شہنازپروین این قاضی
ریسرچ اسکالر، آر ٹی ایم، ناگپور یونیورسٹی، ناگپور۔
ودربھ کے مختلف اضلاع میں اردو ادب کی تصنیف وتالیف کا سلسلہ یوں تو ۱۹۴۶ء سے ہی شروع ہوچکا تھا مگر جب یہاں ادب اطفال کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بچوں کے ادب پر مشتمل تصانیف کا پوری ایک صدی تک سراغ نہیں ملتا البتہ بچوں کے لیے اس اثناء میں گاہے بہ گاہے اہل قلم کی کئی تخلیقات منظر عام پر ضرور آئی ہیں۔
بیسویں صدی کے اواخر میں جن لوگوں نے قلم سنبھالا ان میں سے چند اہل قلم نے ادب اطفال کی جانب توجہ دی۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے پھیلے اس اندھیرے کو دور کرنے کا خیال یہاں سب سے پہلے شفیقہ فرحت اور فیض انصاری کے دل میں پیدا ہوا۔ انھوں نے ۱۹۵۳ء میں بچوں کے لیے ’’چاند‘‘ اخبار کا اجراء کیا ۔ اس میں مقتدر ادباء وشعراء کی نگارشات شائع ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ تک یہ باقاعدگی سے نکلتا رہا بعد میں جب فیض انصاری مجلس ادارت سے الگ ہوگئے تو شفیقہ فرحت نے ’’کرنیں‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا لیکن یہ زیادہ دنوں تک شائع نہ ہوسکا اور بہت جلد بند ہوگیا۔ اس کے بعدایک طویل عرصہ تک کسی صاحب قلم نے بچوں کے ادب پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی۔
ناگپور میں ۱۹۸۰ء کے آس پاس وکیل نجیب سامنے آئے جنھوں نے بالخصوص بچوں کے لیے قلم سنبھالا اور سنجیدگی وباقاعدگی سے بچوں کے لیے خوبصورت کہانیاں تخلیق کرنے لگے۔ یوں تو وکیل نجیب نے بچوں کے لیے سوچنے اور لکھنے کا سلسلہ اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے شروع کردیا تھا۔ ان کی سب سے پہلی تخلیق ’’ہم خوددار ہیں‘‘ مزاحیہ خاکہ روزنامہ انقلاب کے بچوں کا صفحہ ’’پھلواری‘‘ میں ۱۹۶۲ء میںشائع ہوا۔ اس کے بعد گاہے بہ گاہے آپ لکھتے رہے لیکن ۱۹۸۰ء کے بعدآپ کی کہانیاں مسلسل بچوں کے رسائل میں شائع ہوئیں۔
وکیل نجیب کی دلچسپی شروع سے ہی بچوں کی کہانی نویسی میں کم اور ناول نویسی میںزیادہ رہی ہے لہذا آپ نے ناول نویس کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔ بچوں کے لیے آپ کی اب تک ۳۱ تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہاں ادباء و شعراء کی تصانیف عموماً مہاراشٹر اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوتی ہیں لیکن وکیل نجیب کی تصانیف نہ صرف مہاراشٹر اردو اکادمی بلکہ اردو اکادمی دہلی، ترقی اردو بیورو نئی دہلی، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی سے بھی شائع ہوئی ہیں۔
آپ کا پہلا ناول ’’بے زبان ساتھی‘‘ ترقی اردو بیورو دہلی نے شائع کیا۔ یہ ناول ۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’جنگل کی امانت‘‘ یہ بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جو فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ کے مالی تعاون سے ۱۹۸۶ء میںشائع ہوا۔ اس کی بیشتر کہانیاں کھلونا، نور اور پیام تعلیم میں شائع ہوئیں۔ اس تصنیف کو مہاراشٹرا اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا۔ ۱۹۹۱ء میں ’’مہربان جن‘‘ ۲۰۴ صفحات پر مشتمل ناول دہلی اردو اکادمی نے شائع کیا۔ ۱۹۹۴ء میں ’’خطرناک راستے‘‘ ناول منظر عام پر آیا جسے ترقی اردو بیورودہلی نے شائع کیا یہ ۸۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’خوفناک حویلی‘‘ یہ بچوں کے لیے شائع ہونے والا پانچواں ناول ہے۔ اس کی کہانی ۱۰۸ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ناول کتابی صورت میں آنے سے قبل بچوں کا رسالہ ’’امنگ‘‘ میں سلسلہ وار قسطوں میں شائع ہوچکا ہے۔ ۱۹۹۹ء میں ’’واپسی‘‘ ناول کی اشاعت عمل میںآئی۔ کتابی صورت میں آنے سے قبل یہ ناول ماہنامہ ’’الہلال‘‘میںقسطوار شائع ہوچکا ہے۔ وکیل نجیب کا ’’پانچ بھائی‘‘ یہ ناول نرالی دنیاپبلی کیشنز کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا۔ یہ ایک ضخیم ناول ہے اس کی کہانی ۱۵۰ صفحات پر محیط ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی نے وکیل نجیب کا ایک اور ناول ’’جانباز ساتھی‘‘ شائع کیا۔ ایک ناول ’’جانباز شہزادے‘‘ کے نام سے بھی بچوں کی نرالی دنیا میں قسط وار شائع ہوکر کتابی صورت میں نرالی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوچکا ہے۔ بعدازاں ’’غدّاروزیر‘‘ رحمانی پبلی کیشنزمالیگائوںکے زیر اہتمام شائع ہوا۔ یہ تصویری طویل کہانی ہے جو ۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتابی صورت میں آنے سے قبل یہ کہانی ’’امنگ‘‘ میں قسط وار شائع ہوچکی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں آپ نے شمالی ہندوستان کے چند خوبصورت مقامات کی سیر کا پروگرام مرتب کیا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ سیر کر آنے کے بعدبچوں کے لیے ایک خوبصورت سا سفرنامہ تحریر کیا۔ یہ سفرنامہ اسی عنوان سے آپ نے ۲۰۰۳ء میںشائع کیا۔ بعدازاں قومی کونسل برائے فروغ اردو نے آپ کے ایک ناول ’’سازش‘‘ کو شائع کیا۔ آپ کی یہ تصنیف بھی بہت مقبول ہوئی۔
۲۰۰۵ء میں آپ کا ضخیم سائنٹفک ناول ’’کمپیوٹان‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔ آپ کا یہ ناول بہت مقبول ہوا اور اشاعت سے قبل مختلف اخبارات ورسائل میں شائع بھی ہوا۔ ’’ماں کی بددعا‘‘ وکیل نجیب کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جسے رحمانی پبلی کیشنز نے اپنے طور پر شائع کیا ہے۔ کسی زمانے میں ناگپور سے قریب کامٹی میں رونما ہوئے ایک حقیقی واقعہ کو موضوع بناکر وکیل نجیب نے ایک ناول ’’نواب بنڈی والا‘‘ لکھاجسے انھوں نے ۲۰۰۶ء میںشائع کیا۔ یہ ناول ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد ’’انسانیت اور درندگی‘‘ یہ ناول منظر عام پر آیا۔ اس ناول کو بھی رحمانی پبلی کیشنز نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ آپ کا ایک اور ناول ’’معصوم بجوکا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ علاوہ ازیں کمپیوٹان، واپسی اور ماں کی بددعا تصانیف کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعتیں بھی عمل میں آئیں۔
چند سال قبل ڈراموں پر مشتمل تصنیف ’’اپنا دکھ اپنی خوشی‘‘ منظر عام پر آئی۔ ’’اندھیرا اجالا‘‘ ۲۰۱۰ء میں کہانیوں پر مشتمل مجموعہ شائع ہوا۔ اسی سال ’’کچھ ڈرامے کچھ کہانیاں‘‘ اس عنوان کے تحت ۱۲۸ صفحات پر مشتمل کتاب منظر عام پر آئی۔ سن ۲۰۱۱ء میں ’’ایک شخصیت پانچ کہانیاں‘‘ تصنیف منظر عام پر آئی۔
طویل تعطّل کے بعد۸؍اگست ۲۰۱۸ء کو وکیل نجیب کا تحریر کردہ ناول ’’تلاش پیہم‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس کا اجراء پروفیسر ڈاکٹر محمد اظہر حیات کے دست مبارک سے عمل میں آیا۔ یہ ناول ایک باغی اور سرکش خوبصورت لڑکی کی داستان ہے جو اپنی نت نئی سازش سے شریف لوگوں کو اپنے جال میں پھانستی تھی۔
مختصراًعرض یہ ہے کہ وکیل نجیب کا قلم بڑی تیز رفتاری سے بچوں کا مفید ادب تخلیق کرنے میں منہمک ہے۔ آپ نے ادب اطفال کے نثری سرمایہ کو مالامال کیا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد دکی پہلی کہانی ’’عقل مند شہزادہ‘‘ ماہ اپریل ۱۹۸۲ء میں ماہنامہ پیام تعلیم میں شائع ہوئی۔اس کے بعد ان کی یکے بعد دیگرے کئی کہانیاں پیام تعلیم، کھلونا، نور، فردوس اور گلشن اطفال میں شائع ہوئیں۔ آپ کی اب تک بچوں کے لیے تیرہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ بچوں کے لیے آپ کی پہلی کتاب ’’صبح کا بھولا‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی اس میں ۲۴ سبق آموز کہانیاں موجودہیں۔
ڈاکٹر اشفاق احمدکے طرزاسلوب فن، کہانی نویسی پر ملک کے کئی اہل قلم نے ان کے انداز نگارش کو پسند کیا اور مستقبل میں ان سے اچھی امیدیں رکھی ہیں۔
عبدالخالق اور طفیل احمدنے بھی ۱۹۸۲ء کے بعد بچوں کے لیے کہانیاں لکھنی شروع کی تھیں۔ عبدالخالق کی کہانیاں ’’ٹوٹے ہاتھوں کا طمانچہ‘‘ پیام تعلیم ۱۹۸۲ء، ’’لالچ‘‘ پیام تعلیم فروری ۱۹۸۳ء، ’’چالاک بڑھیا‘‘ پیام تعلیم اپریل ۱۹۸۳ء، ’’پھول شہزادی‘‘ پیام تعلیم اپریل ۱۹۸۴ء اور طفیل احمد کی کہانیاں ’’کنجوس آدمی‘‘ پیام تعلیم مارچ ۱۹۸۲ء، ’’ایک تھا راجہ‘‘ پیام تعلیم اپریل ۱۹۸۲ء ، ’’خون کا بدلہ خون‘‘ پیام تعلیم جون ۱۹۸۲ء، ’’خواب‘‘ پیام تعلیم جنوری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئیں لیکن اس کے بعد دونوں کا قلم خاموش ہوگیا۔ غلام رسول اشرف نے جہاں اشرف نیوز ایجنسی کے ذریعہ ناگپور میں بچوں کے رسائل کو بچوں کے ہاتھوں تک پہنچانے کی سعی کی وہیں اپنے طالب علموں کو کہانیاں لکھنے کی بھی ترغیب دی نتیجہ میں ’’پیام تعلیم‘‘ کے رسائل میں روشن آرا ’’دوڑ میرے کدو ٹھمک ٹھمک‘‘ مارچ ۱۹۸۲ء، رشیدہ خاتون ’’قبر کی خبر‘‘ جون ۱۹۸۲ء، ظہیر خان ’’انوکھی شرارت‘‘ اگست ۱۹۸۲ء، افسر اقبال ’’اندھی عقل‘‘ اگست ۱۹۸۲ء، شفیق الرحمن ’’محنت کا پھل‘‘ جنوری ۱۹۸۳ئٗ کی کاوشیں ملتی ہیں لیکن تادیر اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھنے اور طلبہ کی عدم دلچسپی کے باعث یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
ڈاکٹر محمد اظہر حیات نے بھی گاہے بگاہے بچوںکے لیے مضامین اورکہانیاںلکھی ہیں۔ آپ کی پہلی کہانی ’’پیار کا بھوکا‘‘ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کو روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس سے قبل یہی کہانی ماہنامہ نور رامپور میں شائع ہوچکی تھی۔ اسی ماہنامے میں بچوں کے لیے آپ کے کئی مضامین شائع ہوئے۔ ’’ماں باپ کو اف نہ کہو‘‘ ایک مضمون شائع ہوا۔ ماہنامہ ’’الفاظ ہند‘‘ کامٹی میں’’خوددار لڑکا‘‘ اس عنوان سے ایک کہانی مئی ۲۰۱۷ء شائع ہوئی۔ ایک مزاحیہ مضمون کہ ’’ہم فیل ہوگئے‘‘ ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد کی زینت بنا نیز ’’لے بندر روٹی ‘‘ بھی اسی ماہنامہ میں شائع ہوا ہے۔ حالانکہ یہ ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے تاہم یہ دونوں مزاحیہ مضامین بچوں کے ادب کے شاہکار ہیں۔ آپ اردو اکادمی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اسی زمانہ میں ۱۴؍نومبر ۱۹۹۸ء کو اردو اکادمی کے زیر اہتمام ناگپور شہر کے دیشپانڈے ہال میں ایک عظیم الشان بچوں کے شاعروں کا مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں ڈاکٹر مظفر حنفی، ظفر گورکھپوری، عبدلاحد ساز، خیال انصاری، امین حزیں، حیدر بیابانی کے علاوہ بیشمار نامور مقامی وبیرونی شعراء نے شرکت کی تھی۔ آپ کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ مشاعرہ بے حد کامیاب رہا اور ابھی تک ذہنوں میں محفوظ ہے۔ شعراء اطفال کا مشاعرہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منعقد کیا گیا اس سے علاقۂ ودربھ میں ادب اطفال کے ادباء وشعراء کو ایک نئی تحریک وترغیب ملی اور ماحول سازگار ہوا۔ ڈاکٹر اظہر حیات کا قلم ہنوز رواں دواں ہے۔ان کی ایک کہانی ’’الفاظ ہند‘‘ کامٹی کے کہانی نمبر میں ’’ماموں‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی ادبی حلقوں میں اسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔
ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر جہاں کہنہ مشق شاعر ہیں وہیں ایک بہترین نثر نگار بھی ہیں۔ آپ کے کئی مضامین، کہانیاں، رپورتاژ اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ بچوں کے ادب پر بھی آپ کے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ آپ کی ایک کتاب ’’اردو زبان کا سوتیلا بچہ‘‘ مئی ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں چھہ طویل مضامین ہیں جو ادب اطفال اور تعلیمی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔
شریف احمد شریف ایک قادرالکلام شاعر، نظم ونثر دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ گذشتہ چندسالوں سے بچوں کے ادب پر بھی خاصی توجہ دی اور بچوں کے لیے کئی دلچسپ کہانیاں اور خوبصورت نظمیں تخلیق کیں۔ آپ کی کہانیاں نہ صرف ملک کے مختلف رسائل مثلاً امنگ، بچوں کی نرالی دنیا، پیام تعلیم اور نور میں شائع ہوچکی ہیں بلکہ پاکستان سے شائع ہونے والے بچوں کے رسائل میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ مٹھی بھر کہانیاں اس عنوان کے تحت بچوں کے لئے خوبصورت مجموعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ محترم شمس الرحمن فاروقی نے آپ کی طرز نگارش پر یوں اظہار خیال کیا ہے ’’مٹھی بھر کہانیاں نام کا مجموعہ آپ نے مجھے بھیجا ہے اسے میں نے جگہ جگہ سے پڑھا اور لطف اندوز ہوا۔ شریف صاحب کی زبان نہایت سادہ اور بامحاورہ نظر آئی۔ کہانیاں بیان کرنے کا سلیقہ بھی انھیں خوب آتا ہے۔ کتابوں کی بڑھتی ہوئی بھیڑ میں مٹھی بھر کہانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
ڈاکٹر محمدابوالکلام کے مضامین بچوں کے لئے کہانیاں، افسانے مختلف رسائل واخبارات میں گاہے بہ گاہے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آپ نے باقاعدگی کے ساتھ بچوں کے ادب کی جانب خصوصی توجہ دی۔ آپ کی پہلی تصنیف بچوں کا ناول ’’توبہ‘‘ ہے۔ یہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ آپ کی دوسری تصنیف ’’ہمارا ماحول اور آلودگی‘‘ بھی منظر عام پر آئی ہے۔
ڈاکٹر محمد اسداللہ نے انشائیہ نگاری کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کی کئی نظمیں، مضامین اور کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں بچوں کے لیے ’’پرواز‘‘ نامی کتاب منظر عام پر آئی۔ اسداللہ کی یہ تصنیف سوال وجواب پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں اسلامیات، سائنس وسوشل سائنس، ادب اور متفرقات اس طرح پانچ ابواب قائم کئے گئے ہیں۔ ان ابواب کے ذریعہ بچوں کو کافی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر محمداسداللہ کی بچوں کے لئے مزاحیہ کہانیوں پر مشتمل کتاب ’’گپ شپ‘‘ بھی منظر عام پر آئی۔
شمیم اکبر علی میونسپل کارپوریشن ناگپور میں درس وتدریس کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ کہانیوں کے علاوہ آپ کے چند مضامین بھی ’’گلشن اطفال‘‘ میں نظر سے گزرے ہیں۔ مطالعہ کا شوق ہے لہذا خوب کتابیں خرید کر پڑھتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ’’ودربھ میں بچوں کے نثری ادب کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ اور اس میں وکیل نجیب کا حصہ‘‘ موضوع پر تحقیقی مقالہ محترم ڈاکٹر اظہر حیات کی نگرانی میں مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
ناگپور میں ادب اطفال کی صنف ڈرامہ نگاری میں بھی چند نام نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ زہرہ جبیں کی ڈراموں پر مشتمل دو کتابیں : ’’صبح کے بھولے‘‘ اور ’’مشعل راہ‘‘ ۱۹۷۸ء میں منظر عام پر آئیں گوکہ یہ ڈرامے خالص بچوں کے ادب کے زمرے میں شامل نہیں کئے جاسکتے ہیں البتہ ان دونوں کتابوں کے ڈرامے سبق آموز، اخلاقی اور اصلاحی ضرور ہیں۔ بچوں کے لیے ڈرامہ لکھنے والوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر محمد اسداللہ کا بھی ہے۔ آپ نے نہ صرف ڈرامے لکھے ہیں بلکہ انھیں اسٹیج بھی کئے ہیں۔ آپ کے ڈرامے انعامات کے مستحق بھی قرار دئیے گئے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں مولانا ابوالکلام آزاد ہائی اسکول میں ضلع پریشد ناگپور کی جانب سے ایک اردو ڈرامہ ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ورک شاپ میں مجاہدین آزادی کے کارناموں پر ڈرامے تحریر کئے گئے۔ اس ورک شاپ میں ناگپور کے اردو مدارس کے اساتذہ نے شرکت کی تھی اور ڈرامے تحریر کئے تھے۔ ڈاکٹر محمد اسداللہ نے ان ہی ڈراموں کو مرتب کرکے مہاراشٹر اردو اکادمی کے تعاون سے ’’صبح زرنگار‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۱ء میںکتاب شائع کی۔اس کتاب میںوکیل نجیب (آزادی کے گمنام سپاہی) ، محمد اسداللہ (آزادی)، ضیاء اللہ خاں لودھی (آج کے بچے کل کے نیتا)، ڈاکٹر اشفاق احمد (دوگز زمیں بھی نہ ملی)، سلام وفا (سلطان جمہور)م محمد حسن بھاٹی (منا چھپ جا)، ڈاکٹر عادلہ کھادی والا (مقدمہ)، فہمیدہ بیگ (شمع ہر رنگ میں جلتی ہے) وغیرہ صاحبان کے ڈرامے شامل ہیں۔ وکیل نجیب کی اس ضمن میں دو کتابیں ’’اپنا دکھ اپنی خوشی‘‘ اور ’’کچھ ڈرامے کچھ کہانیاں‘‘ منظر عام پر آئی ہیں۔
ضیاء اللہ خاںلودھی صاحب مصور، ڈرامہ نگار،کمرشیل ڈیزائنر اور ہدایت کار کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ضیاء اللہ خاں لودھی قومی اور بین الاقوامی نمائشوں میں انعامات حاصل کرچکے ہیں۔ مہاراشٹر اردو اکادمی کے ڈراموں کے مقابلے میںان کا ڈرامہ تبادلہ کو اول انعام کا مستحق قرار دیاگیا ہے۔ بہترین اسکرپٹ رائیٹر، ہدایت کار اور بہترین اداکاری کے انعامات سے بھی نوازے گئے ہیں۔ موصوف نے نہ صرف بچوں کے لئے ڈرامے لکھے ہیںبلکہ انھیں اسٹیج بھی کئے ہیں۔ان کے یہ ڈرامے تعلیمی مجلہ ’’تہذیب الکلام‘‘ میں شائع بھی ہوئے ہیں۔ آپ مولانا ابوالکلام آزاد اسکول گاندھی باغ ناگپور میں فائن آرٹ کے معلم ہیں۔
ودربھ میں بچوں کے نثری ادب کی روایت گوکہ بہت شاندار نہیں ہے تاہم مایوس کن بھی نہیں ہے۔ البتّہ عصر حاضر مں جو ادیب اور قلم کار اس سمت توجہ دے رہے ہیں وہ قابل قدر ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ودربھ کے قلم کار ملک گیر پیمانہ پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ ان کی وجہ سے اردو ادب اطفال میں رونق ہے۔