’’ندیم صدیقی نے سب کی جانب سے فرض کفایہ ہی نہیں بلکہ حق ادا کر دیا ہے۔‘‘

مرحوم شعرا و ادبا کے تذکروں، اور یادوں پر مشتمل کتاب’پُرسہ‘ کی تقریبِ اجرا میں ادب دوستوں کی کثیر تعداد میں شرکت
\"9b5e3c23201c499fb8c94515eb3a267b_XL\"

ممبئی: ندیم صدیقی نے ادب و صحافت کو جس طرح برتا ہے فی زمانہ اس کی مثال کم کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ وصف خواص ہی کا حصّہ رہا ہے۔ معمولی موضوعات بھی طرز ِتحریر کے سبب غیر معمولی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔، ندیم صدیقی کے ہاں یہ وصف پڑھنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔     بہ الفاظِ دیگر ان خیالات کا اظہار ممتا ز ادیب اور فلم رائٹر جاوید صدیقی ہی نے نہیں بلکہ ممبئی یونی ورسٹی میںفارسی کے استاد راجند جوشی نے بھی کیا۔

     گزشتہ جمعے۴ مارچ کی شام اُردو کے سینئر صحافی، شاعر و ادیب ندیم صدیقی کی یادوں اور مرحوم شعرا و ادبا پر اُن کے مضامین پر مشتمل کتاب ’’پُرسہ‘‘ کی تقریبِ اجرا ممبئی پریس کلب(واقع آزاد میدان) میں انجام پائی۔ جس کا اہتمام وائس آف اُردو، معیشت میڈیا اور ماہنامہ بانگِ درا جیسے اداروں نے کیا تھا۔     ’’ادبی تقریبات میں ایسا شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے کہ کسی کانفرنس ہال میں تنگ دامانی کا احساس منظر بن جائے ‘‘۔ممبئی کے قلب میں واقع مؤقر پریس کلب میں کتابِ مذکور کی اجرائی تقریب میں معیشت میڈیا کے ڈائریکٹر دانش ریاض نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے حیرت اور مسرت کے ملی جُلی کیفیات  کے ساتھ مندرجہ بالااظہار کیا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ کسی کتاب اور بالخصوص اُردو کتاب کی اجرائی تقریب میں ممبئی پریس کلب کا یہ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ جبکہ پریس کلب کی انتظامیہ نے اپنے یہاں تمام کرسیاں حاضرین کےلئے بچھا دِی ہیں،لیکن حالت یہ ہے کہ شرکائے تقریب کی خاصی تعداد راہداری میں کھڑے ہو کر فاضل مقررین کو سماعت کرنے پر مجبور ہے۔‘‘

     اس تقریب کا آغاز جامعہ ممبئی کے جواں سال اُردو کے ریسرچ اسکالر احرار اعظمی کے تفصیلی مقالے سے ہوا۔ جس میں انہوں نے ’ پُرسہ‘ کے مصنف ندیم صدیقی کے اسلوبِ نگارش پر کلام کیا اور کئی اقتباس بھی پیش کئے۔

     ممبئی کی ممتاز بزرگ سماجی شخصیت اور شہر کے کئی فلاحی اداروں سے وابستہ علی ایم شمسی نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں ندیم صدیقی کے ایڈیٹ کردہ ادبی صفحات اور ان کےکالم ’’آجکل‘‘ کا بے چینی سے انتظار کرتا رہتا ہوں۔ علی ایم شمسی نے ندیم صدیقی سے اپنے چالیس سالہ تعلقات کا ذکرکرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ’’ ہم ان چار دہوں میں بہت کم ملے ہیں مگر ندیم صدیقی کی تحریروں کے ذریعے’’ایک ملاقات‘‘ چلی آتی ہے۔ ندیم صدیقی سے ہم شاعر ہی کی حیثیت سے متعارف ہوئے تھے مگر رفتہ رفتہ ان کے اوصاف کھلتے گئے اور ان کے قلم کی روشنائی نے ہماری چشم و قلب کو ایسا متاثر کیا کہ اب سوچ رہے ہیں کہ ہم ا نکی شاعری کی داد دیں یا ان کے نثری مضامین کی۔‘‘

     جدید لہجے کی ممتاز شاعر عبد الا حد ساؔز نے بتایا کہ’’ ندیم صدیقی کے والدِ گرامی حضرتِ جمیل مرصّع پوری اور میرے پدرِ بزرگوار مولانا عبد الرزاق سعید(مرحوم) کے مراسم خاصے پرانے ہیں اس طرح یہ تعلق بزرگوں کی دوسری نسل میں بھی پروان چڑھا۔ ندیم صدیقی مشاعروں کے حوالے سے مشہور ہیں ہی مگر ان کی صحافتی اور ادبی تحریریں بھی مجھے متوجہ کرتی ہیں۔ ان کی یہ کتاب ابھی میں نے نہیں پڑھی مگر اس کی ورق گردانی سے پتہ چلا کہ اس کے اکثر مضامین میں پڑھ چکا ہوں۔ ندیم صدیقی کو پڑھتے ہوئے ہمیں مولانا انجم فوقی بدایونی اور ڈاکٹر ظ انصاری کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ،یہ کم اہم بات نہیں ہے۔‘‘

    ’’Selfie کے اس پُر فتن دَور میں نرگسیت کا بول بالا ہے۔ اچھے بھلے لوگ بھی خود نمائی جیسے مہلک مرض کے شکار ہو رہے ہیں، انھیں اپنے سِوا کوئی نظر نہیں آتا۔ ایسے میں اپنی ذات کے اندھے کنویں سے نکل کر دوسروں کی قدر کرنا، دوسروں کے محاسن کو نمایاں کرنا، اس دَور میں بڑی بات ہے۔‘‘ یہ لفظیات اُردو کے ممتاز فکشن نگار، کئی کتابوں کے مصنف اور ممتاز(آزاد صحافی) فری لانس جرنلسٹ ڈاکٹر سلیم خان(ابو ظبی) کے ہیں ، انہوں نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ’’ ندیم صدیقی کا پُرسہ اسلاف اور اپنے ہم عصر مرحومین کےلئے ایک بہترین خراج ہی نہیں بلکہ نئی نسل کےلئے ایک درس بھی لئے ہوئے ہے۔ اس کتاب کے مندرجات میں تاریخ کے صفحات میں رہنے والی ہستیوں کا نہیں بلکہ اُن شخصیات کا تذکرہ ہے جن کو ہم نے اپنے آس پاس دیکھا تو تھا مگر اُن کی خداداد صلاحیتوں کا ادراک نہ کرسکے اور اگر کیا بھی تو اس کے اظہار سے محروم رہے۔ قابلِ تحسین ہیں ندیم صدیقی کہ اُنہوں نے ہم سب کی جانب سے ایک فرضِ کفایہ، کیا بلکہ حق ادا کر دیا۔ شاعر ندیم صدیقی کے اس دعوے کی تصدیق اس کتاب کے ہر صفحے پر موجود ہے کہ’  جو شاعر غزل کا شعر کہنا جانتا  ہے اس کےلئے نثر میں شعریت پیدا کرلینا کوئی مشکل نہیں ۔‘

    پُرسے کا مطالعہ کرتے وقت قاری زبان و بیان کی شیرینی اورکشش کے ساتھ حقیقت اور تحیّر کی انتہاؤں کے درمیان معلق رہتا ہے۔ کتاب کے خاتمے تک اپنی کوشش کے باوجود پڑھنے والا حیرت و استعجاب سے نکل نہیں پاتا،  ڈاکٹر سلیم خان نے بصد اصرارا یہ بھی کہا کہ یہ تصنیف جو بظاہر ایک کتاب ہے مگر یہ ایک جِلد میں تین کتابوں کو سموئے ہوئے ہے۔ ایک تو تذکرے ہیں جو دو حصوں یعنی مفصل اور اِ جمال کےزمروں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دو نا تمام تذکرے بھی ہیں جو مستقل ایک کتاب کا تقاضہ کرتے ہیں۔ روزنامہ اُردو ٹائمز میں شائع ہونے والے کالم’’ آجکل‘‘ کا انتخاب بھی پُر کشش ہے تو زبان و بیان کے رموز سے متعلق ایک تفصیلی مضمون’’ ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑیے صاحب‘‘ کسی سبق سے کم نہیں۔ اس لئے میں کہوں گا کہ آج ندیم صدیقی کی ایک نہیں تین کتابوں کا  اجرا عمل میں آرہا ہے۔‘‘

     صاحبِ کتاب ندیم صدیقی نے اپنے خطاب میں خاص و عام کی تخصیص کے بغیر جملہ حاضرین کا شکریہ اداکرتے ہوئے ’’پُرسَہ‘‘ کے حوالےسے بتایا کہ یہ کتاب در اصل گزری ہوئی ہماری شاندار تہذیب و ادب اور بالخصوص وہ حضرات جو شہرت اور ناموری سے بے نیاز، اپنے ذوق و شوق کے زیر اثر زبان و ادب کی خدمت پر یقین رکھتے تھے۔ اُن مرحومین کا ، ہماری زبان کے لوگوں کےلئے ایک پُرسہ ہے اس پُرسے کو ماضی کی داستان نہ سمجھا جائے بلکہ اس سے ہم اپنے حال کو روشن کر سکتے ہیں اور نئی نسل کو یہی کرنا بھی چاہیے۔

 تقریب کے صدر اور فارسی کے اُستاد راجندر جوشی جو بالخصوص اس کتاب کی اجرائی تقریب کےلئے پونے سے تشریف لائے تھے‘ انہوں نے کہا کہ’’ میرے نزدیک اُردو زبان و ادب کی نئی نسل کےلئے یہ کتاب کسی بھی دستاویز سے کم نہیں۔‘‘

     شریمان جوشی نے الگ سےیہ بھی کہا کہ’’ میں کسی اور کی تو نہیں کہہ سکتا مگر اپنا تجربہ ضرور بیان کر سکتا ہوں کہ اس کتاب میں جو لوگ ہیں ان میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر میں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ مجھے اس کتاب سے پتہ چلا کہ اس شہر میں کوئی بلال انصاری بھی تھے جو ایک غیر معمولی صنف’’ تشطیر‘‘ میں طبع آزمائی کرتے تھے ۔ اسی طرح اس کتاب سے بہت ساری ان لفظیات کی طرف بھی ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے جو ہمارے ہاں بول چال میںعام ہیں مگر ان کی اصل معنویت سے ہم بے پروا ثابت ہوئے ہیں۔‘‘

     راجندر جوشی کے صدارتی خطاب کو زبان و بیان کی گو ناگوں خوبیوں کے سبب بڑی تو جہ سے سنا گیا ۔ اُن کے اس جملے پر تو پورا ہال دادو تحسین سے گونج اُٹھا کہ’’ اس ہال میں ادب کے شائقین کا مجمع دیکھتے ہوئے مَیںمحسوس کر رہا ہوں کہ پورا ہال ایک ڈائس کی شکل اختیار کر گیا ہے۔‘‘

      واضح رہے کہ اس تقریب کے شرکا میں ادب کا ستھرا ہوا ذوق رکھنے والوں کی کثرت تھی۔ حاضرین سے خطاب کرنے والوں میں ممتاز سینئر صحافی خلیل زاہد اور ممتاز سماجی شخصیت مشتاق انتولے تھے تو وہیں معروف سیاسی قائد ایڈوکیٹ سید جلال الدین بھی تقریب کی رونق بنے ہوئے تھے۔ مفتی اعظم مہاراشٹر عزیز الرحمان فتح پوری کی دُعا پر یہ پر وقار تقریب اختتام کو پہنچی۔

Leave a Comment