پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم کومغربی بنگال اردو اکاڈمی – 2018ایوارڈ کا اعلان

“ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر“، ”اہم شخصیات کی مبارک بادیوں کا سلسلہ جاری ہے”

\"\"
\"\"ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ

\"\"
علی گڑھ / 13 ستمبر۔مغربی بنگا ل اردواکیڈمی نے ریاست و بیرون ریاست کے مشاہیرادب کو ان کی علمی ایوارڈ کے اعتراف میں ایوارڈسے نوازنے کافیصلہ کیاہے ۔ جن شخصیتوں کوایوارڈ دینے کافیصلہ کیا گیا ہے ان میں ممتاز نقاد، دانشور، محقق ، افسانہ نگاراوراسکالر پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم ،علی گڑھ (سبکدوش) سابق چیئرمن اورسابق صدر شعبہ اردو ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کو اردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کلکتہ نے اپنا پروقار\” مغربی بنگال اردو اکاڈمی ایوارڈ \” 2018، دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایوارڈ توصیفی سنداور ایوارڈسے نوازا جائے گا۔مغربی بنگال اردو اکاڈمی بہت جلد تقریب کی تاریخ کا اعلان کرے گی۔
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم کی ادبی خدمات کا دائرہ افسانہ نگار،مترجم،مدیر ، تحقیق ،تنقید اور ترجمےپرمحیط ہے۔فکشن کی تنقید ان کا خاص میدان ہے۔مختلف اصناف پر مشتمل ان کی15/کتابیں اور سیکڑوںمضامین منظر عام پر آکر ناقدین سے سند اور شائقین ادب سے داد و تحسین وصول کرچکے ہیں۔ موصوف پریم چند شناس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی بیش بہا ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیںاردو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، نواب محمد علی والی جاہ ایوارڈچینی، سر سید ایوارڈ میرٹھ، ڈاکٹر انجم جمالی ایورڈ میرٹھ، صغر یٰ مہندی قومی یکجہتی ایوارڈ یوپی اردو اکیڈمی لکھنو، نشان ِسپاس ایوارڈ(وفاقی ردو یونیورسٹی کراچی، پاکستان)، سر سید ایوارڈ سائنس یونیورسٹی کراچی، اردو ادب ایوارڈ (ہندی اردو ساہتیہ ،لکھنو)،سمیت دیگر انعامات و اعزازات سے نوازا جاچکا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم ایک مثالی معلم بھی ہیں، جن کے ہزاروں لائق و فائق طلبا ملک و بیرون ملک میں ممتاز مناصب پر فائز ہیں۔
ہندوستان میں اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جو ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ اس سر زمین نے بعض ایسے شعراء و ادباء کو جنم دیا جنھوں نے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی ایک الگ پہچان منوائی اور جن کی خدمات سے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ ان میں مولانا حسرت موہانی، قاضی عبدالستار، جاوید کمال ، خلیل الرحمٰن اعظمی ، اسلوب احمد انصافی ، شہریار، خورشید الاسلام، شارب رودولوی ، نیرّمسعود وغیرہ کے نام خاص طور پر سر فہرست ہیں۔ ان اساطین ادب کی خدمات سے اُردو کا عام قاری بھی واقف ہے۔ ان بزرگ ادیبوں کے بعد نسبتا نئے اُدباء جو آج آسمان ِ ادب پر روشن ستارے کی مانند جگمگا رہے ہیں ان میں شمیم حنفی ، محمد انصار اللہ، شافع قدرائی، ابنِ کنول، علی احمد فاطمی، انیس اشفاق، آشفتہ چنگیزی، فرحت احساس وغیرہ کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔ اردو شعر و ادب کی بے لوث خدمات کرنے والے ان ہی شعراء و ادبا ء کی صف میں ایک اہم نام پروفیسر صغیر افراہیم کا بھی ہے جو بالخصوص تحقیق و تنقید کے میدان میں اپنی نو عمری میں ہی اعلیٰ مقام حاصل کرچکے ہیں۔
صوبہ اتر پردیش کا حسین شہر اُنائو صغیر افراہیم کی جائے پیدائش ہے۔ یہ ایودھیا کا سرحدی علاقہ ،صوبہ اودھ کا مردم خیز خطہ اور ادب و انقلاب کا گہوارہ رہا ہے۔ اہلِ اُنائو کے لیے یہ امر باعثِ فخر ہوگا کہ صغیر افراہیم جسیے بلند پایہ ادیب و نقاد بھی اسی خطہ ارض میں پروان چڑھے ہیں۔
صغیر افراہیم اترپردیش کے ضلع اُنائو میں 12 جولائی 1953ء میں پیدا ہوئے۔ مولانا حسرتؔ موہانی جن کا شمار اعلیٰ پایہ کے شعرا ء اور جنگِ آزادی کے سورماؤں میں ہوتا ہےکا پیدائشی مقام بھی یہی سر زمین ہے۔ صغیر افراہیم کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن اُنائو میں ہوئی۔ کھیل کود سے زیادہ اُنھیں پڑھنے یا پھر کچھ لکھنے کا شوق تھا۔ قصے کہانیوں کو بڑے انہماک سے سنتے تھے۔ وہ 1975ء میں علی گڑھ آگئے ۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے (آنرز) ،اور 1980ء میں ایم اے (اردو ) امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور گولڈ میڈل کے علاوہ شبلیؔ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔ انھوں نے \”اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل\” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی سند پروفیسر نعیم احمد کی نگرانی میں 1885ء میں مکمل کی۔
ٖ صغیر افراہیم جن فرد سے زیادہ ایک انجمن کا شائبہ ہوتا ہے۔ بیک وقت ایک فرض شناس معلم، محقق ، نقاد، صحافی اور اعلیٰ پائے کے منتظم ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ایک اچھے اور قابل اعتماد اور ایثار پیشہ دوست بھی ہیں جو ہمیشہ حق دوستی ادا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ وہ جس طرح نوبہ نو ذمہ داریوں میں ہر آن گھرے رہتے ہیں ان کا خیال کرکے یقین ہی نہیں آتا کہ انھوں نے اتنی کتابیں، مضامین اور تبصرے وغیرہ کب اور کیسے لکھے ہوں گے۔ یقینا وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن کے نزدیک لکھنا، پڑھنا، درس و تدریس اور تنقید و تحقیق ہی کو سب سے مقبول عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ اسی یقین اور اعتماد کے طفیل ان کے قلم و ذہن سے اتنا علمی ادبی سرمایہ وجود میں آیا ہے اور توقع ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔
مغربی بنگال اردو اکاڈمی ایوارڈ کیلئے اردو کے نامور افسانہ نگارپروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم کے نام کا اعلان کیا گیا جس پر نہ صرف علی گڑھ بلکہ اردو دنیا میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ اب یہ اعلیٰ اعزاز پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم کے حصہ میں آیا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ایوارڈ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈیمی نے نہایت مناسب وقت پر انہیں اور اردو زبان کو یہ اعزام بخشا ہے جو ان کیلئے خوشی کا باعث ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس ایوارڈ کا اس وقت اعلان کیا گیا جبکہ اردو کو عالمی زبان کی حیثیت سے مسلم قرار دیا گیا ہے۔ اردو وہ واحد زبان ہے جس کے ذریعہ ہندوستان کی تاریخ اور اس کے کلچر سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اردو زبان نے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کو جوڑے رکھا ہے ۔ ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ 67 سالہ پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم کا مانہ ہے کہ کئی زبانوں اور زبان بولنے والوں کے باہمی تال میل کے ذریعہ صدیوں سے اردو کا فروغ ہوا ہے ۔ تہذیب و ثقافت کے ارتباط اور ہم آہنگی کے ذریعہ ملک کا عظیم تہذیبی ورثہ ظہور پذیر ہوا جو اس ملک کا حقیقی ورثہ ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم کو اردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات کے
زمرہ میں اس ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا ۔مغربی بنگال اردو اکاڈمی کلکتہ کی جانب سے انھیں باوقار ایوارڈ کا اعلان کیے جانے پر اردو دنیا کی اہم شخصیات کی مبارک بادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
\"\" \"\" \"\" \"\"

 

Leave a Comment