٹی وی ڈرامہ کیسے لکھا جاتا ہے‘‘ ہیں ۔ اکادمی اس سلسلے کی مزید کتابیں بھی جلد شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
صنف افسانہ سے محبت رکھنے والوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اس باب میں بہت عمدہ کام تواتر سے سامنے لایا جارہا ہے۔ ممتاز شیخ نے اپنے ادبی جریدہ ’’لوح‘‘ کا تازہ شمارہ ایک ضخیم افسانہ نمبر، ۱۱۵ سالہ ناگزیر افسانوں کے انتخاب کی صورت میں چھاپ کر سب کو چونکایا ہے۔ نوجوان افسانہ نگار رابعہ الربا نے دوجوجلدوں میں افسانے کا عمدہ انتخاب کرکے ’’اردو افسانہ عہد حاضر‘‘ کے نام سے چھاپ دیا ہے۔ اس میں دو سو معاصر افسانہ نگاروں کا انتخاب اور تعارف چھاپا گیا ہے ۔ ڈاکٹر انوار احمدکی کتاب اردو افسانہ : ایک صدی کا قصہ ‘‘نئے اضافوں کے ساتھ شائع ہوا ہے ۔ کتاب کے اس تیسرے ایڈیشن میں ۲۴۵ افسانہ نگاروں کا تذکرہ ہے۔ یہ سب کام اردو افسانے پر ایک حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس صنف کی مقبولیت کا ثبوت بھی ہیں۔ ادبی جریدے’’لوح‘‘ کا ذکر ہوا تو بتاتا چلوں کہ ’’مکالمہ‘‘،’’اجراء‘‘، تسطیر‘‘،’’عکاس‘‘،’’بیاض ‘‘،’’دنیا زاد‘‘ ،’’امروز‘‘،’’تفہیم ‘‘ ،’’پیلوں‘‘،’’ادب دوست‘‘اور دوسرے جرائد، کچھ باقاعدگی سے اور کچھ قدرے وقفے وقفے سے چھپتے رہے اور نئے ادب کو اپنے اپنے قارئین تک پہنچاتے رہے ہیں ۔ امجد طفیل ، ریاظ احمد اور عقیل کی ادارت میں ایک نئے جریدے’’استعارہ‘‘ کا طلوع بھی اس سال کی اہم خبروں میں سے ایک ہے۔
سعادت حسن منٹو آج بھی اردو کے مقبول ترین افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے ۶۷ افسانوں اور مضامین کا ایک عمدہ انتخاب’’منٹو کے متنازع افسانے ‘‘ کے نام سے ندیم احمد خان نے کیا جسے بہت اہتمام سے بک کارنر نے شائع کیا ہے۔اس باب میں مرتب کا کہنا ہے کہ منٹو کے معتوب افسانے ہی اردو ادب کے بڑے اور بہترین افسانے شمار ہوتے ہیں۔ کتاب کے آغاز میں آرٹ پیپر پر منٹو کی تصاویر کا البم بھی شامل کر دیا گیا ہے۔
سینئر افسانہ نگار مسعود اشعر کے انیس افسانوں کا ایک انتخاب بھی آکسفرڈ نے شائع کیا ہے۔ یاد رہے ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘اور ’’اپنا گھر ‘‘ جیسے مجموعے مسعود اشعر کا نام افسانے کے باب میں بہت اہم بنا دیتے ہیں ۔آکسفرڈ کے لیے یہ انتخاب بھی ڈاکٹر آصف فرخی نے کیا ہے ۔ مرتب نے بجا طور پر کہا ہے کہ مسعود اشعر موضوعات کے انتخاب، افسانوی تیکنیک اور کہانی کے ساتھ برتاؤ (یاٹریٹ منٹ) کے معاملے میں منفرد ہیں۔
’’پاکستان کی تہذیب و ثقافت‘‘ کشور ناہید کی تازہ کتاب ہے ۔ اس کتاب میں کشور ناہید نے اس موضوع کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے ۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اسے کشور ناہید نے لکھا ہے جو خود پاکستان کی بدلتی ہوئی ثقافت کانہ صرف اہم نشان ہیں ، اس ثقافت کے ایک ایک مظہر کی گواہ بھی ہیں ۔ کتاب میں قیام پاکستان سے لے کر اس کے دولخت ہونے تک کی تاریخ بھی ہے اور ہمارا ادبی منظر نامہ بھی، فنون لطیفہ کا ذکر بھی ہے اور تاریخی مقامات و مزارات کا احوال بھی۔ کشور ناہید نے اس کتاب میں تھیٹر، فلم ، ڈرامہ، پکوان، تہوار، کھیل، ملبوسات، ذرائع آمدو رفت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات پر ایک عینی شاہد کی طرح گفتگو کرکے اسے بہت اہم بنا دیا ہے۔
’’نقش پائے یوسفی‘‘ ’’بزم یاران اردو‘‘ کے زیر اہتمام متفرق لکھنے والوں کا ایسا مجموعہ ہے جسے عہد یوسفی کے نام معنون کیا گیا ہے ۔ شگفتہ تحریروں پر مشتمل اس مجموعے میں نئے پرانے لکھنے والوں کے ۲۳ مضامین شامل ہیں ۔ن مضامین کے علاوہ ہر لکھنے والے کا مختصر تعارف بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ناصر عباس نیر کی ایک اہم کتاب’’میرا جی کی نظم اور نثر کے مطالعات پر مشتمل ہے جو ’’اُس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے طویل مقدمے میں جہاں میرا جی کی شخصی زندگی پر اڑائی جانے والی دھول کو صاف کرنے کے جتن کیے گئے ہیں وہیں ان کی فنی زندگی پر سیر حاصل مکالمہ قائم کیا گیا ہے۔ناصر عباس نیر نے میرا جی کو اردو کا پہلا حقیقی جدید (ماڈرنسٹ) شاعر قرار دیا ۔ اس کتاب کے پہلے باب ’’سلسلہ روز وشب‘‘ ، ’’میں ڈرتا ہوں مسرت سے‘‘،’’عدم کا خلا‘‘،’’الجھن کی کہانی‘‘ ،’’ارتقا‘‘اور دوسری نظموں سے مقتبس کرتے ہوئے میرا جی کی جدیدیت کو خلا کی جمالیات قرار دیا گیا ہے۔یہیں ایک باب میرا جی کی نظم میں اساطیر اور جنس کے مطالعات پر مشتمل ہے ۔ دو الگ ابواب میں میرا جی کی اہم نظموں ’’ اجنتا کے غار‘‘ اور’’سمندر کا بلاوا‘‘ کے مابعد نو آبادیاتی اور ساختیاتی مطالعے ہیں۔ اگلے ابواب میرا جی کی تنقید اور تراجم کے حوالے سے ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ کتاب میرا جی پر ایک الگ سا مکالمہ قائم کرنے کی پر خلوص اور کامیاب کوشش ہے۔
ڈاکٹر صلاح الدین درویش کی اس سال شائع ہونے والی کتاب کا نام’’تنقید اور بیانیہ‘‘ ہے۔ یہ کتاب کئی حوالوں سے اہم ہے ۔ ڈاکٹر درویش نے اس کتاب میں نظری مباحث کو چھیڑا ہے اور عملی تنقید کے نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ تنقید کیا ہے، جدید حسیت کے کیا خال وخد ہیں، منفیت کیا ہے، افسانے کے کردار وں کی آزادی کہاں تک ہے اور غزل کا مسئلہ کیا ہے جیسے سوالات کے مقابل ہونے کے ساتھ انہوں نے فلسفہ تہذیب، ادب لبرل ازم اور تمدن جدید، ادب اور بین الاقوامیت، ادب ،رئیلزسے گلوبل رئیل ازم تک اور اردو کی ابتداکے سیاسی نظریات کو بھی موضوع بنایا ہے ۔ ناصر عباس نیر کی نظر میں صلاح الدین درویش کی تنقید اپنی اساس میں اسی ترقی پسند عملیات کی حامل ہے جسے گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں ایک نئی تحریک کی فکری بنیاد کے طور پر اختیار کیا گیا تھا۔
جاذب قریشی کے سو مضامین پر مشتمل مضامین کا مجموعہ’’میری تنقید‘‘ بھی اسی برس شائع ہوا ہے ۔ یہ ان کے مضامین کے انتخاب کا حصہ اول ہے۔ جاذب قریشی کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء تک زیادہ تر موضوعاتی تنقید لکھی جاتی رہی اور زندہ تخلیق کاروں پر لکھنے کو کم تر درجے کا کام سمجھا جاتا رہا ۔ جسے کم تر درجے کا کام سمجھا جاتا رہا تھا اسے جاذب قریشی نے اسے توقیر دینے کی ٹھانی اور زیادہ تر زندہ ادیبوں پر لکھا ۔ خیر زندہ ادیبوں اور نئے ادب پر لکھنا سن اسی کے بعد کہاں لائق توجہ ہو گیا تھا بلکہ بعد میں تو تنقید تخلیقی عمل کو ہی لائق اعتنا نہ سمجھتی رہی اور خود مکتفی ہونے کی جھونک میں فلسفیانہ مباحث میں الجھتی رہی ۔جاذب قریشی کی اس کتاب میں غالب ، ناسخ، شبلی، اقبال، حسرت موہانی سے لے کر عزیز حامد مدنی، منیر نیازی، ظفر اقبال ،جون ایلیا اور بعد کے لکھنے والوں کو جن میں سلیم کوثر ،لیاقت علی عاصم ، ادا جعفری، شاہدہ حسن سے حنیف اسدی تک کئی نام آتے ہیں ، کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
غزل کے عمدہ شاعر محمد مظہر نیازی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’حرف تحسین‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے ۔ لگ بھگ چھیالیس کتابوں پر کیے گئے مضامین کواس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اس برس خالدہ حسین کے تازہ افسانوں کا مجموعہ ’’جینے کی پابندی‘‘ مرتب کرنے اور اس پر تقریظ لکھنے کا اعزاز مجھے ملا۔ اس مجموعے میں خالدہ حسین کے جن افسانوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں ’’نام رکھنے والے‘‘،’’ طاق نسیاں‘‘،’’ جان من و جا ن من شما‘‘،’’موہن جو ڈرو‘‘،’’پکنک‘‘،’’جائے کہ من بودم‘‘،’’عزت مآب‘‘،’’معدن‘‘،’’واپسی‘‘،’’دادی جان چھٹی پر ہیں‘‘،’’نوٹس‘‘،’’جینے کی پابندی‘‘،’’خانہ دِل‘‘،’’ متبادل راستہ‘‘ ،’’ابن آدم‘‘اور ’’مجھے روک لو‘‘ کے علاوہ’’شہزادہ خوش بخت‘‘ جیسے اہم افسانے اور دو تراجم شامل ہیں ۔ خالدہ حسین کے فن کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ایک ہی متن میں مختلف جہتیں رکھ دیتی ہیں ۔ ان کے افسانوں میں سماجی سیاسی مذہبی زندگی کی حقیقی تصاویر کو بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اس کی ذرا گہری تہہ میں انسانی نفسیات کی اکھاڑ پچھاڑ اور اس سے قدرے اور گہری تہہ میں کسی حد تک ہماری زندگیوں کو ایک بھید بناتی مابعد الطبیعیات کوبھی۔ آپ ان کے تشکیل دیے گئے بیانیے کو تہہ در تہہ چھیلتے جاتے ہیں اور اس میں سے معنٰی کی تہیں برآمد ہوتی جاتی ہیں ۔

Leave a Comment