٭علی مزمل کراچی۔ پاکستان۔
مشاعرہ ٧ دسمبر بروز ہفتہ حسبِ سابق ٧ بجے شام شروع ہوا۔
مشاعرہ کی نظامت کے فرائض محترمہ ثمینہ ابڑو صاحبہ لاڑکانہ سندھ پاکستان سے ادا کر رہی تھیں۔
یاد رہے کہ طرحی مشاعرہ کے لیے دو کلاسیکل شعراء کے مصرعے دیۓ گیۓ تھے۔
پہلا طرحی مصرعہ استاد الاساتذہ حضرت امیر خسرو (رح) کے دوھے سے لیا گیا۔
\”لکڑی جل کوئلہ بھئی کوئلہ جل بھئو راکھ\”
جبکہ دوسرا مصرعہ ڈاکٹر احمد حسین مائل کا دیا گیا۔
\”میں ہی مطلوب خود ہوں تو ہے عبث\”
اس طرحی مشاعرہ میں اول آنے والے خوش نصیب کو \”امیر خسرو\” ایوارڈ سے نوازے جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
حسبِ روایت اس مشاعرہ کے مہتمم ادارے کے چیئرمین توصیف ترنل صاحب خود تھے۔ جب کہ اس تاریخ ساز مشاعرہ کی صدارت محترم مختار تلہری صاحب (انڈیا) اور محترم ڈاکٹر شاہد رحمان صاحب۔ فیصل آباد (پاکستان) کو سونپی گئی۔
مہمانانِ خصوصی میں محترم جناب اشرف علی اشرف صاحب سندھ (پاکستان) اور محترم اللہ راضی صاحب (پاکستان) کے نام شامل تھے۔
جب کہ اس پروگرام کا تصور محترم محمد اسماعیل سیال نورانی صاحب کے زرخیز ذہن کی اختراع تھا۔
ٹھیک سات بجے ناظمہ مشاعرہ جنابہ ثمینہ ابڑو صاحبہ نے حمدِ باری تعالی کے لیے محترم احمد کاشف صاحب ناندورہ بلڈانہ مہاراشٹر انڈیا کو دعوتِ کلام دی۔
احمد کاشف صاحب کی حمد نے فضا کو سبحان اللہ اور ماشاءاللہ کی صداؤں سے معطر کردیا۔
نمونہء کلام۔
تپتے صحراؤں کو گلزار بنا دیتا ہے
پھول پتھریلی زمینوں پہ کھلا دیتا ہے
شاخ کو سبزہء نوخیز عطا کرتا ہے
اور کلیوں کو چٹخنے کی ادا دیتا ہے
نہایت پر تاثیر حمد کے بعد نعتِ رسولِ عربی (ص) کے لیے نفیس احمد نفیس ناندوروی انڈیا کو دعوتِ کلام دی گئی۔
نفیس احمد نفیس کی نعتِ پاک نے سامعین کی ارواح کی مقدس پھوار سے آبیاری کی اور خوب دعائیں اور تحسین سمیٹی۔
نمونہء کلام۔
آقاۓ دو جہاں تری عظمت نفیس ہے
اس ربِ ذوالجلال کی قدرت نفیس ہے
عشقِ نبی نہ پوچھ ریاکار میں نہیں
رحمان کی عطا سے محبت نفیس ہے
بعد ازاں دل کش کلاسیکل طرحی مشاعرہ کا باقائدہ آغاز کرتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی جن کا تعلق مراد آباد انڈیا سے ہے کو دعوتِ کلام دی گئی۔
ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ نے دونوں طرحی مصرعوں پر طبع آزمائی کی اور خوب خوب اشعار کہے۔
محترمہ کے ہر ہر شعر پر سامعین نے داد و تحسین کے ڈونگرے برساۓ۔
نمونہء کلام۔
بسرایا سنگھار سب اور کاجل بھئو راکھ
تیرے عشق کی آگ سے میں پاگل بھئو راکھ
روح بھٹکتی پریم کی ندیا پوکھر تال
اک برہن کے واسطے جل اور تھل بھئو راکھ
دوسری غزل
جب محبت کی آرزو ہے عبث
زندگی تیری جستجو ہے عبث
حالِ دل ہو گیا ہمیں معلوم
بات اب اس کے روبہ رو ہے عبث
ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ کے بعد شمعِ محفل مینانگری جلگاؤں انڈیا کے خوش کلام شاعر شکیل انجم صاحب کے رو بہ رو لائی گئی۔
جنہوں نے صرف ڈاکٹر احمد حسین مائل کے مصرعہ پر غزل سرائی کی۔
سامعین نے ان کے کلام کو سراہا۔
نمونہء کلام۔
تم سے ملنے کی آرزو ہے عبث
مستقل کیا کبھو کبھو ہے عبث
ہر کوئی ہے شکارِ حرص و ہوس
نیک نامی کی جستجو ہے عبث
اس کے بعد جناب علی مزمل۔ کراچی کے نام کی پکار ہوئی۔ آپ نے دونوں طرحی مصرعوں پر طبع آزمائی کی اور حاضرینِ محفل کو اپنے اشعار سے تسکین بہم پہنچائی اور بہت تحسن پائی۔
نمونہء کلام۔
یم بہ یم خواہشِ وصالِ جمال
اب یہ میلانِ جستجو ہے عبث
یہ جو بین البدن رواں ہے شکیب
سرپریشانِ جو بہ جو ہے عبث
اور دوسری غزل
راجہ پرجا کر چھوڑے ناگ اجل بھئو راکھ
کریا کرم سب ہو جاوے جنتا دَل بھئو راکھ
نفرت نے سنسار اجاڑا چاروں اور مگر
پریم اگن بھی کرتی ہے گنگا جل بھئو راکھ
اس کے بعد محترم جناب علیم طاہر صاحب انڈیا کو دعوتِ کلام دی گئی
آپ نے اپنے کلام کے زور پر ڈھیروں داد سمیٹی۔ آپ نے دئیے گئے دونوں پر طبع آزمائی فرمائی۔
نمونہء کلام۔
زندگی تیری جستجو ہے عبث
یہ بھٹکنا بھی کو بہ کو ہے عبث
آرزوؤں کو اتنے گھاؤ ملے
ان کا کرنا بھی اب رفو ہے عبث
دوسری غزل۔
موری اکھیاں نیر بہاویں میں پاگل بھئو راکھ
توری یاد میں رستہ تاکوں میں جل تھل بھئو راکھ
مہکی ہیں فضائیں ساری ماحول ہوا ہے دھندلاہٹ
لگی آس کی جگ میں تیلی میں صندل بھئو راکھ
اس کے بعد محترم جناب ڈاکٹر سراج گلاٹھوی صاحب۔ انڈیا کو کلام پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ آپ نے بھی دونوں طرحی مصرعوں پر کلام پیش کیا۔ اور سامعین سے خوب داد پائی۔
نمونہء کلام۔
پیڑ محبت کا ہی کیا یہ جنگل بھئو راکھ
اک نفرت کی آگ میں۔ سب جل تھل بھئو راکھ
پیار میں دامن پر لگا رسوائی کا داغ
تار گریباں ہوگیا دل گھائل بھئو راکھ
دوسری غزل۔
جام و مینا کوئی سبو ہے عبث
مست آنکھوں کے رو بہ رو ہے عبث
اتنے ٹکڑے ہوۓ مرے دل کے
اس پہ مرہم کوئی رفو ہے عبث
اس کے بعد محترم جناب ضیاء شادانی صاحب۔ مراد آباد۔ انڈیا کو دعوتِ کلام دی گئی۔
آپ نے ایک مصرعہ پر کہی غزل پیش کی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔
نمونہء کلام۔
سوچ لو ساری جستجو ہے عبث
کچھ نہیں بس یہ گفتگو ہے عبث
جس کی فطرت میں صاف گوئی نہیں
آئینہ اس کے رو بہ رو ہے عبث
مشاعرہ اپنے عروج پر تھا کہ باری آئی محترم جناب مسکین رائچوری صاحب۔ رائچور۔ انڈیا کی۔
آپ نے ایک طرحی مصرعہ پر غزل کہنا پسند فرمائی۔ آپ کی شاعری کو سامعین نے پسند کیا۔
نمونہء کلام۔
دیکھ لی میں نے تیری نیت بھی
مجھ کو پانے کی آرزو ہے عبث
میرا دل صاف ہے بہت مسکین
آئینے تجھ سے گفتگو ہے عبث
جناب مسکین رائچوری کےبعد دعوت کلام نہایت عمدہ شاعر محترم جناب اللہ راضی صاحب۔ جن کا تعلق پاکستان سے ہے کو دی گئی۔ آج کے اس عظیم الشان مشاعرہ میں آپ مہمانِ خصوصی بھی تھے۔ آپ نے اپنا کلام سامعین کی نذر کیا اور خوب داد سمیٹی۔
نمونہء کلام۔
جس تصور کی آرزو ہے عبث
اس کے بارے میں گفتگو ہے عبث
وہ ترے دل میں ہی تو ہے موجود
یار آوازہ کو بہ کو ہے عبث
جناب اللہ راضی صاحب کے بعد سخن طراز ہوئے وادئ سندھ پاکستان سے تعلق رکھنے والے جواں سال و رواں فکر شاعر جناب اشرف علی اشرف صاحب۔ جنہیں آج کے مشاعرہ کے دوسرے مہمان خصوصی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ِ آپ نے بھی ایک ہی مصرعہ پر مشقِ سخن فرمائی۔
نہایت اعلی اشعار پیش کیے جو سب نے پسند کیے واثق امید ہے کہ آپ مستقبل قریب میں بہت اچھا کہنے والوں کی صف میں شمار ہونے لگیں گے۔ ان شاءاللہ۔
نمونہء کلام۔
تیرے ہوتے ہوۓ سبو ہے عبث
مے کشی تیرے رو بہ رو ہے عبث
مجھ سے میرا ہی بیر کافی ہے
یہ زمانہ مرا عدو ہے عبث
جناب اشرف علی اشرف صاحب کے بعد مشاعرہ کے پہلے صدر محترم جناب شاہین فصیح ربانی صاحب کو مدعو کیا گیا کہ وہ آئیں اور سامعین کو اپنے شستہ کلام سے سرفراز فرمائیں۔ آپ نے بھی دو طرحی مصرعوں میں سے ایک کا انتخاب کیا۔ آپ کے کلام کو بے حد سراہا گیا اور خوب داد سے نوازا گیا۔
نمونہء کلام۔
تو مجھے دیکھ کر سنورتا ہے
آئینہ تیرے رو بہ رو ہے عبث
آ گیا ہے فصیح غصے میں
یعنی اب اس سے گفتگو ہے عبث
جناب شاہین فصیح ربانی کے بعد محترم المقام جناب مختار تلہری صاحب۔ بریلی۔ اترپردیش۔ انڈیا بصد احترام مدعو کیے گیے کہ آپ آئیں اور کلام کے ساتھ ساتھ خطبہء صدارت سے نوازیں۔ آپ نے کلام پیش کیا تو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا بہت داد سے نوازے گئے اور بجا طور پر نوازے گئے کہ آپ استاد شعراء میں شمار ہوتے ہیں اور ہندوستان بھر میں سیکڑوں شاگرد بکھرے پڑے ہیں اور تین مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
آپ نے بھی دو طرحی مصرعوں میں سے ایک پر طبع آزمائی فرمائی۔
نمونہء کلام۔
مستقل طور پر ہی تو ہے عبث
زندگی تیری آرزو ہے عبث
جب کسی کام کا نہیں مختار
کوئی مختار کا عدو ہے عبث
محترم جناب مختار تلہری صاحب نے خطبہء صدارت سے نوازا۔
جہاں اس مشاعرہ کی کامیابی کا سہرا ادارہ کے چیئرمین جناب توصیف کے سر جاتا ہے وہیں اس بات کا برملا اظہار بھی ضروری ہے کہ جب تک اجتمائی کوشش نہ ہو کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ اس لیے مشاعرے کی کامیابی پر ادارے کا ہر شخص مباک باد کا مستحق ہے۔
خصوصاَ ثمینہ ابڑو صاحبہ جن کی کامیاب نظامت مشاعرہ کی کامیابی میں ریڑھ کے مماثل ہے کو بے پناہ داد و تحسین اور ڈھیروں دعائیں۔
آخر میں اول آنے والے کلام کے تعین کا صبر آزما سلسہ شروع ہوا طویل بحث مباحثہ کے بعد کامیابی کی نوید علی مزمل۔ کراچی کو دی گئی اور یوں \”امیر خسرو ایوارڈ\” کی تفویض اپنے انجام کو پہنچی۔