پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ سے عمیر منظر کی گفتگو

\"\"
ڈاکٹر عمیرمنظر

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یوونی ورسٹی۔لکھنؤ کیمپس
\"\"
پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ کا مختصر تعارف:۔

پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ (پیدائش یکم جنوری ۱۹۴۵)کا شمارلسانیات کے مستند عالموں میں ہوتا ہے ۔لسانی مسائل و مباحث پر ان کی نظر بہت گہری ہے ۔وہ معروف اسلوبیاتی نقاد بھی ہیں ۔علاوہ ازیںاردو زبان کی ابتدا اور اردو قواعد کے عہد بعہد ارتقا پر ان کا تحقیقی کام استناد کا درجہ رکھتا ہے ۔
مرزا خلیل احمد بیگ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل ہیںانھوں نے یہیں سے لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور یہیں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بہ حیثیت پروفیسر اور صدر شعبۂ لسانیات ۲۰۰۶ء میں سبکدوش ہوئے ۔اس کے بعد انھوں نے کنگ خالد یونیورسٹی (ابہاسعودی عرب)میںانگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے ۲۰۱۰ تک درس وتدریس کے فرائض انجام دیے ۔جامعہ اردو علی گڑھ کے اعزازی خازن کے طورپر بھی آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا ۔پروفیسر بیگ سولن (ہماچل پردیس)کے اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر (حکو مت ہند)کے پرنسپل کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔
پروفیسر مرزاخلیل احمد بیگ نے درس و تدریس کے علاوہ مختلف عہدوں پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔۱۹۸۳ میںآپ کی پہلی کتاب ’زبان اسلوب اور اسلوبیات ‘‘کے نام سے منظرِ عام پر آئی ۔اس کے بعد سے آج تک اردو اور انگریزی میں ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں آپ کے قلم سے نکل چکی ہیں ۔ان میں اردو کی لسا نی تشکیل،لسانی تناظر،تنقیداور اسلوبیاتی تنقید،ادبی تنقید کے لسانی مضمرات ،ایک بھاشاجو مسترد کردی گئی ،اسلوبیاتی: تنقید نظری بنیادیں اور تجزیے،مسعود حسین خاں: احوال و آثار، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی اور لسانی مسائل و مباحث وغیرہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔
اردو ہندوستان میں مغلوں کی حکمرانی سے کئی سو سال قبل معرضِـ وجو د میں آچکی تھی ۔ پروفیسرمرزا خلیل احمد بیگ
عمیرمنظر:اردو کو کبھی لشکری زبان کہا گیا ، اور کبھی یہ کہ اردو کوئی زبان نہیں ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

مرزا خلیل احمد بیگ:آپ کے اس سوال کے دو حصے ہیں۔ میں دوسرے حصے کا جواب پہلے دینا چاہوں گاجو فارسی کے ایک شعر میں موجود ہے:
گر نہ بیند بروز شپرہ بہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
(ترجمہ:اگر الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ، تو اس میں سورج کی روشنی کا کیا قصور!)
اردو زبان کا وجود روز ِروشن کی طرح عیاں ہے ۔ اس لسانی حقیقت کو کسی بھی طرح جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی اسے جھٹلاتا ہے تو اس کی مثال اس الو کی جیسی ہے جسے دن کی روشنی میں بھی کچھ نظر نہیں آتا۔
اردو کو لشکری زبان کہنا ، اردو زبان کی تاریخ سے عدم واقفیت کی دلیل ہے ۔ اردو ترکی زبان کا لفظ ضرور ہے،لیکن اس سے مراد صرف لشکر یا معسکر یعنی فوجی چھائونی نہیں ہے ۔ اردو کے معنی شہر ، قلعہ اور دربار کے بھی ہیں، چنانچہ’زبانِ اردوئے معلیٰ یا’زبانِ اردو‘ سے لشکرکی زبان مراد لینا قطعی درست نہیں۔ ان فقروں سے شہر(=شہرِ شاہجہان آباد /شہرِ دہلی)کی زبان مراد ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے خیال کے مطابق ’ زبانِ اردوئے معلی‘ کا فقرہ پہلے فارسی کے لیے مستعمل تھا ، پھر بہت بعد میں یعنی اٹھارھویں صدی کے اواخر میں یہ اردو کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ کثرت ِاستعمال سے ’’زبان‘‘اور ’’معلی‘‘دونوں گر گئے۔
اردو کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ مغل حکمرانوں کے لشکر میں یا لشکر کے بازار میں پیدا ہوئی، اس لیے بھی درست نہیں کہ اردوہندوستان میں مغلو ں کے دورِ حکمرانی سے کئی سو سال قبل یعنی بارھویں صدی میں معرضِ وجود میں آچکی تھی۔ کسی زبان کی تشکیل سماجی اور تہذیبی ضروریات کے ماتحت عوامی سطح پر عمل میں آتی ہے ، نہ کہ لشکری اور فوجی سطح پر۔ لشکر اور فوج کے لوگ تو ہمیشہ عوام سے دوری ہی بنائے رکھتے ہیں۔ انھیں عوام سے رابطے کا موقع ہی کہاں ملتا ہے، لہٰذا وہ کسی زبان کو معرضِ وجود میں کیسے لا سکتے ہیں ؟ اردو کو لشکری زبان کہنا نو آباد کاروں کی جان بوجھ کر پھیلائی ہوئی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔
ع۔م:تاریخِ زبان کے حوالے سے یوں تو بہت کام ہوئے ہیں ، اور ہو بھی رہے ہیں، لیکن نہیں معلوم کیوں ہمیشہ اس موضوع پر تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس موضوع پرغور و فکر کی مزید راہیں کیاہوسکتی ہیں؟
مرزا خلیل احمد بیگ:اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان کی تاریخ کے حوالے سے بہت کام ہوئے ہیں،جن میں بعض اچھے کام بھی ہیں،اور بڑی حد تک جو دھند تھی وہ صاف ہوگئی ہے۔ لہٰذا’’ تشنگی‘‘ کا احساس تو نہیں ہونا چاہئے۔ تاہم تحقیق میں کوئی چیز حتمی قرار نہیں دی جاسکتی ،کیوں کہ تحقیق کسی بھی نوعیت کی ہو اس میں ہمیشہ نئے نئے انکشافات تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور پرانی معلومات میں ترمیم و اضافے کا سلسہ بھی جاری رہتا ہے۔ اکثر پرانی معلومات کو مسترد بھی کر دیا جاتا ہے۔ اردو کے آغاز وارتقاکے سلسلے میں حافظ محمود خاں شیرانی، سید محی الدین قادری زور،شوکت سبزواری،گریہم بیلی وغیرہ نے جوتحقیقات کی تھیںان کا اس ضمن میں مسعود حسین خاں کی تحقیق سے قلع قمع ہوگیا ۔ اردو کے آغاز وارتقا کے سلسلے میں ماضی ِقریب میں محمد حسین آزاد ،سید سلیمان ندوی،نصیر الدین ہاشمی وغیرہ نے جو کچھ کہا تھا اس کی حقیقت محض قیاس آرائی یا مفروضے(Hypothesis)کی تھی، اسے نظریہ (Theory)نہیں کہہ سکتے۔ اب جب تک کہ کوئی بڑا عالمِ لسانیات پیدا نہیں ہوتا ، مسعود حسین کے اس نظریے کوکہ’ اردو دہلی و نواحِ دہلی میں پیدا ہوئی اوراس کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے ‘ رد نہیں کیا جاسکتا ۔ اردو کے آغاز کے سلسلے میں تا حال سب سے قابلِ قبول نظریہ (Most acceptable theory)یہی ہے۔
ع۔م:مسعود حسین خاں نے اردو کے مولد کے تعلق سے جو نظریہ پیش کیا ہے کیا اس پر مزید غور کرنے کی گنجائش موجود ہے ؟ چونکہ آپ خود ماہرِ لسانیات کے طور پر شہرت رکھتے ہیں، اس لیے آپ سے بہتر کوئی اور اس موضوع پر روشنی نہیں ڈال سکتا۔
مرزا خلیل احمد بیگ:میں سمجھتا ہوں کہ مسعود حسین خاںکے نظریۂ آغازِ زبانِ اردو کے بارے میں مزید غور وخوض کی گنجائش باقی نہیں ہے، کیوں کہ ان کا نظریہ ٹھوس لسانیاتی بنیادوں پر قائم ہے۔ انھوں نے اپنے نظریے کی تشکیل میں حقائق کی جانچ اور پرکھ سے کام لیا ہے، وہ مواد کی تلاش وجستجو اور اس کے تجزیے کے عمل سے گذرے ہیں ، نیز دلائل و براہین کی رووشنی میں نتائج کا استنباط کیا ہے ۔ کسی زبان کی پیدائش کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تین باتوں پر غور کرنا ضروری ہوتاہے:۱۔اردو زبان کب پیدا ہوئی،۲۔کہاں پیدا ہوئی،۳۔کیسے پیدا ہوئی۔ اول الذکر دو باتیں تحقیق کی متقاضی ہیں ۔ ’’ کب ‘‘ سے مراد وقت کا تعین ہے ،’’ کہاں‘‘ سے مراد جگہ کا تعین ہے، اور ’’ کیسے ہیدا ہوئی‘‘سے مراد وہ لسانیاتی عمل (Linguistic process)ہے جو کسی زبان کو معرضِ وجود میں لاتا ہے۔ جب کوئی زبان پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے زمان ومکان کے حوالے بھی ساتھ لاتی ہے جسے تحقیق کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں ۔ مسعود حسین خاں نے تحقیق کی روشنی میں ان مسائل کو حل کر دیا ہے۔ ان کے نظریے کی رو سے اردو کا نقطئہ آغاز۱۱۹۳ء ہے جو مسلمانوں کی فتحِ دہلی کی تاریخ ہے ۔ انھوں نے اردو کی جائے پیدائش کے مسئلے کو بھی حل کر دیا ہے اورثابت کر دیا ہے کہ اردو دہلی و نواحِ دہلی میںپیدا ہوئی ۔ انھوں نے اس لسانیاتی عمل کی بھی نشاندہی کر دی ہے جس کے نتیجے میں کھڑی بولی سے اردو کی تشکیل عمل میں آئی۔ چنانچہ مسعود حسین خاں کے نظریے کی رو سے اردو ۱۱۹۳ء میں دہلی و نواحِ دہلی میں کھڑی بولی سے پیدا ہوئی ۔ ان کے اس نظریے کو اب تک کسی نے بھی ٹھوس لسانیاتی بنیادوں پر چیلنج نہیں کیا ہے اور اگر کسی نے چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ ناکام رہا ہے۔
ع۔م:زبان کے لسانیاتی تجزیے کی مختلف سطحیں (Levels)ہیں۔کیااردو زبان کے حوالے سے ان سطحوں پر کام ہوئے ہیں؟
مرزا خلیل احمد بیگ:لسانیات یا توضیحی لسانیات کی پانچ سطحیں ہیں،یعنی صوتیات(Phonetics)،تجز صوتیات(Phonology)،صرفیات یا تشکیلیات(Morphology)، نحو(Syntax)اور معنیات(Semantics)۔ لسانیات کی پہلی سطح صوتیات اور دوسری سطح تجز صوتیات ہے۔ ان سطحوں پر اردو کے حوالے سے کافی کام ہوئے ہیں۔ اردو صوتیات و تجز صوتیات پر سب سے پہلا کام مسعود حسین خاں نے ہی کیا ہے۔ انھوں نے انگلستان اور فرانس میں اپنے قیام (1950تا 1953)کے دوران میں ایک مقالہ بعنوانA phonetic and phonological study of the word in Urdu تحریر کیا جس پر انھیں پیرس یونیورسٹی (فرانس )سے ڈی۔ لٹ کی ڈگری تفویض ہوئی۔ اس کی پہلی اشاعت 1954میں عمل میں آئی۔ اس تحقیقی مقالے کا مرزا خلیل احمد بیگ نے ’’ اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجز صوتیاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا جو 1986 میں شعبۂ لسانیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا۔ اس کے بعد مسعود حسین خاں نے ایک مضمون ’’ اردو حرفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘ لکھا جو رسالہ’’ ہمایوں‘‘ (لاہور(کی اگست 1954کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور اہم مضمون بعنوان’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘قلم بند کیا جو ان کے مجموعۂ مضامین ’’ شعر و زبان‘‘ (1966)میں شامل ہے۔ مسعود حسین خاں کے بعد اردو صوتیات پر جن ماہرینِ لسانیات نے انہماک کے ساتھ کام کیا ہے ان میں گیان چند جین کا نام سرِ فہرست ہے۔ اردو صوتیات پر ان کے سات مضامین ان کی کتاب ’’لسانی مطالعے‘‘(1973)میں شامل ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے بھی اردو صوتیات کے موضوع پر چند مضامین لکھے ہیں۔ اس موضوع پر دوسرے لکھنے والوں میں ابواللیث صدیقی، شوکت سبز واری ، سہیل بخاری، عبدالستار دلوی، چودھری محمد نعیم اور مرزا خلیل احمد بیگ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔توضیحی لسانیات کی تیسری سطح صرف یا تشکیلیات ہے جو تشکیلِ الفاظ سے بحث کرتی ہے اور چوتھی سطح نحو ہے، جس میں جملوں کی ہیئت و ترتیب کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ صرف اور نحو کے مجموعے کو ’ قواعد‘(Grammar)کا نام دیا گیا ہے۔ اردو قواعد کی یوں تو بے شمار کتابیں اردو میں موجود ہیں ، لیکن یہ سب روایتی طرز کی ہیں، اور ’مکتبی قواعد‘(School Grammar)کے طور پراستعما ل کی جاتی ہیں ۔ ان میں سے مولوی عبد الحق کی’ قواعدِ اردو‘(1914)کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ توضیحی قواعد(Descriptive Grammar)کا وجود اردو میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ عصمت جاوید نے ’ نئی اردو قواعد‘ (1981)کے نام سے جو قواعد مرتب کی ہے اسے بلا شبہ توضیحی قواعد کہہ سکتے ہیں۔ اس میں اردو صرف پر بھی مواد شامل ہے۔ یہ اردو کی پہلی قواعد ہے جو توضیحی طرز پر لکھی گئی ہے۔ عصمت جاوید کے بعد اقتدار حسین خاںنے ’ اردو صرف و نحو‘ (1985)کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں انگریزی کے توضیحی ماڈل کو سامنے رکھ کر بڑی کامیابی کے ساتھ اردو کی توضیح بیان کی گئی ہے۔ اس ضمن میں روسی اردو اسکالر سونیا چرنیکووا کا ذکر بیجا نہ ہوگاجنھوں نے اردو قواعد پر اردو میں دو کتابیں لکھیں ۔ ان کی پہلی کتاب ’ اردو کے صیغے‘(1969)ماسکو(روس )سے شائع ہوئی اور دوسری کتاب ’ اردو افعال‘(1989)ان کے ہندوستان میں قیام کے دوران قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (نئی دہلی)سے شایع ہوئی۔
معنیات توضیحی لسانیات کی پانچویں اور آخری سطح ہے۔ اردو میں معنیات کے مطالعے کی طرف عالموں کی توجہ کم مبذول ہوئی ہے۔ معنیاتی مسائل و مباحث پر اردو میں اب تک کوئی باقاعدہ کتاب نہیں شائع ہوئی ہے ۔ اس موضوع سے متعلق اردو میں مضامین بھی شاذ و نادر ہی لکھے گئے ہیں۔ البتہ عمومی لسانیات کی کتابوں میں معنیات پر ابواب اور بحثیں ضرور مل جائیں گی۔
ع ۔م :اسلوبیات کا ادب اور لسانیات سے براہِ راست تعلق ہے ۔اسلوبیات کن معنیٰ میں روایتی ادبی تنقید سے مختلف ہے؟
مرزا خلیل احمد بیگ:اسلوبیات ادبی اسلوب کے سائنسی مطالعے کا نام ہے ۔اسلوبیاتی تنقید زبان واسلوب کے حوالے سے ادب کا معروضی(Objective)مطالعہ کرتی ہے،جب کہ روایتی ادبی تنقید داخلی (Subjective)ہوتی ہے جس میں ناقد کی ذاتی پسند اور ناپسند کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔علاوہ ازیں ادبی تنقید تاثراتی(Impressionistic)بھی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کسی ادبی فن پارے کو اچھا یا برا بتایا جاتا ہے۔ایک ہی فن پارے کے بارے میں ناقدوں کی الگ الگ رائے ہوتی ہے۔اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کو اچھا یا برا نہیں بتاتی بلکہ زیر مطالعہ فن پارے کے اسلوبی خصائص (Style-features)کو نشان زد کرتی ہے جس کی رو سے ایک فن پارہ دوسرے فن پارے سے ممیز قرار دیا جاسکتا ہے۔ادبی تنقید سوانحی تنقید بھی کہلاتی ہے جس میں دورانِ تنقید مصنف (Author )کے احوال وکوائف نیزاس کے عہد اورسماجی شعور وغیرہ سے بھی بحث ی جاتی ہے۔اس کے علی الرغم اسلوبیاتی تنقید میں مصنف کے بجائے متن (Text)یا ادبی فن پارے کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور ماورائے متن جو کچھ بھی ہے اس سے صرف ِنظر کیا جاتا ہے۔اس اعتبار سے اسے (Text-oriented)تنقید کہتے ہیں ۔اسلوبیاتی تنقید اپنے مزاج کے اعتبار سے مشاہداتی (Empirical)اور تجزیاتی(Analytical)ہے جس میں مواد کا ہونا ضروری ہوتا ہے جس کا لسانیاتی بنیادوں پر تجزیہ کرکے نتائج کا استنباط کیا جاتا ہے۔اسلوبیاتی تنقید کا لسانیات سے گہرا رشتہ ہے۔ کسی فن پارے کے اسلوبیاتی تجزیے میں لسانیاتی طریقِ کار سے بھر پور مدد لی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلوبیاتی تنقید کو اطلاقی لسانیات کا ایک اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے۔
ع۔م:کیا اسلوبیاتی تنقید کی تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟
مرزا خلیل احمد بیگ:اسلوبیاتی تنقید ادب کے مطالعے اور تجزیے کی ایک نئی جہت ہے جو 1950کے لگ بھگ معرِض وجود میں آئی اور مسعود حسین خاں(1919-2010)اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گزار قرار پائے۔مسعود حسین خاں ہی سے تحریک پا کر مرزا خلیل احمد بیگ نے اسلوبیاتی تنقید پر مضامین لکھے اور کتابیں شائع کیں ۔گوپی چند نارنگ اور مغنی تبسم نے بھی اسلوبیاتی نوعیت کے مضامین لکھے اور اس نظریئہ تنقید کے فروغ میں حصہ لیا ۔اس کے بعد کے لکھنے والوں میں علی رفاد فتیحی،نذیر احمد ملک اور اعجاز محمد شیخ کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔
اسلوبیاتی تنقید کی اساس لسانیاتِ جدید پر قائم ہے جو زبان کے سائنسی مطالعے کا علم ہے ۔اسی لئے اسلوبیاتی تنقید کا طریقِ کار معروضی،مشاہداتی اور تجزیاتی ہے۔مغرب میں اسلوبیاتی تنقید نے کافی فروغ پایا ہے اور وہیں سے یہ نظریئہ تنقید اردو میں آیا ہے،لیکن اردو میں اس کی پیش رفت سست رہی ہے۔اسلوبیاتی تنقید کے ابھی بہت سے گوشے اور پہلو ایسے ہیں جن پر کام کیا جاسکتا ہے،تاہم اتنا علمی سرمایہ ضرور جمع ہوگیا ہے کہ اسلوبیاتی تنقید کی کم از کم پچاس سالہ تاریخ تو مرتب کی ہی جاسکتی ہے۔
ع۔م:شوکت سبزواری نے متھرا اور اس کے آس پاس کے علاقہ کو اردو کا مولد قرار دیا ہے،لیکن بعد میں انہوں نے اڑیسہ کو اردو کا مولد قرار دیا ۔کیا اس سے اتفاق ممکن ہے؟
مرزاخلیل احمد بیگ:ہرگز اتفاق ممکن نہیں ۔یہ محض ایجادِ بندہ قسم کا نظریہ ہے بلکہ نظریہ نہیںصرف قیاس آرائی ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔اس قسم کی بے سرو پا باتوں کا تو کسی علمی بحث میں ذکر تک نہیں آنا چاہیے ۔دنیا جانتی ہے کہ متھرا اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں برج بھاشا بولی جاتی ہے جو مغربی ہند کی ایک بولی ہے۔یہ’ واو‘ پر ختم ہونے والی بولی ہے،مثلا ساون آیو۔اسی لیے متھرا اور اس کے نواحی علاقے کوبرج بھومی کہتے ہیں۔ اس کے علی الرغم کھڑی بولی ’الف‘ پر ختم ہونے والی بولی ہے۔مثلا ساون آیا ۔اردو نے اپنے ارتقا کے کسی بھی دور میں واو پر ختم ہونے والی شکلیں اختیار نہیں کیں ۔اردو نے ابتدا ہی سے الف پر ختم ہونے والی شکلیں اختیار کی ہیں ۔مثلا لڑکا (اسم)،آیا (فعل)،میرا(ضمیر)،اچھا (صفت)وغیرہ۔یہی اردو کی پہچان ہے جو اسے کھڑی بولی سے ملی ہے۔لہذا لسانی اعتبار سے اردو کھڑی بولی کی زائیدہ ہے، نہ کہ برج بھاشا کی۔
ع۔م:کیا آپ اردو کے موجودہ رسمِ خط سے مطمئن ہیں یا آپ کے خیال میںاس میں کسی اصلاح کی ضرورت ہے؟
مرزاخلیل احمد بیگ:اردو رسم الخط عربی فارسی رسم الخط کی توسیع شدہ شکل ہے۔چوں کہ اردو ایک ہند آریائی زبان ہے اس لیے اس کے رسم الخط میں برابر اصلاح ہوتی رہی ہے اور آج بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔لیکن چوںکہ ہمارا تاریخی وتہذیبی رشتہ عربی وفارسی سے گہرا ہے اس لیے بہت سی باتوں میں ہم ان زبانوں کے رسم الخط کی پیروی کرتے ہیں ،مثلا یہ کہ اردو رسم الخط میں ایک آواز کے لیے کئی کئی حروف موجود ہیں ،جیسے کہ ث ،س،ص۔اردو میں ان تینوں حروف سے صرف ایک ہی آواز برآمد ہوتی ہے۔اسی طرح ذ،ز،ض،ظ سے بھی ایک ہی آواز برآمد ہوتی ہے۔الف اور ع بھی ایک ہی آواز دیتے ہیں ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو رسم الخط میں کئی حروف فاضل (Redundant) ہیں ۔لیکن یہ حروف اردو حروفِ تہجی کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔مسعود حسین خاں نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’یہ مردہ لاشیں ہیں جو اردو رسم الخط اپنے کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔اردو رسم الخط میں اصلاح کی ا نفرادی اور اجتماعی طور پر کئی بار کوششیں ہوچکی ہیں اور سفارشات بھی پیش کی جاچکی ہیں لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔اردو رسم الخط میں اصلاح کی بھر پورکوشش آخری بار کئی دہائی قبل ترقی اردو بیورو (اب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی) کی جانب سے ہوئی تھی اور اس سلسلے میں ماہرین کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔جس نے کافی غورو خوض کے بعد اپنی سفارشات پیش کردی تھیں ۔ یہ شائع بھی ہوئیں ،لیکن ان سفارشات پر بھی پوری طرح عمل نہ ہوسکا ،اور لوگ آج بھی ادنا،اعلا کو ادنیٰ، اعلیٰ ہی لکھتے ہیں اور ہمزہ(ء) کو حرف ہی تصور کرتے ہیں ۔جبکہ اردو میں ہمزہ حرف نہیں محض ایک علامت ہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو رسم الخط میں اصلاح کے سلسلے میں جو سفارشات پہلے سے موجود ہیں ان پر سختی سے عمل درآمد ہو،اور یہ ہم سب لوگوں کے کرنے کا کام ہے۔
ع۔م:گیان چندجین کی کتاب ’’ایک بھاشا:دولکھاوٹ،دو ادب‘‘پر آپ کا جو معرکتہ الآرا تبصرہ کتابی صورت میں منظرِ عام پر آیا ہے اس کی علمی حلقوں میں خاصی پذیرائی ہوئی ہے۔گیان چند جین کا اس کتاب میں یہ ماننا ہے کہ اردو اور ہندی ایک زبانیں ہیں ۔اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ٍمرزاخلیل احمد بیگ:آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ گیان چندجین اردو اور ہندی کو ایک زبان مانتے ہیں۔اس بات کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب’’ایک بھاشا:دولکھاوٹ،دو ادب‘‘میں کھل کر کیا ہے۔گیان چندجین کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ آخرِ عمر میں وہ امریکہ میں جاکر بس گئے تھے اور وہیں بیٹھ کر انہوں نے اپنی یہ متنازع فیہ کتاب سپرِدقلم کی تھی جس میںوہ بہت سی فرقہ وارانہ باتیں لکھ گئے تھے اور اردو کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا تھانتیجتاً اردو حلقوں میں اس کا شدید ردِ عمل ہوا ۔اسی زمانے میں اس کتاب پر میں نے بھی مفصل تبصرہ کیا جو روزنامہ’ قومی آواز‘ (نئی دہلی)کی کئی اشاعتوں میں مسلسل شائع ہوا اور بعد میں ’’ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں اس کی اشاعت عمل میں آئی۔اردو اور ہندی کے بارے میں اس کتاب میں میرا یہ موقف تھا کہ یہ ایک زبانیں نہیں ،بلکہ دو مختلف زبانیں ہیں اور دونوں معیاری زبانوں کا درجہ رکھتی ہیں۔اور دونوں کو دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں دو علاحدہ زبانوں کے طور پر درج کیا گیا ہے۔دونوں کا اپنا اپنا رسمِ خط ہے اور دونوں ادبی لحاظ سے بھی ثروت مند زبانیں ہیں۔ہاں،یہ ضرور ہے کہ یہ دونوں زبانیں نچلی سطح (Grassroot level)پر جسے عام بول چال کی زبان بھی کہتے ہیں ایک دوسرے کے بالکل قریب آجاتی ہیں اور اکثر Overlapکرنے لگتی ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں زبانیں ایک ہی ماخذ یعنی’’کھڑی بولی‘‘سے پیدا ہوئی ہیں ۔اس کے بعد دونوں کا ارتقا دومختلف سمتوں میں ہوا ہے۔اسی لیے دونوں کے لسانی امتیازات (Linguistic Peculiarities)ایک دوسرے سے مختلف ہوتی گئیں،یہاں تک کہ یہ دونوں اردو اور ہندی کے نام سے دو الگ الگ زبانیں بن گئیں ۔زبان تہذیب کی بھی نمائندہ ہوتی ہے۔چناچہ تہذیبی اعتبار سے بھی اردو اور ہندی دو مخلف زبانیں ہیں ۔ذخیرئہ الفاظ ،بالخصوص علمی ذخیرئہ الفاظ اور مصطلحات کے اعتبار سے بھی اردو ،ہندی سے مختلف ہے۔اردو کے علمی ،ادبی اور تہذیبی الفاظ،نیز اصطلاحات کا ذخیرہ عربی فارسی سے آیا ہے،جب کہ ہندی اپنا علمی ذخیرئہ الفاظ اور اصطلاحیں سنسکرت سے لیتی ہے۔اردو زبان کا روزمرہ بھی ہندی سے مختلف ہے۔صوتی سطح پر بھی اردو اور ہندی میں فرق موجود ہے۔اردو کا ذ(ز،ض،ظ)ف،ق،خ،غ،ژ کی آوازوں کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا ہے،جب کہ یہ آوازیں ہندی میں مفقود ہیں ۔علاوہ ازیں ادب اور رسم ِخط کی سطح پر تو یہ دونوں زبانیں مختلف ہیں ہی۔
ع۔م:موجودہ عہد کو زبان خصوصاً اردو زبان کے حوالے سے آپ کس زاویئہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟
مرزاخلیل احمد بیگ:زبان ایک سماجی مظہر(Social Phenominon)ہے، اس کی ضرورت انسان کو ہر عہد میں رہی ہے۔انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقا میں زبان کا کلیدی رول رہا ہے۔جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا زبان کی اہمیت وافادیت بھی بڑھتی گئی۔چناچہ ادب ہو یاسائنس،پرنٹ میڈیا ہو یا الکٹرونک میڈیا ہویا سوشل میڈیا ،زبان کو بروئے کار لائے بغیر کچھ بھی ممکن ہیں ۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عہدِ حاضر میں عالم کاریت(Globalization)کی وجہ سے جہاں بعض زبانوں کو غلبہ(Dominance)،حاصل ہوگیا ہے۔وہیں بعض دوسری زبانوں کا وجود خطرے میں آگیا ہے اور وہ Endangeredمحسوس کرنے لگی ہیں اور بڑی زبانوں کے دبائو(Pressure)میں ہیں ۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ فی الوقت دنیا میں زائد از 6000زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن رواں صدی کے آخر تک ان میں سے بہت سی زبانیں معدوم ہوجائیں گی۔یہ وہ زبانیں ہیں جن میں سے کچھ کے بولنے والے اس صدی کے آخر تک راہی ِملکِ عدم ہوجائیں گے۔ان کے بعد ان زبانوں کا کوئی بولنے والا نہیں ہوگا۔علاوہ ازیں کچھ زبانوں کے بولنے والے بوجوہ اپنی زبان کو ترک کرکے دوسری توانا زبانیں(Power Languages) اختیار کر لیں گے۔
ہندوستان میں اردو ایک اقلیتی زبان ہے ۔یہاں اس کا اپنا کوئی علاقہ نہیں ہے۔اس لیے اسے علاقائی زبان (Regional Language) کا درجہ حاصل نہیں ہے۔یہ زبان مستقل طور پر علاقائی زبانوں کے دباؤ میں ہے۔ہندی بھاشی صوبوںمیں یہ ہندی زبان کے ساتھ مدغم (Assimilate)ہوتی جارہی ہے ۔اردو بولنے والوں کی نئی نسل اردو رسم خط سے ناواقف ہے اور ہندی کا لب ولہجہ ،روزمرہ اور تلفظ اختیار کرتی جارہی ہے۔اردو کے حوالے سے یہ نہایت افسوس ناک صورتِ حال ہے۔اگر اردو والوں نے موجودہ صورتِ حال سے عبرت حاصل نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب اردو زبان محض ایک بولی (Dialect) بن کر رہ جائے گی جو اردو کے کاالعدم ہو جانے کے مترادف ہے۔
ع۔م:عالمی اردوادب ‘کے قارئین کے لیے آپ کا کوئی پیغام ؟
مرزا خلیل احمد بیگ:’عالمی اردوادب ‘ کے قارئین کے لیے میرا صرف یہی ایک پیغام ہے کہ وہ اردو کی اشاعت کے سبب بنیں، اردو کے اخبارات ،رسالے اور کتابیں خرید کر پڑھیں اور جوصاحب ِاولاد ہیں وہ اپنے پیارے بچوں کو بھی اردو ضرور پڑھائیں ۔اردو کی ترقی اور بقا کا راز اسی میں مضمر ہے۔
بہت بہت شکریہ

Leave a Comment