پروفیسر انور پاشا کا تاشقند سے ہندوستان واپسی پر جے این یو میں والہانہ استقبال

بطور وزیٹنگ پروفیسر انور پاشا ازبیکستان میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کر رہے تھے: پروفیسر خواجہ اکرام

\"\"
نئی دہلی،(اسٹاف رپورٹر) ممتازنقاد اور جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے سابق چیئر پرسن پروفیسر انور پاشا گزشتہ ایک ماہ سے تاشقند (ازبیکستان ) میں بطور ویزیٹنگ پروفیسر سکونت پذیر تھے۔ ملک واپسی پر مادر درسگاہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ نے پروفیسر پاشا کا والہانہ استقبال کیا۔ ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے چیئر پرسن ، ہندی کے مشہور آلوچک و کَوی پروفیسر گوبند پرساد کی صدارت میں ایک استقبالیہ جلسے کا انعقاد ہوا ،جس میں پروفیسر انور پاشا نے ’’ ازبیکستان میں اردو زبان و ادب کی تدریس ‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی لکچر دیا ۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ازبیکستان بلکہ سینٹرل ایشیا کے بیشتر ممالک سے ہمارے صدیوں پرانے رشتے رہے ہیں۔ یہ رشتے علم وادب کے علاوہ تہذیب و ثقافت کو بھی استحکام بخشتے رہے ہیں۔ پروفیسر خواجہ اکرام نے کہا کہ انور پاشا نے ازبیکستان میں صرف طلبہ و ریسرچ اسکالرس سے خطاب نہیں کیا بلکہ وہ وہاں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں استاد ڈاکٹر محمد عمران نے گلدستہ پیش کر کے پروفیسر انور پاشا کا باقائدہ استقبال کیا۔ پروفیسر دیو شنکر نوین نے خواہش ظاہر کی کہ پروفیسر انور پاشا اپنے تجربات کو تحریرکا جامہ پہنائیں جسے کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ کنّڑ زبان کے ادیب و نقاد پروفیسر پُرشوتّم بیلیمالے اور ہندی کے آلوچک پروفیسر اجمیر سنگھ کاجل نے بھی اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔
پروفیسر انور پاشا نے خصوصی لکچر دیتے ہوئے ازبیکستان میں اردو تدریس کی صورت حال کو تاریخی پس منظر میں تفصیل سے بیان کیا۔ انھوں نے تاشقند کے علاوہ سمر قند و بخارا کے مختلف تاریخی مقامات کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔ ہندوستان اور ازبیکستان کے قدیم رشتوں میں مزید امکانات پوشیدہ ہیں۔ دونوں ممالک میں مشترکہ تہذیبی وراثت کی از سر نو دریافت کی ضرورت ہے۔ پروفیسر انور پاشا نے بتایا کہ دوران قیام انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ تاشقند یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے درمیان ایک تعلیمی معاہدہ ہو سکے جس سے دونوں ممالک کے طالب علم ایک دوسرے ملک میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ انھوں نے اس بات پہ اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ ازبیکستان کے مختلف حصوں میں نہ صرف یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر بلکہ اسکولی سطح پر بھی اردو کی تعلیم کا نظم ہے۔ اردو پڑھنے والے طالب علموں میں ہندوستان اور ہندوستانی عوام کے لئے بے پناہ محبت اور عقیدت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔
جے این یو میں ماس میڈیا کے استاد ڈاکٹر شفیع ایوب نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ اس موقعے سے ڈاکٹر محمد توحید خان، ڈاکٹر شیو پرکاش، ڈاکٹر گنگا سہائے مینا ،ماہنامہ اردو دنیا کے ایڈیٹر ڈاکٹر عبد الحئی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شمس الدین اور ڈاکٹر محمد عمران نے بھی پروفیسر انور پاشا کو مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر توحید خان نے کہا کہ اس طرح کے پروگرام کے انعقاد سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے نوجوان ریسرچ اسکالرس کو ہوتا ہے۔ وہی اردو زبان و ادب کا مستقبل ہیں۔ ڈاکٹر عبد الحئی نے کہا کہ پروفیسر انور پاشا نے جس خوبصورت انداز میں ازبیکستان کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا ہے اس سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمد شمس الدین نے کہا کہ ترمذی کا ذکر ہو یا حافظ شیرازی کا، امیر تیمور کا ذکر ہو یا غالب کے آبا و اجداد کا ، ہم ازبیکستان کی تاریخ کو فراموش کر کے اردو شعر و ادب سے بھرپور لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ ہم پروفیسر انور پاشا کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اپنی تقریر میں ان تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ پروگرام کے کامیاب انعقاد میں محمد رکن الدین، ثنا بھارتی، سید مہران شاہ، محمد حسین، بی بی ایس راوت وغیرہ نے بھرپور تعاون دیا۔
\"\"

Leave a Comment