نواب مرزا خاں داغ دہلوی :عہد حیات اور فکر و فن کے موضوع پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سہ روزہ قومی سمینار کاشاندار آغاز

داغ کے طرز سخن نے اردو میں بڑی شاعری کے لیے راستہ ہموار کیا ۔پروفیسر شمیم حنفی

اردو کے عوامی کلچر کی بازیافت ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز

\"dsc_0059\"

حیدرآباد، ۲۱،ستمبر ۲۰۱۶ /داغ کی شاعری نے اعلی تخلیقی سطح پر نہ تو کسی بڑے مسئلے کی نشاندہی کی اور نہ کوئی بڑا سوال اٹھایا مگر اپنی اس بے مائیگی کے باوجود داغ کی شاعری نے اردو کی شعری روایت کے ارتقا اور اردو غزل کی مقبولیت کے دائرے کو وسعت دینے میں جو رول ادا کیا وہ میر وغالب اور اقبال کسی کی شاعری کے بس میں نہ تھا ۔ان خیالات کا اظہار ممتاز ادیب اور نقاد پروفیسر شمیم حنفی نے شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام نواب مرزا خاں داغ دہلوی :عہد،حیات اور فکر و فن کے موضوع پر سہ روزہ قومی سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرنے کے دوران کیا ۔سمینار کی صدارت شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے فرمائی ۔ڈاکٹر سید تقی عابدی کناڈااور پروفیسر نسیم الدین فریس بہ حیثیت مہمان اعزازی شریک ہوئے ۔سمینار کے ڈائرکٹر اور صدر شعبۂ اردو پروفیسر ابو الکلام نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔ ڈاکٹر شمس الہدی قومی سمینار کے کنوینر تھے ۔ ڈاکٹر مسرت جہاں نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا ۔کلمات تشکر ڈاکٹر بی بی رضا خاتون نے ادا کیے ۔افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر عمیر منظر لکھنونے انجام دی۔محمد قاسم نے کلام پاک کی تلاوت کی ۔
پروفیسر شمیم حنفی نے کلیدی خطبہ میں داغ کی شاعری اور اس عہد کے مختلف تہذیبی اورثقافتی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داغ کی شاعری میں ہمیں خیالات کی پیچیدگی ،زمانے کے حالات پر گہری شاعری یا سنجیدہ تصوارتی شاعری کا سراغ بھی نہیں ملتا یااگر ملتا بھی ہے تواس کے نقوش دھندلے بہت ہیں ۔پروفیسر شمیم حنفی نے اس بات پر زور دیا کہ داغ اس تہذیب کے نمائندے تھے جس کا مزاج عوامی تھا اور اسی لیے عوام و خواص سب نے جی کھول کر داد دی ۔پروفیسر شمیم حنفی نے اسی عوامی مقبولیت کے تناظر میں کہا کہ اردو دنیا کے دوردراز علاقوں تک داغ کی شاعری کا جادو جس طرح پھیلا اور اردو کی قبولیت کے دائرے کو جس طرح وسعت دی وہ اردو کے بڑے سے بڑے شاعر کے حداختیار سے آگے کی چیز ہے ۔انھوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ رہا داغ کی شاعری کاعامیانہ پن اور فکری سطحیت تو اس کی مثالوں سے میر وغالب اور اقبال کسی کا کلام خالی نہیں ہے ۔
پروفیسر شمیم حنفی نے یہ بھی صراحت کردی کہ داغ کے طرز سخن کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے خود تو بڑی شاعری نہیں کی لیکن اردو میں بڑی شاعری کے لیے راستہ ضرور بنا یا۔یہ ایک طرح کی خاموش فیض رسانی تھی جس کے وسائل کو سمجھنا اور برتنا اوسط درجے کی تخلیقی صلاحیت رکھنے والوں کے لیے مشکل نہیں تھا۔
\"dsc_0146\"

صدارتی خطاب میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے اردو زبان سے اپنی ذہنی وابستگی پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زبان محض ادب سے زندہ نہیں رہتی ۔انھوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم ایک ایسی فضا پیدا کریں کہ اردو کا عوامی کلچر سامنے آسکے نیز مختلف علوم کے طالب علموں کو اردو میں مواد مل سکے تاکہ اردو زبان کی ثروت مندی میں اضافہ ہو اور ہم ایک نیا علمی اور ادبی ماحول پیدا کریں ۔ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے اردو اساتدہ سے خاص طور پرکہا کہ وہ طلبہ کے اندر ایک ایسی فضا پیدا کریں کہ اردوکا وہ ماحول واپس آسکے جس کا ذکر ہم کتابوں میں پڑھتے رہتے ہیں ۔
صدر شعبہ پروفیسر ابو الکلام نے مہمانوں اور حاضرین کا خیرمقدم کیا ۔انھوں نے کہا کہ داغ کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے ۔انھوں نے اردو شاعری کو جو شہرت اور مقبولیت بخشی اس کا تقاضا تھاکہ ان کی شعری خدمات پر از سرنو غور کیا جائے ۔
مہمان اعزازی ڈاکٹر سید تقی عابدی کناڈانے داغ کی مختلف شعری بصیرتوں پر روشنی ڈالی اور انھوں نے داغ کے از سرنو مطالعہ پر زور دیا۔انھوں نے اس موقع پر داغ کی عشقیہ شاعری کی طرف لطیف اشارے کیے ۔
ڈین فیکلٹی اسکول برائے لسانیات ،السنہ ہندستانیات پروفیسر نسیم الدین فریس نے داغ کی شخصیت ،ان کے شخصی اخلاص اور دوستی و رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داغ کی شاعری ہمارے لطیف تاروں کو چھیڑتی ہے اور ہم اس سے حظ اٹھاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ داغ کی شاعری زبان کا ایک عمدہ اوراعلی معیار پیش کرتی ہے ۔
افتتاحی اجلاس کے اختتام پر یونیورسٹی کا ترانہ پیش کیا گیا ۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے ڈین،ڈائرکٹرز اور مختلف شعبوں کے صدور تدریسی اور غیرتدریسی عملہ ،عمائدین شہر اور ر طلبہ و طالبات اور ریسرچ اسکالر زکی بڑی تعداد موجود تھی ۔
\"14390714_1536941752998249_6050131869104822682_n\"
\"dsc_0145\"

Leave a Comment