وہ قُربتیں یہ دُوریاں

(کرونا وائرس پہ کہانی)

\"\"
٭ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

7889952532
اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اُردو
باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں کشمیر)

ڈاکٹر افضل حیات ایک ایسے ملک کا باشندہ تھا جہاں کی نوّے فی صدی آبادی ناستک قسم کی ذہنیت کے ساتھ خدائی ضابطوں کے خلاف زندگی گزارتی تھی ۔اُس ملک کا آئین مادیت پرستی ،دُنیاوی عیش وآرام اور سائنسی وتکنیکی ترقی کی اساس پر مبنی تھا ۔وہ لوگ رُوحانیت کو انسانی واہمہ اور مضحکہ خیز تصّور کرتے تھے ۔وہ اس کائناتی نظام کو ایک خود کار مشین خیال کرتے تھے ۔اُن کے ہاں حرام وحلال کی اہمیت وتفریق کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔اسی لیے وہ کُتّے، لومڑی،بندر ،لنگور ،گلہری ،چمگادڑ ،اُلّو،کوّا،چوہے،سانپ ،بچھّو،مینڈک اور چھپکلی کے علاوہ اُن تمام حشرات الارض کا گوشت کھانے میں لذت محسوس کرتے تھے جن کا نام سُنتے ہی ایک مُتّقی وپرہیز گار آدمی کو مِتلی آنے لگتی ہے ۔
ڈاکٹر افضل حیات میڈیکل سائنس میں اُس ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے تھے ۔اُن کی بیوی بُشریٰ خانم بھی ماہرِ امراض نسواں کے طور پر کافی مشہور تھی ۔بیٹے کی چاہت میں اُن کے ہاں تین بیٹاں پیدا ہونے کے بعد ایک خوب صورت سا بچّہ پیدا ہوا تھا ۔اُن کی تینوں کم سن بیٹیاں اپنے دادا دادی کے ساتھ بڑے لاڈ پیار سے کافی خوش نظر آتی تھیں ۔ڈاکٹر افضل حیات کے گھر کا ماحول بڑا دیندارانہ تھا۔وہ خود تو حافظِ قرآن اور صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے ہی لیکن اُن کی اہلیہ ڈاکٹر بشریٰ خانم بھی بڑی نیک سیرت اور نقاب پوش خاتون تھی ۔وہ اپنی بچّیوں کو دُنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دلارہے تھے ۔اُن کے گھر میں روپے کی کوئی بھی کمی نہ تھی ۔اُن کا زیادہ تر روپیہ صدقہ وخیرات اور عشر وذکواۃ کے علاوہ یتیم ہاوس کو جاتا تھا ۔اِس روپے کو وہ اپنا اصلی بینک بیلینس سمجھتے تھے ۔دونوں میاں ،بیوی اپنے ڈاکٹری پیشے کو عبادت سمجھتے تھے ۔اُن کی ہر سانس میں اللہ کا ذکر اور ذہن ودل میں آخرت کی فکر رہتی تھی ۔زندگی کے بہت سے خوب صورت موسم وہ دیکھ چکے تھے ۔کسی کی زندگی خدائی ضابطوں کے مطابق گزرنے لگے تو وہ خوش نصیب ہوتا ہے اور سکون تو دلوں میں رہتا ہے۔ چیزوں ،عہدوں اور نمود ونمائش کے ساتھ تو سکون کا کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔دل کا پنچھی اگر اُداس بیٹھا ہو تو بھلا یہ مال ومتاع اور جاہ وجلال کس کام کا۔
ڈاکٹر افضل حیات اوراُن کے اہل ِ خانہ ایک پُر سکون ،باوقار اور مومنانہ صفات کے ساتھ زندگی جی رہے تھے کہ ایک روز اچانک یہ تشویشناک اور مایوس کن خبر نہ صرف اُس پورے ملک میں بلکہ عالمی سطح پر ہوا کی طرح گردش کرگئی کہ ڈاکٹر افضل حیات کے شہر میں ایک وبائی مرض کرونا وائرس کے نام سے پھیل رہی ہے جو آدمی کے گلے میں درد ،بخار،کھانسی ،زکام جیسی علامات کی صورت میں اپنے مہلک اثرات چھوڑتی ہے ۔اسپتال یا طبی مرکز پہنچنے تک مریض کے پھیپھڑے چھلنی ہوچکے ہوتے ہیں اور اس طرح وہ چند دنوں میں موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے ۔چند دنوں میں جب اُس ملک میں وبائی مرض میں مبتلا
لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ گئی تو وہاں کی حکومت ایک طرح کی بحرانی کیفیت کا شکار ہوگئی ۔ایک ایسی لاعلاج بیماری کہ جس نے وہاں کی انسانی آبادی پہ قہر برپا کردیا ۔تمام ڈاکٹر ،وہاں کی انتظامیہ اور حکومتی عملہ جب انتہائی تشویشناک صورتحال سے گزرنے لگا تو وہاں کی حکومت نے عدلیہ سے یہ مانگ کی کہ وہ کرونا وائرس سے متاثرین افراد کو گولی مار کر ہلاک کرنے کی اجازت دے تاکہ اس مہلک مرض کی روک تھام ہوسکے ۔ٹیلی ویژن ،موبائل فون ،انٹرنیٹ اور دوسرے ترسیلی ذرائع سے عوام کو اس مہلک بیماری سے بچنے کے لیے یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ اس مہلک بیماری سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہر شخص گوشۂ تنہائی اختیار کرے،کسی سے بھی ہاتھ نہ ملائے،بھیڑ بھاڑ سے دُور رہے ،اپنے ناک اور مُنہ پہ ماسک لگائے،بار بار صابن سے ہاتھ دھوئے اور دوائی کی دُکان سے سینیٹائزرنام کی رقیق مادے سے بھری بوتل گھر میں رکھے اُسے اپنے ہاتھوں پہ مَلے۔تمام اسکول ،کالج ،یونیورسٹیاں اور پیشہ ورانہ ادارے بند کردیے گئے ۔بشریٰ خانم بڑی ہمت وحوصلے والی خاتون تھی لیکن اس کے باوجود اُس نے اپنے شوہرِ محترم سے کہا
’’میری بات پہ دھیان دیجیے !کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری کی آمد سے مجھے اپنے گھر خاندان کی طرف موت کے سائے بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں !میری یہ رائے ہے کہ ہم اس ملک سے کسی دُوسرے ملک کی طرف کوچ کرجائیں تاکہ ہم سب بصحت وسلامت رہ سکیں ‘‘
ڈاکٹر افضل حیات نے کہا
’’بشریٰ ! …میری جان ! ہم اللہ والے ہیں ۔گھبرانے والی کوئی بات نہیں ۔اللہ والوں کا اللہ محافظ ہوتا ہے ۔بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور کیا تُم نے اللہ کے پیارے نبیﷺ کا یہ پاک ارشاد نہیں سُنا ہے کہ جس جگہ طاعون یا کوئی بھی وبائی مرض پھیلے وہاں کے لوگ وہاں سے نہ بھاگیں اور دوسری جگہ والے وہاں کاسفر نہ کریں ‘‘
بشریٰ خانم بولی
’’لیکن پھر بھی احتیاطی تدابیر کرنا ضروری ہے ۔میرا بھی اس بات پہ کامل یقین ہے کہ زندگی اور موت کے احکامات اللہ کی طر ف سے آتے ہیں ۔میں پہلی فرصت میں اپنے تمام گھر کے افراد کا صدقہ نکال لیتی ہوں ‘‘
ڈاکٹر افضل حیات نے کہا
’’ہاں یہ نیک کام ہے کیونکہ صدقہ بیماریوں اور زمین وآسمان کی آفات وبلیات کو کھا جاتا ہے ۔مزید یہ کہ ہمیں بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں ۔ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے‘‘
ڈاکٹر افضل حیات کی چھوٹی چھوٹی بچّیاں اپنے دادا ،دادی کی گود میں ہنستی کھیلتی رہتی تھیں لیکن جب سے اُن بچّیوں کے ذہن ودل میں کرونا وائرس کانام بیٹھ گیا تھا تب سے وہ اپنے دادا ،دادی سے دُور دُور رہنے لگی تھیں ۔دادا،دادی ترستے تھے کہ وہ اُن کے پاس آئیں ،اُن کی گود میں بیٹھیں مگر یہ سب کچھ خواب وخیال کی باتیں ہوکر رہ گئی تھیں ۔گھروں میں ،بازاروں میں ،چوک چوراہوں میں،ریلوے اسٹیشنوں ،ہوائی اڈوں یہاں تک کہ مذہبی مقامات میں ہر جگہ لگتا تھا کہ جیسے کرونا وائرس کی صورت میں موت رقص کررہی ہو۔تمام تفریح گاہیں ،شراب اور عیاشی کے اڈاے ویران ہوچکے تھے ۔ہر شخص کے چہرے سے افسردگی،مژ مردگی اور خوفزدگی کے آثار نظر آرہے تھے ۔زندگی کے سارے رنگ وروپ مٹتے جارہے تھے لیکن اس سب کے باوجود ڈاکٹر افضل حیات کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر نہیں آرہے تھے ۔اُن کے چہرے کی بشاشت اور نُورانیت یہ ظاہر کررہی تھی کہ وہ اللہ والے ہیں، اس لیے اللہ ہی اُن کا محافظ
ہے ۔اُنھوں نے اس قدرتی وبا سے بچنے کے لیے کلام پاک کی مخصوص سورتوں اور دُعاؤں کا ورد شروع کردیا تھا۔وہ رات کو تہجد میں رورو کے اللہ سے کُل عالم میں بسنے والے لوگوں کے لیے اس مہلک بیماری سے محفوظ رہنے کی دُعا مانگتے ۔ایک روزوہ ناشتہ کرنے کے بعد باہر لان میں بیٹھے سورۂ یٰسین کی تلاوت کررہے تھے کہ اُن کے گیٹ پہ کسی نے دستک دی ۔وہ اُٹھے اُنھوں نے اپنی بڑی بیٹی کو باہر بلاکر اُسے قرآن پاک اندر رکھنے کو کہااور گیٹ پر آگئے ،گیٹ کھولا تواُن کے دو ہم پیشہ ساتھی ڈاکٹر ہربنس لال اور ڈاکٹر بکرم سنگھ باہر مُنہ پہ کالے ما سک پہنے کھڑے تھے ۔ڈاکٹر افضل حیات نے اُنھیں دیکھتے ہی متعجب انداز میں کہا
’’ارے تُم ! …یار آج یہاں کیسے؟‘‘
ڈاکٹر افضل حیات نے اُن کے ساتھ باری باری ہاتھ ملانا چاہا تو اُن دونوں نے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا ۔بس دُور سے ہی اُنھوں نے ہاتھ جوڑ لیے۔ڈاکٹر ہر بنس لال نے کہا
’’میرے دوست ! ہاتھ ملانے کے دن گئے ’’کرونا ‘‘آگیا ہے!‘‘
ڈاکٹر افضل حیات نے اُن دونوں کو لان میں کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا اور پھر بڑے متفکر لہجے میں اُن سے مخاطب ہوئے۔کہنے لگے
’’میرے دوستو! دراصل کرونا وائرس دُنیا والوں پہ عذاب ِ الٰہی ہے۔اس لیے کہ دُنیا میں بُرے کام کھلے عام ہورہے ہیں ۔زنا عام ہے ،شراب عام ،رشوت عام ہے ،جھوٹ عام اور ظلم وحق تلفی عام ہے غرضیکہ اللہ کی نافرمانی کھلے عام ہورہی ہے ۔یہ سب اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں دُنیا والوں پر کرونا وائرس کی صورت میں عذاب اُترا ہے ‘‘
ڈاکٹر بکرم سنگھ نے ڈاکٹر افضل حیات کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا
’’یار! دُنیا کے تما م دھرم ومذاہب میں بُرائی کی شدید مذّمت آئی ہے اور اچھے کام کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن آج کل ہر جگہ بُرائی کابول بالا ہے ۔اب عذاب نہ اُترے تو اور کیا اُترے‘‘
ڈاکٹر ہربنس لال نے کہا
’’کرونا وائرس سے بچنے کے لیے ہر شخص دن میں بیسیوں بار ہاتھ دھوتا ہے اور مُنہ کو ماسک سے ڈھانپ کے رکھتا ہے ۔کسی سے ہاتھ نہیں ملاپا رہا ہے ،لگتا ہے تمام رشتے ناتے،اپنے پرایوںسے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں ۔نہ ہم شادی میں مِل سکتے ہیں اور نہ غمی میں !ایک عجیب قسم کی تشویشناک صورتحال سے ہم گزررہے ہیں ۔اُف آخر کیا ہوگا؟‘‘
ڈاکٹر افضل حیات نے کہا
’’دوستو! مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اکیسویں صدی کے آدمی نے اپنے ہاتھوں سے جائز کم اور ناجائز کام زیادہ کیے ہیں ۔زبان سے جھوٹ بولا ہے اور بے حیائی کی باتیں کی ہیں ۔آدمی نے وہ کام کیے ہیں جو اللہ کو ناپسند ہیں ۔اس لیے اللہ نے اُس کے ہاتھوں اور زبان پہ روک لگادی ہے ‘‘
وہ تینوں کرونا وائرس پر محوئے گفتگو تھے کہ اتنے میں ڈاکٹر افضل حیات کا خادم چائے پانی لے کر اندر سے باہر آگیا۔اُس نے ڈاکٹر ہربنس لال اور بکرم سنگھ کے سامنے میز پر بسکُٹ اورچائے رکھی لیکن اُنھوں نے چائے پینے سے صاف انکار کردیا ۔ڈاکٹر افضل حیات کے بار بار اصرار کرنے پر بھی
اُنھوں نے چائے نہیں پی ۔بکرم سنگھ نے کہا
’’یار افضل ! ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ حکومت نے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی طبی امداد کے لیے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے، اُس میں آپ کا بھی نام ہے ۔یہ ٹیم پورے دوہفتے تک ملک کے مختلف حصوں میں کرونا وائرس کے مریضوں پر کام کرے گی تاکہ اس مہلک بیماری کی روک تھام ہوسکے ‘‘
افضل حیات نے کہا
’’میں انشااللہ اس نیک کام کے لیے تیار ہوں لیکن دوستو! یہ بات یاد رکھو کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے ۔جب ظلم بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے ،پاپ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو تب زمین لرزتی ہے ،زلزلے ، طو فان آتے ہیں اور کرونا وائرس جیسی وبائیں پھیلتی ہیں ۔قومِ عاد وثمود ،قومِ نوحؑ،قوم لوطؑ پر بھی تو عذاب اُترا تھا۔ فرعون ،نمرود،شدّاد اور قارون جیسے اللہ کے باغیوں اور ظالموں کا کیا حشر ہوا تھا تاریخ نے اُن عبرت آمیز واقعات کو محفوظ رکھا ہے ۔آپ ہی کہیے آج کل کے اس سوشل میڈیائی دور میں کون سی ایسی بُرائی ہے جو کھلے عام نہیں ہورہی ہے ؟‘‘
ڈاکٹر بکرم سنگھ اور ڈاکٹر ہر بنس لال ،ڈاکٹر افضل حیات کی باتیں سُن کر دنگ رہ گئے ۔ڈکٹر ہربنس لال نے کہا
’’یار افضل! آپ صحیح کہہ رہے ہیں ‘‘
ڈاکٹر بکرم سنگھ نے بھی افضل حیات کی باتوں کی تصدیق کی
’’اچھا تو اب ہم چلتے ہیں ۔کل آٹھ بجے صبح ہم سرکاری گاڑی میں یہاں پہنچ جائیں گے ۔آپ تیاررہنا ۔آپ کو ہم یہاں سے ہی لے جائیں گے‘‘یہ کہتے ہوئے وہ چلے گئے۔
ڈاکٹر افضل حیات نے جب گھر میں اپنی اہلیہ بشریٰ خانم اور والدین سے اپنے کل کے پروگرام کے بارے میں بتایا تو وہ کچھ ڈروخوف محسوس کرنے لگے ۔بچّیوں نے اُن کی ٹانگوں سے لپٹ کے رونا شروع کردیا ۔بشریٰ خانم کی آنکھوں میں بھی ضبط کے باوجود آنسو اُمڈ آئے ۔ڈاکٹر افضل حیات پہلے ماں کے پاس گئے اور کہنے لگے
’’امّاں !…کل میں ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ جارہا ہوں ۔آپ میری فکر نہ کیجیے ۔مجھے اللہ تعالیٰ پہ کامل بھروسہ ہے کہ میں بصحت وسلامت آپ کے پاس واپس آجاؤں گا ۔زندگی اور موت تو اللہ کے اختیار میں ہے‘‘
ماں کا دل تڑپ اُٹھا کہنے لگی
’’میرا جی نہیں چاہتا ہے کہ تُو گھر سے باہر جائے ۔میری آنکھوں میں اندھیرا چھا جائے گا۔تُو گھر میں ہے تو لگتا ہے سارا جہان گھر میں ہے ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ روپڑی۔
ڈاکٹر افضل حیات نے ماں کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا
’’امّاں ! آپ نہ روئیں ۔مجھے انشااللہ کچھ نہیں ہوگا ۔آپ مجھے اپنی نیک دُعاؤں میں یاد رکھیں‘‘پھر اپنے والد کے پاس گئے اور کہنے لگے
’’ابّا !…میں کل جارہا ہوں ‘‘وہ چونک اُٹھے، پوچھنے لگے
’’بیٹا! کل کہاں جانا ہے ؟‘‘
’’ابّا ! اپنا فرض نبھانے ۔کرونا وائر س سے متاثرہ مریضوں کی خدمت کے لیے سرکار نے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے ۔اُس میں میرا نام بھی ہے ‘‘
’’بیٹا! فرض اور مرض دونوں اپنی جگہ اہم ہیں اور یہ کرونا وائرس……!میرا دل اس مہلک بیماری کا نام سُن کر گھبرا اُٹھا ہے اور پھر تیرا اس حال میں گھر سے جانا میرے وجود میں زلزلہ ساپیدا کرگیا‘‘
’’ابّا ! میں انشااللہ صحیح سلامت واپس گھر آجاؤں گا۔آپ پورے عالم میں بسنے والوں کی صحت وتندرستی کے لیے دُعا کیجیے ۔میں انشااللہ دو ہفتے کے بعد واپس گھر آجاؤں گا ۔فون پہ انشااللہ باتیں ہوتی رہیں گی ‘‘
باپ نے دُعا دی
’’بیٹے ! اللہ تُجھے سلامت رکھے ! ہم سب کو سلامت رکھے !‘‘
دُوسرے دن آٹھ بجے صبح جب افضل حیات گھر سے رُخصت ہونے لگے تو اُنھوں نے کلام ِ پاک اپنے ساتھ اُٹھایا ۔اُس وقت اُن کی بچّیاں سوئی ہوئی تھیں ۔بشریٰ خانم گیٹ تک آئی اور اپنے رفیق ِ حیات کو کہنے لگی
’’اپنا خیال رکھیے ۔نہایت احتیاط سے کام کیجیے ۔بیچ بیچ میں اپنی صحت اور حالات سے آگاہ کرتے رہیے ‘‘
اُنھوں نے بیوی کو تسلّی دیتے ہوئے کہا
’’میری فکر نہ کرنا ،میں اللہ پہ کامل بھروسہ رکھ کر گھر سے جارہا ہوں ۔میں انشااللہ فون کرتا رہوں گا‘‘یہ کہتے ہوئے وہ سرکاری گاڑی میں بیٹھ گئے ۔
تین دن تک ڈاکٹر افضل حیات نے ماسک اور ڈاکٹری وردی پہن کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مختلف مقامات پہ کرونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال اور اُن کے علاج معالجے کا کام کیا لیکن اُس کے بعد اُنھوں نے ماسک پہننا چھوڑ دیا اور مخصوص قرآنی سورتوں اور دُعاؤں کا سہارا لے کر کام کرتے رہے ۔وہ اپنے ہاتھوں سے مریضوں کی نبض دیکھتے ،قریب جاکر اُن کے مرض کی تشخیص کرتے ۔ایک بڑے ہال میں کرونا وائرس کے مریضوں کے بیڈ لگے ہوئے تھے ۔وہ بغیر ماسک کے مسلسل اپنا فرض نبھاتے رہے ۔اُن کے ہم پیشہ ساتھیوں کے لیے اُن کا یہ عمل بڑا حیران کردینے والا عمل ثابت ہورہا تھا ۔ڈاکٹر افضل حیات کو دوہفتے کام کرتے گزرے گئے لیکن اس کے باوجود اُن پر جب کرونا وائرس کا کوئی بھی اثر نہیں ہواتو یہ حیران کُن خبر اُس ملک کے پرائم منسٹر تک پہنچی ۔ڈاکٹر افضل حیات کو فوراً پرائم منسٹر ہاوس میں بلایا گیا ۔سوشل میڈیا کے بہت سے لوگ وہاں موجود تھے ۔پرائم منسٹر صاحب اپنے تمام وزرا کے ساتھ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر ڈاکٹر افضل حیات کو کرونا وائرس کا اثر کیوں نہیں ہوا ؟پرائم منسٹر صاحب نے خود ڈاکٹر افضل حیات سے پوچھا
’’ڈاکٹر افضل ! ہم سب آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ نے مسلسل دوہفتے بغیر ماسک پہنے ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ کرونا وائرس کے مریضوں کی خدمت میں گزارے لیکن اس کے باوجود آپ پر کرونا وائرس کا کوئی بھی اثر نہیں ہوا،ہم اس بات پہ حیران ہیں ! وجہ بتایئے ؟‘‘
ڈاکٹر افضل حیات نے بڑے نرم اور شائستہ لہجے میں اس طرح جواب دیا
’’محترم پرائم منسٹر صاحب ودیگر معزز سامعین کرام ! آداب۔میں نے بچپن سے لے کر آج تک جھوٹ نہیں بولا ہے ۔کسی غیر محرم عورت کی طرف نظر اُٹھا نہیں دیکھا ہے ۔میں نے اللہ کے پاک کلام کو بار بار پڑھا ہے ،اُس پر عمل کیا ہے ۔اس کرونا وائرس کے دوران اللہ کے کلام کی مخصوص سورتوں کا ورد کیا ہے۔
میری زبان پر ہر وقت اللہ کاذکر اور آخرت کی فکر رہتی ہے ۔میں نے آج تک روزہ اور پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑی ہے ۔میں اُس سپریم طاقت کی عبادت وبندگی کرتا ہوں جو خالق کائنات ہے ۔اسی لیے مجھ پہ کرونا وائرس کا کوئی بھی اثر نہیں ہوا ۔اگر آپ اور پوری دُنیا کے لوگ کرونا وائرس سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر آپ سب کو’’ کرونا ‘‘کی فُل فارم کو سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا ہوگایعنی کرونا کی فُل فارم یہ ہے کہ کلام ِ پاک پڑھو نا،روزہ رکھونا،وضو کرو نا،نماز پڑھو نا،اللہ سے جُڑو نا۔تمام دُنیا میں بسنے والے لوگ اگر ان باتوں پر عمل کریں گے تو ہر طرح کی وبائی بیماریوں سے بچیں گے ورنہ کرونا وائرس جائے گا تو کوئی اور وائرس آئے گا‘‘
ڈاکٹر افضل حیات کی بصیرت افروز روحانی باتیں سُن کر سب دنگ رہ گئے ۔جان بچی تو لاکھوں پائے،سب کے چہروں سے اطمینان اور اُمید کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ۔اُس ملک کے پرائم منسٹر نے فوراً یہ اعلان کردیا کہ
’’ ہم کلام ِ پاک کا ترجمہ اپنے ملک کی ہر ایک زبان میں کروائیں گے،اُسے پڑھیں گے اور مساجد کو آباد کروائیں گے‘‘
ڈاکٹر افضل حیات نے جب پرائم منسٹر کی زبانی اعلان نامہ سُنا تو اُنھیں اس بات کی بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ کرونا وائرس کے مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے اللہ نے آج مجھ سے بہت بڑا کام کروایا ہے۔
٭٭٭٭

Leave a Comment