پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری : نابغۂ روزگار روشن خیال ادیب

\"\"
٭ تحریر پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی

\"\"
پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نابغۂ روزگار جن کو ہم سے بچھڑے ہوئے پانچ سال بیت گئے ۔
لایا تھا جن کو صدیوں کی گردش کے بعد تُو
اے وقت ہم نے لوگ و ہ کمیاب کھودئیے
ایک مخلص ‘ محنتی‘ دیانتدار ‘ روشن خیال ‘ بے تعصب ‘ علم کا سمندر ‘ ادیب‘ دانشور جن کی پوری زندگی عزم و حوصلے ‘ استقلال کا مظہر تھی جو وقت کی بھٹی میں تپ کر کندن ہوئے جن کی زندگی علم وادب کے لیے وقف تھی جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کو فیضیاب کرتے ہوئے گذارا ۔ درس تدریس ان کا بنیادی حوالہ رہا ۔ تحقیق و تنقید جیسی سنگلاخ زمیں کو اپنی فکر و اسلوب سے زرخیز کردیا ۔ تحقیق و تنقید میں ان کی تخلیقی ذہانت نے وہ معیار قائم کیا جس سے تحقیقی و تنقیدی اصول مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ چالیس سے زائد تصانیف آپ کے تبحر علمی کی مثال ہیں۔ آپ کی فکر رسا اور تخلیقی نثر کا شاہکار ہیں۔ شاعری ان کا پہلا شوق تھا ۔ ان کی شاعری ایک سنجیدہ ذہن کی شاعری ہے اور تہذیب و معاشرت پر بھی تنقیدی نظر رکھتی ہے ۔ آپ کا شعری سرمایہ بہت کم ہے لیکن اس کو پڑھ کر آپ کے ذہنی رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ ان کا متنوع ذہن تحقیق و تنقید کے نئے نئے پہلو اور عنوانات تلاش کرتا اور ضخیم و وقیع صورت میں قارئین کے سامنے پیش کردیتا ۔ ان کا اسلوب تنقیدی ہوتے ہوئے بھی خشک اور بوجھل نہیں بلکہ بہت رواں اور عالمانہ شان کا حامل ہے۔ جو ادب کے قارئین اور طالب علموں کے لیے قابل توجہ ہے ۔ ان کی کتابیں ہمیشہ میری رہنمائی کرتی رہی ادبی تقریبات اور خاص طور پر نیاز ونگار کے سالانہ لیکچرز میں ان کی پر مغز گفتگو سے استفادہ کیا اپنے تحقیقی کاموں کے دوران ان کی افسانوی ادب پر لکھی گئی تصانیف سے میں نے بہت کچھ حاصل کیا ۔ ان کی تمام تصانیف میرے زیر مطالعہ رہی ہیں جن میں ان کا منطقی رویہ ہر جگہ کارفرما ہے ۔ منطقی و سائنسی طرز ان کا خاصا ہے ۔ تجزیاتی مطالعہ نے ان کی تحقیق و تنقید میں گہرائی و گیرائی پیدا کی وہ تمام اصناف کا غائر مطالعہ رکھتے تھے ۔ وہ بیسویں صدی کے نقادوں خاص طور پر قیام پاکستان کے بعد سامنے آنے والے محققین و نقادوں میں ممتاز مقام کے حامل ہیں ۔ احمد ندیم قاسمی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو اس دور کا ایک ایسا نابغہ قرار دوں گا جس کے ہاں علم و حکمت اور شعر وفن کی تمام خوبصورتیاں مجسّم ہوگئی ہیں۔وہ شعر و نقد‘ جدید و کلاسیکل ادب کے تخلیقی رویوں ‘ شخصیت ‘ جدید ادبی تحریکات ‘ رجحانات ‘ مباحث ‘ مسائل‘ تاریخ اور حال کے ادبی منظر نامے کی بصیرت رکھتے تھے ۔ ان کی تحقیق و تنقید ماضی و حال سے ہم رشتہ تھی۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان کے تنقیدی نظریات مستعار نہیں تھے ‘ خود ساختہ تھے جو تاریخ ادب اردو کا حصہ بن گئے ۔ وہ ادبی گروہ بندیوں سے الگ رہ کر ادب کی تخلیق اور فروغ میں مصروف رہے۔ ان کی تنقید میں تقریض کا پہلو نہیں ابھرتا وہ شائستگی اور تہذیب کا خیال رکھتے ہیں اور فکری تبدیلیوں کے پاسدار ہیں۔ استدلال ان کی تحریروں میں نمایاں ہے ۔ وہ شواہد ‘ معلومات اور مکمل کوائف کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہ یہی تحقیق کا بنیادی رویہ ہے ۔ اردو رباعی ، قمر زمانی بیگم ‘ ہندی اردو تنازع‘ ادب اور ادبیات ‘ خطبات ِ محمود ‘ اردو کی نعتیہ شاعری ‘ تمنا کا دوسرا قدم اور غالبؔ‘ اردو افسانہ اور افسانہ نگار ‘ تحقیق و تنقید ‘ زبان اور اردو زبان ‘ نیا اور پراناادب‘ عملی تنقیدیں‘ اردو کا افسانوی ادب ‘ اردو کی بہترین مثنویاں‘ اردو شاعری کا فنی ارتقا اور نثر کا فنی ارتقا ‘ اور کتنے جواہر پارے ان کے نوک قلم سے نکل کر قرطاس ِ ابیض پر تابندہ ہیں۔
’’نگار ‘‘ ان کا ایک اہم علمی وادبی کارنامہ ہے ۔ نیاز فتح پوری نے آزاد خیالی کی جو شمع روشن کی ‘ فرمان صاحب اسی کو لے کر آگے بڑھے ۔اس رسالے نے ادبی رسائل کی تاریخ میں نئے باب وا کیے ۔ نئے لکھنے والے اس کے زیر اثر پروان چڑھے ‘ روشن خیالی ، احساس جمال اور شگفتگی کے ساتھ استدلال اور منطق کو اہمیت دی ۔ فرمان فتح پوری نے نگار کے کئی اہم نمبر ز شائع کیے جن میں ہندی شاعری نمبر ‘ نظیر و مصحفی نمبر ‘ غالب نمبر ‘ مومن نمبر ‘ حسرت موہانی نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کا تنقیدی شعور ترقی یافتہ اور تربیت یافتہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف اعلیٰ معیار کی حامل نہیں۔ وہ اپنے عہد کے بالیدہ فکر و نظر رکھنے والے محقق و نقاد ہیں بلکہ محب وطن نقاد ہیں۔ یہی محبت ان کی تحریروں میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ان کی شعری اقلیم کا دائرہ کم ہے مگر جتنا بھی ہے وہ بھی ان کی بالغ نظری اور عصری حسیّت کا نمونہ ہے ان کی آزاد خیالی کا اندازہ ان کے اس شعر میں بخوبی ہوتا ہے ۔ یہ آزاد خیالی منفی نہیں مثبت ہے جو پرانے سانچوں کو توڑ دیتی ہے پرانے راستوں کو چھوڑ کر نئے راستوں کی طرف گامزن کرتی ہے
میری فطرتِ آزاد مثلِ موجِ آوارہ
تُو جنم کا زندانی بند ہے اصولوں میں
انہوںنے شاعری کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ دی جب وہ تحقیق و تنقید کے مشکل راستوں پر نکل آئے تو شاعری کو وقت نہ دے سکے۔
بے خبر جادہ و منزل سے چلا جاتا ہوں
یہ سمجھ کر کہ مری راہ وہ تکتا ہوگا
جستجو اور شوق کا جذبہ راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کرتا ہوا آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
عظمتِ انساں کا مضمون بھی بہت خوبصورتی سے اس شعر میں بیان ہوا ہے ۔
یہ میری ہستی کی ہے بلندی کہ میرا گردش میں ہے ستارہ
تلاش میں ‘ میں زمیں کی نکلوں تو راہ میں آسماں ملے
تشبیہات کا بھی خوبصورت اور با معنی استعمال ان کے شعروں میں موجود ہے
چاند تارے بن کے بھیگی رات میں نکلے تو ہیں
جان کے دشمن ہماری گھات میں نکلے تو ہیں
وہ ساتھ ہوں تو دشت نوردی بھی سیرِ گل
ان کے بغیر پھول بھی کانٹا لگے مجھے
محبوب کے جوروستم کا وہ بھی گلہ کرتے ہیں جس کی غمخواری بھی تازہ ستم کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہے ۔ عاشق کے لیے محبوب کی دلجوئی بھی مشکوک ہے ۔
بے رُخی کیا ہے بے رُخی سے بڑھ کے بھی یاری لگے
ڈھب ستم کاری کا تازہ اس کی غم خواری لگے
کلاسیکل غزل کا رچائو ان کی شاعری میں روایتی کیف و سرور پیدا کرتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتحپوری جدید ذہن رکھنے والے محقق و نقاد تھے ۔روشن خیالی ان کی تحریروں کا بنیادی حوالہ ہے۔ روشن خیالی ماضی کے کسی حوالے کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنا حوالہ خود ہوتی ہے اور روشن خیالی اپنا معیار خود اپنے اندر سے تخلیق کرتی ہے پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی تحریریں ان کی شخصیت اور فن کی روشن خیالی کا مظہر ہیں۔ اسی روشن خیالی نے جدیدیت کی راہ ہموار کی ہے اور ان کا فن جدیدیت کا علمبردار کہا جاسکتا ہے۔

Leave a Comment