ڈاکٹر شبانہ رفیق کے شعری مجموعہ’’مقدّس یادیں‘‘کی رسم رونمائی

غالبؔ، باندہ اور’’ مقدّس یادیں‘‘

\"\"
باندہ(اسٹاف رپورٹر)۲۰؍ اکتوبر کی شام شہر باندہ کے نظامی پیلیس میں ڈاکٹر شبانہ رفیق کے شعری مجموعہ ’’مقدّس یادیں‘‘ کی رسم رونمائی تالیوں کی گونج میں بدست پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم ،پروفیسر سیما صغیر انجام پائی۔ ادبی اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم نے کی۔
اس رسم اجراء کی تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم اور مہمان اعزازی پروفیسر سیما صغیر تھیں۔ ڈاکٹر چندر یکا پرشاد دیکھپت ، جناب شیوپھل سنگھ اور جناب نریندر پونڈریک بھی بطور مہمانان ذی وقار کی حیثیت سے شامل تھے۔ اردو ،ہندی کے اس شعری مجموعہ کا انتساب ڈاکٹر رفیق شبانہ نے اپنی والدہ بیگم عزیز بانو کے نام ان الفاظ میں کیا ـ ؎
اے ماں تیری گود میں پھر سے سو سکوں
سر رکھ کے تیرے کاندھے پر اِک بار روسکوں
تا قیامت نام نہ تیرا دنیا سے مٹ سکے
تیری دعا سے کام کچھ ایسا کر سکوں
اس رسم رونمائی تقریب میں معین راہیؔ، ڈاکٹر ششی بھوشن مصر، جناب شمیم باندوی، ڈاکٹر رشید صدیقی، وغیرہ نے اپنے مضامین اور کلام سے نوازا۔ پروفیسر سیما صغیر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ۹۰؍ برس پہلے ایک ایسی مسلم خاتون نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد نہ صرف خواتین کے علاج پر بھر پور توجہ دی بلکہ ادب میں بھی ایک اہم مقام حاصل کیا اور ان کے انتقال پر تعزیتی گفتگو میں کملیشور اور سجاد ظہیر نے کہا کہ آج ہم سے وہ خاتون جُدا ہوگئی جو نہ جسمانی علاج کرتی تھی بلکہ روحانی علاج کے ذریعہ بھی معاشرہ کو صحت مند بنانا چاہتی تھی۔ آج یہی کام، دونوں حیثیتوں سے ڈاکٹر شبانہ رفیق اور ان کے شوہر ڈاکٹر رفیق صاحب بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم نے اپنے صدارتی خطبہ میں مقدّس یادوں کے توسط سے باندہ کی گنگا جمنی تہذیب کو اُجاگر کیا۔ انھوں نے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ تقریباً دو سو برس پہلے مرزا اسد اللہ خان غالبؔ مالی تعاون اور علاج کی غرض سے باندہ تشریف لائے یہاں کے صحت مند ماحول سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ چھ ماہ قیام کیا۔ آج بھی یہ شہر باندہ تن من دھن سے سب کی مدد کرتا ہے، مسیحائی انجام دیتا ہے۔ انھوں نے تلسی کے اشعار ، رامائن اور صوفیائے کرام کے ملفوظات کے سہارے مذکورہ مجموعہ اور اس کی مصنفہ کی صفات اور کمالات کا ذکر کیا۔ ان کے تفصیلی، بامعنی اور موثر خطبے کی بیحد پذیرائی ہوئی۔ انھوں نے یادوں کے دریچوں کو اس طرح بیان کیا کہ انسانیت، محبت، مروت اور مساوات کی ان گنت یادین تازہ ہوگئیں۔ ماضی کی باز یافت کے توسط سے بھی یہ ادبی محفل ہمیشہ یاد رہے گی۔
\"\" \"\" \"\" \"\"

Leave a Comment