(پیدائش: 5مارچ 1940- وفات: 3مارچ 2021)
٭پروفیسرصغیر افراہیم
رشید امجد کے پہلے مجموعے ”کاغذ کی فصیل“ نے ہی اپنے قاری کو فکر و فن کی نئی لہروں کا احساس دلا دیا۔ ”بیزار آدم کے بیٹے“، ”ریت پر گرفت“، ”سہ پہر کی خزاں“اور ”دشت نظر سے آگے“ ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کا موضوعاتی دائرہ اپنے عہد کے جبر، عدم تحفظ اور بیگانگی کے حوالے سے ہے۔ انھوں نے موقع پرستی اور منافقت کو اجاگر کرتے ہوئے کربناک مسخ چہرے والی ویرانی کو مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے۔ انسانی وجود کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے عمل کے لیے رشید امجد عموماً ”وہ“ اور ”میں“ کے صیغے کو استعمال کرتے ہیں۔ تلاش کا یہ سلسلہ ایک مثلث کی شکل میں چلتا ہے۔کبھی ”وہ“ اس میکانکی دنیا میں”میں “ کو تلاش کرتا ہے اور کبھی ”میں“ ”وہ “ کو، اور کبھی دونوں خود اپنے آپ کو۔ انجام کار اس مثلث کا ماحصل محرومی کی شکل میں سامنے آتاہے جو آج کی ترقی یافتہ دنیا کا ایک کریہہ پہلو ہے، جہاں ماحول کے جبر میں فرد کی حیثیت معدوم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ رشید امجد کے افسانوں میں بیک وقت مختلف احساسات اور مختلف زمانوں سے جڑنے کا عمل بھی ملتا ہے اس کے لیے وہ تمثیل، تجرید اور علامت کا سہارا لیتے ہیں۔ ”سمندر قطرہ سمندر“، ” یاہو کی نئی تعبیر“، ” عکس تماشا عکس“، ” پہلا شہر سراب“ اور ”گمشدہ آواز کی دستک“ اس کی واضح مثال ہیں۔
”ایک عام آدمی کا خواب “وہ افسانوی مجموعہ ہے جس نے ان کو شہرت کی بلندی تک پہنچایا ہے۔ اس میں شامل سبھی افسانے موضوع اور کرافٹ کی سطح پر کیے گئے تجربات کو خاطر نشان کرتے ہیں۔ اسی عنوان سے شامل افسانہ گہری معنویت کا عکس پیش کرتا ہے ۔ رشیدامجد نے استعارات اور علامات کے سہارے اس کے تانے بانے بنے ہیں۔ برق رفتار زندگی میں ایک عام شخص کی انگلیاںاپنے اُس چینل کو تلاش کرتے ہوئے شل ہو چکی ہیں جس کا وہ متلاشی ہے ۔ اِسی طرح اُس کی آنکھیں ایک مخصوص خبر کو تلاش کرتے ہوئے پتھرا گئی ہیں۔ آغاز سے ہی اس قسم کے سوالات قائم کیے گئے ہیں جیسے تفریحی پروگرام کی بہتات میں ذہنی، قلبی اور روحانی سکون کی تلاش کیوں نہیں؟نئی نسل کو قتل و غارت گری، وحشت اور بربریت سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ کیا قدروں کا زوال ہو چکا ہے؟رواداری، محبت اور مساوات کا سبق پرانا ہو چکا ہے؟ عام آدمی یہ سوچتے ہوئے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ منظر بدلتا ہے۔ نئے منظر میں اس کی مدد کے لیے اللہ بخش موجود ہے۔ جو کام اشرف المخلوقات کو کرنے چاہئیں وہ مافوق الفطرت کردار، اللہ بخش کرنے کا تہیہ کرتا ہے۔ ’جن‘ کی شکل میں نمودار ہونے والا کردار دُنیاوی نظام کے چھوٹے چھوٹے پہلوو¿ں پر توجہ دیتا ہے۔ اصول و ضوابط پر عمل کرنے کے لیے سمجھاتا ہے، ڈراتا ہے، دھمکاتا ہے،سزائیں دیتا ہے اور ایک دن تھک ہار کر اعلان کرتا ہے کہ ”آقا! یہاں ہر چیز الٹی ہے، میں انھیں سیدھا نہیں کر سکتا۔“راوی بے بسی کے عالم میں کہتا ہے کہ اللہ بخش میرے پاس تو اب صرف خواب ہی رہ گئے ہیں، کم از کم میرے خوابوں کو ہی ٹھیک کر دو!نہیں آقا! جب خوابوں سے بھی لذت چلی جائے اور اُن میں دن کی اذیت ناکی شامل ہو جائے تو خواب بھی ذہنی روگ بن جاتے ہیں۔ راوی کے ساتھ قاری بھی سوچنے لگتا ہے کہ شاید خود پر مسلط کی ہوئی ان مصیبتوں کا کوئی حل نہیں ہے۔ کیوںکہ یہ خود ہماری پیدا کردہ ہیں۔اور اس لیے ہم ہی ان کے ذمہ دار ہیں۔رشید امجد نے راوی اور جن، خواب اور خیال کے سہارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان اگر روبوٹ بن کر رہ گیا تو رشتوں کی معنویت، اُن کا پاس و لحاظ اور مستقبل کی سمت و رفتارکیا ہوگی؟کووِڈ۹۱ کے کرب کی مکمل عکاسی کرنے والے اس افسانے کے خالق کی وفات کی خبر سخت ذہنی اذیت سے دوچار کرتی ہے۔اللہ ہمارے اِس چہیتے فنکار کی مغفرت کرے اور متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین
تحریر:پروفیسرصغیر افراہیم
سابق صدر شعبہ اردو،
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ-2
s.afraheim@yahoo.in