انٹرویو۔شفیق اختر حُر ٗشیخ ممتاز الرحمن ٗصائمہ ممتاز شیخ
سرائیکی خطے کا فخر ممتاز ماہر تعلیم ٗ شاعر ٗ ادیب ٗ دانشور ٗ رائٹر ٗ محقق ٗ مصنف ٗ ٹی وی اینکر سمیت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے پناہ علمی صلاحیتوں اور خوبیوں سے مالا مال پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول حسن گیلانی پاکستان سمیت دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی نے اپنی زندگی کو علم کے حصول اور تعلیم کے فروغ کیلئے وقف کررکھا ہے۔ آپ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ نے قرآن مجید فرقان حمید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہوا ہے۔ آپ کی علمی ٗ ادبی صلاحیتوں سے آنے والی نسلیں بھی بھرپور استفادہ کرتی رہیں گی۔ آپ شاعر ٗ ادیب اور ایک اچھے کمپیئر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شخصیت کے مالک بھی ہیں۔ آپ کے خوبصورت چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رقصاں رہتی ہے۔ بے پناہ علمی و ادبی صلاحیتوں کے مالک اور PHD ہونے کے باوجود آپ ہمیشہ دوسروں کو عزت اور شاندار پروٹوکول دیتے ہیں۔ جتنا اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو علم کی دولت سے مالا مال کیا ہے آپ اتنے ہی عاجزی پسند اور درویش صفت شخصیت کے مالک ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول حسن گیلانی کے والد محترم سید عبدالقادر گیلانی حافظ قرآن اور عالم دین تھے۔ آپ کے بڑے بھائی سید رمضان شاہ گیلانی بھی شاعر ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول گیلانی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے تحصیل شجاع آباد سے حاصل کی۔ میٹرک اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ ملتان سے کیا۔ ایف اے اور بی اے ایمرسن کالج ملتان سے کیا۔ ایم اے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ٗ ایل ایل بی گیلانی لاء کالج ملتان اور پی ایچ ڈی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کی۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول گیلانی کا شجرہ نسب امام حسن مسمنہ سے ملتا ہے۔ آپ موسیٰ پاک شہید کی اولاد میں سے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول گیلانی نے ہفت روزہ ”جھیل“ کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ علم کا حصول اور تعلیم کا فروغ میری زندگی کا اولین مقصد ہے۔ 1986ء سے پڑھانا شروع کیا اور 33 سال سے پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہا کہ جس ایمرسن کالج سے میں نے ایف اے اور بی اے کیا اسی ایمرسن کالج میں 20 سال میں نے پڑھایا۔ ملتان یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں بطور پرنسپل فرائض سرانجام دیئے۔ میرے 19 ریسرچ آرٹیکل شائع ہوچکے ہیں۔ 40 سال سے ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوں۔ پی ٹی وی بحیثیت اینکر خدمات سرانجام دے رہا ہوں اسی طرح مختلف ٹی وی چینلز پر بھی بحیثیت مہمان جاتا رہتا ہوں۔
پروفیسر سید مقبول گیلانی نے کہا کہ سرائیکی ادب اور سرائیکی ثقافت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سرائیکی ادب اور سرائیکی ثقافت کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں فروغ حاصل ہورہا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک سرائیکی سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں 50سے زائد لیکچرار اپنی شاندار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی فیسٹیول اور سرائیکی اجرک نے سرائیکی ثقافت کو اجاگر کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہا کہ سرائیکی تحریک دانشوروں ٗ گلوکاروں ٗ فنکاروں ٗ شاعروں ٗ ادیبوں نے شروع کی جو آج بام عروج پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام بچوں کو مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دی جائے اس طرح تمام مادری زبانیں زندہ رہیں گی۔
ڈاکٹر مقبول گیلانی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سرائیکی خطے کے عوام کا علیحدہ صوبہ کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔ صوبہ زبان کی بنیاد پر بننا چاہیے کیونکہ صوبہ سندھ سندھی زبان کے نام سے ہے ٗ صوبہ خیبرپختونخوا ٗ پختون زبان کے نام سے ہے ٗ صوبہ پنجاب پنجابی زبان کے نام سے ہے ٗ صوبہ بلوچستان بلوچ زبان کے نام سے ہے ٗ گلگت بلتستان ٗ بلتی زبان کے نام سے اسی طرح آزاد کشمیر ٗ کشمیری زبان کے نام سے ہے اور سرائیکی خطے کے عوام کا بھی حق ہے کہ وہ بھی اپنی زبان کے نام سے صوبہ حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ رکاوٹیں پیداہوسکتی ہیں۔ کچھ دیر تو ہوسکتی ہے مگر صوبہ سرائیکستان ضرور بنے گا۔
پروفیسر ڈاکٹرمقبول گیلانی نے کہا کہ صوبہ سرائیکستان کے قیام سے پاکستان مضبوط و خوشحال ہوگا۔صوبہ سرائیکستان کے قیام سے لاکھوں نوجوانوں کیلئے ملازمتوں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ 8 کروڑ سے زائد پاکستانی سرائیکی زبان بولتے ہیں۔ چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سرائیکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی خطے کے علاقہ کوایک سازش کے تحت زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا اس لیے محرومیاں بڑھتی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ سرائیکستان کے قیام کو روکنا اب کسی سیاسی جماعت کے بس میں نہیں رہا۔ سرائیکی صوبہ ایک اٹل حقیقت ہے اور یہ صوبہ ہر صورت بن کے رہے گا۔ انہوں نے کہا سرائیکی خطہ قدرتی وسائل اور زرعی اجناس سے مالا مال ہے۔ پاکستان کی 80 فیصد کپاس ٗ 70 فیصد گندم ٗ 50 فیصد سے زائد لائیو سٹاک سرائیکی خطے سے مہیا ہوتی ہیں ٗاس کے باوجود سرائیکی خطے میں بسنے والے کروڑوں عوام زندگی کی تمام بنیادی سہولیات اور ضروریات سے محروم ہیں۔ سرائیکی خطے کی 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وسیب کی محرومیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں آج بھی سرائیکی خطے میں 60 سے 70 فیصد لوگ ایک کمرے پر مشتمل کچے اور کرایہ کے مکانوں میں رہتے ہیں اسی طرح دیہی علاقوں میں رہنے والے 30 سے 40 فیصد لوگ بجلی اور گیس کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ تعلیمی معیار اس قدر پست ہے کہ دور دراز کے دیہی علاقوں میں رہنے والے بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ سرائیکی خطے کے دیہی علاقوں میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ بیٹ کے علاقوں میں سکولوں کا نام و نشان ہی نہیں۔ وسیب کے پڑھے لکھے لاکھوں نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ وسیب کے لوگوں کے ساتھ ہر شعبہ ہائے زندگی میں شدید ناانصافیاں ہورہی ہیں۔
ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہاکہ پاکستان بننے سے پہلے سرائیکی خوشحال تھے مگر اب بدحال ہیں۔ سرائیکی علاقوں کو اتنی ترقی نہیں دی گئی جتنی لاہور ٗ فیصل آباد و دیگر پنجاب کے شہروں کو دی گئی ہے۔ آم ٗ کپاس ٗ چاول ٗ گندم ٗ چمڑا وغیرہ اس خطے کی پیداوار ہے۔ ہمارے کاشتکاروں کو فصلوں کے ریٹ صحیح نہیں ملتے جس کی وجہ سے کاشتکار بھی بدحالی کاشکار ہو کر کاشتکاری کا شعبہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہا کہ صوبہ سرائیکستان بن گیا تو پھر تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ ملتان صوبہ سرائیکستان کا دل ہے اور اس خطے کے عوام دو نہیں صرف اور صرف ایک صوبہ چاہتے ہیں۔ سرائیکی خطے کے عوام کو وسیب کی تقسیم ہرگز قبول نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان ٗ ٹانک سمیت 23 اضلاع پر مشتمل صوبہ بنایا جائے۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہاکہ سرائیکی وسیب میں میڈیکل ٗ انجینئرنگ کالجز ٗ ایگری کلچر و ٹیکسٹائل اور خواتین یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ کیڈٹ کالجز بھی بنائے جائیں۔ پاک فوج میں نمائندگی کیلئے پنجاب ٗ سندھ اور بلوچ رجمٹ کی طرح سرائیکی رجمنٹ بھی بنائی جائے۔ وسیب کے تمام اضلاع میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنائے جائیں۔ وسیب کی زمینوں کی بندر بانٹ نہ کی جائے۔ دریاؤں پر سرائیکی وسیب کا حق تسلیم کیا جائے۔ انٹری ٹیسٹ ختم کیا جائے اور سرائیکی بورڈ بنایا جائے۔
ڈاکٹر مقبول گیلانی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی محسن سرائیکستان ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران ملتان سمیت سرائیکی خطے کے تمام اضلاع میں جتنے میگا پراجیکٹس اور دریاؤں پر پل تعمیر کروائے ہیں اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہاکہ ہیڈ محمد والا پل ٗ ستلج پل ٗ ایمن والا ٗ جلال پور پیروالہ اور اوچشریف کے درمیان بینظیر شہید پل اور دیگر دریاؤں پر پلوں کی تعمیر سے مختلف شہروں اور مختلف اضلاع کے درمیان فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ 5 سے 6 گھنٹوں کا فاصلہ اب ایک سے دو گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے اور ٹریفک حادثات بھی کم ہوگئے ہیں اسی طرح سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں جتنے فلائی اوور اور دیگر ترقیاتی کام کروائے ہیں ان سے آنے والی نسلیں بھی استفادہ کرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہاکہ سید یوسف رضا گیلانی اپنے دور حکومت میں علیحدہ صوبہ بنالیتے مگر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف رکاوٹ بن گئے۔ انہوں نے رکاوٹ ڈالنے کیلئے دو صوبوں کی آواز لگادی۔ اس طرح کرنے سے ایک صوبہ کے حصے میں صرف تین اضلاع آتے تھے اور تین اضلاع پر مشتمل صوبہ کا قیام ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہا کہ قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد گیلانی خاندان کی تعلیم ٗ صحت کے شعبوں میں خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ گیلانی خاندان نے اپنی زمینوں پر سکول اور کالجز اور یونیورسٹی بنوائیں۔ ایشیا کے سب سے بڑے نشتر ہسپتال اور نشتر میڈیکل کالج کیلئے بھی گیلانی خاندان نے وسیع قیمتی اراضی عطیہ کیں اور اسی طرح گیلانی خاندان نے دیگر فلاحی کاموں میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیااور انسانی کی خدمت کو اپنی زندگی کا شعار بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ملتان میں نشتر جیسے ایک بڑے ہسپتال کی اشد ضرورت ہے۔ سرائیکی وسیب کے تمام اضلاع میں نشتر جیسے بڑے ہسپتال بنائے جانے چاہئیں تاکہ لوگوں کو کئی کئی گھنٹوں کا طویل سفر کر کے نشتر ہسپتال نہ آنا پڑے۔
ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہا کہ سرائیکی ادب کے حوالے سے علامہ عتیق فکری ٗ ڈاکٹر مہر عبدالحق ٗ حسن رضا گردیزی ٗ امید ملتانی نے بھرپور کام کیا۔ سرائیکی ادب اس لیے محفوظ نہ رہ سکا کہ اس وقت کتابوں کی اشاعت کی کوئی سہولت موجود نہ تھی اور آج سرائیکی ادب تیزی سے فروغ پارہا ہے اور پروفیسر شوکت مغل کی 60 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ سرائیکی ادب کے فروغ کے حوالے سے پروفیسر شوکت مغل کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ پروفیسر شوکت مغل کے کام سے آنے والی نسلیں بھی فیض یاب ہوتی رہیں گی اور ان پر فخر کریں گی۔
ڈاکٹرمقبول گیلانی نے بتایا کہ برطانیہ کے دورے کے دوران لندن کے ایک ٹی وی چینل پر ان کاپروگرام لائیو نشر ہوا اورایک گھنٹے تک لائیو چلنے والے پروگرام میں جرمنی اور دیگر ممالک سے بھی کالیں آئیں۔ پروفیسر مقبول گیلانی نے کہاکہ میں نے ٹی وی چینل کے میزبان کو سرائیکی اجرک بھی پہنائی جس پر وہ بہت خوش ہوااور دوران پروگرام میزبان نے سرائیکی اجرک پہنے رکھی۔ پروفیسر مقبول گیلانی نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی آف لندن بھی گئے۔ برٹش لائبریری اور برطانیہ کی دیگر لائبریریوں میں میں نے اپنی کتابیں رکھیں۔ لندن سمیت برطانیہ کے دیگر شہروں میں رہنے والے پاکستانیوں اور دیگر ایشیائی ممالک کے لوگوں نے میری کتابوں اور سرائیکی ثقافت کو بے حد سراہا۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہا کہ وہ برطانیہ ٗ سعودی عرب ٗ متحدہ عرب امارات سمیت کئی دیگر ممالک کے مطالعاتی دورے کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر مقبول گیلانی نے اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے بتایا کہ ان کی اہلیہ محترمہ کا 6 فروری 2011ء کو انتقال ہو گیا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ میری اہلیہ ساڑھے تین سال تک کینسر کے خطرناک مرض کے ساتھ لڑتی رہیں۔ شوکت خانم ہسپتال میں زیرعلاج رہیں اور خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود وہ صحت یاب نہ ہوسکیں اور اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میں نے ساڑھے تین سال بدترین کرائسز میں گزارے۔
ڈاکٹر مقبول گیلانی نے کہاکہ میرے دو بیٹے ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام سید عمار علی گیلانی اور چھوٹے بیٹے کا نام سید سرمد علی گیلانی ہے۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی نے دوسری شادی نہ کرنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے اپنے بچوں اور ادب کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔ پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی نے آخری سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ زندگی دکھوں کا گھر ہے۔ کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے خوش نہیں۔ افراتفری اور نفسانفسی کا دور ہے مگر ہر حال میں انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کاشکر ادا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر مقبول گیلانی نے ہفت روزہ ”جھیل“ کے چیف ایڈیٹر و سینئر صحافی ٗ کالم نگار شفیق اختر حُر کی صحافتی خدمات کوسراہا اور پینل میں شامل ممتازالرحمن شیخ اور صائمہ ممتاز شیخ کو بھی انٹرویو کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔