ڈاکٹر صغیر افراہیم: ایک ہمہ گیر شخصیت بطور مُدیر

\"44efd9bd-ba79-4b51-a813-18f08de05085\"
٭ڈاکٹرفرزانہ ریاض

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اُردو ،
جی۔سی۔ یونیورسٹی، لاہور، پاکستان۔
\"saghir\"

سر سیّد نے لندن کے قیام میں ایک اصلاحی رسالہ جاری کرنے کا عزم کر لیا تھا۔ اور نام بھی تجویز کر کے اس کی پیشانی اور نام کا بلاک بنوا لیا تھا۔ اب۲۴دسمبرسال۱۸۷۰ء یکم شوال۱۲۸۷ھ کوپہلا شمارہ سوسائٹی پریس سے شائع کیا۔ عام چندہ چار روپے تھا اور دوستوں کا خاص حلقہ ساٹھ روپیہ دیتا تھا۔ اس کے بارے میں انھوں نے محسن الملک کو لکھا:
’’ایک اخبار خاص مسلمانوں کے فائدے کیلئے جاری کرنا۔تجویز کر لیا ہے اور تہذیب الاخلاق اس کا نام فارسی میں اور انگریزی میں محمڈن سوشل رفارمر رکھ لیا ہے۔اس کا منظر نامہ بہت خوبصورت یہاں کھدوالیا ہے۔ کاغذبھی ایک برس کے لائق یہاں خرید لیا ہے۔‘‘(۱)
پھر ایک خط مؤرخہ۲۷مئی ۱۹۷۰ء میں وہیں سے انھیں مشورہ دیا:
ہم بیس دوست پانچ پانچ روپیہ مہینہ کر کر دیں گے اور اخبار مفت میں بانٹیں گے اور بقیمت بھی بیچیں گے۔ اس اخبار میںبخبر اس کے کہ خاص مسلمانوں کی دینی اور دیناوی بھلائی کے آرٹیکل ہوں گے اور کچھ نہیں ہونے کا۔ اس میں، میں اور آپ دونوں آرٹیکل لکھنے والے ہوں گے اور اگر صلاح ہوگی تو منشی ذکااللہ صاحب کو اور منشی نجم الدین صاحب ڈپٹی انسپکٹر کو بھی آرٹیکل لکھنے میں شریک کریں گے۔
وطن واپس آ کر انھوں نے تہذیب الاخلاق کا اجرا۴۲دسمبر۱۸۷۰ء کو کیا اور تحریر کیا کہ:
اس پرچے میں صرف مضامین مفیدہ جو مسلمانوں سے متعلق ہیں چھاپہ ہوتے ہیں اور اس سبب سے اخبار امصارو دیار اس میں مندرج نہیں ہوتے۔ مقصوداس پرچہ کے اجرا سے یہ ہے کہ مسلمانوں کی حسن معاشرت اور تہذیب کی ترقی ہو اور جو غلط اوہام مذہبی اس ترقی کے مانع ہیں اور درحقیقت وہ مذہب اسلام کے برخلاف ہیں وہ بھی مٹائے جاوئیں۔
اسی شمار ے میں آگے چل کر انھوں نے مزید وضاحت کی:
’’تہذیب الاخلاق کے جاری کرنے سے ہماری قوم کی حالت، معاشرت کی اصلاح مقصود ومطلوب ہے اور اسی واسطے سوشل رفارمز یعنی تہذیب الاخلاق اس کا نام رکھا۔‘‘(۲)
ابتداًیہ پرچہ پندرہ روزہ تھا لیکن بہت جلد اس نے ایک ماہانہ رسالہ کی شکل اختیار کر لی۔ مضمون نگاروں میں مولانا الطاف حسین حالی و سیّد مہدی علی خاں (محسن الملک) مولوی مشتاق حسین (وقار الملک) مولوی چراغ علی (اعظم یارجنگ) سیّد محمود اور چند قابل اصحاب تھے مگر سب سے زیادہ خود سر سیّد لکھتے۔ چنانچہ پہلے چھ سال میں من جملہ۲۲۶مضامین ۱۱۲سر سیّد کے تھے۔
مضمون نگاروں کیلئے لازم شرط تھی کہ اپنا اصل نام ظاہر کریں فرضی نام سے یا بلانام کے کوئی مضمون شائع نہ ہوتا۔
سر سیّد احمد اخاں کی زندگی میں یہ تین بار نکلا اور بند ہوا اور قارئین کے اصرار پر سال بھر کیلئے۱۸۷۹ء میں دوبارہ شائع ہوا۔ پھر۱۸۸۱ء میں اس کا سلسلۂ اشاعت منقطع ہوا اور تیسری بار اس کا اجراء ۱۸۹۴ء میں ہوا اور۱۸۹۷ء تک چھپتا رہا۔ سرسیّد احمد خاں کے انتقال کے بعد۱۹۰۱ء سے انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے ساتھ محسن الملک کی ادارت میں دسمبر۱۹۰۷ء تک شائع ہوا۔ پھر وحید الدین سلیم اس کے مدیر۱۴جنوری۱۹۰۹ء تک رہے۔ تقریباً پچھتر سال بعد وائس چانسلر سیّد حامد نے اس کا اجراء فروری ۱۹۸۲ء میں کیا جو تاحال جاری ہے۔ وہ خود اس کے مُدیر تھے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹر صغیر افراہیم ۶مئی۲۰۱۴ء سے مدیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اس ضمن میں ڈاکٹر ظفر اقبال لکھتے ہیں:
’’’’ــــتہذیت الاخلاق‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے صغیر افراہیم اپنی ذمہ داری بخوبی نبھارہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سر سیّد احمد خاں نے جن جذبوں اور مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے رسالے کا آغاز کیا تھا اس پر توجہ صرف کی جائے۔ نیز ان کے ذریعے چلائی گئی تحریک کے احیاء پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔ سر سیّد نے جو معیار قائم کیا تھا اس کو برقرار رکھنا ان کی کامیاب کوشش ہے۔‘‘(۳)
ڈاکٹر صغیر افراہیم کی شخصیت کے مختلف گوشے ہیں جیسے افسانہ نگار، ادیب، مترجم نگار، نقّاد، خاکہ نویس، انشائیہ نگار، محقق اور سب سے بڑھ کر صاحبِ بصیرت مدیر ہیں۔
ایک مدیر میں دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جو ہر کامل کی پرکھ اور اس سے مناسب کام لینے کا بھی ملکہ بھی ہونا چاہیے ورنہ تن تنہا وہ کبھی بھی اپنے مقصدِ حیات میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم اس صلاحیت سے عاری نہیں ہیں۔
اداریہ سازی ایک ایسی صنف ہے جس میں مصنف اور قاری میں ایک رابطہ قائم رہتا ہے اور اس تال میل اور باہمی روابطہ کا ایک اہم وسیلہ ان کی زبان ہوتی ہے، جس کے بل بوتے پرقومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔ اسی لیے جو قوم اپنی زبان کو زیادہ ترجیح دیتی ہے وہ اپنی زبان کو ہی نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کے فروغ کو بھی دوام بجشتی ہے۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم ذرائع ابلاغ کی اس اہمیت کو محسوس کرتے ہوئیـ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے پچھلے ایک عرصے سے ایسے کاموں کو تقویت دینے کیلئے پیش پیش ہیں جس سے وہ قومی، صحافی، سماجی، سیاسی، معاشی وثقافتی نظام کے شعور کو ایک نئی سمت عطا کر رہے ہیں۔ کیوںکہ اسی بنا پر معاشرے میں بیداری بھی آتی ہے جس کی ضرورت، اہمیت وافادیت کبھی کم نہیں ہو سکتی۔ اس ضمن ڈاکٹر صغیر افراہیم تہذیب الاخلاق شمارہ۶کے ادارے میں رقمطراز ہیں:
’’آج ماس میڈیا(Mass Media) نہایت پر کشش ، سود مند اور افق پر چھا جانے والا ذریعۂ روزگار ہے۔ لیکن اس کے اکثر مراکز میں ذرائع ابلاغ کی زبان(اردو، ہندی) سکھانے کا معقول بندوبست نہیں ہے اور نہ ہی نئی نسل میں انسانیت، محبت اور یکجہتی کے جذبات و احساسات کی اہمیت کا احساس دلانے والے اسباق کی شمولیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والے صاحبِ اقتدار حضرات ایسے نصاب کی تشکیلِ نو کریں جن سے امن ومحبت ا وریکجہتی کے جذبات کو فروغ حاصل ہو، جدّت و ندرت کے علاوہ زبان و ادب کا معیار بھی بلند ہو، جو ملک اور معاشرے کیلئے مفید اور کار آمد ثابت ہو۔‘‘(۴)
ڈاکٹر صغیر افراہیم نے اپنے اداریوں میں ہمیں علمی بحث اور تبادلہ خیال کا طریقہ بھی سکھایا اور یہ بھی بتایا کہ اصولی باتوں میں سچائی اور حق تک پہنچنے کا واحد راستہ دیانتدارنہ اختلاف ہے۔ انھوں نے قاری کو عام عادات و خصائل اور وضع زندگی میں تہذیب، صفائی، سلیقہ مندی، چستی اور مستعدی کا سبق پڑھایا۔ یہ ادارے کئی جہالت کے حامل ہیں۔ ایک سطح پر یہ معاشرتی معنویت کو اور دوسری سطح پر ماضی اور حال کو ملاتے ہیں۔
ڈاکٹر صغیر افراہیم نے بھی سرسیّد کے نظریات سے متاثر ہو کر ادب میں مقصد کی اہمیت کو سمجھا اور دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کی اور سرسیّد ہی کی طرح حقیقت نگاری کا اسلوب اپناتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خانہ فرہاد میں روشنی کی شعاع دراصل شررتیشہ کی مرہونِ منت ہے۔ ان کے اداریے کی ہر سطر جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حریت ضمیر کا علم بلند رکھنے کی قابل تقلید مثال پیش کرتی ہے۔
ڈاکٹر صغیر افراہیم، سرسیّد کی مانند بہتے ہوئے دریا میں ایک تنکے کی طرح نہیں جو پانی کی رفتار کے ساتھ شروع سے آخر تک ایک یکساں رفتار کے ساتھ بہتا چلا جائے۔ بلکہ وہ ایک چٹان ہے جس نے دریا کا رخ بدل دینے کا عزم کیا ہے۔
’’اتفاق اور اختلاف لازم وملزوم ہیں۔ اگر ذہنی کشادگی اور ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ حاوی ہو تو اختلاف کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سرسیّد اور شبلی ہی نہیں دیگر رفقاء کے مابین کچھ معاملات کی بنا پر الگ الگ آراء تھیں مگر قوم کی خدمت اور علم کے فروغ نے سب کو یکجا کر دیا تھا۔ شبلی نے سر سیّد کی زندگی تک اس جذبہ کا لحاظ رکھا۔ جزوی اختلافات آج بھی برقرار ہیں۔ مگر ہم سر سیّد کے عظیم الشان مشن کو آگے بڑھانے میں تسلی کیوں برت رہے ہیں! ہمارے سامنے تو یہی نصب العین ہونا چاہیے کہ جس طرح ماضی میں علی گڑھ تحریک سے وابستہ افراد سر سیّد کے ہم نواجن کرپوری تن دہی سے فلاح وبہبود او ر تعمیر و تشکیل کی ڈگری پر چلتے رہے، اُسی طرح ہمیں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو معیار کی بلندیوں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بزرگوں کا بنیادی مقصد اپنے ہم وطنوں اور ان کے توسّط سے عالمی برادری کو قدامت پرستی کے خار زار سے نکالنا اور جدید علوم و فنون سے واقف کرانا تھا۔ مگر اس کیلئے وہ سب احتیاط کے ساتھ چلے جس میں یہ محوظ رکھا گیا کہ اردو قبول کے دشوار گزار مرحلہ میں قدیم تہذیب کی صحت مندروایات کا بھر پور احترام ہو اور نئی چیزوں کو برائیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ دو دھاری تلوار جیسی راہ سے ہم آج بھی گزر رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں عصرِ حاضر کے تبدیل ہوتے ہوئے معاشرتی منظر نامے کی تاریک راہوں کو روشن کرنے کیلئے شبلی او ر ان کے معاصرین کے افکارو نظریات اور عملی جدوجہد کی شدّت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔‘‘(۵)
ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ مگر ایک انسانی پیکر میں مختلف شخصیتیں سما سکتیں ہیں اور کوئی لازم نہیں کہ وہ آپس میں لڑتی پھڑتی ہی رہیں۔ پُرامن بقائے باہمی کے اصول پروہ ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ بھی کر سکتی ہیں۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم کی شخصیت بھی انھی خصوصیات کی حامل ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں مختلف جہتوں میں لکھ رہے ہیں۔ ’’تہذیب الاخلاقـ‘‘ کی ادارت ڈاکٹر صغیر افراہیم کی لگن اور سرسیّد احمد خاں کیلئے ان کی اتھاہ محبت کاثمر ہے۔ بطور مدیر ان کی تحریروں میں سرسیّد اور ان کے رفقاء کے حوالے سے یادوں کا میلہ ساسجا ہوا ہے۔ وہ سر سیّد ا ور ان کے رفقا کی کوئی ایک بات یا د کر تے ہیں تو ساتھ کئی باتیں یاد آجاتی ہیں۔ ان کی شخصیت کے کسی ایک پہلو کو دیکھتے تو کئی پہلو ان کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ ڈاکٹر صغیرافراہیم کے اداریے اپنے اندر سرسیّد اور ان کے رفقاء کے حوالے سے یادوں کا طوفان سمیٹے ہوئے ہیں اور ان یادوں کو وہ قلم کی زبان دے دیتے ہیں کیونکہ کتاب اور لکھے ہوئے لفظ تادیر زندہ رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے سرسیّد اوعر ان کے رفقاء کار کی شخصیت کے اہم گوشوں کو اپنے اداریے کے دائرے میں سمیٹ لیا ہے۔ سرسیّد اور ان کے رفقاء کی شخصیتوں کی اس طرح تصویر کشی ہے کہ چھوٹے چھوٹے وقوعہ یا واقعہ سے کردار کے باطن میں جھانکنے اور اس کو اچھی طرح سمجھنے میں نہایت سہولت ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے کوزے میں دریا بند کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان شخصیات اور ان کے فکر وفن کو اپنے شعور کی کسوٹی پر اس طرح پرکھتے ہیں کہ آگہی کے نئے دروا ہو جاتے ہیں۔
’’سرسیّد اور ان کے رفقاء پر آج بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ہمارے قاری کو اپنے اسلاف کے ان چھوٹے چھوٹے کارناموں کا بھی علم ہوتا جائے جو وقت کے دبیز پردوں کی اوٹ میں چھپتے جا رہے ہیں۔۔۔اس طرح وہ محسوس کر سکیں گے کہ محدود ذرائع اور تھوڑے سے وسائل میں ہمارے بزرگوں نے کیا کچھ ایسے کارنامے کر دکھائے جو ہمارے لیے آج بھی باعث حیرت ہیں۔ وہ بزرگ روز مرہ کے کاموں میں مشغول رہ کر بھی تصنیفی ذوق اور تعمیری شوق کیلئے وقت نکالتے تھے۔ ان میں کوئی ایسی کشش ضرور تھی کہ جاہ منصب کے لالچ کے بغیر مختلف مزاج و درجات کے لوگ ان کے گرد جمع ہو کر، کاندھے سے کاندھا ملا کر ملی وقومی خدمات میں شریک ہوتے رہے۔ ان کے پاس بڑے ادارے کی کوئی ڈگری نہ تھی مگر ان میں ایسی تعلیمی و تعمیری صلاحیت تھی اور ملک وملت کی خدمت کا ایسا بے لوث جذبہ تھا کہ لوگ علی گڑھ تحریک سے منسلک ہوتے چلے گئے۔ بلا شبہ یہ سرسیّد اور ان کے رفقاء کی مقنا طیسی شخصیت اور اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیت کا کرشمہ تھا جس سے آج کی نسل کو متعارف کرانا ہمارا فرضِ اوّلین ہے۔‘‘(۶)
ڈاکٹر صغیر افراہیم نے اپنے اداریوں میں جس طرح سرسیّد اور ان کے رفقاء کی شخصیات کو پیش کیا ہے، ان کی یہ پیش کش اتنی عمدہ اور مکمل ہے کہ ہم ان سے مل کر کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔ ان شخصیات کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا واقعہ یا وقوعہ سے ان اعلیٰ ہستیوں کے باطن میں جھانکنے اور اس کو اچھی طرح سمجھنے میں نہایت سہولت ہو جاتی ہے۔
یہ ڈاکٹر صغیر افراہیم کا طرز تحریر اور توانا انداز بیان ہی ہے جو ان عظیم شخصیتوں اور ان سے منسلک حقائق کو ان کی اصلی صورتوں میں دکھانے میں کامیاب ہوئے۔ اگران اداریوں میں ڈاکٹر صغیر افراہیم کا خلوص اور فنی چابکد ستی شامل نہ ہوتی تو واقعات کی بھرمار، خیالات کا ابنار اور اشخاص یا کرداروں کا انبوہ اسے غیر دلچسپ اور بوجھل اداریے بنا دیتا۔ لیکن ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ایک اعلیٰ پایۂ کا مدیر ہونے کا ثبوت دیا ہے اور تمام مواد کو نہایت سلیقے سے ترتیب دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہایت سہولت کے ساتھ ساتھ اپنا مدعیابیان کیا ہے اور جملوں کی ساخت کو پیچیدہ نہیں ہونے دیا۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ادق، ثقیل، غیر فصیح اور اجنبی الفاظ سے پرہیز کرتے ہوئے نہایت سادہ مگر مؤثر انداز میں اس کا حق ادا کیا ہے۔ مشکل ترین معلاملات نازک ترین خیالات اور پیچیدہ ترین مفاہیم کو نہایت سہولت اور آسانی کے ساتھ پورے تاثر میں بھگو کر قلم بند کیا ہے۔
ان اداریوں میں جہاں فکر کی روشنی چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، وہاں اسلوب کی دلکشی بھی جابجادامن کش دل ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم کے اداریے جہاں محبت کی خوشبو سے مہکے ہوتے ہیں اور ان کے اندر کا ادیب باربار اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ وہاں ان کا تجزیہ فکرو آگہی کے بہت سے نئے در بھی کھولتا ہے۔ یہ اداریے معلومات کا مجموعہ ہیں مگریہ ایک ادیب کے قلم سے لکھے گئے ہیں اس لیے اس میں تخلیقی ادب کی بہت سی خوبیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم تجزیاتی سمندروں کے گہرے پانیوں میں اترجاتے ہیں۔ ان کا تجزیاتی کینوس وسیع تر، معنی آفرین اور آفاق گیر ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا انداز بیان کسی ابہام یا مصلحت کا شکار نہیں ہوا۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر سچ بولنے کے قائل ہیں۔ نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو۔ سمندر بھی ایسا ہی ہوتا ہے بظاہر پُر سکون نظر آئے تو بھی اس کی تہہ میں ہزاروں اضطراب چھپے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صغیر افراہیم ایک انفرادیت پسند اور جدّت کے تلاشی ادیب ہے۔ انھوں نے اپنی رائے کے اظہار کیلئے اسلوب کاسب سے الگ منطقہ تلاش کر لیا۔
’’کچھ نیا کر گزرنے کے عمل سے ہیئتی حصار ٹوٹا، انفرادی تجربات اورشخصی واردات کو آزادانہ کینوس ملا۔ ذخیرہ الفاظ میں وسعت پیدا ہوئی اور نئے نئے موضوعات کی تلاش شروع ہوئی۔ اخلاقی نصب العین اور فکر واستدلال کے رجحان نے حقیقت پسندی کا راستہ ہموار کیا نیز مادی قدروں کو اہمیت دی۔‘‘(۷)
ڈاکٹر صغیر افراہیم اپنے اداریے کا آغاز اکثر کسی عالمی سچائی یا کسی واقعہ سے کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم کوئی دلچسپ کہانی سنتے جار ہے ہیں۔ مگر وہ اس واقعہ کا دلچسپ تانا بانا بنتے بنتے قاری کے ذہن میں پیدا ہونے والے مدہم نقطوں کو شوخ یا اُجاگر کر دیتے ہیں جو تھوڑی دیر بعد سوچ اور فکر کے چھوٹے رویّوں کی صورت اختیار کر لیے ہیں اور اس واقعہ کا تمام ارد گرد روشن ہو جاتا ہے۔ اور قاری کیلئے سوچ کی مزید بلندی تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ ایک طویل فنی ریاضت مشاہدے اور مطالعہ ان اداریوں کو اگر ایک طرف اپنے عصر سے جوڑا ہے تو دوسری جانب ان میں ایک ماورائے عصر خوشبو بھی ہے۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم کے اداریوں کی سب سے نمایاں خصوصیت زبان وبیان اور اسلوب نگار ش ہے۔ صغیر افراہیم چونکہ افسانہ نگار ہیں اس لیے ان کے یہ اداریے دراصل فکشن کا سلوب لیے ہوئے ہیں اور یہ محض اداریے نہیں بلکہ ان کو تخلیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے اور تخلیق جذب اور محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان اداریوں کو جس جا معیت، صحت اور تفصیل کے ساتھ صغیر افراہیم نے بیان کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔
میں نے جب ڈاکٹر صغیر افراہیم کے اداریوں کو یکجا پڑھا تو جیسے اچانک گہری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ لگا میری اپنی کوئی سوکھی ہوئی جڑ ہری ہو گئی۔ میرے ہی وجود کی شاخ سے کوئی نئی کونپل نکل آئی۔ میرے گھر آنگن میں دور تک پھیل جاتے، درختوں اور بالکونیوں پرچڑھ جاتے اور دیواروں سے چمٹ جانی والی ہری بھری بیلیں تو بہت تھیں مگر پھول ایک ہی کولگا۔ اور وہ ہے ڈاکٹر صغیر افراہیم جو تادیر ادب کے اُفق پر جگماتے رہیں گے۔

حوالہ جات و حواشی
۱۔ سر سیّد احمد خاں۔سفر نامہ مسافران لندن،مرتبہ: شیخ اسماعیل پانی پتی۔لاہور: مجلس ترقیٔ ادب، ۱۹۴۱۔ ص۲۶۳
۲۔ وحید الدین سلیم،ایڈیٹرمعارف۔ سرسیّد کے خطوط۔ مرتبہ؛ حالی پریس۔ص۶۸
۳۔ مشتاق حسین، محمد۔ تہذیب الاخلاق، جلد اوّل،شمارہ۱۔علی گڑھ: مطبع انسٹیٹیوٹ،۱۸۷۰ء۔ص۲
۴۔ ظفر اقبال، ڈاکٹر۔ صغیر افراہیم کا تنقیدی شعور۔
۵۔ مشتاق حسین، محمد۔ تہذیب الاخلاق، ماہنامہ، جلد ۳۴،شمارہ۶۔علی گڑھ: مطبع انسٹیٹیوٹ،جون۲۰۱۵ء
۶۔ ایضاً۔ جلد۳۳،شمارہ۱۱،نومبر۲۰۱۴ء
۷۔ ایضاً۔ جلد۳۳،شمارہ۱۰،اکتوبر۲۰۱۴ء

Leave a Comment