ناول’’ٹیڑھی لکیر ‘‘کے مرکزی کردار’’شمن ‘‘کے خصوصی حوالے سے عصمت چغتائی کی کردار نگاری کا تجزیہ
ڈاکٹر نصرت جبین
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر ،سری نگر۔
Email:-nusraturdu@gmail.com
عصمت چغتائی کا شمار اردو کے اہم اور بے باک فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوںنے اپنی تخلیقات میں تانیثیت کی جس بھر پور انداز میں ترجمانی کی ہے شایدہی اس معاملے میں اُردو کا کوئی قلم کار ان کی ہم سری کا دعویٰ کرسکتا ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اُردو کے کچھ قلم کاروں جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی ہے ، نے خواتین کے مسائل اور مصائب ، آرزؤں اور امنگوں، مایوسیوں اور محبتوں ، تصورات اور تفکرات کو اپنی تخلیقات کے ذریعے نظریانے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش ضرور کی ہے لیکن جس منضبط اور مبسوط انداز میں اب تک عصمت نے تانیثی ادب تخلیق کیا ، وہ انہی کا اختصاص ہے۔ عصمت نے اپنی تخلیقات بالخصوص ناولاتی ادب کے تحت اردو ادب کو ایسے باغی کردار دیے ہیں جن کا تصور اُردو کی ادبی دنیا میں خال خال ہی کیا جاتا تھا۔ اردو ادب کے اکثر نسوانی کردار خاموشی سے سب کچھ سہہ لیتے تھے مگر عصمت نے ان کا رویہ بدل دیا ۔ خاص کر مسلم متوسط طبقے کی خواتین کرداروں کو عصمت نے جو باغی انداز بخشا وہ انہی کا ہی کارنامہ ہے ۔ انہوں نے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی غلاظتوں ، نا آسودگیوں اور بد حالیوں کا انتہا ئی قریب سے مشاہدہ کیا ۔
عصمت نے عورت کے ان پہلوؤں پر لکھا جن پر دوسرے قلم کار لکھنے سے کتراتے تھے یا دوسرے لکھنے والوںکا ذہن وہاں نہیں پہنچا تھا۔ مثلاً جب عصمت نے افسانہ ’لحاف‘ لکھا تو منٹو نے رشک سے کہا کہ میرے ذہن میں ایسا افسانہ کیوں نہ آیا۔ انہوںنے عورتوں کے ساتھ ہونے والے تمام رویوں کو تخلیقی سطح پر اس طرح پیش کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عصمت نے صرف ۱۵ سال کی ہی عمر سے لکھنا شروع کیا تھا۔ ان کے گھر کا ماحول کشادہ دلی ، آزاد، ادبی اور علمی تھا:
’’عصمت نے سماج کے دکھتی رگوں پر اپنا قلم چلایا تو ہر طرف حیرت اور ہنگامے کی فضا طاری ہوئی اور جلد ہی محترمہ ایک ایسی حقیقت پسند انقلابی افسانہ نگار بن گئیں جو حالی کے برعکس کسی بھی مرد کی مردانہ برہنگی سے کبھی نہیں شرمائیں ، نہایت ، نڈر ، بے باک اور کھری عورت۔‘‘۱؎
عصمت نے عورت کی حیثیت ہی سے اپنے مشاہدات، تجربات اور محسوسات کو افسانوں اور ناولوں کا روپ دیا ہے۔ اس کی ایک اہم مثال ان کا مشہور ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ ہے۔ اس ناول کے متعلق لکھا گیا ہے کہ یہ عصمت کی خود نوشت ہے ۔ عزیز احمد نے عصمت کے متعلق ترقی پسند ادب میں کہا ہے کہ ان کے افسانے آپ بیتی ہیں مگر یہ بھی ایک پہلو ہو سکتا ہے کہ عصمت کے سارے فن میں مشاہدات کا ہی عمل دخل ہو۔ انہی مشاہدات اور ذاتی تجربات پر مشتمل عصمت کا یہ اہم ناول ’’ٹیڑھی لکیر ‘‘ ہے۔ عصمت کے افسانوی ادب کا ایک اہم کردار ’’شمن‘‘ ہے۔ شمن ٹیڑھی لکیر کا سب سے مرکزی کردار بلکہ یہ کردار ناول کا روح ِ رواں ہے۔جسے ہم مابعدجدید فکشن کی تنقید کے مطابق متحرک (Round) بھی کہہ سکتے ہیں۔ ناول کی شروعات ہی اس جملے سے ہوتی ہے:
’’وہ پیدا ہی بہت بے موقع ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نو بچوں کے بعد ایک کا اضافہ جیسے گھڑی کی سوئی ایک دم آگے بڑھ گئی اور دس بج گئے۔۔۔۔۔۔۔ بہن بھائی اور پھر بہن بھائی۔ بس معلوم ہوتا تھا ،بکھ منگوں نے گھر دیکھ لیا ہے ، امڈے چلے آتے ہیں۔ ویسے ہی کیا کم موجود تھے اور پے در پے آرہے تھے۔‘‘۲؎
شمن کی پیدائش جب اس طرح اور ایسے ماحول میں ہوئی جہاں اس کے لاڑ پیار ، پرورش اور تربیت کی طرف والدین کی کوئی توجہ نہیں تھی بلکہ انّا اور بہنوں کے ہاتھوں پلی بڑھی۔ ماں باپ کی محبت و شفقت سے محروم رہنے کے ساتھ اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ گھر میں ایک غیر ضروری فرد ہے،جس کی وجہ سے اس کے اندر بغاوت کے وہ عناصر پیدا ہوتے ہیں جس کا اظہار شمن اپنی پوری زندگی کے ہر قدم پر کرتی ہے اور جس کا اظہار اس نے بچپن سے ہی کرنا شروع کر دیا :
’’لوگوں کو شادی بیاہ کا ارمان ہوتا ہے مگر شمن کو کچھ دن سے کسی کو مارنے کا ارمان ہو گیا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اس کا جی پھڑ پھڑ انے لگتا کہ وہ کسی کو مارنے اپنے موٹے سے گھونسے سے گھما گم کسی کو کچل کر رکھ دے‘‘۳؎
جس طرز پر شمن کی پرورش ہو رہی ہوتی ہے ویسے ماحول میں یہ یقینی تھا کہ یہ بچی ایک دبی کچلی اور سب کچھ سہنے والی لڑکی کے روپ میں ابھرتی مگر اس کا ردعمل بغاوت اور انتقام کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ وہ حالات سے اتفاق نہیں کرتی بلکہ احتجاج کا راستہ اختیار کرتی ہے اور خارجی ماحول سے انتقام کی آرزو کی شکل اختیار کرتی ہے۔ عصمت نے ایک شمن کے کردار میں ان ہزاروں کروڑوں بچیوں کی زندگیوں کو پیش کیا ہے جو ہمارے سماج میں جگہ جگہ جی رہیں ہیں:
’’عصمت نے اس ناول میں کسی ایک دوشیزہ کی داستان حیات نہیں پیش کی ہے بلکہ ہندوستان کی بے شمار نوجوان لڑکیوں کی نفسیاتی اور جذباتی ہیجان کی تصویر کشی کی ہے ۔ محض شمن ہی سماجی نابرابری اور خاندانی ریت و رواج کی شکار نہیںہے بلکہ اس عہد و سماج کی ایسی بے شمار لڑکیاں ہیں جو دیرینہ خاندانی بندشوں اور سماجی قید و بند میں جکڑی ہوئی ہیں۔‘‘۴؎
شمن عصمت کا ایسا تراشا ہوا کردار ہے کہ جس نے زندگی کے ہر موڑپر روایتی رسم و رواج کو ٹھکرا دیا ہے ۔ جب شمن کی تعلیم و تربیت کی بات آتی ہے وہ پڑھنا نہیں چاہتی ہے اس کو روایتی تعلیم سے نفرت ہے۔ اس کو اپنے پہلے قاعدے یا کتاب سے زیادہ اس اخبار سے محبت تھی جسے اس کا ابا لفافہ سا بنا کر پیار میں اسی کے سر پر مارا کرتے تھے۔ پہلے ہی قاعدے یا کتاب کو اس نے موڑ کر رکھ دیا ۔ کالی کالی ٹیڑھی تصویریں ، سوائے لوٹے کی شکل کے ’’ص ض‘‘ کے اسے کچھ نہ بھایا اور جیم کو تو دیکھ کر جل ہی گئی۔ کس قدر اترائی ہوئی مہترانی کی شکل تھی۔اس مناسبت سے یہاں پر یہ اقتباس دیکھیے :
’’اس نے ایک دن منجھو سے پوچھا:’’ منجھو جب قاعدہ ختم ہو جائے گا تو مٹھائی بٹے گی نا؟ ‘‘ ہاں اور پھر دوسری کتاب شروع ہو گی‘‘ دوسری ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر؟ ’’پھر بڑے بھائی جیسی موٹی موٹی کتابیں پڑھا کرنا۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ منجھو نے نہایت معصومیت سے بتایا۔ کس سادگی سے وہ اسے آنے والی بلاؤں سے دو چار کر رہی تھی۔خاموش اپنی گود میں ہاتھ سمیٹے وہ بیٹھی رہی اور ایسا محسوس ہوا کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک موٹی سی بھیانک کتاب اس کے سر پر پتھر کی سل کی طرح گرتی ہے۔ جس میں ’’ص ض‘‘ اور جیم جیسے بھی زیادہ کمینے اور غیر دلچسپ الفاظ موجود ہیں۔‘‘۵؎
عہدِ طفلی سے ہی اس کردار میں غضب کی خود اعتمادی ہے اسے اپنے آپ اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ وہ کسی کے بھی رعب داب چاہیے وہ عمر میں اس سے بہت بڑے بھی ہوں، کے آگے جھکتی نہیں ہے۔ ہر بے جا حکم جو اس پر صادر کر دیا جاتا ہے وہ اس سے انکار کر جاتی ۔ زندگی کے ان چھوٹے چھوٹے حالات و واقعات کو جس فنکارانہ انداز میں عصمت نے پیش کیا ہے وہ اس کی فنی مہارت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ جب شمن منجھو کے سسرال جاتی ہے وہاںاسے شمن کی ساس اور اس کی ساس کا پوتا کندن قطعی پسند نہ آئے۔ اب ضمن میں شمن کا رویّہ دیکھیے کہ وہ کس طرح اپنی بے باک رائے کا اظہار کرتی ہیں :
’’کندن کی کیاری پر بڑھیا دولت کا سانپ بن کر پہرہ دیتی۔کیا مجال جو کوئی چھو بھی جائے۔ ایک دن بڑھیا نے جان بوجھ کر کیاری میں سے دھنیہ توڑ لینا چاہا۔’’کندن کی کیاری میںسے توڑو ہماری کیاری میں سے نہیں‘‘۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر کیاری کے آگے کھڑی ہو گئیں۔ ’’اے بیٹی ذرا سا لوں گی، کندن تو روئے گا۔’’کندن تو روئے گا!‘‘ شمن کو آگ ہی تو لگ گئی۔
’’نہیں ‘‘۔ اس نے کچھ ایسے زور سے بڑھیا کو ڈانٹا کہ وہ ڈر کر بڑ بڑائی ہوئی چلی گئی۔‘‘۶؎
بھلے ہی وہ کسی رشتہ دار کے گھر میں ہی رہی ہے مگر وہ وہاں پر بھی اپنی خودداری کو برقرار رکھے ہوئی ہے۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی ہر نا انصافی پر نہ صرف آواز اُٹھاتی ہے بلکہ سینہ سپر ہو کر لڑنے کے لیے آگے آجاتی ہے۔ وہ نہایت حساس ، خوددار اور باغی قسم کی لڑکی ہے۔ شمن ازلی ضدی، بے باک اور حوصلہ افزا واقع ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ منجھو کے ساس کے گھر میں ہی رہ کر اپنی کیاری کے ساتھ اُسے چھیڑنے نہیں دیتی ہے:
’’عصمت چغتائی نے شمن کو اس قدر جاندار، سخت جان اور خوددار پیش کرکے معاشرے کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بھلے ہی اس پر مختلف حملے ہوتے ہیں، گھر کی بے اعتنائی و بے توجہی نے اسے ضدی اور سرکش بنا دیا ہے۔ وہ محبت کی بھوکی ہے پھر زمانے کی بے رحم طاقتیں بھی اسے اپنے شکنجے میں دبو چتی ہیں جن سے وہ لرزہ لرزہ ہو جاتی ہے۔ باوجود اس کے وہ معاشرے کے رویے سے بغاوت کرتی ہے وہ کسی بھی حال میں شکست قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ہر لمحہ زیر ہونے کے باوجود زندگی میں کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہتی ہے۔ وہ ویسا ہی قدم اُٹھاتی ہے جس کا اس کے دل و دماغ اور جذبات مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘۷؎
منجھو کے گھر سے واپس آنے کے بعد شمن کا اسکول میں داخلہ کرایا جاتا وہ اس لیے کہ گھر میں رہ کر وہ نوری کے اخلاق بگاڑتی ہے۔سکول میں اس کو قریبی واسطہ استانی مس چرن سے ہوتا ہے۔ منجھو کے بعد پہلی بار شمن کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی کو چاہتی ہے اور جو اسے اچھا لگ رہا ہے وہ بھی شمن کو محبت اور عزت کرتی ہے شمن کو مس چرن کے ساتھ قربت کی اس انتہاپر جانا جسے اخلاقی نکتہ نگاہ اور مذہب کی نظر میں غلط سمجھا جاتا ہے دراصل اس کے اس ذہنی اور نفسیاتی خالی پن کا نتیجہ ہے جو اسے والدین کا پیار نہ ملنے سے اس شعور ولاشعور کا ایک اہم جز بن چکا ہے محبت سے محرومی اور تنہائی کے شدید احساس نے اسے ہر کسی سے دور کر دیا تھا حتیٰ کہ بہن منجھو تک کو اب بھول چکی تھی ان حالات میں جب مس چرن اسے محبت ، عزت اور وقت سب کچھ دے دیتی ہے توسب کی دھتکاری ہوئی شمن کو مس چرن میں سارے رشتے نظر آتے ہیں۔
شمن کی بد نصیبی یہ تھی کہ وہ والدین کی شفقت و محبت سے محروم رہی تھی۔ ماں ایک درجن کے قریب بچوں کو پیدا کرکے اکتا گئی تھی۔ شمن کے لارڈ پیار اور پرورش کی طرف اس نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شمن کو بیٹی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تھا جو ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے ایسے حالات میں پلی شمن کا مس چرن جیسی اخلاق باختہ استانی کے ساتھ غیر اخلاقی رشتہ قائم کرنا کوئی غیر فطری عمل نہیں ہے بلکہ جو کچھ پیدائش کے دن سے اس کے ساتھ ہوا ہے یہ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش ہے یا ردعمل ہے ایک باغی انسان کا یا وہ خالی پن جس کو وہ بھرنا چاہتی تھی، اسی کی آڑ میں کسی شاطر نے اس کا استحصال کیا:
’’مس چرن نے اسے گھر کا کام کرنے کے لیے کمرے میں بلانا شروع کیا ، شمن کو اس قدر فخر محسوس ہوتا کہ کام ختم ہوجاتا تو اسے بڑا رنج ہوتا ۔ مس چرن نے اسے اسکول کے علاوہ کام دینا شروع کیا اور دوسرے امتحان پر اسے ڈبل درجہ چڑھا دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ منجھو کے بعد اسے پہلے انسان نے متاثر کرکے اپنے قابو میں کرلیا‘‘۸؎
مس چرن کے بعد شمن کی زندگی کا پہلا مردرشید کے روپ میں سامنے آتا ہے مگر بچپن کی انا پھر منجھو ، مس چرن کی طرح وہ بھی اچانک شمن کو چھوڑ کر پردے سے ہٹ جاتا ہے۔ رشید کا شمن کی زندگی سے دور ہو جانے کا واقع کوئی بڑا حادثہ بن کر نہیں آتا کیوں کہ وہ اب اس کی عادی بن چکی ہوتی ہے۔ شمن کا رشتہ اس کے خاندان والے اس کے خالہ زاد بھائی اعجاز کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں مگر شمن اپنی اسی بغاوت پسند فطرت کی وجہ سے انکار کر دیتی ہے :
’’جب شمن ! جوکو دیکھی تو وہ اسے موٹی سی گستاخ گالی نظر آتا اس کے جذبات کھول کر بغاوت پر آمادہ ہو جانے اور اس کا جی چاہتا کسی کی بوٹیاں دانتوں سے چبا کر تھوک دے۔‘‘۹؎
یہ انکار منجھو کی اس فطرت کی غمازی ہے جو بچپن سے اس کے ساتھ ساتھ جاری و ساری تھی بلکہ اب یہ فطرت جوان ہو چکی تھی۔ منجھو کی شادی کے بعد اس کے کمرے میں سونے نہ دینے کے نتیجے میں بڑی آپا کی ہری بھری کیاریوں کو تہس نہس کر دینا ،منجھو کی ساس کی کلائی میں دانت گڑا دینا شمن کے نزدیک جذبہ انتقام کا ہی اظہار تھا۔ اس طرح خالہ زاد بھائی اعجاز سے رشتہ طے ہونے سے پہلے ہی یہ کہہ دینا کہ وہ اعجاز کے علاوہ ہر جانور سے شادی کر سکتی ہے شمن کی ضد ، بے باکی اور باغی کردار ہونے کی اچھی مثالیں ہیں:
’’مردانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کرنے کا مادہ عصمت چغتائی میں بہت حد تک اپنے بھائیوں کے ساتھ مختلف قسم کی تفریحات میں شرکت کی وجہ سے پیدا ہوا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لیتی تھیں۔ جس کے باعث وہ بے جا شرم وحیا کی تصویر بننے سے بچتی رہیں اور اس کے بدلے بے باکی اور آزاد خیالی اور جرأت مندی ان کے مزاج کا ایک حصہ بن گئی۔‘‘۱۰؎
شمن اگر ایک روایتی ماحول میں پلی ہوئی روایتی لڑکی ہوتی تو وہ شاید والدین کے طے کئے ہوئے رشتے کو قبول کر لیتی مگر اس کے بچپن میں اس کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوئی تھیں کسی پر اس کا بھروسہ نہ تھا سب سے اعتماد اُٹھ گیا تھا۔ یہ کسی پر بھی اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے ہی اب ہر فیصلہ وہ خود کرنا چاہتی تھی۔ کچھ بھی اس سے چھن جائے اسے اس کا کوئی غم نہ تھا وہ ایک بے پروہ سخت جان بن گئی تھی۔
شمن کی زندگی میں آنے والا ایک اور شخص پکی عمر کے رائے صاحب ہیں۔ وفور جذبات سے بے قابو ہوکر رائے صاحب سے اظہار عشق کر بیٹھتی ہے۔ رائے صاحب حیران ہوکر اسے دیکھنے لگے اور خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلے گئے ۔ اپنی اس حرکت پر شمن کو نہ ندامت و افسوس ہوا اور شمن کا جی چاہا اسی زمین میں سما جائے:
’’شمن نے رائے صاحب کے وجود سے جنس مخالفت کی ایک ایسی ہستی دریافت کرلی جو اس کے دل و دماغ کی دنیا میں ہلچل پیدا کردینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جس میں ایک باپ کی شفقت ، ایک حکمران کا وقار ، ایک دیوتا کا جلال اور اس کی تقدیس موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمن اپنے بچپن میں باپ کی شفقت سے قطعاََ محروم رہ گئی ہے جو اس کا پیدائشی حق تھا۔۔۔۔۔۔۔ باپ کا وجود لڑکی کے کردار کو استواری اور اس کے جذباتی مرکبات کے استحکام میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ Elextra Complex کے نفسیاتی دور سے اگر سو فیصدی نہیں تو اکثر و بیشتر لڑکیاں ضرورگزرتی ہیں ،جہاں وہ باپ کو خدا سے بزرگ وبرتر سمجھ کر اسے اپنا آدرش قرار دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمن کی زندگی اسے تجربے سے قطعی خالی رہ گئی تھی۔ یہ پیاس اس کے فطری تقاضوں کی ازلی پیاس بن کر اس کے لاشعور کی گہرائیوں میں جاسوئی تھی۔ ایک ادنیٰ سے اشارے پر اس کا چونک جانا ممکن تھا۔‘‘۱۱؎
پکی عمر کے رائے صاحب سے شمن کا متاثر ہونا بظاہر ایک عجیب سا معاملہ لگتا ہے مگر انسان ہمیشہ اسی چیز کی تلاش یا حاصل کرنے کی تڑپ میں ہوتا ہے جو انسان کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ شمن کا رائے صاحب سے متاثر ہونا اسی خالی پن کا نتیجہ ہے جو بچپن میں وہ باپ کے پیار سے محروم رہ کر رہی تھی۔ شمن کے کردار کا دوسرا پہلویہ بھی ہے کہ بچپن میں اسکو جب صحیح تربیت اور پیار نہیں ملا اور ہر کوئی اس کی جو بے عزتی کرتا تھا اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ایک تو وہ ضدی بچے کے روپ میں سامنے آئی دوسرا اس نے ہمیشہ اپنی زندگی میں سماج اور مذہب کے تمام اصول واقدار کو ٹھکرایا کہ جس کی کوئی عزت اور قدر ہی نہ ہو اسے کن چیزوں کے چھن جانے کا ڈر ہوگا نتیجے کے طور پر شمن ایک آزاد زندگی خاص کر ایک آزاد جنسی زندگی جینے لگی ج۔سے کچھ لوگ تانیثیت کہہ سکتے ہیں، آزادی کہہ سکتے ہیں مگر ایسی آزادی کو صرف مغربی معاشرہ یا مغربی عورت قبول کر سکتی ہے۔ مشرقی عورت اس آزادی کی خواہاں نہیں بالکل نہیں ہے۔ ایسی آزادی سے عورت در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے۔
ہر شخص اسے استعمال کر کے چلا جاتا ہے۔ وقتی لذت تو وہ حاصل کر لیتی ہے مگر کوئی باوفا ساتھی نہیں ملتا ہے جس کی اسے ہمیشہ تلاش رہتی ہے اور اسی تلاش میںایک موڑپر آکر وہ ماں بن جاتی ہیں۔ رائے صاحب کے بعد شمن کی زندگی میں اور بہت سے مرد آتے ہیں افتخار نے شمن کے سامنے خود کو کنوارا بتایا تھا مگر افتخار بیوی بچوں والا تھا۔اٖفتخار کے اس فریب سے اس کا دل ٹوٹ گیا پھر شاعر انقلاب کامریڈ صمد، انجینئیر اور پروفیسر رحمان سب ایک ایک کر کے چلے جاتے ہیں ۔ آخر پر رونی ٹیلر نامی ایک ائرش نوجوان سے شادی کر لیتی ہے۔ اور وہ بھی اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ مگر اب وہ اس کے بچے کی ماں چکی ہوتی ہے:
’’آج اس بیکسی کی تنہائی میں بھی کتنی چہل پہل تھی۔ اس بے سرو سامانی میں بھی کتنی سلجھی ہوئی سجاوٹ تھی! آج وہ کتنی متحیر مگر خوش تھی۔ اس سے قبل اس نے اپنے آپ کو اتنا کمزور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا بہادر ، اتنا پریشان۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اتنا مطمئن کبھی نہ محسوس کیا تھا اور دنیا کتنی حسین ہوگئی! زندگی زندگی عزیز!‘‘۱۲؎
اس میں کوئی شک نہیں کہ شمن عصمت کا ایک نہایت متحرک اور زندہ کردار ہے یہ کردار شروع میں بہت ہی ضد اورانتقامی جذبات کے ساتھ اُبھرتا ہے مگر اس کی یہ ضد اور انتقام زیادہ تر صرف اپنے خاندان یا خاندانی رشتوں اور رسم ورواج کے ساتھ ہی روا رہتی ہے گھر سے باہر مس چرن سے لے کر آئرش نوجوان رونی ٹیلر تک سب کے سامنے وہ ہتھیار ڈال کر ان کے استحصال اور بے وفائیوںکو خاموشی سے سہہ لیتی ہے۔گھر میں اُس کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویّے سے اور نوری کی وجہ سے اس میں ہتک کا احساس جنم لیتا ہے ۔ نتیجے کے طور پر اُس میں ضد اور انّا کا مادّہ پیدا ہوتا ہے ۔ دوسروں سے محبت نہ پا کر وہ اپنے آپ پر یقین کرنا سیکھتی ہے اور انجام سے بے خبر ہو کر ہر وہ کام کرتی ہے جو اُس کا دل چاہتا ہے ۔
حوالہ جات :
۱۔ (اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ، (مرتبہ) قیصر جہاں، ص ۱۷۷،پبلیکیشن ڈیویژن،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
۲۔ ٹیڑھی لکیر ، پہلی منزل، عصمت چغتائی، ایچ -ایس -آفسیٹ پرنٹرس،دہلی، ص۔ ۳
۳۔ ٹیڑھی لکیر ، ص ۔ ۱۱
۴۔ ترقی پسند تحریک اور اردو فکشن، ڈاکٹر محمد اشرف، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس، دہلی، ص ۔ ۱۹۶
۵۔ ٹیڑھی لکیر ، ص ۔۲۴
۶۔ ٹیڑھی لکیر ، ص ۔ ۲۳
۷۔ تانیثیت کے مباحث اور اردو ناول، شبنم آرا، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی، ص ۔۲۰۹
۸۔ ٹیڑھی لکیر ، ص ۔۵۷
۹۔ ٹیڑھی لکیر ، ص۔ ۱۱۹
۱۰۔ اردو ادب میں تانیثیت، مشتاق احمد وانی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی، ص ۔ ۴۸۵
۱۱۔ اردو کی ناول نگار خواتین، جاوید اختر، بسمہ کتاب گھر دہلی، ۲۰۰۲، ص ۔۵۹
۱۲۔ ٹیڑھی لکیر ، ص ۔۴۲۰