ڈاکٹر حنیف ترین سے گفتگو

\"184789_104997936245513_7227443_n\"
٭حقانی القاسمی،نئی دہلی
haqqanialqasmi@gmail.com
Cell : 09891726444
ایک عام آدمی سے گفتگو کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی کہ اس کی گفتگو عام انسانی زندگی سے جڑی ہوتی ہے۔ نفاق،کذب و ریا،عداوت سے پاک صاف وہ اپنی ذات سے زیادہ سماج سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کے اندر کوئی تصنع یا بناوٹ نہیں ہوتی۔ اس کی گفتگو میں کوئی ایسا فلسفہ نہیں ہوتا جو آدمی کو اندیشہ ہائے دور دراز میں الجھا کر رکھ دے مگر ایک شاعر سے بات کرتے ہوئے دقت یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنی ذات کے خول سے باہر نکالنا دشوار ہوتا ہے۔ اس کی ناآسودگیاں، محرومیاں،تمنائیں، آرزوئیں اتنی ہوتی ہیں کہ ایک نارمل ذہن ایسی گفتگو سے الجھن محسوس کرنے لگتا ہے ، اس لیے یہ طے کرنا دشوار ہوتا ہے کہ شاعروں سے کن موضوعات پر گفتگو کی جائے۔ ادب کے وہ مسائل اور مباحث، شاعری کے منظر نامے، نئے شعری رویے ان سب پر تو بحثیں ہوتی ہی رہتی ہیں تو آخر کون سا ایسا مسئلہ ہے جس سے کسی شاعر سے گفتگو کی جائے۔ میرے سامنے یہی دھرم سنکٹ تھا کہ میں ڈاکٹر حنیف ترین سے پوچھوں تو کیا پوچھوں۔ روایتی اور رسمی سوالات کرنا مجھے کبھی اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے جب ان سے گفتگو کا آغاز ہوا تو میں نے ان کی پیدائش اور خاندانی پس منظر کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا اور نہ میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کا علم و ادب کے کتنے بڑے خانوادے سے تعلق ہے۔ میرے لیے تو ان کی شخصیت صرف اور صرف شاعری کے حوالے سے تھی کہ شاعری ہی صحیح شجرۂ نسب بتاسکتی ہے۔ دوسرے تمام حوالے اس کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ میڈیکل پروفیشن سے وابستہ ہیں تو پھر شاعری کی طرف آپ کا میلان کیسے ہوا۔ ان کا جواب تھا:

شاعری میرے خون میں تھی۔ میں عہد طفلی سے ہی علامہ اقبال کا شکوہ جواب شکوہ سنایا کرتا تھا۔ میری چچی ندیم ترین کی ماں مجھ سے اکثر شکوہ جواب شکوہ سنا کرتی تھیں اور پھر میرا پورا گھرانہ ہی علم و ادب کا شوقین تھا۔ کھلونا، بیسویں صدی اور شمع جیسے رسائل میرے گھر پر آیا کرتے تھے۔ ان رسائل کی وجہ سے میرا ذہن ادب کی طرف مائل ہوا۔ میں ہائی اسکول سے ہی الٰہ آباد سے شائع ہونے والا شبخون پڑھنے لگا تھا۔ اس کی جدید نظمیں مجھے بہت متاثر کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی جدید نظمیں کہنے لگا۔ لیکن میرے ہائی اسکول کے دوست و احباب اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔

حنیف ترین کی بات جاری ہی تھی کہ میں نے ان سے اسی سے جڑا ہوا ایک اور سوال جڑدیا کہ پھر تو آپ شاعری میں آؤٹ سائڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایک آؤٹ سائڈر کی حیثیت سے ادب میں آپ کو وہ مقام مل سکتا ہے جو انسائڈر کو ملتا ہے۔ تو ان کا سیدھا سیدھا یہ جواب تھا کہ:

میں نے باضابطہ تو اردو نہیں پڑھی ہے لیکن میں جو زبان استعمال کرتا ہوں وہ میری ماں کے دامن سے ہے، گھر سے سیکھی ہے، میرے پاس زبان کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ جو لوگ اردو سے جڑے ہوئے ہیں وہ روایت سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ تو آؤٹ سائڈر ہی ہیں جو اردو کو نئے الفاظ، نئی اصطلاحات اور نئی تراکیب سے مالا مال کررہے ہیں۔ صلاح الدین پرویز ہیں انگریزی سے ایم اے تھے، ابراہیم اشک ہیں ہندی سے ایم اے ہیں۔ تنقید میں دیکھئے کلیم الدین ہیں انگریزی کے استاد تھے۔ آج کے دور کے معروف و مستند نقاد شمس الرحمن فاروقی خود انگریزی کے آدمی ہیں۔ اردو تنقید کو جس نے ایک نئی جہت اور نئے زاویے سے آشنا کیا۔ دویندر اسر وہ معاشیات کے سند یافتہ تھے۔ باقر مہدی جیسے نقاد کا تعلق بھی اقتصادیات سے تھا۔ یہ سب اردو کے لیے آؤٹ سائڈر ہیں مگر ان لوگوں نے ہی ادب کے افق کو وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔

ڈاکٹر حنیف ترین شاید اپنے ذہن پر زور ڈال کر کچھ اور نام بھی بتانا چاہ رہے تھے تو میں نے انہیں زیادہ زحمت سے بچانے کے لیے سوال کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ کئی برسوں تک سعودی عربیہ کے عرعر میں رہے ہیں اور اب ریاض میں ہیں اور وہاں انہوں نے باضابطہ ایک ادبی انجمن بزم احباب سخن کے نام سے قائم کررکھی ہے۔ جس کے تحت ادبی نششتیں اور مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ میں اس پس منظر سے اچھی طرح واقف تھا اس لیے میں نے ان سے سعودی عربیہ میں اردو کی صورتحال کے بارے میں دریافت کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔ اس سوال کو سنتے ہی وہ تصورات میں سعودی عربیہ کی سیر سیاحت کرنے لگے اور پھر انہوں نے میرے اس سوال کا یوں جواب دیا:

سعودی عربیہ میں اردو کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ وہاں اردو کے کئی اسکول کھل گئے ہیں۔ انڈین اسکول میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے۔ انٹرنیشنل اسکول ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے جو لوگ سعودی نیشنلز بن گئے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو لازمی طور پر اردو پڑھاتے ہیں۔ وہاں سے اردو کے اخبارات نکلتے ہیں، میگزین نکلتی ہے۔ وہاں کا اردو نیوز بہت مشہور ہے۔ مشاعرے ہوتے ہیں۔ پچھلے 20 سال سے میں خود وہاں مشاعرے کا اہتمام کرتا ہوں۔ سعودیہ میں ڈاکٹر نعیم حامد عرب نژاد ہیں جنہوں نے اردو میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ وہاں کے بادشاہ کا بھی اردو کے تئیں نرم گوشہ ہے۔ عربی تو خیر ا ن کی مادری زبان ہے۔ مگر انگریزی کے بعد وہ سب سے زیادہ اہمیت اردو زبان کو دیتے ہیں۔

ڈاکٹر حنیف ترین 1983 سے حکومت سعودی عربیہ میں وزارت صحت میں مختلف اسپتالوں کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔ ایک لمبا عرصہ انہوں نے وہاں گزارا ہے اور اسی لیے ان کی شاعری میں صحرا کا لفظ بہت زیادہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ ان کی پہلی کتاب 1992 میں رباب صحرا کے نام سے چھپی تھی اور دوسری کتاب صحرا 1995 میں چھپی تھی۔ تو ظاہر ہے کہ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا فطری تھا کہ آخر حنیف ترین کی شاعری میں صحرا کا استعمال اتنا کیوں ہوتا ہے۔ اس تعلق سے ان کا مختصر سا جواب یہ تھا:

میری شاعری میں صحرا کا استعاراتی استعمال اس لیے ہے کہ میری آنکھوں سے ان صحراؤں کا ایک بہت ہی گہرا رشتہ قائم ہوگیا ہے اور یہ صرف آنکھوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ میرے حواس خمسہ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے لاشعوری طور پر بھی صحرا کا استعمال میری شاعری میں زیادہ ہونے لگا ہے۔ یہ وہاں کی مقامی روایت، تہذیب کا اثر ہے جو میری شاعری میں در آیا ہے اور صرف میں ہی نہیں سعودی عربیہ کے اکثر اردو شاعروں کے یہاں صحرا نت نئی علامتوں اور استعاروں کی شکل میں نظر آئے گا۔

مجھے ایسا لگنے لگا کہ ڈاکٹر حنیف ترین شاید اب سعودی کے صحرا اور ریت ہی میں کھو جائیںگے۔ اس لیے میں نے ان کے ذہن کو دوسری طرف مبذول کرنے کے لیے یہ پوچھا کہ ہندوستان میں زیادہ اچھی شاعری ہورہی ہے یا پاکستان میں۔ تو ان کا جواب تھا:

ہندوستان میں زیادہ بہتر شاعری ہورہی ہے۔ یہاں اچھی تخلیقی ذہانتیں ہیں جو نئے نئے تجربے کررہی ہیں اور یہاں علامات، استعارات، تلمیحات اور اساطیر کا ایک پراسرار جنگل آباد ہے اور یہاں کا شاعر یہاں کے دریاؤں، پہاڑوں، مناظر اور حالات کی بہت ہی خوبصورت انداز میں تصویر کشی کرتا ہے۔

ڈاکٹر حنیف ترین کے اس جواب سے مجھے اختلاف تھا اس لیے میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ پاکستان کے کن شاعروں سے زیادہ متاثر ہیں تو حنیف ترین کے ذہن میں دو نام بے ساختہ ابھرے:

پاکستان کے احمد فراز اور نصیر احمد ناصر مجھے زیادہ پسند ہیں اور ان دونوں کی شاعری نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔

بات چونکہ شاعری کی ہورہی تھی اس لیے یہ سوال ذہن میں اٹھنا لازمی تھا کہ شاعری میں جو نئے تجربے ہورہے ہیں اس سے ہمارے تخلیق کار کیا مطمئن ہیں۔ ڈاکٹر حنیف ترین خود بھی غزل نما کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اس لیے مجھے ان سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی اور واقعتا انہوں نے بالکل وہی جواب دیا جو میرے ذہن میں شاید بہت پہلے سے موجود تھا کہ:

تجربے ہونے چاہئیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زبانیں بدلتی رہتی ہیں۔ زمانے کے اعتبار سے فنون لطیفہ میں تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں تو پھر بے چاری شاعری کا کیا قصور ہے کہ وہ تجربوں کے عمل سے نہ گزرے۔ غزل نما، آزاد غزل، ہائیکو، تریوینی، غزالہ، کہمن یہ سب تجربے اب شاعری میں ہورہے ہیں۔

تجربے کے تناظر میں ہی سوال اٹھنا فطری تھا کہ جب تجربے ہورہے ہیں تو کیا شاعری کو پذیرائی بھی مل رہی ہے یا صرف یہ بے مقصد تجربے ہیں۔ اس سوال پر حنیف ترین نے اپنی ذات کا نوحہ بیان کرنا شروع کردیا:

دوسروں کی بات تو خیر جانے دیجئے۔ میری تو بالکل پذیرائی نہیں ہوئی۔ جبکہ سب سے زیادہ احتجاج میری شاعری میں ہے۔ میری بہت ساری کتابیں منظر عام پر آئیں لیکن مجھے جتنی توقع تھی اتنی پذیرائی مجھے نہیں مل سکی۔ لیکن مجھے اس کا زیادہ افسوس نہیں ہے کہ کچھ ایسے بھی شاعر ہیں جنہیں زمانے نے بالکل فراموش کردیا یا زمانے نے داد نہیں دی۔ میں تو خوش نصیب ہوں کہ مجھے راج بہادر گوڑ نے پسند کیا، منشا یاد نے پسند کیا اور سیکڑوں لوگوں نے میری شاعری پر مضامین لکھے۔

شعر و شاعری کی اس گفتگو سے اب میرے دل کو ذرا وحشت سی ہونے لگی تھی۔ اس لیے میں چاہ رہا تھا کہ گفتگو مقطع تک پہنچ جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسی لیے میں نے مکالمہ کو کلائمیکس تک پہنچانے کے لیے ان سے آخری سوال کیا کہ کیا مارکیٹ اکانومی کا آپ کے ذہن پر بھی گہرا اثر پڑا ہے تو حنیف ترین کا جواب تھا:

اس سوال کا جواب میرا ایک شعر ہے۔
ہے مجھ سے مہنگا تمہارے بازار کا کھلونا
میں اپنی سانسوں کا دے رہا ہوں لگان اب تو

ڈاکٹر حنیف ترین سے گفتگو کا سلسلہ ختم ہوا تو میں نے راحت کی سانس لی کہ جدیدیت،مابعد جدیدیت، غزل کی ہیئت،ساختیات پر گفتگو سے زیادہ اہم موضوعی ترجیحات کا تعیین ہے۔آج کے عہد میں ان نئے انسانوں کے مسائل زیادہ اہم ہیں جن کی تقدیر ٹامس مان کے مطابق، سیاسی اصطلاحات میں لکھی جاتی ہے۔ جب سامع کا وجود ہی خطرے میں ہو تو پھر شاعری واعری کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔بہت پہلے مثنوی سحرالبیان والے میر حسن نے کہا تھا:
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل
آج کی صورتحال بھی بعینہ وہی ہے۔صارفی کلچر میں لوگوں کے پاس اتنی فرصت کہاں ۔یہ زمانہ بہت مصروفیت کا ہے، ہر آدمی بزی ہے۔ اب تو انسان کو سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی ایک بات یاد آگئی :
روٹی نے آدمی کو بہت بزی کردیا ہے۔
مجھے بھی دو وقت کی روٹی کے لیے رخت سفر باندھنا تھا، اس لیے شکریے اور معذرت کے ساتھ حنیف ترین کو خدا حافظ کہنا پڑا۔

Leave a Comment