٭سعدیہ صدف
ریسرچ اسکالر، عالیہ یونیورسٹی،کولکاتا۔
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
ان جیسے ہزاروں اشعار کے خالق ،پدم شری ندا فاضلی ہیں، آج ان کا یوم پیدائش ہے ۔۔ندا نے 12 / اکتوبر 1938 کو دہلی میں آنکھیں کھولیں ۔۔۔گوالیار میں پلے بڑھے ۔۔۔انگریزی ادب میں اعلی تعلیم حاصل کی ۔۔۔تعلیمی سلسلے کے دوران ہی شاعری کا شوق پنپنے لگا اور شعر گوئی کی طرف مائل ہوئے۔۔۔
بس پھر کیا تھا مقتدی حسن نے ندا فاضلی کے نام سے مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے ۔۔۔ندا نے قلیل مدت میں اپنے منفرد لب و لہجہ کی بدولت اس قدر شہرت حاصل کر لی کہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے کامیاب شاعر بن گئے۔۔۔ان کی شاعری میں اردو اور ہندی کا دلکش امتزاج موجود ہے ۔۔۔اس کا اظہار ان کی غزلوں ،نظموں اور دوہوں سے بھی ہوتا ہے۔۔۔۔یہی وجہ ہے ان کے یہاں قاری ترسیل کے المیے کا شکار نہیں ہوتا ۔۔۔ان کے کئ شعری مجموعے منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں ۔۔جن میں ۔۔۔
لفظوں کا پل\”
آنکھ اور خواب کے درمیان \”
مور ناچ\”
کھویا ہوا سا کچھ \”
وغیرہ کافی مشہور ہوئیں ۔۔۔۔\”کھویا ہوا سا کچھ\” پر انہیں 1998 میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔۔۔\”شہر میں گاوں \” ان کا کلیات ہے۔۔۔۔
ندا نے نثری فن پارے بھی یاد گار چھوڑے ہیں جن میں
ملاقاتیں
چہرے
دنیا مرے آگے
دیواروں کے بیچ (خود نوشت سوانح عمری ) وغیرہ ہیں ۔۔جن سے یہ آشکارا ہے کہ ندا نہ صرف ایک اچھے شاعر تھے بلکہ کامیاب نثر نگار بھی تھے۔۔۔
ندا نے 1964 میں کام کی تلاش میں ممبئ کا رخ کیا ۔۔۔یہاں مشاعروں سے شہرت ملتی گئ ۔۔وہ دھرم یگ اور بلٹز کے لئے لکھنے لگے ۔۔ان کی شہرت و مقبولیت نے ڈائریکٹرز کی توجہ ندا کی جانب مبذول کرائ ۔۔۔ بس پھر کیا تھا بالی ووڈ ندا کے نغموں سے گونجنے لگا ۔۔۔۔
آپ تو ایسے نہ تھے\”۔۔۔\”۔رضیہ سلطانہ\” ۔۔۔۔\”ہر جائ\” ۔۔\”۔ریڈ روز۔\”۔۔۔\”انوکھا بندھن\” ۔۔۔۔۔\”سجدہ\”۔۔۔\”اس رات کی صبح نہیں\” ۔۔۔۔\”۔تمنا \”۔۔۔\”سرفروش\” ۔۔\”سر\” ۔\”۔دیو\” اور\” یاترا\” جیسی فلموں میں بحیثیت نغمہ نگار اپنے فکر کی جولانیاں دکھائیں۔۔۔۔ان کے مشہور نغموں میں۔۔۔
تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے ۔۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ۔۔۔۔
ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے۔۔۔۔۔
آ بھی جا۔۔۔۔۔ وغیرہ ہیں ۔۔۔۔
فلم سر \” کے لئے 2003 میں اسٹار اسکرین کی جانب سے best lyricist کا اعزاز ملا۔۔
نغموں کے علاوہ ندا نے فلموں کے لئے مکالمے بھی لکھے ۔۔۔ان میں فلم دیو اور یاترا مقبول ہیں۔۔۔
ندا کی غزلوں اور ان کے دوہوں کو مشہور غزل سنگر جگجیت سنگھ نے اپنی خوبصورت آواز دی ۔۔۔1994 میں انسائٹ کے نام ان کا البم منظر عام پر آیا ۔۔جس میں موجود ندا کے احساسات سے پر کلام کی بڑی پذیرائ ہوئ۔۔۔۔
ندا قومی ہم آہنگی کے شاعر تھے۔۔ انہوں نے اپنا پیغام محبت بغیر امتیاز مذہب و ملت اپنے کلام کے ذریعہ پہنچایا۔ان کی تخلیقات کی فہرست طویل ہیں ۔انہوں نے اردو ہندی اور گجراتی میں کل 24 کتابیں لکھی ہیں جن میں سے کئ ایک مہاراشٹر کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔۔۔
ندا کی شاعری میں ہمیں اکہراپن کہیں نظر نہیں آتا ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کئ جہات کی حامل ہے ۔۔۔انسانی مزاج کے تمام تر رنگوں کی عکاسی ان کی شاعری میں موجود ہے ۔۔۔اس لئے یہاں ہمیں ہر وہ بات ملتی ہے جو ہم پر گزری یا گزر رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ ندا مختلف موڈ کا شاعر ہے ۔۔جس کی شاعری عوام۔کے دل پر وہی تاثر پیدا کرتی ہے جو ندا خود محسوس کرتے تھے۔۔۔
تقسیم وطن سے ندا نے یکسر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔۔۔اس لئے ان کی شاعری میں ایک باغی انسان ۔۔روایت کا امین ۔۔۔ماضی کی یادوں میں مقید بچہ تک موجود ملتا ہے ۔جو بلک بلک کر پرانے لمحات واپس لانا چاہتا ہے ۔۔۔اس کی تصدیق خود ندا کی نظم\” لفظوں کا پل\” سے ہوجاتی ہے ۔۔۔۔
مسجد کا گنبد سونا ہے
مندر کی گھنٹی خاموش
جزدانوں میں لپٹے آدرشوں کو
دیمک کب کی چاٹ چکی ہے
رنگ
گلابی
نیلے
پیلے
کہیں نہیں ہیں
میں اس جانب
تم۔اس جانب
بیچ میں میلوں گہرا غار
لفظوں کا پل ٹوٹ گیا ہے
میں بھی تنہا
تم بھی تنہا!!!
(ماخوذ از : لفظوں کا پل)
اس ضمن میں ان کی ایک اور نظم \”فاصلہ\” کا مطالعہ بھی لازمی ہو جاتا ہے۔۔کیونکہ شاعر اس بٹوارے پر نالاں ہے اور خدا سے اس کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے ۔۔۔۔
فاصلہ
جو تمہارے اور میرے درمیاں ہے
ہر اک زمانہ کی داستاں ہے
نہ ابتدا ہے
نہ انتہا ہے
مسافتوں کا عذاب سانسوں کا دائرہ ہے
نہ تم کہیں ہو
نہ میں کہیں ہوں
تلاش رنگین واہمہ ہے
سفر میں لمحوں کا کارواں ہے
یہ فاصلہ!
جو تمہارے اور میرے درمیاں ہے
یہی طلب ہے یہی جزا ہے
یہی خدا ہے ۔۔۔
ان کے دوہوں میں بھی یادوں کا بسیرا موجود ہے ۔۔۔
میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار
دکھ بے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار ۔۔۔۔
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑامکان۔۔۔۔
نقشہ لے کر ہاتھ میں بچہ ہے حیران
کیسے دیمک کھا گئی اس کا ہندوستان
سیدھا سادھا ڈاکیہ جادو کرے مہان
ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسو اورمسکان
سب کی پوجا ایک سی الگ الگ ہر ریت
مسجد جائے مولوی کوئل گائےگیت۔۔۔
ندا کی غزلیں بھی اسی ناسٹالجیہ کی غمازی کرتی نظر آتی ہیں ۔۔۔کرب کی ہلکی ٹیس یہاں بھی موجود ہے ۔۔۔۔۔امید و یاس کی کشمکش سے گزرتا انسان یہاں بھی ہمیں سر جھکائے خاموش اور حیران ملتا ہے ۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا۔۔۔
اسی طرز کی ایک غزل اور ملاحظہ کریں جس میں دنیا کی بے وفائی و خود پرستی کا اظہار افسوس ناک انداز میں موجود ہے۔۔
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ
جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں
یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا
اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
الغرض ندا منفرد لہجے کے سچے شاعر ہیں جن کی شاعری خود ان کی شخصیت کی طرح ہر قسم کے بناوٹ سے پاک ہے ۔۔۔۔
وہ ہر دل میں اتر جانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔۔۔ انہوں نے خود پر بیتے حالات کو اس طرح پیش کیا کہ آپ ہی آپ بیتی جگ بیتی بن گئ۔۔۔۔
ندا ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔۔۔
دنیا ہمیشہ انہیں ان کے کلام اور نغموں سے فیض پاتی رہے گی۔۔۔۔