زینب سعیدی،تہران ایران
zeinabs69@yahoo.com
باد نوروز آمد و درهای بستان کرده باز
گل جهانی را به روی خویش خندان کرده باز
غنچہ بہر صد درم گل را بہ زندان کرده بود
زر بداد آن گہ صبا و قفل زندان کرده باز
امیر خسرو دہلوی
نوروز: ایران کی تاریخ مختلف تہواروں اور تقریبات سے بھری ہوئی ہے جن میں کچھ مذہبی اور کچھ قومی بھی ہیں- ان میں سے ایک \”نوروز\” بھی ہے- نوروز ایک مرکب لفظ ہے جو دو جز \”نو\” اور \”روز\” سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب\” نیا دن \”ہے اور اس لیے شمسی سال کے پہلے مہینے کے پہلے دن کو یہ نام دیا گیا ہے- اس کی دوسری تعریف ایرانی کیلنڈر میں سال کا پہلا دن ہے مطلب \”فروردین\” مہینے کا پہلا دن(عام طور پر 20یا 21مارچ کو ہوتا ہے)- اس موقع پر ہر سال لوگ نئے ہجری شمسی سال کے موقع پر نوروز کے جشن کو بہت جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں-
شمسی کیلنڈر: ایرانی کیلنڈر دنیا کا ایک بہت اہم اور عین مطابق کیلنڈر ہے- یہ کیلنڈر ہجری شمسی کی قسم سے ہے- اس کیلنڈر کا آغاز، بہار اور فطرت کی شگفتگی کی شروعات سے ہے- ایران میں با قاعدہ چار موسم اور صاف اور روشن آسمان کی وجہ سے، ایرانی لوگوں نے کیلنڈر میں فطرت سے بہت کام لیے- ہجری شمسی کیلنڈر کا آغاز ہجری قمری کی طرح حضرت محمد(ص) کی نقل مکانی مکہ سے مدینہ تک کےسال سے ہے- یہ کیلنڈر پانچویں صدی ہجری میں جلال الدین ملکشاہ سلجوقی کے حکم اور خیام نیشابوری اور دیگر علماء کے ایک گروپ کی کاوش سے تیار کیا گیا- ان کے حساب کے مطابق ایک شمسی سال 365دن، 5گھنٹے، 5منٹس اور 46سیکنڈز کے برابر ہے- شمسی سال سورج کے گرد زمین کی گردش کی مدت پر مبنی ہے اور یہ کیلنڈر بالکل فلکیاتی حساب پر مبنی ہے- یہ کیلنڈر \”آریا میترائی\” سے ماخوذ ہے اور یہ سال 1395 شمسی ہے-
نوروز کا پس منظر: عید نوروز کی دقیق تاریخ کے بارے میں کوئی درست تحریر موجود نہیں ہے لیکن بغیر کسی مبالغے کے ایک بہت پرانی تاریخ ہے جو دنیا کے مختلف نسلی گروہوں کے در میان کا حامل ہے- نوروز \”جمشید\” چوتھے \”پیشدادی \”بادشاہ کے زمانے سے وجود میں آیا اور اس کی بادشاہی کے زمانے سےہی ایک رسم کی شکل اختیار کیا ہے- تاریخ دانوں اور محققوں کے در میا ن نوروز کی شروعات کے بارے میں تضاد ہے- ایسا لگتا ہے کہ آریا نسل ایران پلیٹو میں سکونت پذیر ہونے کے بعد سال کو دو حصے میں تقسیم کرتے تھے کہ ہر حصہ ایک انقلاب سے شروع ہو جاتا تھا- ان دنوں موسم گرما کے انقلاب کے موقع پر \”نوروز جشن\” اور موسم سرما کے انقلاب کے موقع پر \”مہرگان جشن\” مناۓ جاتے تھے- بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ دونوں جشن پہلے سے ہی ایران میں منائے جاتے تھے اور ایسا مانا جاتا ہے کہ آریاسے پہلے نسل بھی ان تہواروں کو مناتے تھے-
نوروز کا رسم و رواج: ہر سال بہار کے موسم کے نزدیک آنے کے ساتھ ہی ایران کی عوام اپنے خوبصورت رسم و رواج سے نوروز کا استقبال کرتے ہیں- نوروز کے آداب اور رسم و رواج خاص اور متنوع قسم کے ہیں جن میں بعض کا تعلق سال کے آخری ایام یعنی نئے سال میں داخل ہونے کے الزامات، تحویل سال اور نئے سال کے ابتدائی دنوں سے ہے-
ہر سال \”اسفند\” مہینے میں نئے سال سے قبل کے دنوں میں ایران کے بازاروں میں عوام کی بھیڑ ہوتی ہےکہ جو نوروز کے ایام میں ضروریات کی چیزیں من جملہ کپڑے، گھر کا سامان اور مہمان نوازی کی اشیاء من جملہ خشک میوہ جات اور میٹھائیاں و غیرہ خریدتے ہیں- کیونکہ سبیے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سال کے آغاز میں نیا لباس زیب تن کریں اور بہترین کھانوں سے مہمانوں کی پذیرائی کریں اور نئے سال کے آغاز میں اپنی زندگی کی نئی شروعات کریں-
نوروز کے کھانے اور میٹھائیاں بھی ان رسم و رواج میں شامل ہے کہ جو ایران میں اکثر علاقوں میں نوروز کی آمد سے قبل ہی بننا شروع ہو جاتی ہے- ایران میں ہر علاقے کے رسومات کے مطابق ایک قسم کی مٹھایئیاں نوروز سے پہلے گھروں میں پکائی جاتی ہیں یا حلوائی کی دکان سے خریدی جاتی ہیں- ایران کے اکثر علاقوں میں ایک خاص قسم کی غذا \”سمنو\” کے نام سے تیار کی جاتی ہے جو گندم کی کونپلوں سے بنائی جاتی ہے-
خانہ تکانی: ایک اور رسم جو نوروز کی آمد سے پہلے بہت اہم مانا جاتا ہے، \”خانہ تکانی\” یا گھر کےصفائی کرنے کا رسم ہے- اس لفظ کو زیادہ تر دھونے، صاف کرنے، نئے اوزار خریدنے، قالین اور کپڑوں کو درست کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے-
خانہ تکانی تین یا چار ہفتے میں مکمل ہو جاتا ہے جس میں لوگ گھروں کے سارے سامان کو سجاتے ، صاف کرتے اور مرمت کرتے ہیں – کچھ بھاری سامان جیسے قالین، تصاویر، پردہ و غیرہ کو ہر سال نوروز کے خانہ تکانی کے موقع پر صاف کیےت جاتے ہیں-
پنجہ: پرانی ایرانی کیلنڈر کی بنیاد پر سال کے ہر بارہ مہینہ تیس دن کے ہیں اور سال کے باقی پانچ دن کو \”پنجہ\” کہتے ہیں جو پانچ سے ماخوذ ہے اور ان کا شمار کسی مہینے میں نہیں ہے- یہ رسم آج عام طور پر منایا نہیں جاتا ہے لیکن پرانے زمانے میں ان پانچ دنوں میں مزاحیہ تقریب اور تفریح کے لیے ایک حکمران کا انتخاب کیا جاتا تھا جس کے سلوک اور حکم قہقہے آور ہوتے تھے اور جشن کےآخری دنوں میں وہ لوگوں کے ڈر سے بھاگتا تھا- اس پانچ روزہ حکمران کا نام \”نوروزی میر\” تھا اور آج اس رسم کی یاد میں کچھ لوگ لال کپڑے اورسیاہ چہرے بنا کر شہر کے سڑکوں پر گھوم کر،ناچ کر، گا کر اور بجا کر لوگوں کے لیے فرحت انگیز لمحے مہیا کرتے ہیں اور اسی طرح پیسہ کماتے ہیں-
سال کا آخری جمعرات: نوروز سے پہلے ایک پرانی رسم مرنے والوں کی یاد کرنی ہے، خاص طور پر ان خاندانوں کے در میاں جو سال بھر میں ان کا ایک عزیر اللہ کو پیارا ہوا ہو- نوروز سے پہلے سال کے آخری جمعرات کو مرنے والوں کی زیارت کو جانا ایک عام رسم ہے-
ہفت سین: سال نو کے موقع پر ایرانیوں کی ایک اور رسم \”ہفت سین \” یا \”ساتھ سین\” ہوتا ہے جس میں دسترخوان کو سجایا جاتاہے- ہفت سین کا دسترخوان طراوت و شادابی کی علامت اورنئے سال کے آغاز پر معنوی لمحات میں اہل خانہ کے ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع فراہم کرتا ہے- ہفت سین کے دسترخوان پر اوگنے اور کھانے والی ایسی چیزوں کو رکھا جاتا ہے جن کے نام کے آغاز میں \”سین\” آتا ہے کہ جو زراعت کی اشیاء اور زمین سے اوگنے والی چیزوں سے علامت ہے- ہفت سین کے دسترخوان میں رکھی جانے والی اشیاء کچھ یوں ہیں:
سمنو: ایک قسم کی غذا ہے جو گندم کی کونپلوں سے تیار کی جاتی ہے اور فطرت کے دوبارہ آغاز اور اچھے کھانے کا نشان ہے-
سیب: سلامتی اور خوبصورتی کی علامت ہے-
سنجد: ایک طرح کا پھل ہے اور پیدائش کا نشان ہے-
سماق: ایک طرح کا پھل ہے اور محبت کی علامت ہے-
سیر: لہسن ہے اور شر کو دور کرنے کا نشان ہے-
سرکہ: صبر کی علامت ہے کیونکہ طویل مدت کے بعد آمادہ ہوتا ہے-
سبزہ: گندم یا ڈال کی کونپلوں سے تیار ہو جاتا ہے اور ہریالی اور تازگی کا نشان ہے-
ایرانی ہفت سین کے دسترخوان پر کچھ اور خوبصورت چیزیں ہیں جن میں مرغی کے انڈے پیدائش کی علامت کے طور پر مانا جاتا ہے اور اسی طرح آئینہ شفافیت کی علامت کے طور پر ہفت سین کے دسترخوان میں شامل ہیں- اسی طرح زندہ سرخ مچھلی کو متحرک زندگی کے جو اسفند مہینے کی نشانی ہے، ہفت سین کے دسترخوان پر رکھا جاتا ہے- اس کے علاوہ سکے کو سرمایہ اور کام کاج کی رونق کے عنوان سے ہفت سین میں شامل کیا جاتا ہے- اسی طرح انواع و اقسام کے پھلوں کو بھی ہفت سین کے دسترخوان میں بہار کی آمد کی نشانی کے طور پر رکھا جاتا ہے- اس کے علاوہ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی آسمانی کتاب کے عنوان سے قرآن مجید کو ہفت سین میں خاص مقام حاصل ہے-
تحویل سال : \”تحویل سال \” یا نئے سال کے شروع ہونے کے موقع پر گھر کے سارےافراد ہفت سین کے دسترخوان کے ارد گرد بیٹھ کرکے روحانی اور معنوی فضا میں نئے سال کی یہ دعا پڑھتے ہیں:
یا مقلب القلوب و الابصار، یا محول الحول و الاحوال، یا مدبر الیل و النہار، حول حالنا الی احسن الحال
اس دعا کے بعد قرآن مجید کی چند آیت کی تلاوت کی جاتی ہے- اس کے بعد گھر کا بزرگ اہل خانہ کو عیدی دیتے ہیں اور پھر مٹھائی پیش کی جاتی ہے اور سب اہل خانہ ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں- یہاں اس بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایرانی گھرانہ اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر تحویل سال کی موقع پر مقدس مقامات کا رخ کرتے ہیں تا کہ وہاں کی معنوی فضا سے استفادہ کر سکیں اور سال کے ابتدائی لمحات کو خاص کر مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام رضا (ع) یا قم مقدسہ میں بی بی معصومہ (س) کے حرم میں یا دیگر امامزادوں کے مقبروں پر گزار سکیں تا کہ نئے سال کا آغاز دعا، راز و نیاز اور عبادت سے شروع ہو سکے-
عید ملنا:تحویل سال کے بعد ملنے جلنے اور ایک دوسرے کے گھروں پر آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ رفت و آمد نوروز کا خوبصورت ترین تحفہ ہے- جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایرانی فرہنگ و ثقافت میں بزرگوں کو خاص مقام و منزلت حاصل ہے اور خاندان کے کم عمر افراد اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں اپنے بڑوں کے گھرمیں جا کر آداب بجا لائیں- اس موقع پر بچے نوروز کے ایام میں ملنے جلنے اور ملاقاتوں کا آغاز اپنے دادا دادی، نانا نانی کے گھر سے کرتے ہیں- اسی طرح نوروز کے ایام میں عید ملنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور ہر گھرانہ ملاقات کے جواب میں آنے والوں کے گھر جا کر، عید کے مزے کو دو بالا کر دیتا ہے-
اس دوران تحفہ و تحائف اور عیدیوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے اور یہ نوروز کی ایک دیرینہ رسم ہے- رشتے داروں اور خاندان کے قریبی افراد کا نوروز کے ایام میں ملنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی کدورت یا کسی کے متعلق کوئی غلط فہمی و غیرہ ہو جاتی ہے تو اس ایام میں ان کو دور کرنے کا ایک موقع مل جاتا ہے- اگر گزرے ہوۓ سال میں کسی خاندان کا کوئی فرد اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے، تو نوروز کے ایام میں قریبی رشتے دار اس خاندان کی دلجوئی کے لیے ان کے گھر جاتے ہیں اور مرحوم کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں- یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ نوروز کے ایام میں بیماروں کی عیادت کے لیے بھی لوگ جاتے ہیں- ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں- جب کہ ان ایام میں معذور افراد کو بھی فراموش نہیں کیا جاتا ہے- بعض لوگ معذور افراد کے مخصوص مراکز جا کر ان کو نوروز کی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں-
ایران کے اکثر عوام موسم بہار میں نوروز کی خوبصورت آداب اور رسم و رواج کو بجا لانے کے ساتھ اپنی سرزمین یا دوسرے ملکوں کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں تا کہ اپنی روزمرہ زندگی میں خوشگوار لمحات کا احساس کریں اور قدرتی مقامات سے لذت حاصل کریں- اسی طرح نوروز کے ایام میں سفر کے سلسلے میں اضافہ ہو جاتا ہےاور ایران کے شہروں کے در میان آمدو رفت بھی بڑھ جاتی ہے اور شہر میں ٹریکہ کافی اضافہ ہو جاتاہے-
سیزدہ بہ در: سال کی تیرھویں دن نوروز کا آخری دن ہے- اس دن لوگ میدانوں اور صحراؤں میں جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بہار کے خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں- اسی دن میں سبزی والے کھانے جیسا \”آش\” کھاتے ہیں- ہفت سین کے دسترخوان کے سبزے کو پانی میں ڈال کر، اسی طرح تیرہ نمبر کی نحس ہونے کو اپنی خیالات یا روایت کے بنا پر اپنے آپ اور اپنے خاندان سے دور کرتے ہیں- اس دن کا ایک اور رسم گھاس باندھنا ہے- عام طور پر نئے سال میں غیر شادی شدہ نوجوان اپنے شریک حیات کو پانے کے لیے اس رسم کو مناتے ہیں-
زرتشتی\” عقائد کے مطابق جب \”کیومرث \”کے بچے مشیہ اور مشیانہ\”نے شادی کی اور دو \”مورد \”کی شاخ کو باندھے اور اسی طرح اپنی شادی کی رسم کی شروعات کی، اسی زمانے کے بعد سے یہ رسم عام ہوی- اسی طرح نوروز اختتام پذیر ہوجاتا ہے-
ایران میں الگ الگ مذہب اور نسل کے لوگ بسے ہوئے ہیں اور ایرانی لوگ ہزاروں سالوں سے آج تک نوروز کو منارہے ہیں- اسی لیے نوروز جشن آج بھی تمام نسلی، مذہبی، ثقافتی اور لسانی فرق کے باوجود ایرانی اتحاد کی بڑی علامتوں میں سے ایک ہے-