ے دور میں دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت میں بوریت اور ڈپریشن کا عنصر غالب آیا ہے. تو یہ بات حیرانی میں مبتلا کرتی ہے کہ کب زندگی اتنی لمبی ہے کہ کوئی اکتاہٹ کا شکار ہو. مگر زندگی کے ساتھ ایسا بد ذوق رویہ بڑی تکلیف دہ بات ہے. کتابیں جو انسان کو انسان بناتی ہیں تو کیوں نہ ان کے ساتھ وقت گزارا جاتا کہ اس طرح دماغ کی بند شریانیں بھی کھل جاتیں اور سوچوں کو جِلا بھی ملتی.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتب سے دوری کیوں ہے اور ادیب اور قاری کے درمیان میں یہ نہ طے ہونے والا فاصلہ کیوں حائل ہے. اس فاصلے کی دو بڑی وجوہات ہیں. ایک بڑی وجہ پیٹ کی بھوک اور جبلی طرزِ زندگی ہے کہ جانوروں اور پرندوں کی طرح صبح کو دانہ دنکا چننے نکلے اور شام ہوتے اپنے مسکن میں آ کر سو گئے. مگر بحثیتِ انسان زندگی اس سے بہتر طریقے سے بھی گزاری جا سکتی ہے. ہر عام انسان کو بھی علم و دانش میں دلچسپی ہونی چاہیے تا کہ وہ کائنات کے فطری نظام کو سمجھنے کے قابل ہو سکے. دوسری وجہ ہے ادب اور ادبی پاروں کی تشہیر جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے. یوں لگتا ہے کہ بس ادیب اکیلا ہی کسی صحرا میں بھٹک رہا ہے، کڑھ رہا ہے.
چند ایک ادبی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں یا ادبی بیٹھک کا اہتمام ہوتا ہے جس میں اپنے ہی جیسے گیان رکھنے والے بس ایک دوسرے میں شیرینی بانٹ لیتے ہیں. جبکہ ادبی پارے کو تخلیق کرنے کا مقصد عام انسان کی رہنمائی ہے. اور عام انسان ہی سے اس کی دوری ہے.
مسلہ دراصل یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اب بس چند چیزوں کی جگہ پکی ہو گئی ہے. الیکٹرونک میڈیا میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی کا مقابلہ ہوتا ہے اور ہر چینل دوسرے سے بڑھ کر جھوٹی خبریں پھیلاتا اور سچ کو چھپاتا ہے. اسی طرح ہر چینل پر کچھ لوگ مسخرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخلاق سے گری ہوئی باتیں کہتے ہیں مگر ان کی روٹی کا سلسلہ اس طرح سے چلا دیا گیا ہے اور انہیں پروموٹ کیا گیا ہے کہ معاشرے میں کوئی اہم کردار ادا کر رہے ہوں. کچھ پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں ایک گمنام ماڈل اور ایک سیاسی شخصیت کو مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے. اور ماڈل واقعی عجائب گھر یا دوسری دنیا کی مخلوق معلوم ہوتی ہے جسے کسی بھی مشہور سیاسی شخصیت کے بارے میں کوئی سوال پوچھا جاتا ہے اور اسے اپنے ہی ملک کے صدر، وزیراعظم، صوبائی وزراء ، چیف منسٹر اور آرمی چیف کے نام تک کا پتا نہیں ہوتا. اور میزبان بھی انتہائی مستقل مزاجی سے ان کو کرید کرید کے ایسے ہی سوال پوچھتا ہے. کیا یہ غداری کے زمرے میں نہیں آتا کہ عالمی سطح پر اپنے ملک کی عوام کی کم علمی کا چرچا خود ہی کیا جاتا ہے. کیوں کسی ادبی شخصیت کو مدعو نہیں کیا جاتا. اسی طرح ٹاک شو میں مخالف سیاسی پارٹی کے نمائندگان کو بلا کر بد تمیزی پر مبنی بحث و تکرار کروائی جاتی ہے.
یہی المناک حال پرنٹ میڈیا کا ہے. پہلے صفحہ پر سیاسی مسائل ، سیاسی اقدام، سیاسی پالیسیاں اور اپوزیشن کے موجودہ حکومت کے خلاف اخلاقیات سے گرے ہوئے اور ٹانگ کھینچتے الزامات اور بیانات کی بوچھاڑ ہوتی ہے. اپوزیشن الزام دیتی ہے اور حکومت فوراً جوابی کاروائی کرتی ہے. سوال جواب، سوال جواب کا لا متناہی سلسہ ہوتا ہے. کیا ہوئے رسل جیسے لکھنے والے جنہوں نے کس مؤثر انداز میں شخصی آزادی اور جمہوریت کے حق میں لکھ کر انسانوں کی رہنمائی کی ہے.
دوسرا یہ کہ ہر صفحہ مختلف قسم کے اشتہارات سے بھرا ہوتا ہے. تیسرا حصہ سب سے دردناک اور خوفناک ہوتا ہے جو کرائم رپورٹ اور حادثوں پر مشتمل ہوتا ہے. ایک حصہ جو کچھ من پسند ہوتا ہے اور لکھنے اور پڑھنے والوں کا تزکیہ کرتا ہے وہ ہوتا ہے ایڈیٹوریل سیکشن. لفظ اور لفاظی میں تنوع، اسلوبِ بیان، ساخت اور موضوعات میں کبھی کرنٹ افیئر کبھی فلسفہ کبھی سیاسیات اور کبھی کوئی ذاتی تجربہ پڑھنے کو ملتا ہے.
یہ سچ ہے کہ صحافی اخبارات کی زندگی میں روح کا کردار ادا کرتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جرائم کی خبریں انہی کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچتی ہیں مگر زور فقط خبریں پہنچانے پر نہیں ہونا چاہیے. میڈیا کے ایسے چلن نے اسی قسم کے مواد کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے. سنسنی پھیلانے کی خواہش میں جھوٹ اور من گھڑت خبریں چھاپ دی جاتی ہیں. صحافت سے تاریخ قائم ہوتی ہے اور اگر اس میں جھوٹ ہو گا تو مورخ بھی جھوٹ ہی لکھے گا. مولانا ظفر علی خاں اور مولانا محمد علی جوہر نے شخصی صحافت سے شروعات کی جس میں جھوٹ کی گنجائش نہیں بچتی تھی. جس طرح ادیب انفرادی کاوش سے کوئی فن پارہ تخلیق کرتا ہے، شخصی صحافت بھی اسی طرح اپنا کام انجام دیتی تھی. تو اس طرح معیاری صحافت معیاری ادب سے مختلف نہیں رہ جاتی. اسلوب بدل جاتے ہیں مگر اخلاقی قدریں نہیں بدل جاتیں. جیسے کہ ٹی.ایس. ایلیٹ نے کہا تھا کہ ایک قلم کار کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ماضی کی کس روایت کو برقرار رکھنا چاہیے اور کسے فراموش کر دینا چاہیے.
کورونا وائرس کے آتے ہی وائرس کے اثر انداز ہونے کے حوالے سے بغیر کسی تحقیق کے بہت سی باتیں بنا کر بتائی اور لکھی گئیں جیسے کہ دنیا بالکل بدل جائے گی اور کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا. ہر صاحبِ عقل انسان جانتا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری ہے. عالمی جنگوں ، وباؤں ، دھماکوں ، دہشت گردی اور اسی طرح کی دوسری آفات سے ہمیشہ کرۂ ارض پر بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے. مگر کیوں اتنی سنسنی پھیلائی گئی.
میڈیا کا کام فقط خبروں سے آگاہ کرنا نہیں ہونا چاہیے مگر افسوس اسی بات کا ہے یہ منفی طور طریقے ایک منفی صورتحال پیدا کرتے ہیں اور یہ مستقل منفی صورتِ حال لوگوں میں منافقت، جھوٹ، مکر و فریب، بد نظمی اور بد عنوانی جیسے اوصاف طرزِ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں جس وجہ سے زبان، سوچ، قلم اور عمل میں تضاد پیدا ہوتا ہے. اور جہاں منافقت فروغ پا جاتی ہے وہاں ادیب کے عدم مفاہمت پسند رویے کو جو کہ آنے والے وقت میں قوموں کے لئے سود مند ثابت ہوتا ہے پسند نہیں کیا جاتا اور ٹیبو قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے.
یہاں ہر کوئی ہنرک ابسن (ناروے کے مصنف)کے کردار ہیڈا گیبلر کا کردار ادا کر رہا ہے جو حسد اور نفرت کی آگ میں جل کر Lovborg کا اسکرپٹ ، اس کی زندگی بھر کی محنت جلا کر خاک کر دیتی ہے. یا پھر ڈپٹی نذیر احمد کے نصوح نامی کردار جو اپنے بیٹے کلیم کی شعر و شاعری سے بھری لائبریری جلا دیتا ہے کی طرح مظاہرہ کیا جا رہا ہے. آج ہر عام شہری ڈراما میں کام کرنے والے ایکٹر کو تو جانتا ہے مگر ادبا اور ان کے بہترین شاہکاروں سے بالکل قطعِ تعلق اور نا واقف ہے.تو میڈیا کے لئے ضروری ہے کہ لکھاری اور قاری کے مابین فاصلوں کو ختم کیا جائے اور ادب کو عام کیا جائے تاکہ ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل پائے.