پہاڑی زبان پر اُردو کے اثرات

\"\"
٭ڈاکٹر عبدالحق نعیمیؔ

شعبہ اُردو گورنمنٹ پی جی کالج راجوری (جموں کشمیر)

تاریخ کے زرّیں اوراق شاہد ہیں کہ ابتدا میں انسانی زندگی پر عجیب کیفیت اور سکُوت کا عالم طاری تھا لیکن جلد ہی سماجی اور معاشی ضروریات کے پیشِ نظر کسی زبان کی تشکیل ہوئی جس کے سبب انسان اپنی بات دوسروں تک پہچانے میں کامیاب ہوا اور اپنے پچھلے واقعات یا زندگی کے تجربات کو دوسروں کے سامنے دلچسپ اور موثر انداز سے بیان کرنے لگا جس کا سنُنے والوں پر اثر ہوا۔ اس طرح زبان کا وجود عمل میں آیا۔ ایک طویل مُدت تک یہ سب کچھ سینہ بہ سینہ چلتا رہا تحریر کی صورت اُس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک تحریر کا فن یعنی رسم الخط وجود میں نہ آتا۔ اس حوالے سے بھی کوششیں ہونے لگیں بالآخر انسان اس کوشش میں کامیاب ہوا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر گیان چند جینؔ رقمطراز ہیں:
’’انسانی تاریخ کی ابتدا قدیم مصر سے ہوئی ہے تحریر کا فن چار ہزار قبل مسیح میں یقیناً وجود میں آچکا تھا۔ مصر کا رسم الخط آثارِ مقّدس اور سیمر یا کا میخی خط اُس زمانے کے ہیں‘‘۔(۱)
پہاڑی زبان غیر منقسم ہندوستان کی جدید آریائی زبانوں میں شامل ہے چونکہ لسانی ساخت کی بنیاد پر تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مُلک ہندوستان میں آریا لوگ کئی مختلف گروہوں میں داخل ہوئے۔ مزید تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دوسرا گروہ سالہاسال گُزر جانے کے بعد داخل ہوا۔ پروفیسر مسعود حسین (مائر لسانیات) کے طاق آآہندو آریائی کا عہدِ جدید‘‘ (۶۰۰؁ء تا ۱۰۰۰؁ء) وہ لکھتے ہیں :
’’ چنانچہ جب پراکرتوں نے ادبی شکل اختیار کرنا شروع کی تو وہ عوام کی ڈگر سے پرے جاپڑیں اور عوام کی زبان کا دھارا آگے بڑھتا رہا اسی بول چال کی زبانوں کو اُس عہد کے قواعد نویسوں نے ’’اپ بھرنش‘‘ (بگڑی زبان ) کہا ہے‘‘۔(۲)
پروفیسر مسعود حسین خاں کا نظریہ یہاں گریرسن سے ملتا ہے۔ گریرسن کے بقول برا عظم کی ساریاں نئی زبانیں اپ بھرنش کی اولادیں ہیں۔ ہندوستان کی ہر زبان اور بولی پر اب بھرنش کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ۔ گریرسن کی تقسیم کے مطابق زبانوں کوچار حسب ذیل حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
۱۔ بیرونی زبانیں
(الف) شمالی مغربی شاخ
(۱) لہندا (مغربی پنجابی ) (۲) سندھی
(ب) جنوبی شاخ
(۱) مراٹھی
(ج) مشرقی شاخ
(۱) آسامی (۹۲ بنگالی (۳) اُڑیا (۴) بہاری بولیاں
۲۔ وسطی زبانیں
(۱) پوربی ہندی
۳۔ اندرونی زبانیں
(۱) مغربی ہندی (۲) پنجابی(مشرقی) (۳) گجراتی
(۴) راجستھانی (۵) بھیلی (۶) خاندیشی
۴۔ پہاڑی زبانیں:
(۱) مشرقی پہاڑی یا نیپالی (۲) درمیانی پہاڑی (۳) مغربی پہاڑی (۳)
مشرقی پہاڑی اور گڑھوالی اُترا کھنڈ اور اُتر پردیش کے شمالی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ درمیانی پہاڑی ہماچل پردیش ، کانگڑہ ، چنبہ اور شملہ کے مضافات میں بولی جاتی ہے ۔ ریاست جموں کشمیر کے خطۂ پیر پنجال (اضلاع راجوری پونچھ )اوڑھی ، کرناہ ، بارہمولہ ، بانڈی پورہ، اور کپواڑا کے اکثر علاقہ جات جنوبی کشمیر کا بعض علاقہ اور جموں کے بعض علاقہ جات کے علاوہ کاغان، سرحد ، ہزارہ ڈویژن اور خطہ پوٹھوہار وغیرہ میں بولی جاتی ہے۔پہاڑی زبان کی تاریخی اہمیت پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے معروف صحافی متہاب عزیز نے لکھا ہے۔
’’کشمیر پر جن بادشاہوں نے حکمرانی کی اُن میں سے سلطان مظفر خاں،
ہیبت خان ، حسین خان ، زبردست خان اور شیر احمد خان کے عہد کی سرکاری اور درباری زبان پہاڑی رہی ہے ‘‘۔ (۴)
لسانی تحقیق کے مطابق یہ کہنا غلط نہیں کہ زبانیں ایک دوسرے سے ادھار لیتی ہیں، ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتی ہیں اور ایک زبان کے الفاظ دوسری زبان میںاس قدر ضم ہوجاتے ہیں جیسا کہ وہ اُسی زبان کا حصہ ہوں۔ بعینہ اسی طرح پہاڑی زبان پر اُردو کے اثرات نظر آتے ہیں اور قواعد و گرائمر کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو بہت سارے قواعد و اصول میں اُردو اور پہاڑی زبان میں مماثلت یاموافقت نظر آتی ہے۔ پہاڑی زبان جو ابتدائی طور پر ایک بولی کی حیثیت سے زندہ رہی اس کے باوجود دوسری زبانوں سے لین دین کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ تاریخی اعتبار سے جو زبانیں ایک دوسرے کے ساتھ سفر کرتی رہیں یقینا اس سفر میں ایک زبان دوسری زبان کا اثر قبول کرتی ہے اور ہم سفر پر اپنے اثرات بھی چھوڑتی ہے۔
ماضی میں غوطہ زن ہو کر جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں تو برسوں پرانی تحریروں میں اُردو کے الفاظ وافر تعداد میں مل جاتے ہیں جو آج پہاڑی زبان اور اُردو میں مشترک ہیں۔ سیکنا (سُکھانا) ٹھنڈ(سردی) دروازہ، میوہ (پھل) چرخی ، پھرکی ، چکنا چور ،چیل ، میتھی، آٹا، چاول ، میرا ، تیرا ، کھٹا ، مٹھا (مٹھائی) وغیرہ الفاظ دورِ حاضر میں پہاڑی اور اُردو کے درمیان مشترک ہیں۔
کھڑی بولی بعض ماہرین لسانیات کے نزدیک اُردو اور ہندی کی بُنیاد ہے ۔ جو فارسی لپی میں لکھی گئی وہ اُردو کہلائی اور جو دیونا گری میں لکھی گئی وہ ہندی کہلائی ۔ کھڑی بولی اور پہاڑی زبان کا جب ہم تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو کچھ الفاظ کھڑی بولی اور پہاڑی میں مشترک ہیں۔ چونکہ کھڑی بولی میں بھی بولتے وقت ’’الف‘‘ اور ’’واو‘‘ کو گرا دیتے ہیں۔ مثلاً روٹی سے رُٹی اور سوٹی سے سُٹی ، سوکھنا سے سکھنا ، لاکھ سے لکھ ، کھانڈ سے کھنڈ ، گاڑی سے گڈی ، پہاڑی میںبھی گڈی ، تلاو ، رٹی ، سٹی ، سکھنا، ٹھنڈ ، وغیرہ ہی بولے ہیں ۔کھڑی بولی کی معروف تصنف ’’کربل کتھا‘‘ میں مستعمل یہ الفاظ مثلاً کہو ۔ لیؤ ، بخشیو ، اُجڑا ، اُداس ، سٹ ، چنگے ، ہمیش، وغیرہ مذکورہ الفاظ کی پہاڑی زبان میں اسی ہیت شکل اور آواز کے ساتھ موجود ہیں۔ اس طرح اگر ہم پہاڑی شاعری کے صوفیانہ کلام اور پرانی دکنی اُردو کو دیکھیں تو پہاڑی زبان میں اُردو کے الفاظ مِل جاتے ہیں۔ ان الفاظ کو اُردو کی پرانی شکل کہہ سکتے ہیں۔
پہاڑی زبان معرف شاعر میان محمد بخش کے چند اشعار بطور مثال ہم دیکھیں جو پرانی اُردو سے مشابہت رکھتے ہیں۔
رحمت دامینہ پا خُدا یا باغ سُکّا کر ہریا
بوٹا آس امید میری دا کردے میوے پہئریا
مٹھا میوہ بخش اجہیا قدرت دی گھت شیری
جو کھاوے روگ اُسدا جاوے دور ہووے دلگیری
بال چراغ عشق دا میرا روشن کردے سینہ
دل دے دیوے دی روشنائی جاوے بچ زمیناں
(سیف الملوک)
مذکورہ اشعار اُردو سے میل کھاتے ہیں جو اس وقت کی پہاڑی زبان ہے ۔مذکورہ اشعار پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ اُردو سے ملتے جُلتے نظر آتے ہیں لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اشعار آج کی پہاڑی ادبی زبان کے ہیں۔پروفیسر محمد رفیق بھٹی کا ایک تحقیقی مضمون ’’سیف ملوک نی بنتر‘‘شیرازہ پہاڑی میں شائع شدہ ہے جس میں انہوں نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ سیف الملوک کی زبان اسّی فیصد پہاڑی ہی ہے ۔ لیکن اُردو کی ابتدائی شکل کا نمونہ بھی ہے۔ شمالی ہندوستان کے بعض علاقہ جات اور مغربی یوپی اور اُتراکھنڈ کے کچھ علا قہ جات میں راقم کو جانے کے کئی مواقع ملے اور بعض جگہ قیام بھی کیا عوامی سطح پر قریب سے اُردو زبان کو سننے اور بولنے کا اتفاق ہوا۔ آج بھی بجنور ، نجیب آباد ، دھام پور ، روڑکی ، ہری دیوار، رشی کیش ، کلیر جیسے علاقہ جات میں بول چال کی زبان میں پہاڑی زبان کے الفاظ وافر تعداد میں مستعمل ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُردو اور پہاڑی زبان کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔
گرائمر کے اعتبار سے جب ہم دیکھتے ہیں تو بہت سارے قواعد و ضوابط اُردو اور پہاڑی میں مشترک ہیں۔ علم صرف اور علم نحو کے حوالے سے دیکھا جائے ۔ مصدر تذکرو تانیث ، حروف علّت ، اسم صفت ، فعل ماضی ، حال اور مستقبل جیسے قواعد اُردو اور پہاڑی میں ملتے جلتے ہیں۔ مثلا اسم مصدر کی علامت اُردو میں ’’نا‘‘ ہے یعنی چڑھنا ، گرنا ، آنا، جانا، کھانا، پینا وغیرہ ۔ یہ الفاظ پہاڑی زبان میں بھی اسی قاعدے پر آتے ہیں۔ مثلاً چڑھنا، ہٹنا، آنا، جانا، کھانا، پینا ،ہسنا ، کھڑنا، پڑھنا ، اُٹھنا ، بہنا ، پہاڑی میں مصادر ہی مستعمل ہیں۔
فعل حال کی گردان دونوں زبانوں میں ایک ہی اصول پر ہے

واحد غائب
جمع غائب
واحد حاضر
جمع حاضر
واحد متکلم
جمع متکلم
(اُردو)
وہ کرتا ہے
وہ کرتے ہیں
تو کرتا ہے
تم کرتے ہو
میں کرتا ہوں
ہم کرتے ہیں
(پہاڑی)
اوہ کرنا ہے
اوہ کرنے ہین
توکرنا ہیں
تُسں کرنے ہو
میں کرنا ہاں
اَس کرنے ہاں
فعل مضارع دونوں زبانوں میں ایک ہی قاعدے پر ہے۔
(اُردو)
وہ لکھے
وہ لکھیں
تو لکھ
تم لکھو
میں لکھوں
ہم لکھیں
(پہاڑی)
اوہ لکھے
اوہ لکھن
تولکھ
تُسں لکھو
میں لکھاں
اَس لکھاں
تذکر و تانیث کا قاعدہ اُردو اور پہاڑی میں قدرے مشترک ہے۔
(اُردو) مذکر مونث مذکر مونث
لڑکا لڑکی بیٹا بیٹی
(پہاڑی) گدرا گدری کہوڑا کہوڑی
اسی طرح واحد جمع میں دیکھئے۔
(اُردو) واحد جمع واحد جمع
لڑکا لڑکے بچہ بچے
(پہاڑی) گدرا گدرے کہوڑا کہوڑے
یہاں اُردو اور پہاڑی میں ’’الف‘‘اور’’ یا ئے مجہول‘‘ مشترک ہیں۔
اُردو اور پہاڑی گرائمر پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر صابر مرزا یوں رقمطراز ہیں۔ عربی ، فارسی اور اُردو حروف کے ساتھ جڑی ہوئی علامات جن سے تلفظ اور تشریح تلفظ کے ساتھ معنی کی وضاحت ہوتی ہے اُن میں سے چند علامتیں مندرجہ ذیل جو اُردو اور پہاڑی میں مستعمل ہیں۔
۱۔ علامات ِ قرأت
۱۔ زیر (۔۔ِ۔۔۔)
۲۔ زبر (فتحہ) (۔۔َ۔۔)
۳۔ پیش ضمہ (۔۔۔ُ۔۔)
۴۔ جزم مطلق (۔۔۔۔ْ)
۵۔ جزم مجہول (۔۔۔۔￿)
۶۔ تشدیہ (۔۔۔۔ّ۔۔)
۷۔ مد (۔۔۔~ـ۔۔۔)
۸۔ تنودین (۔۔۔۔ٌ)
الف مقصورہ ،الف ممدودہ ، واؤ معروف ، واؤ مجہول ، واؤ معدولہ ، واؤ اشمام، یائے معروف ،یائے مجہول وغیرہ ۔
یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے کچھ مثالیں پیش کیں ہیں گرائمر کے اعتبار سے دونوں زبانوں میں متعدد قواعد مشترک ہیں ۔ تفصیلات اکھٹاکرنا طوالت کا سبب ہے مزکورہ تصریحات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پہاڑی زبان اور اُردو زبان کا آپس میں قریبی رشتہ ہے ۔ پہاڑی پر اُردو کے اثرات موجود ہیں اور پہاڑی نے اُردو پر بھی اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پہاڑی نے اپنے طویل سفر میں جہد مسلسل سے کام لیتے ہوئے ہم عصر کے زبانوں سے استفادہ کیا وہیں اور اُن کے ذخیرہ الفاظ سے کچھ چنیدہ گواہر کو اپنے دامن میں اس طرح ضم کیا کہ وہ پہاڑی کے ہو کر رہ گئے۔
حواشی
۱۔ اُردو کی نثری داستانیں ص ۲۳ ۔۲۴
۲۔ مقدمہ تاریخ زبان اُردو جدید ایڈیش ۲۰۱۵؁ء ،ص ۲۵
۳۔ ایضاً ۲۰۱۵؁ء ص ۳۹
۴۔ یہ تحریر فیس بُک سے لی گئی ہے۔
۵۔ صوبہ جموں کے علاقائی ادب پر اُردو کے اثرات ۔ ۲۰۰۶؁ء ، ص۱۶۶

کتابیات
۱۔ اُردو کی نثری داستانیں پروفیسر گیان چند جینؔ
۲۔ اپردو زبان کی تاریخ از مرزا خلیل احمد بیگ
۳۔ اپردو کی لسانی تشکیل مرزا خلیل احمد بیگ
۴۔ مقدمہ تاریخ زبان اُردو پروفیسر مسعود حسین خان
۵۔ صوبہ جموں کے علاقائی ادب پر اُردوکے اثرات از ڈاکٹر صابر مرزا
۶۔ استا داب (انتخاب نمبر) ،شعبہ ٔ پہاڑی کلچر اکادمی جموں کشمیر

Leave a Comment