پروفیسرقاضی عبد الستار نے خود کو فکشن کا کردار تسلیم کر لیا تھا:پروفیسر طارق چھتاری

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے زیرِ اہتمام پروفیسرقاضی عبد الستار کے انتقال پر تعزیتی جلسہ کا انعقاد
\"\"
علی گڑھ ،(اسٹاف رپورٹر)قاضی عبد الستار کی شخصیت اور فن میں جو تمکنت اور کج کلاہی ہے وہ کسی دوسرے فنکار کے یہاں نہیں دکھائی دیتی ہے ،وہ زبان کے نہ صرف شناور تھے بلکہ ایک خاص اسلوب کے بانی بھی تھے۔ان خیالات کاظہار قاضی عبد الستار کے انتقال پر ہونے والے تعزیتی جلسہ میں کیا گیا جس کا اہتمام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبۂ اردو نے کیا تھا۔
پروفیسر قاضی افضال حسین نے کہا کہ تین بڑے نثر نگار ہیں، محمد حسین آزاد، مولانا آزاد اور قاضی عبد الستار جو اپنے اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔یہ ان کا کمال ہے کہ وہ نثر کے حوالے سے یاد کیے جائیں گے۔ نظریاتی طور پر وہ جنوادی لیکھک سنگھ سے قریب تھے لیکن جذباتی طور پر وہ زوال آمادہ تہذیب کے دلدادہ تھے جس کا نوحہ انہوں اپنے ناولوں اور افسانوں کی شکل میں لکھا۔صدر شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ قاضی عبد الستار نے اپنی ذات کو فکشن کا ایک کردار تسلیم کر لیا تھا، انہوں نے فکشن کے لہجے میں ہی بات کی، اسی میں سوچا، اسی میں خواب دیکھا اور اسی میں اس کا اظہار بھی کیا۔
پروفیسر فصیح احمد صدیقی نے کہا کہ ان کے چلنے کی ادا سب سے خاص تھی، وہ اپنی زندگی میں مست رہتے تھے. میں نے اتنا بڑا عاشق رسولؐ زندگی میں نہیں دیکھا، جب اہل بیت یا حضورؐ کا نام آتا تو روک دیتے اور ادب سے بیٹھ جاتے پھر کہتے اب شروع کرو،انہوں نے اس بات پر ناراضگی کا بھی اظہار کیا کہ کوئی بھی شخص آخری زندگی میں ان سے ملاقات کے لئے نہیں جاتا تھا جو بہت افسوسناک ہے۔
آخری اوقات میں ساتھ رہنے والے پریم کمار نے قاضی صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کے بارے میں سامعین کو بتایا کہ کس طرح ان کی کیفیت تھی، انہوں نے بتایا کہ لفظوں کا یہ بادشاہ آخری وقت میں لفظوں کا محتاج ہوگیا، وہ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، میں نے ان کاہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تو نہایت سرد تھا بس آنکھوں کی پتلیاں چل رہی تھیں۔پروفیسر سید محمد امین نے اعلان کیا کہ قاضی صاحب پر ایک انٹر نیشنل سیمنار کیا جائے گااور اس سے قبل ان پر مضامین کا مجموعہ شائع کیا جا ئے گا. انہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط تعلقات کو بیان کیا۔شعبۂ ہندی کے استاد مسٹراجے بساریہ نے کہا کہ قاضی صاحب ماضی میں جیا کرتے تھے۔وہ منتخب تواریخ کو اپنی فکشن کا حصہ بنایا کرتے تھے۔قاضی صاحب سے متعلق بہت سی یادیں ہیں۔ جنوادی لیکھک سنگھ کے پروگراموں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ان سے ملا ہو اور ان سے متاثر نہ ہوا ہو. یہ بانکپن ان کے لٹریچر میں بھی تھا۔قاضی عبد الستار کے شاگرد اور افسانہ نگار پروفیسر غضنفر نے کہاکہ قاضی صاحب کے افسانے ترجمان حیات ہیں، ہر ادیب کے رنگ سخن کے ساتھ استاد کا رنگ مزید نکھرتا چلاگیا، ایسے بلیغ اشارے ہیں جن میں سمندر سماگیا ہے، استاد نے اپنی تحریروں میں ایسا جادو جگایا کہ لفظ خوشبو بن گئے۔سابق صدر شعبہ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ قاضی صاحب نثر میں ایک دبستان کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔انہوں نے اودھی معاشرہ سے خام مواد لے کر فکشن کی صورت میں فنکارانہ طور پر پیش کیا، مناظر جنگ پیش کرنے میں ان کو مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے اردو دنیا میں ایک نئے اسلوب بیان کی بنیاد رکھی۔ ان کے بچھڑنے کا یہ سانحہ صرف فکشن کے لیے نہیں بلکہ پوری ادبی دنیا کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔
پروفیسر سراج اجملی نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے کہاکہ جو کردار وہ خلق کرتے ہیں اصل زندگی میں وہ خود محسوس ہوتے ہیں ۔انہوں نے صبا مچھرہٹوی کے نام سے شاعری بھی کی ہے۔ان کی پی ایچ ڈی اردو شاعری میں قنوطیت کے موضوع پر تھی۔پروفیسر مولا بخش نے کہا کہ تہذیب کے مٹنے کا درد سب کو ہوا مگر قاضی صاحب نے جس انداز سے دیکھا وہ انداز نظر کسی کے پاس نہیں تھا۔ قاضی صاحب نے بیسویں صدی میں تاریخ کاموضوع کیوں منتخب کیا،یہ ایک بڑا سوال ہے۔تاریخ کے حوالے سے فکشن کیسے لکھا جائے اس کی مثال قاضی عبد الستار ہیں۔داراشکوہ ان کی زندگی کا سب سے خوبصورت ناول ہے۔ انہوں نے ناول میں تحقیق کی ضرورت پر نہ صرف زور دیا بلکہ تاریخ نگاروں کو بھی آئینہ دکھا دیا۔ انہوں نے اپنے فکشن سے ثابت کیا کہ تاریخ بھی ایک بیانیہ ہے۔
عارف حسن خاں نے قاضی صاحب سے متعلق اپنی ایک رباعی بھی پیش کی اور کہا کہ قاضی صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی انانیت تھی۔ یہی وصف ان کے فن میں بھی دکھائی دیتاہے لیکن ان کا انکسار جو ان کے قریب رہے وہ جانتے ہین کہ کتنے وہ منکسر المزاج تھے بس وہ کسی بھی آدمی کے سامنے جھکنا نہیں چاہتے تھے۔پروفیسر تصدق حسین اپنے تعلقات، اور ان کی کرم فرمائیوں کا والہانہ انداز میں ذکر کیا، انہوں نے بتایا کہ کس طرح حسن سلوک کے ساتھ نہ صرف پیش آتے بلکہ ہمہ وقت وہ ہمارے ساتھ کھڑے رہتے۔پروفیسرمسعودانور علوی نے کہا کہ قاضی صاحب سے بچپن سے تعلق تھا، تمکنت، کج کلاہی اور بانک پن ان کا اصل وتیرہ تھا، پروفیسر طارق سعیدنے بتایا کہ میں ان کا ریسرچ اسکالر تھا اس لیے میں ان کے معمولات سے واقف رہا۔ڈاکٹرراحت ابرار نے پنے روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان سے متعلق سبھی تحریریں جمع کر دی جائیں جو ان کو سچا جراج عقیدت ہوگا۔
صدارت پروفیسر مسعود الحسن اور عابد رضا بیدار نے کی ۔اس موقع پر پروفیسر عابد رضا بیدار اور پروفیسر آذر میدخت صفوی نے اپنے دیرنہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی۔اس موقع پر دو منٹ خاموش رہ کر قاضی عبد الستار کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جبکہ ڈاکٹر راشد انور راشد نے تعزیتی قرار داد پیش کی۔
\"\"

Leave a Comment