ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ حیدر آبادسے مکالمہ

\"\"
ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ حیدر آباد کا مختصرتعارف
ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ
اسسٹنٹ پروفیسر ، عثمانیہ یو نی ورسٹی ۔ حیدر آباد
ایم اے ۔ ایم فل ۔ پی ایچ ڈی ۔ پی جی ڈپلومہ ماس کمیونیکیشن
حیدر آباد کے علمی و ادبی گھرانے سے تعلق ہے خاندان میں نوے فیصدلوگ درس و تدریس سے وابستہ ہیں تو دس فیصد قانون و عدالتوں سے جڑے ہیں ۔
تدریس اور صحافت سے گہرا رشتہ ہے ، صحافت خون میں شامل ہے تو تدریس سانس ہے ۔
چودہ برس کی عمر سے درس و تدریس سے وابستہ ہوں کچھ عرصے بعد سے لکھنا شروع کیامختلف اخباروں اور رسائل میں مضامین چھپتے رہے ، کچھ وقفے بعد ٹیلی ویژن سے وابستہ ہوگئی ، مختلف ٹی وی چینلوں میں بیک وقت نیوز کاسٹر ، پرودرام پروڈیوسر ، اسکرپٹ رائٹر ،پرمو رائٹر ، وائز اوور آرٹسٹ اور رہورٹر وغیرہ کا م کیا ۔ عظیم پریم جی فائونڈیش ویپرو اور ایس وی ٹکنا لوجی کے اشتراک سے اردو میڈیم اسکولوں کے لیے کم و بیش تین سو ایجو کیشن سی ڈیز میں بحیثیت ڈبینگ آرٹسٹ ، آن لائن ایڈیٹر اور آڈیو انچارج خدمات انجام دیں ۔
مختلف اسکولوں اور کالجوں میں بحیثیت اردو استاد خدمات انجام دیں فی الوقت جامعہ عثمانیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر برسر خدمت ہوں ۔
دو کتا بیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔
الکٹرانک میڈیا میں اردو زبان و ادب کا فروغ
خواتین کی احتجاجی شاعری

سوال ۔زبانوں کی موت کی وجوہات کیا ہیں ؟
جواب ۔۔۔زبانیں بولیوں کی اعلی شکل ہوتی ہیںجو آگے چل کر ادب کا سرمایہ کہلاتی ہیں ۔ بولیوں کوتراش خراش کر زبان کے اصول ،قواعد و ضوابط مرتب کیے جاتے ہیں ، سانچے میں ڈھالا جاتا ہے تب سرکاری اور در باری زبان کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ سرکار کی سر پرستی میں بھی کا ر آمد ادب تخلیق کروایا جاتا ہے ۔ادب پارے میں نثر ہو کہ نظم زبان کی اہمیت کو ملحوظ رکھاجاتا ہے ۔
پہلی اہم وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اور دیگر کارپوریٹ ادارے صرف انگریزی زبان کو فروغ دینے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں جو غیروں پر کرم اور اپنوں پرستم ہے ۔ریاستی اور علاقائی زبانوں کو فروغ نہ دینے اور زبانوں کو روزگار سے مربوط نہ کیے جانے کے سبب زبانیں معدوم ہوتی جارہی ہیں ۔بے شک دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے شانابشانہ چلنے کے لیے انگریزی زبان پر عبور ضروری ہے لیکن مقامی اور علاقائی زبانوں کا فروغ بھی بے حد ضروری ہے تاکہ ہماری شناخت باقی رہے ۔ ہندستان مختلف مذاہب ،رنگ و نسل اور تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے ، یہاں کے لوگ الگ الگ مادری زبان بولتے اور پڑھتے لکھتے ہیں لیکن ذریعہ تعلیم مادری زبان ہو تو روزگار کے وسائل محدود ہیں ۔سماجی اور سیا سی ارتقا ء کے لیے مختلف زبانوں پر عبور نہ سہی کم از کم واقفیت ضروری ہے ۔اگر مادری زبانوں کی بقاء نہیں تو ہم بھی ختم ہو جائیں گے ، برناڈ شاہ کا قول ہے کہ ’’ اگر کسی قوم کو ختم کرنا ہو تو اس کی مادری زبان کو ختم کردو قوم خود بخود ختم ہو جا ئے گی ‘‘ ۔
سوال۔زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے کونسا طریقہ کار استعمال کیا جانا چاہیے ؟
جواب ۔۔۔ زبانوں کی زندگی کے لیے ان کے پڑھنے ، لکھنے اور بولنے کے لزوم کو عام کیا جانا چاہیے ۔ مقامی ، علاقائی اور ریاستی زبانوں کو روزگار سے مربوط کرتے ہوئے بہ نسبت انگریزی زبان کے اپنی زبانوں کے لیے زیادہ معاوضے مقرر کیے جائیں تاکہ لوگ زبانوں کے متعلق عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں ۔ مطالعے سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ جاپان جیسے ترقی پذیر ملک میں کمپیوٹر کا ایک بٹن بھی مادری زبان مین ہوتا ہے اور انگریزی زبان کو ثانوی درجہ حاصل ہے جب کہ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ۔ وزیر تعلیم کو چاہیے کہ علاقائی اور ملکی زبانوں کی بقاء ، تحفظ اور ترقی پر خصوصی توجہ دے ۔ آج جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو نئی نسل علاقائی ، مادری و ملکی زبانیں بولتی تو ضرور ہیں لیکن پڑھنے لکھنے سے قاصر ہیں ۔ ہر فرد کو چاہیے کہ ملک کے ساتھ ساتھ اپنی زبانوں سے بھی محبت کرے اس کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کریں ۔
سوال۔ زبان کا تہذیب و ثقافت سے کیسا رشتہ ہے ؟
جواب ۔۔۔ زبانیں تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتی ہیں ۔ جدید معاشرے کی تشکیل اور نشو نما میں زبان و ادب ،تہذیب و ثقافت نے اہم کردار نبھایا ہے ۔ ماہرین سماجیا ت نے ثقافت کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے ۔ مثلا ، رسم و رواج ، روایات ، امن و جنگ کے زمانے میں انفرادی اور اجتماعی رویے ، دوسروں سے اکتساب کیے ہوئے طریقہ کار ، تاریخ ، سائنس مذہب ، اخلاقیات ، قانون عادات ،خصلیتیں ، صلاحیتوں اور فنون کا وہ مجموعہ ثقافت کہلاتا ہے جو نہ صرف ماضی کا ورثہ ہے بلکہ مستقبل کا تجربہ بھی ہوتا ہے ۔
ثقافت اپنے وجود اور بقاء کے لیے زبانوں پر انحصار کرتی ہے کیوں کہ زبانیں ہی ثقافت کی زندگی اور اپنی تاریخ کے اظہار کاواحد ذریعہ ہوتی ہیں گویا ثقافت اور زبانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے ۔ ثقافت اپنی تاریخ ، تہذیب اور چھاپ چھوڑ جاتی ہے جس کے بیاں کے لیے زبانیں اپنا وجود منواتی ہیں ۔
سوال ۔۔۔ کیا زبانوں کی موت سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے ؟
جواب ۔۔۔بے شک جب زبانیں ہی فوت ہوجائیں گی تو انسانی وراثت کا تحفظ کیسے ممکن ہوگا گویا زبانوں کی موت کے بعد انسانی وراثت ’’ اندھوں کے شہر میں آئینے فروخت ‘‘کرنے کے مترادف ہوگی ۔ قدیم تہذیبوں اور قوموں کو سمجھنے کے لیے ادب اور تاریخ ہی واحد ذریعہ ہوتا ہے ، اگر زبانوں کی موت ہوجائے یعنی کوئی زبانوں کو سمجھنے ، پڑھنے اور لکھنے والا نہ ہوتو قومیں اورتہذیبیں بھی قصہ ء ماضی بن کر رہ جائیں گی ۔
سوال ۔ کیا کسی زبان میںخواندگی ، سائنسی ، سماجی مواد کی کمی کی سے زبان پر منفی اثرات پڑتے ہیں ؟
جواب ۔۔۔ بلا شبہ سائنسی یا سماجی مواد کی کمی کے سبب زبان پر نہ صرف منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ زبان ناخواندگی کے حصار میں مقید رہ جاتی ہے اور دوسری زبانوں میں موجود مواد سے اپنی کمی کو پورا کرتی ہے جس کے سبب خود اپنی شناخت کھو دیتی ہے ۔ اسی لیے زبان میں مواد وافر مقدار میں موجود ہو اور سرمایہ الفاظ کا ذخیرہ وسیع ہو ۔ خاص طور پر اردو زبان میں تو مواد کی کمی ہی نہیں قوت جاذبیت کے ساتھ ساتھ اس زبان کا کینوس اس قدر وسیع ہے کہ سائنسی اور تکنیکی الفاظ بھی اس زبان میں جذب ہوکر خود اپنا رنگ اختیار کرلیتے ہیں ۔
سوال ۔ موجودہ حالات میں اردو زبان کو کس طرح کے خطرات لاحق ہیں ؟
جواب ۔۔۔ موجودہ دور میں اردو زبان سنگین صورت حال سے نبرد آزماہے ۔اول تو اردو اپنی شناخت کھورہی ہے ۔ہندوستان کی کثیر آبادی اردو بولتی ضرور ہے لیکن پڑھنا لکھنا نہیں جانتی، زبانیں تو وہی مستند مانی جاتی ہیں جو بولنے کے ساتھ پڑھی اور لکھی جائیں ۔ ستم یہ کہ اردو زبان پر ہندی کا ملمع توچڑھا دیا جاتا ہے لیکن قلعی کھل ہی جاتی ہے ۔ فلم انڈسٹری کی جب بات کرتے ہیں تو کوئی نغمہ یا کوئی مکا لمہ اردو کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، ٹیلی ویژن کا کوئی ڈرامہ یا ایڈورٹائزمنٹ اردو کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس کے باوجود بھی اسے ہندی کہا جاتا ہے جو تنگ نظری اور لسانی تعصب کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
اردو والے خود اردو کے نہیں ـ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘ تقریبا 35، 40 سال سے کم عمر لوگ اردو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے گویا نئی نسل اردو زبان سے بے بہرہ ہے ۔نوجوان نسل میں صرف حلقہ ء اردو سے تعلق رکھنے والے ہی اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں لیکن ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو ہلکی پھلکی اردو لکھنے سے بھی قاصر ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں روز بہ روز اردو طلباء کی گھٹتی تعداد کے سبب سرکار اردو تعلیمی اداروں کو یا تو ختم کر رہی ہے یا ضم کر رہی ہے ۔ حق بات تو یہی ہے کہ اردو زبان کے زوال کے ہم خود ذمہ دار ہیں ، آخر سرکار کے رحم و کرم پر یہ زبان کب تک زندہ رہے گی ؟۔عہد رفتہ میں ہندوستان میں راج کرنے والی اردو زبان آج سارے ملک میں ترسیلی زبان کا درجہ رکھنے کے باوجود بھی مفقود ہوتی جارہی ہے ، بول چال کی حد تک ہی محدود ہو چکی ہے ، ایسے میں اگر ہم والدین اور طلباء کو سرکاری طور پر ایک زبان اردو پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں تو وہ یہ عذر کرتے ہوئے اردو پڑھنے سے انکار کردیتے ہیں کہ ’’ اردو تو گھر میں بولی جاتی ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں ‘‘ ۔ تعلیمی ادارے بھی اردو زبان کے تحفظ میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ میں 14برس کی عمر سے تدریسی خدمات انجام دے رہی ہوں ۔شہر حیدر آباد کے تقریبا تعلیمی اداروں کا دوہ کر چکی ہوں جہا ہر جماعت میں بلا لحاظ مذہب و ملت بحیثیت سرکاری زبان اول یا دوم ہندی پڑھنے والے طلباء کی تعداد کم از کم 40تا 50، 55 ہوتی ہے تو اردو پڑھنے والے طلباء کی تعداد با مشکل 5تا7یا 8،10سے زائد نہیں ہوتی ۔
تھا عرش پہ ایک روز دماغ اردو
پامال خزاں آج ہے باغ اردو
غفلت تو زرا قوم کی دیکھو کاظم
وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغ اردو
سوال ۔ کیا اردو کا چہرا مسخ ہورہا ہے ؟ کیا اردو کی شکل بگڑ رہی ہے ؟
جواب ۔۔۔ اردو زبان پر چاہے جتنے بھی مکھوٹھے لگائیں ،چاشنی اور شیرینی اس کا خاصہ ہے ، اس کی اپنی انفرادیت مسلمہ ہے ۔ اردو رسم الخط پر دسترس نہ ہونے کے سبب سوشل میڈیا میں نئی نسل رومن انگریزی میں اردو تحریر کر رہی ہے جس سے ایک طرف اردو رومن انگریزی میں فروغ پارہی ہے تو دوسری طرف اس کی شکل مسخ ہورہی ہے ۔ میں نے ایسے بھی نام نہاد اساتذہ کو دیکھا ہے جو ریاستی اور قومی سطح پر بحیثیت اردو استاد کام کر رہے ہیں لیکن ایک پیراگراف بھی اردو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ۔ اردو کی شکل اس وقت بھی مسخ ہوتی نظر آتی ہے جب زبان پر بولی حاوی ہوجائے ، کیوں کہ یہ ریختہ کا دور نہیں، اردو کو بنتے بگڑتے ، سنورتے زمانے بیت گئے لیکن اس کے شباب میں شراب کی کمی نہیں ، آج بھی اردو ایک کمسن الھڑ دوشیزہ نظر آتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو پڑھنے لکھنے کا چلن عام کیا جائے ، نئی نسل میں اردو سے رغبت پیدا کی جائے ۔
سوال ۔اردو کا مستقبل کیا ہے ؟
جواب ۔۔۔ اردو کا مستقبل روشن بھی ہے تاریک بھی ۔ روشن اس لیے کہ آج اردو کسی ترقی یافتہ زبان سے پیچھے نہیں نہ صرف ابلاغ عامہ کی ترقی میں نمایاں کردار نبھارہی ہے بلکہ ترسیل و ابلاغ میں دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے ہمراہ حیات جادوانی کا ثبوت دے رہی ہے ۔
اردو دو طبقوں میں منقسم ہو چکی ہے ایک طرف وہ طبقہ ہے جو اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترویج و اشاعت کے لیے جی جان سے جٹا ہے ، دامے درمے قدمے سخنے اردو زبان کی بقاء ، ترویج و ترقی میں مصروف ہے تو دوسرا طبقہ وہ ہے جو آئے دن اردو زبان کو نہ قابل تلافی نقصان پہنچارہا ہے ۔ خاص طور پر اردو پروفیسر ، اساتذہ اور اردو صحافی اردو کے سب سے بڑے دشمن ہیں جو ساری زندگی اردو کے ٹکڑوں پر پلتے رہے ، اردو کے صدقے اور طفیل ساری زندگی ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزاری لیکن اپنے بچوں کوتک اردو زبان نہیں سکھائی ، نہ ہی سرکاری طور پر ایک زبان اردو پڑھائی اور نہ ایسے شاگرد تیار کیے جو اردو زبان کی ترویج و ترقی اور بقاء کے لیے کام کریں۔ اس طبقے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اردو کے نام پر کفن بھی بیچ کھاتے ہیں ۔
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو جب اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہم راہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشا
یہ فال ہر ایک دفتر منظوم سے نکلے
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہے مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیس اس کا لکھیں مرثیۂ غم
جنت سے دبیر آکے پڑھیں نوحۂ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کردے
پہلے کوئی سرسید اعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزادؔ و نذیر ؔ و شرر ؔ و شبلی ؔ و حالی ؔ
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
سوال۔ زبان کی سطح پر جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس کو رو کنے کے لیے کونسی ترکیبیں استعمال کی جاسکتی ہیں ؟
جواب ۔۔۔ سب سے پہلے گھروں میں اردو رسائل اور اخبار منگوائے جائیں ، نئی نسل میں اردو پڑھنے لکھنے کا ذوق پیدا کیا جائے ۔ لغات سے استفادے کی عادت ڈالی جائے تاکہ اردو پڑھنے والا صحیح تلفظ اداکرے ۔ تعلیمی اداروں میں مشاق اردو اساتذہ کا تقرر عمل میں لا یا جائے تاکہ تدریس کے ساتھ ساتھ طلباء کی زبان و بیان اور املا و انشاء پر بھی خصوصی توجہ دیں۔ سوشل میڈیاضرورت کی حد تک استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے اساتذہ کے مضامین ، ناول ، افسانے اور شاعری وغیرہ کے مطالعہ پر ذور دیا جائے تاکہ زبان دانی کا شعور حاصل ہو اس عمل سے ممکن ہے آگے چل کر مہارت بھی حاصل ہو جائے ۔ ہم نے بھی تو یہی سب کچھ کیا ہے ۔
سوال۔ کیا اردو کے ادارے زبان سے زیادہ ادب پر توجہ دے رہے ہیں اور زبان سے متعلق کتا بوں کی اشاعت رک سی گئی ہے ؟
جواب ۔۔۔ جہاں تک میرا تجربہ ہے زبان پر لکھنے والوں کی تعداد کم ہے ۔ تحقیق اور تنقید مشکل اور روکھے سوکھے مضامین ہونے کے سبب لکھنے والوں کی اکثریت ادب کو پسند کرتی ہے ۔ ایسے ادارے بھی کم ہی ہیں جو زبان کی اہمیت کو مدّ نظر رکھ کر کتابوں کی اشاعت عمل میں لا ئیں لیکن ہمارے یہاں اردو کا سب سے بڑا ادارہ قومی کونسل ہے جس نے مقدار کا نہیں معیار کا خیال رکھا ہے اور ضروری کتابوں کی اشاعت و امداد پر بھی خصوصی توجہ دیتا رہا۔ قومی کونسل سے امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ آگے ادب کے علاوہ زبان پر کتابوں کی اشاعت پر زیادہ توجہ دے گا۔
سوال۔ کیا کلاسکیت جدیدیت وغیرہ پر گفتگو سے زبان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟
جواب ۔۔۔ ادب کے طالب علم کے لیے کلا سکیت اور جدیدیت کے فرق ، معنی و مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے ۔ کوئی بھی مشاق اس وقت تک ماہر زبان یا اہل زبان نہیں کہلاتا جب تک کہ وہ کلاسکیت کے ساتھ ساتھ جدیدیت پر بھی عبور رکھے ۔عہد جدید سے قبل کے علمی و ادبی شہ پارے جو ادب عالیہ میں شمار کیے جاتے ہوں اور جس میں زبان و بیان کی پابندیوں ، صرف نحو ، لطافت و شیرینی پر توازن بر قرار رکھا گیا ہو، آج عرصے گزرنے کے بعد بھی مستند کہلاتے ہوں کلا سکیت کہا جاتا ہے جب کہ جدیدیت علم معانیٰ اور علم بیان پر زور دیتی ہے نیز جدت پسندی ، بیانیہ ، اعلیٰ بیانیہ ، توضیح و تشریح ، استعارے و انتخابی عمل کے ساتھ فن پارے کی روح میں اتر نے کی کوشش کرتی ہے ۔ کلاسکیت پر گفتگو سے میر ؔ، غالبؔ کی زبان کے اعلی اقداروں سے روشناس ہوتے ہیں تو جدیدیت پر گفتگو سے سر سید احمد خاں،حالی ؔ ، شبلی ؔ اور محمد حسین آزاد ؔ وغیرہ کی زبان و اسلوب سے اردو زبان کے اصول ، قواعد و ضوابط ، صرف و نحو ، فصاحت و بلاغت سے زبان کی ساخت کو نکھارا اور سنوارا جاسکتا ہے ۔
سوال ۔ آپ کے علاقے میں کتنے اردو میڈیم اسکول ہیں اور ان میں اساتذہ کی کتنی تعداد ہے ؟
جواب۔۔۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ شہر حیدرآباد میں 60 70,سے زائد اردو میڈیم اسکول ہیں۔ جس وقت میں تلنگانہ ٹی وی چینل میں برسرخدمت تھی اردو کی زبوں حالی پر ایک خصوصی پروگرام تیار کیا تھا اسی ضمن میں ، میں نے شہر کے مشہور اردو میڈیم اسکولوں کا دورہ کیا اور اردو کی موجودہ صورت حال کاجائزہ لیا ، ان میں قابل ذکر نام حسینی علم گلز ہائی اسکول ، فوقانیہ ذکور گورنمٹ ہائی اسکول ، چنچل گوڑہ ہائی اسکول ، اشرف المدارس ہائی اسکول نورخاں بازار گلز ہائی اسکول ، یاقوۃ پورہ گورنمنٹ ہائی اسکول ، دبیر پورہ گورنمنٹ ہائی اسکول ، پیٹلہ برج گورنمنٹ ہائی اسکول ، نام پلی گلز ہائی اسکول ، محبوبیہ ہائی اسکول ، کرماگوڑہ گورنمنٹ اردو میڈیم ہائی اسکول وغیرہ کے ہیں ۔
تمام اسکولوں میںچند کو چھوڑ کر سب میں اردو طلباء کی تعداد گھٹ رہی ہے جس کے سبب کئی اردو میڈیم اسکولوں کو ضم کیا جاچکا ہے ۔ تحتا نیہ ، وسطانیہ اور فوقانیہ سطح پر اردو ،سائنس ، سماجی علم ، ریاضی کے اساتذہ برسر خدمت ہیں ۔ اردو میڈیم کالجوں کو بھی ضم یا ختم کیا جارہا ہے ۔
میری آنکھوںکے سامنے حال ہی میں اردو اور ینٹل کا لج حمایت نگر، اردو آرٹس ایویننگ کالج ، اردو ماڈل اسکول جو ایڈڈ تھے برخواست کیے جا چکے ہیںاور وہاں کے اساتذہ کو کہیں اور منتقل کیا جا چکا ہے ۔ 1956ء کے بعد وجود میںآئی عوامی تحریک کے علم بردار پروفیسر حبیب الرحمن صاحب ، کمیونیسٹ لیڈر و انقلابی شاعر مخدوم محی الدین ، پروفیسر حسینی شاہد ، پروفیسر نظام الدین ،پروفیسر عالم خوند میری ، ڈاکٹر سید محمد ، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ، ڈاکٹر منو ہر راج سکسینہ ، ڈاکٹر بھاسکر راج سکسینہ ، محترمہ اندرا دھن راج گیر صاحبہ وغیرہ کی خدمات ، قربانیوں اور عرق ریزیوں کو یکسر فراموش کرتے ہوئے تاریخی ، تہذیبی و ثقافتی ، ایثار و قربانی کے شہرگہوارۂ اردو حیدر آباد سے اردو تعلیمی اداروں کے خاتمے کا ایک لا متنا ہی سلسلہ چل پڑا ہے ان ہی دنوں چنچل گوڑہ اردو میڈیم ڈگری کالج بھی برخواست کر دیا گیا ایک کے بعد دیگرے اردو تعلیمی ادارے نشانے پر ہیں ۔حکومت تو گھات لگائے بیٹھی ہی تھی کہ اب چمن اجاڑیں کہ تب چمن اجاڑیں ۔
اہم ذمہ دار میں ان نام نہاد اردو شخصیتوں کو مانتی ہوں جنہوں نے اردو کو انا کی بھینٹ چڑھا دیا اور دوسری طرف وہ اساتذہ ہیں جنہوں نے اردو دشمنی کی بدسے بد ترین مثالیں قائم کیں ، سفارشات کی بنیاد پر اردو تعلیمی اداروں میں ملازمت حاصل کی لیکن اردو کے تئیں نہ ہی مخلص رہے اور نہ ہی وفادار انہوں نے نہ ہی حق تعلیم ادا کیا اور نہ ہی اردو طلباء کی تعداد بڑھانے میں فعال رہے ۔ صد افسوس کہ جامعہ عثمانیہ جو باقاعدہ اردو کی اولین یو نی ورسٹی ہے یہاں کے نام نہاد اساتذہ نے بھی اردو کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کثر باقی نہ رکھی ۔جامعہ عثمانیہ کے مایہ ناز سپتوں بابائے اردو اور بابائے دکنیات کے عہد تک یہ رواج تھا کہ اساتذہ اپنی زندگی ہی میںشاگردوں کی ٹیم تیار کرتے ان کی پوشیدہ صلاحیتو ں کو اجاگر کیا جاتا ،انہیں علمی و ادبی جوہروں سے مزین کیا جاتا،ان میں تنظیمی صلاحیتیں پیدا کی جاتیں ،طلباء کی شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ،ان کی روح کی تربیت کی جاتی بڑی ہی عرق ریزیوں کے بعدتب کہیں جاکر ایسے شاگرد تیار ہو پاتے جو آگے چل کر جامعہ عثمانیہ شعبہء اردو کی باگ ڈور سنبھالتے اور شعبے کو نہ صرف فعال رکھتے بلکہ اپنے اساتذہ کی میراث کا تحفظ پوری دیانت داری اور ایمانداری کے ساتھ کرتے لیکن جامعہ عثمانیہ کے بد دیانت ، حریص اور مفاد پرست اساتذہ نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطراس نظریہ کو فروغ دیا کہ کوئی بھی شاگرد شعبہ سنبھالنے کے قابل نہ رہے ، شعبہ ان ہی پر ختم ہوجائے ، سبکدوشی کے بعد بھی وہی برسرخدمت رہیں۔شاگرد وں کی تربیت تو دور کی بات ان کی جڑیںکاٹ دیں ، ان کے مستقبل کو گھور اندھیاروں میں ڈھکیل دیا ۔
بر باد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کا فی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
شہر حیدر آباد کی چار اہم یو نی ورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم اردو کی باقاعدہ اولین یونی ورسٹی جامعہ عثمانیہ ، سنٹرل یو نی ورسٹی آف حیدر آباد ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونی ورسٹی ہے جہاں اردو کے شعبے قائم ہیں اس کے علاوہ مکمل اردو کی یو نی ورسٹی مولانا آزاد نیشنل اردو یو نی ورسٹی بھی قائم کی گئی ہے لیکن یہاں بھی غیر اردوداں طبقے کا غلبہ اور اقربا پروری و قبیلہ پر وری کا رواج ہے۔
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے
حیدر آباد کی اردو دنیا میں ایک خوشگوار موڑ تشکیل تلنگانہ کے بعد آیا ۔ حکومت تلنگانہ نے اردو زبان کی ترویج و ترقی اور بقاء کے لیے منظم اقدامات اٹھاتے ہوئے ریاست تلنگانہ میں کم و بیش 906ریسی ڈینشیل اسکول ، 12ریسی ڈینشیل جونیر کالجس اور 53ڈگری کالجس قائم کیے نیز 31 اضلاع میں 204اقلیتی اقامتی اداروں کا قیام عمل میں لا یا ۔ ہر سال ان تعلیمی اداروں سے ایک لاکھ سے زائد اقلیتی طلبا فارغ التحصیل ہو تے ہیں ۔ اقلیتی تعلیمی اداروں میں بحیثیت زبان اول اردو زبان لا زمی قرار دی گئی ہے لیکن اضلاع میں بحیثیت زبان دوم ہی پڑھائی جارہی ہے ، وجہ یہاں کے اساتذہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اضلاع کے طلباء کے لیے اردو مشکل ہے ۔ حکومت نے یہاں اردو کے ساتھ نہ انصافی کی ہے کہ ریاست تلنگانہ میں اردو زبان کو سرکاری طور پر بحیثیت زبان دوم تسلیم کیے جانے کے باوجود بھی تمام اقامتی اداروں میں اردو کو لازمی قرار نہ دیا ،غیر مسلم طلباء زبان اول یا دوم تلگو یا ہندی پڑھتے ہیں ۔ بقول منور راناؔ
یاران ِ خوش مذاق نے اللہ کی پناہ
اردو کو بے قصور مسلمان کردیا
ٓآج پریم چند ، کرشن چند، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پنڈت دیا شنکر نسیم ، پنڈت رام پرساد بسمل، پنڈت برج نارائن چکبست ، پروفیسرگیان چند جین ، پروفیسر گوپی چند نارنگ، بلراج منیرا ، راما نند ساگر ، امریتا پریتم ، فراق گورکھ پوری ، بلراج کومل ، راجندر سنگھ بیدی ، عرش ملیسانی ،منشی نول کشور، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ جیسے اردو کے بے شمار ادیب و شاعر یاد آتے ہیں جنہوں نے اردو زبان کی خون جگر سے آبیاری کی ۔ اب رہا سوال اردو اساتذہ کی تعداد کا تو حکومت نے ہر اسکول میںحسب ضرورت اردو ٹیچر کی اسامیاں پر کردی ہیں ، جونیئر اور ڈگری کالجس میں بھی اردو اساتذہ کا تقرر کیا جا چکا ہے لیکن المیہ یہ کہ جامعہ عثمانیہ میں عرصے دراز سے تقررات برف دان کی نذر کیے جاچکے ہیں ایک طویل مدت سے اردو اساتذہ کنٹراکٹ یا جزوقتی طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
سوال ۔ آپ کے علاقے میں کتنی لائبریریاں ہیں اور وہاں کونسے اخبارات اور رسائل آتے ہیں ؟
جواب۔۔۔ یوں تو شہر حیدر آباد میں بے شمار لائبریریاں ہیں لیکن چند اہم لائبریریوں کا ذکر کرتی چلوں ۔سالار جنگ میوزیم ریسرچ لائبریری ، ھادیٔ دکن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، مولانا ابوالکام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، اسٹیٹ سنٹرل لائبریری ، سٹی سنٹرل لائبریری ، نظام ٹرسٹ لائبریری ، ادارہ ادبیات اردو لائبریری ، چو محلہ پیا لس لائبریری ، اردوہال لائبریری ، اردو اکیڈیمی لائبریری ، اردو گھر لائبریری ، مسجد عالیہ گن فاؤنڈری لائبریری ، اے سی گارڈ لا ئبریری ، علامہ اقبال لائبریری کے علاوہ یو نی ورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں جہاں کہیں بھی اردو شعبے قائم ہیں لائبریریوں کا لزوم ہے لیکن آج یہ بات انتہائی غمگین ہو کر کہتی ہوں کہ سرکاری ملازمین اور اردو داں طبقے کی کوتاہی ، تساہلی اور غیر ذمہ داری کے سبب تقریبا کتب خانوں میںنادر و نایاب اور کمیاب کتابیں،مخطوطات نیست و نابود ہوچکے ہیں ہو رہے ہیں ۔
حیراں ہوں،دل کوروؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہوتو ساتھ رکھوں نو حہ گر کو میں
حیدر آباد کے کتب خانوں میں بہت سے اخبار و رسائل منگوائے جاتے ہیں جن مین قابل ذکر نام ہیں ۔
انقلاب ممبئی ،دلی ، ہند سماچار، روزنامہ راشٹریہ سہارا ، روزگار سماچار ، اردو ٹائمز ، قومی آواز، اودھ نامہ ، اخبار مشرق ، اردو نیٹ ، تاثیر، سیاسی تقدیر، سالار ہند، رابطہ تائمز، ملاپ ، دور جدید ، اورنگ آباد ٹائمز ، ڈیلی ہندوستان ، سیا سی افق ، تیسری دنیا ، نشیمن ، ملت ، اردو دنیاوغیرہ اور رسائل میں ،اردو دنیا ،خواتین دنیا ، فکر و تحقیق، آج کل ، اردو چینل ، الحسنات ، اردو معلم ، افکار ملی ، بچوں کی دنیا ، ایوان اردو ، بیسویں صدی ، پیراہن ، تحریر نو ، تہذیب الاخلاق ، خاتون مشرق ، اسپین ، ہماری آواز، زبان و ادب ، آب و گل ، اردو ادب ، جہان غالب وغیرہ ۔
سوال۔ آپ کے علاقے میںکتنی اردو تنظیمیں ، ادارے اور انجمنیں ہیں اور وہ کس نہج پر اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں ؟
جواب۔۔۔ اس سوال کا جواب میں بڑے ہی درد کے ساتھ دے رہی ہوں ۔ یوں تو شہر حیدرآباد میں درجنوں تنظیمیں ، انجمنیں اور ادارے ہیں لیکن چند ہی فعال ہیں جو مقصد کے تحت کام کررہے ہیں ۔ تقریبا تنظیموں ، انجمنوں اور اداروں کا قیام ہی اس لیے عمل میں لایا جارہا ہے کہ آمدنی کا کوئی ذریعہ ہو جائے،اردو کی خدمت کے نام پر مالی امداد جاری ہو اور منتظم ان پیسوں سے اپنی ذاتی ضروریات پوری کر لیں ۔ اردو سمینار ، مشاعروں اور علمی و ادبی سرگرمیوں کے نام پر فنڈز حاصل کرلیں ، اسٹیج پر ایک دوسرے کو پھول مالا پہنائیں ، واہ واہی کریں ، ہوٹل میں بریانی اڑائیں اور اخباروں میں بڑھا چڑھا کر نیوز چھپوائی جائے ۔ آجکل اساتذہ، صحافیوں سے لے کر زلف تراش بھی صرف مالی امداد کے لیے ، تنظیمیں ، انجمنیں اور ادارے قائم کر رہے ہیں تاکہ اپنی اپنی دکانیں چلائی جائیں ، گویا اب تو لگتا ہے کہ اردو کے تئیں کوئی بھی دیانت دار نہیں، سستی شہرت ، ایک دوسرے پر سبقت لے جانا اور ایک دوسرے سے خود کو بڑا ثابت کر نا ہی ان کا نصب العین بن چکا ہے ۔ اردو کی بقاء ، ترویج و ترقی اور خدمات کے لیے اردو تنظیموں ، انجمنوں اور اداروں سے مدد کی امیدمری نظر میں خام خیالی ہے ، ہماری نادانی ہے ۔ میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ بجائے ان کے، اردو کے تئیں مخلص ، دیانت دار لوگوں کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور فرد واحد کو ذمہ داریاں سونپی جائیں، ان سے کام لیا جائے ان شاء اللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے ورنہ ۔۔۔
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس ضمن میں ، میں شیخ عقیل احمد ڈائرکٹر قومی کونسل کے اس اقدام کی ستائش کرتی ہوں کہ انہوں نے ایسی نام نہاد تنظیموں اور انجمنوں کے لیے مالی تعاون کی امداد نہ منظور کردی ۔
سوال ۔ آپ کے علاقے میں اردو سے جڑی ہوئی کتنی شخصیات ہیں جن کی خدمات کا اعتراف علاقائی یا قومی سطح پر نہیں کیا گیا ؟
جواب۔۔۔ ایسی بہت سی شخصیات ہیں جو گوشہء گمنامی میں رہ کر اردو کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں اور اردو کی بقاء کے لیے ہر وقت دامے درمے قدمے سخنے تیار رہتی ہیں لیکن آج تک ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا کیوں کہ خدمات کا اعتراف یا ایوارڈز تو اکثر سفارشات ، دست بوسی و پا بوسی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں اس معاملے میں بھی قبیلہ پروری اور اقربا پر وری کا رواج ہے ۔
سوال۔ آپ مقامی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کیا کوششیں کر رہے ہیں ؟
جواب۔۔۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اردو میری مادری زبان نہیں بلکہ ماں ہے ۔ چوڑی ، کجرا ، کنگن ، جھمکا ، بندیا ، گہنا اردو ہی ہے لیکن یہ کسی سے مت کہنا ورنہ حیدر آباد کا نام نہاد ادبی حلقہ میرے کاموں میں روڑے اٹکائے گا ، رخنے ڈالے گا ، سبو تاژ کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرے گا۔ مجھے اردو کا خاموش خدمات گار ہی رہنے دیں۔ ادارہ قومی کونسل سے یہ امید رکھتی ہوں کہ جب کبھی میں اردو کے فروغ کے لیے کام پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ کام کرتی ہوں تو مجھ سے مکمل تعاون کیا جائے گا ۔
سوال ۔ آپ کے ذہن میں فروغ اردو کے لیے کیا تجاویز اور مشورے ہیں ؟
جواب ۔۔۔ یہی کہ اول تو کسی بھی تنظیم کے بناء فرد واحد سے کام لیا جائے ۔ اردو پڑھی جائے ، لکھی جائے اور بولی جائے ۔ اردو کواس کی
شناخت واپس کی جائے ۔ آج اردو عوامی اور ترسیلی زبان ہونے کے باوجود بھی اس پر ہندی کا لیبل چسپا کراسے اپنی ہی شناخت سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ مجھے کسی زبان سے تعصب نہیں ہندوستان کی تمام زبانیں میری ہیں لیکن جب اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے تو میں کچھ کہنے پر مجبور ہوں ۔ ساری فلم انڈسٹری اردو کے کاندھوں پر ٹکی ہے ، اس کے باوجود بھی وہ ہندی فلمیں ہی کہلاتی ہیں ۔سب سے پہلے ہمیں اس بے انصافی کو ختم کرنا ہوگا ، اردو پر چڑھے مذہبی چشمے کو اتار کر عوامی رنگ دینا ہوگا ۔ والدین کو چاہیے کہ سر کاری طور پر ایک مضمون اردو ضرور پڑھائیں ۔ ہر گھر میں اردو رسائل ، اخبار اور کتابیں منگوائی جائیں،کم از کم ایک گھنٹہ مطالعے کی عادت ڈالی جائے وغیرہ ۔
سوال ۔ اردو رسم الخط کی بقاء کے لیے کیا کوششیں کی جاسکتی ہیں ؟
جواب۔۔۔اردو رسم الخط کی بقاء کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ بچہ بچہ اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھ جائے ۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اکثر لوگ سوشل میڈیا میں اردو رسم الخط کے بجائے رومن انگریزی میں اردو لکھ رہے ہیں ، ایسے لوگ یا تو اردو رسم الخط نہیں جانتے یا پھر اردو کی بورڈ کے استعمال سے واقف نہیں ایسے لوگوں کے لیے خصوصی تربیتی کلاسس کا اہتمام کیا جائے ۔
خاص طور پر اردو میڈیم میں پڑھنے والے طلبا ء یا جوطلبا ء بحیثیت زبان دوم یا اول اردو پڑھ رہے ہیں انہیں اردو کی جدید ٹکنالوجی سے روش ناس کروایا جائے اور جدید ذرائع ابلاغ میںاردو رسم الخط کی خصوصی تربیت دی جائے ۔
سوال ۔ دوسری علاقائی زبانوں میں اردو کے فروغ کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟
جواب ۔۔۔ اردو کا جتنا بھی علمی و ادبی سر مایہ ہے اسے علاقائی زبانوں میں منتقل کیا جانا چاہیے ۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے اگر پروفیشنل متر جموں کے معاوضے کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو مصنفوں کو چاہیے کہ وسیع القلبی سے کام لیتے ہوئے تاریخ ادب اردو کو ،ایسے اشخاص جو اردو اور دیگر علاقائی زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں ان سے اس شر ط پر ترجمے کا کام لیں کہ وہ اپنی تخلیقات خود ان ہی کے نام سے منسوب کر نے اور شائع کر نے کی اجازت دیتے ہیں ۔ اس عمل سے دیگر علاقائی زبانوں میں اردو زبان و ادب کا بیش بہا سرمایہ محفوظ ہوجائے گا ۔
سوال ۔۔۔ کیا آپ کے اہل خانہ اردو زبان لکھنا ، پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں؟
جواب ۔۔۔ الحمد للہ بلا شبہ میرا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے اور تقریبا سبھی اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں ۔
سوال۔ آپ کے بعد کیا آپ کے گھر میں اردو زندہ رہے گی ؟
جواب ۔۔۔ انشاء اللہ غائب کا علم کوئی نہیں جانتا لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ زندہ رہے گی کیوں کہ صدیوں سے اس زبان کے خاتمے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اردو زبان اتنی ہی نکھر تی جارہی ہے ۔ اس کا حسن مزید دوبالا ہوتا جارہا ہے ۔ آج بھی یہ سولا سالہ الھڑ دوشیزہ نظر آتی ہے ۔ آج کے سائنس اینڈ تکنا لوجی کے دور میں بھی اردو نے عالم شباب کا ثبوت اس طرح دیا کہ ’’ الکٹرانک میڈیا نے اردو کو فروغ نہیں دیا بلکہ اردو نے الکٹرانک میڈیا کو فروغ دیا ہے ‘‘ ۔
سوال ۔ غیر اردو حلقے میں فروغ اردو کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے ؟
جواب ۔۔۔ غیر اردو حلقہ بھی اردو کی شیرینی ، جاذبیت ، رنگینی ، رعنائی اور دوشیزگی پر فریفتہ ہے ورنہ آج فراقؔ ، چکبست، گلزار، سرشار، پریم چند ، کرشن چند، وغیرہ نہ ہوتے ۔غیر اردو حلقے سے اردو کے مسلمان ہونے کا لیبل ہٹا یا جائے ۔خاص طور پر نئی نسل کو اردو کی طرف راغب کیا جائے ۔ قومی کونسل اور ریاستی اردو اکیڈمیوں کو چاہیے کہ تمام اسکولوں میں وہ طلباء جو سرکاری طور پر ہندی یا تلگو یا دیگر علاقائی زبانیں پڑھ تے ہیں وہااپنا ایک اردو ٹیچر مقرر کرے روز آنہ یا ہفتے میں کم از کم تین دن اردو سکھائی جائے، تب دیکھیے کوئی بھی شخص ایسا نہ ہوگا جو اردو کی طرف کھینچا نہ چلا آئے کیوں کہ اردو واحد زبان ہے جو ہر زبان کے لفظ کو اپنے اندر با آسانی جذب کرتی ہے گویا اردو کشش ثقل کا درجہ رکھتی ہے ۔
سوال ۔ آپ کے علاقے میں کتنے کالجز یا یو نی ورسٹیز ہیں جن میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے ؟اور وہا اردو پڑھنے والوں کی توداد کتنی ہے ؟
جواب ۔۔۔ اس سوال کا تفصیلی جواب اوپر دے چکی ہوں ۔
سوال۔ ملکی سطح پر غیر سر کاری تنظیموں سے اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کس طرح سے مدد لی جاسکتی ہے ؟
جواب ۔۔۔ پہلے ایسی تنظیموں کی شاٹ لسٹ بنائیں جو واقعی اپنے کام کے تئیں دیانت دارہوں۔ قومی کونسل اور ریاستی اردو اکیڈمیوں کو چاہیے کہ سمینار ، لکچر وغیرہ کے بجائے فنی ، تعلیمی ،تکنیکی اور دیگر فلاحی اداروں میں مفت اردو سکھانے کا انتظام کیا جائے اس کام کے لیے اپنے خصوصی ٹیچرس کا تقرر عمل میں لائیں اور ہر مہینہ قومی کونسل اور اردو اکیڈمیوں کے نمائندے ان اداروں کا دورہ کریں جنہیں اردو سیکھنے کی تربیت دی گئی انھیں اردو پڑھا کر اور لکھا کر دیکھا جائے ۔ قومی کونسل کے تحت سشماہی اور سالانہ امتحانات منعقد کیے جائیں بہترین مظاہرہ کرنے اور امتیازی نشانات حاصل کرنے والے طلباء میں اسناد و انعامات تقسیم کیے جائیں وغیرہ ۔
سوال۔ سنٹرل اسکولوں اور نوودے ودیالہ میں اردو کی تعلیم کا کوئی معقول انتظام ہے ؟
جواب ۔۔۔ اس سوال کا تفصیلی جواب اوپر ملاحظہ فرمائیں ۔
\"\"

Leave a Comment