’رقص شرر‘ میں پوری کائنات پوشیدہ ہے: شارب ردولوی
سامعین تقریر کی دلکشی میں کھو جاتے تھے: احمد ابراہیم علوی
لکھنؤ۔ 22،اکتوبر(اسٹاف رپورٹر)اچھی نثر لکھنا شعر کہنے سے زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ شعر مشق سے کہا جاسکتا ہے جبکہ اسلوب میں نثر لکھنا مشق سے نہیں آتا۔ یہ بات معروف ادیب و نقاد شارب ردولوی نے یہاں کہی۔ وہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی زندگی و خدمات منظرعام پر آنے والی پہلی کتاب ’آخری شجر‘ مرتبہ رضون احمد فاروقی کے اجراء موقع پر رائے اماناتھ بلی آڈیٹوریم میں منعقد تقریب رسم اجرا و علمی و ادبی مذاکرہ سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب کا اہتمام اردو تحفظ و ترقی بورڈ نے کیا تھا جبکہ کتاب کو احساس فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے۔جلسے کی نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دی ۔صدارتی خطاب میں پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ ڈاکٹر ملک زادہ کی پہلی کاوش مولانا ابوالکلام آزاد پر ان کی کتاب تھی۔ اس حوالے سے انھوں نے بتایا کہ مولانا آزاد کے تین اسلوب تھے۔ تفسیر میں ان کا اسلوب الگ ہے اور غبار خاطر میں الگ اور یہ ان کی کمی نہیں بلکہ مہارت تھی۔ ڈاکٹر ملک زداہ کے نثری اسلوب کا بھی یہی حال تھا۔ ان کا رشتہ عوام سے براہ راست تھا۔ ملک زادہ بغیر کسی الجھن و دشواری کے اپنی بات لکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نظریہ واضح ہوتا تھا۔ پروفیسر ردولوی نے کہا کہ رقص شرر صرف ایک سوانح عمری نہیں بلکہ ایک عہد کی تاریخ ہے۔ اس میں پوری کائنات پوشیدہ ہے۔ ’شہر ستم‘ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اس کتاب میں وہ شخص دکھائی دیتا جس نے زندگی جی ہے۔ وہ زندگی کی، سماج کی، انسانیت اور اپنے پورے عہد کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک اچھی اور کامیاب زندگی گزاری۔ انھوں نے لکھا بھی، تدریس بھی کی اور اس توسط سے انھوں نے شاگردوں کی شکل میں جو پودے لگائے یقیناً ایک دن سایہ دار درخت ثابت ہوں گے۔
معروف صحافی احمد ابراہیم علوی نے ’ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں‘ کے حوالے سے ملک زادہ کی خدمات کو یاد کیا۔ انھوں نے کہا کہ لکھنؤ میں اچھی نثر لکھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک زادہ اپنے خلاق کے اعتبار سے بہت بلند بڑے انسان تھے، ان کا بڑکپن یہ تھا کہ انھوں نے کبھی بھی کوئی تحریر کسی شاگرد سے نہیں بھجوائی بلکہ خود لے کر آتے یا ڈاک سے بھیجتے تھے۔ ان کی تقریر اتنی دلکش ہوتی تھی کہ سننے والااس میں کھو جاتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ عموماً بڑے بڑے ادباء و شعراء کے اولادیں اردو سے نابلد ہوتی ہیں لیکن یہ اچھی بات ہے کہ ملک زادہ کا پورا گھر یہاں موجود ہے اور ان کا پوا گھرانہ اردو کا دلدادہ ہے۔
معروف صحافی قطب اللہ نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ ملک زادہ صاحب پر اتنی جلد ایک کتاب منظر عام پر آگئی۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر ملک زادہ کی شخصیت متنوع تھی۔ وہ اچھے نقاد، اچھے نثر نگار اور اچھے شاعر تھے۔ انھوں نے کہا کہ نئی نسل کو خاص طور سے ان کی نثر پڑھنی چاہئے۔ رقص شرر کا ادب کا شہ پارہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کم شہرت یافتہ شعراء، ادباء کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ رئیس انصاری نے کہا ملک زادہ چھوٹے سے چھوٹے شاعر و ادیب سے بھی بڑی خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔
ڈاکٹر صبیحہ انور نے کہا کہ وہ بہت اچھے استاد اور بہت اچھے شاعر تھے۔ وہ تناور درخت تھے جس کے سایہ سے بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ وہ ایک دبستان تھے۔ انھوں نے نظامت کو فن بنادیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک زادہ کی تحریر کا آہنگ مولانا آزاد سے ملتا ہے۔ مولانا آزاد پر ان کی کتاب مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
وقار رضوی نے کہا کہ اردو کتابیں خرید کر پڑھنا ملک زادہ کو بہترین خراج عقیدت ہے۔ میں ان کی زندگی میں ان پر باقاعدہ پروگرام کرنا چاہتا تھا مگر افسوس کہ انتقال کے بعد ہی یہ سعادت نصیب ہوسکی۔ آخری شجر کے بعد بھی کتابیں آئیں گی مگر نقش اول کے طور پر اسی کتاب کا نام لیا جائے گا۔
ڈاکٹر ملک زاد کے بیٹے ملک زادہ جاوید نے اپنے والد کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی جبکہ ملک زادہ پرویز نے کہا کہ والد ماجد کے انتقال کے صرف چھ ماہ بعد ان پر کتاب کے آجانے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے کتنی جگہ ہے۔
احمد جمال نے کہا کہ وہ میر کارواں تھے۔ انھوں نے ہمیشہ مسافران ادب کا آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دیا۔ حیدر علوی نے کہا کہ کتاب کے تمام مضامین عقیدت کے لوبان سے معطر ہیں۔ سید ضیاء الحسن نے کہا کہ ملک زادہ منظور احمد کی شخصیت بہت عظیم تھی۔ ان پر صراف تاثراتی مضامین نہیں بلکہ ان کے فن پر گفتگو ہونی چاہئے۔ محمد راشد خان ندوی نے آخری شجر کو خوبصورت تحفہ بتایا اور کہا کہ یہ کتاب اردو ادب میں خوشگوار اضافہ ہے۔
اس سے قبل افتتاحی کلمات میں کتاب کے مرتب رضوان احمد فاروقی نے کہا کہ ملک زادہ عمر کی کسی منزل میں ادبی بے راہ روی کے شکار نہیں ہوئے۔ اسٹیج آرٹسٹ شیلندر کول نے کہا کہ ملک زادہ نے مجھے انگلی پکڑنا سکھایا۔ کنوینر پروگرام وسیم حیدر نے شکریہ ادا کیا۔اس موقع پر مرتب رضوان احمد فاروقی اور ناشر اویس سنبھلی کی مخلصانہ کاوش کی سبھی نے تعریف کی۔ اودھ نامہ میں شائع ہونے والے حفیظ نعمانی کے مضمون کا خاص ذکر رہا۔ کوئی اس مضمون کو نظرانداز کرکے آگے نہ بڑھ سکا۔