پروفیسرڈاکٹرشہنازنبی کوغالب ایوارڈ برائےشاعری( ۲۰۱۷)سے نوازا گیا

شہناز نبی نے بنگال کا نام روشن کیا ،اعلیٰ شاعری کے لئے غالب ایوارڈ سے سر فراز

سپریم کورٹ کے سابق جج عزت مآب آفتاب عالم نے انعامات تقسیم کئے

\"26937847_2258807797478228_166298253_o\"

کلکتہ (اسٹاف رپورٹر)اردو داں حلقے میں یہ خبر باعث مسرت ثابت ہوگی کہ پروفیسر شہناز نبی کو غالب ایوارڈ برائے شاعری(۲۰۱۷ ) سے نوازا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ نئی دہلی کے غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ سہ روزہ عالمی سیمینار کی پر وقار تقریب کے افتتاحی اجلاس میں ۲۲؍ دسمبر، ۲۰۱۷ کو سپریم کورٹ کے سابق جج عالی جناب آفتاب عالم کے ہاتھوں پیش کیا گیا ۔ اس تقریب میں ملک کی کئی اہم ادبی و علمی شخصیتیں موجود تھیں۔ تین دن تک چلنے والی اس تقریب میں شہناز نبی صاحبہ نے اپنا معیاری مقالہ بہ عنوان ’’ اردو ادب اور تقسیمِ ہند کے نتائج‘‘ پر اثر انداز میں پیش کیا اور مشاعرے میںشرکت بھی فرمائی۔ یہ گراں قدر ایوارڈ اردو کے عظیم المرتبت شعرا مثلا فراق گورکھپوری، خلیل الرحمٰن اعظمی، جمیل مظہری، ساغر نظامی،سردار جعفری، کیفی اعظمی، عرفان صدیقی، باقر مہدی وغیرہ کے حصے میں آچکا ہے۔
پروفیسر شہناز نبی ایک طویل عرصے سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔آپ نے بھوانی پور کالج اور پھر کلکتہ یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئے۔وکٹوریہ کالج کا شعبۂ اردو بھی آپ کی بے لوث خدمات کا نتیجہ ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ایم۔ فل کا کورس آپ کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔بحیثیت صدر شعبۂ اردو اور اقبال چئیر پروفیسر آپ لگاتار شعبے کی فلاح و بہبود کے لئے کو شاں رہیں۔آپ نے طلبا و طالبات کی بہتری کے لئے کورس میں شامل تدریسی متن کو کتابی شکل عطا کر کے کلکتہ یونیورسٹی کے پریس سے دو جلدوں میں شائع کروایا تاکہ طلبا و طالبات کو متن بآسانی دستیاب ہو سکے۔ یہ کتابیں یونیورسٹی کے سیلز کائونٹر سے طلبا کے لئے کم قیمت پر فروخت ہو تی ہیں۔شعبۂ اردو میں شعبے کے تنقیدی و تحقیقی مجلے ’ دستاویز‘ کی آپ نے نہ صرف تجدید کی بلکہ اسے نئی آب و تاب بخشی۔ ’دستاویز‘ آپ کی ادارت میں لگاتار شائع ہو تا رہا۔آپ کی ہیڈ شپ میں شدید مالی تنگی کے باوجود آپ نے ہر سال بہترین سیمینار منعقد کئے۔آپ قومی اہمیت کے حامل ادارے ’ ایشیاٹک سوسائٹی‘ کی لائبریری سکریٹری اوردو بار ٹریزرر رہ چکی ہیں۔ ان دنوں آپ ایشیاٹک سوسائٹی کی کائونسل ممبر ہیں۔
آپ نہ صرف ایک بہترین استاد بلکہ ایک اعلیٰ پائے کی مصنفہ ہیں۔ اب تک آپ کی تقریباً ستائیس سے زیادہ تصنیفات شائع ہو چکی ہیں۔ان میں شاعری کے علاوہ، تنقید، تحقیق، ڈرامے اور تراجم شامل ہیں۔ آپ ایک سہ ماہی رسالہ ’ رہروانِ ادب‘ کی مدیر بھی ہیں۔ ’ رہروانِ ادب‘ کا ترجمہ نمبر کافی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کے چھ شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ ان میں سے پانچ اردو میں ہیں اور ایک دیو ناگری میں۔ مجموعوں کے نام ہیں بھیگی رتوں کی کتھا، اگلے پڑائو سے پہلے، پسِ دیوارِ گریہ، شرارِ جستہ، سخنِ نیم شب اور مجھے مت چھوئو۔ آپ کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔آپ نے نہ صرف اردو بلکہ انگریزی اور بنگلہ میں بھی تنقیدی مضامین لکھے ہیں اور مختلف قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں پیش کئے ہیں۔آپ کی تحقیقی کتاب ’ فیمنزم -تاریخ و تنقید‘ اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں تانیثیت کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔ ’تانیثی تنقید‘ آپ کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جن مضامین میں تانیثی نظریات سے کام لیتے ہوئے آپ نے اردو ادب کا جائزہ لیا ہے۔ آپ عملی سیاست میں سرگرم رہ چکی ہیں۔ 2000 ء میں بلدیاتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور اکاوئنٹس کمیٹی کے چئیر پرسن کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ آپ نے اردو میں سماجی ڈرامے لکھ کر سڑکوں پر کھیلا اور عوام کو سماجی اور سیاسی طور پر بیدار رکھنے کی کوشش کی۔ ۲۰۱۶ء میں شائع ہونے والی بنگلہ کتاب ’ نرباچیتو اردو کوبیتا‘ میں آپ نے اردو کے بیس شاعروں کے کلام کو بنگلہ میں ترجمہ کرکے ایک اینتھالوجی کے طور پر شائع کیا ہے۔ ا ردو شعر و ادب میں پروفیسر شہناز نبی کی کاوشوں کو بہ نظرِ استحسان دیکھا گیا ہے اور آپ کا شمار ملک اور بیرون ملک ایک بہترین فنکار کے طور پر ہوتا ہے۔ آپ نے 2007ء میں سعودی عرب اور2010ء میں پاکستان کے مشاعروں میں شرکت بھی کی ہے۔ ادارہ پروفیسر شہناز نبی کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہے ۔
\"26913792_2258807780811563_1398001227_n\"

Leave a Comment