ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا مجموعۂ مضامین نئی تنقیدی معنویت

٭ڈاکٹر شریف احمد قریشی
سابق صدر، شعبۂ اُردو
گورنمنٹ رضا پوسٹ گریجویٹ کالج، رام پور(یوپی)

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نہ صرف جمّوں وکشمیر بلکہ پوری ادبی دنیا کے ایک معتبر اور معروف قلم کار کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ درس وتدریس اور اُردو زبان و ادب کے فروغ میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ اُن کی متعدّد ادبی ، علمی ، تنقیدی، تحقیقی اور تخلیقی نگارشات منظر عام پر آچکی ہیں۔ افسانوی تخلیقات کے علاوہ اُن کے بہت سے تحقیقی ، تنقیدی اور معلوماتی مضامین ومقالات موقر اخبارات و رسائل کی زینت بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ بڑی سرعت اور نہایت آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اُنہیں اس عہد کے اُن قلم کاروں میں نمایاں اور ممتاز مقام حاصل ہے جن کے قلم کی روانی اور قوّت فکر میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اُن کی تازہ ترین تصنیف کا نام ’’نئی تنقیدی معنویت ‘‘ ہے جس میں مختلف موضوعات و نوعیت کے تیرہ وقیع مضامین کی شمولیت ہے۔ ان مضامین میں سے سات مضامین شعراء و ادباء کی شخصیت اور فکر و فن سے متعلّق ہیں جن کے عنوانات مشتاق احمد یوسفی: شہنشاہِ ظرافت کی ابدی خاموشی، شریف احمد قریشی : بحیثیت محقق و شاعر، اصغرؔ ویلوری کی شعری استعداد، شاہبازؔ راجوروی کا ’اعراف‘ گناہ وثواب کا اعتراف، تنویر ؔبھدرواہی :شخصیت اور شاعری ، انجم عثمانی کی کہانی’ وہ ایک بوڑھا‘ کا تجزیہ اور ڈاکٹر وقارالحسن صدّیقی: حیات اور کارنامے ہیں۔
\"\"
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے مذکورہ مضامین کے ذریعہ درج بالا ادباء و شعراء کے فکر وفن پر روشنی ڈالنے کے ساتھ انہیں داد وتحسین سے بھی نوازا ہے اور تنقیدی نقطۂ نظر سے ان کے فن پاروں کا جائزہ بھی لیا ہے۔ متذکرہ مضامین کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی اُردو کے شعری و نثری ادب کے رمز شناس ہیں۔ فن و شخصیت پر تحریر کردہ اُن کے بیشتر مضامین نہایت دل چسپ ، تجزیاتی اور تنقیدی نوعیت کے ہیں جن کے ذریعہ فنکاروں کی شخصیت کے اہم گوشوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ان کے اسلوب وفن کی خصوصیات کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض فنکاروں کے کردار اور ادبی و علمی پہلوؤں کو معلوماتی اور مثالی انداز میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ بطورِ مثال پیش نظر ہیں چند مضامین سے اخذ کیے گئے مختصر اقتباسات یا جملے ۔ ملاحظہ فرمائیے :
-مزاح کے جتنے بھی حربے ہیں سب مشتاق احمد یوسفی نے بحسن و خوبی استعمال کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے اسالیبِ
ظرافت میں مزاحیہ ماجرا نگاری ، کردار نگاری، لفظی مزاح، تحریف نگاری یعنی پیروڈی ، موازنہ اور علمی بیان کے علاوہ قول
محال کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ (مضمون: مشتاق احمد یوسفی: شہنشاہِ ظرافت کی ابدی خاموشی)
– ڈاکٹر شریف احمد قریشی کے ان تمام اشعار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف نرم مزاج ، وسیع فکرونظر اورحیات وکائنات میں
انسان کی عظمت ورفعت کے قائل ہیں اور انسانی اقدار کے فقدان پر ملول ومضطرب بھی۔ ناصحانہ جذبات واحساسات سے
مملو ان اشعار سے شاعر کی انسان دوستی، خلوص ، محبّت واخوت کا درس تو ملتا ہی ہے لیکن دوسری طرف فرد اور سماج کی عیّاری
اور مکّاری کا ایک دل سوز رُخ بھی عیاں ہونے لگتا ہے جو ایک حسّاس، صاحبِ فہم وفراست شخص کے لئے مایوسی کے کئی باب
کھول دیتا ہے۔ (مضمون: شریف احمد قریشی : بحیثیت محقق و شاعر)
– اصغرؔ ویلوری کے پاس مومنانہ وضع قطع اور سوچ کے ساتھ آدمی کو انسانی صفات سے متصف دیکھنے کی للک موجود ہے۔ یہی
سبب ہے کہ اُن کی شاعری کا بیشتر حصّہ معرفتِ الہیہ ، عقیدت و عظمتِ محمدیہ کے علاوہ متصوفانہ جذبات و احساسات کا غمّاز
ہے۔ (مضمون: اصغرؔ ویلوری کی شعری استعداد)
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے اپنے مزاج و کردار کی طرح اپنی نگارشات و مضامین میں بھی درمیانہ روی اختیار کی ہے۔ اُن کے یہاں نہ تو بے جا طوالت ہے اور نہ اختصارِ بے جا ۔ وہ زیرِ تنقید یا زیرِ تجزیہ فن پارہ کی مثبت خصوصیات و اوصاف کو نہایت سلیقے سے نمایاں کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ کسی تخلیق میں بے وجہ خامیاں نکالنے کو مستحسن نہیں سمجھتے۔ ہاں اگر کہیں ضروری ہوا تو معائب اور کمزور پہلوؤں کی طرف نہایت شایستگی سے توجّہ بھی مبذول کرا دیتے ہیں۔
اس مجموعہ کے ایک اہم مضمون کا عنوان ’اُردو میں تانیثی تنقید ‘ ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے تانیثی ادب کا نہایت گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ اُن کے ایک اہم اور گراں قدر تحقیقی مقالہ کا عنوان ’’اُردو ادب میں تانیثیت‘ ‘ہے۔ اس مقالہ پر ایم جے پی روہیل کھنڈ یونیورسٹی ، بریلی نے انہیں ۲۰۱۲ء میں ڈی لٹ کی ڈگری سے سرفراز کیا تھا۔ اس مضمون میں مصنف نے تانیثیت کی اصطلاح اور اس کے تاریخی و سماجی پس منظر کے ساتھ اردو میں تانیثی تنقید پر نہایت سلیقے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ وہ تانیثیت کے معنی و مفہوم کو اس طرح واضح کرنے کی سعی کرتے ہیں :
’’جب ہم تانیثیت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد نہ صرف عورتوں کے جذبات و احساسات ، مشاہدات و تجربات اور رجحانات سے ہے بلکہ اُن خواتین رہنماؤں کی صدائے احتجاج سے ہے جنہوں نے مردوں کی بالادستی ، اُن کے ڈھائے ہوئے عورتوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد کے علاوہ اپنی محکومیت کے خلاف آواز بلند کی، جس میں عورتوں کے حقوق، بچّوں کی پرورش کے حقوق ، جائیداد میں معقول حصّہ، طلاق کے مسائل کی وضاحت، مختلف تعلیمی شعبوں میں عورتوں کے حقوق اور اُن کی شمولیت، مردوں کے برابر اجرت کا تقاضا اور ووٹ کا حق جیسے مطالبات شامل تھے۔ ‘‘
اس مجموعہ میں شامل جمّوں و کشمیر میں اُردو تحقیق، اکّیسویں صدی میں اُردو کے مسائل، فیس بُک آئی کتاب گئی(تماشوں میں مست و مگن آدمی ہے) اور چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے بھی بے شبہ اہمیت کے حامل اور فکر انگیز مضامین ہیں۔ متذکرہ مضامین کے مطالعہ سے مصنف کی وسیع معلومات ، روادارانہ روش اور متوازن تنقیدی و تجزیاتی رجحان اور مزاج و ذہنیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس طرح خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے مقدّمہ شعر و شاعری میں شاعر کو جھوٹ اور مبالغہ سے احتراز کرنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’شعر میں جہاں تک ممکن ہو حقیقت اور راستی کا سر رشتہ ہاتھ سے دینا نہیں چاہئے‘‘ اسی طرح ڈاکٹر مشتاق احمد وانی تحقیق کو سچ کا کاروبار تصور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
’’علم و ادب کی دنیا میں تحقیق کوئی آسان کام نہیں ہے۔ میں تحقیق کو سچ کا کاروبار سمجھتا ہوں۔ ‘‘ (مضمون: ڈاکٹر وقارالحسن صدّیقی:حیات اور کارنامے)
دراصل تحقیق کا اصل مقصد حقائق کی بازیافت اور حقیقت تک پہنچنا ہی ہے۔
مقدّر کیا ہے اور کیا نہیں ہے ، کے عنوان سے ڈاکٹر مشتاق احمد وانی مقدّر کے متعلّق اپنے خیال کا اظہار اس طرح کرتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے :
’’اس موضوع پر اظہار خیال کرنے سے پہلے یہ جان لینا نہایت ضروری ہے کہ آدمی کے بُرے افعال کا تعلّق مقدّر کے ساتھ جوڑنا سراسر حماقت ہے۔ بُرے اعمال، بُری باتیں ، بُرے طور طریقے بُری نیت کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دراصل قسمت ، مقدّر اور تقدیر کا تعلّق نیک ارادے میں کامیابی یا ناکامیابی سے ہے۔ بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دنیا کے بُرے لوگ اپنی تمام بداعمالیوں کو نوشتۂ تقدیر خیال کرتے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے موبائل فون ، انٹرنیٹ اور فیس بُک کے منفی اثرات کو دو ٹوک الفاظ میں اس طرح واضح کرنے کی کوشش کی ہے :
’’کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہوا کرتی تھیں۔ کتابوں سے دوستی ایک ایمان دارانہ اور عالمانہ عمل مانا جاتا تھا۔ سنجیدہ ، باذوق اور باادب قسم کے لوگ کتاب کی عظمت ، اہمیت و افادیت کو بہتر جانتے تھے لیکن موبائل فون نے ہم کو مکتوب نگاری سے دور کر دیا اور انٹر نیٹ نے ہم سے کتاب چھینی، فیس بُک دے دی۔ کتابیں اب بھی لکھی جا رہی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی لیکن اُنہیں پڑھنے والوں کی تعداد دن بدن گھٹتی جا رہی ہے۔ ‘‘ ( مضمون: فیس بُک آئی کتاب گئی :تماشوں میں مست و مگن آدمی ہے)
بہترین شخصیت کی تعمیر میں سنسکار یعنی صالح اعمال و تربیت کا رول نہایت اہم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کے نزدیک بھی شخصیت کی بہترین تعمیر کے لیے والدین کے ذریعہ تربیت، مرشد کامل کی صحبت اور اچھّے ماحول کا ہونا لازمی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
’’کسی بھی شخص کی پُر وقار شخصیت سازی میں تین عناصر کا خصوصی عمل دخل ہوتا ہے۔ والدین کی بہترین تربیت، مرشدِ کامل کی صحبت اور اچھا ماحول‘‘ (مضمون: تنویر بھدرواہی :شخصیت اور شاعری)
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کے بیشتر مضامین مفید ترین مطالب اور کارآمد نکات پر مبنی ہیں۔ وہ اپنی افسانوی تخلیقات ہی کی طرح اپنے مضامین قلم بند کرتے وقت موقع و محل کی مناسبت سے فکر انگیز، توجہ طلب اور چونکانے والے نکات و جملے اس طرح نذرِ صفحۂ قرطاس کر دیتے ہیں کہ قارئینِ مشتاقؔ غور وفکر کے لیے مجبور سے ہو جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے :
– کسی بھی طرح کا ذوق و شوق انسان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ وہ اپنے شوق کی تکمیل چاہتا ہے جس کے لیے وہ ہر
ممکن کوشش کرتا ہے۔ محنت ، لگن اور کوششِ پیہم ایسا جذبہ ہے جو انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ (مضمون:
تنویر بھدرواہی :شخصیت اور شاعری)
– ایک اچھّا شاعر و ادیب اس جہان فانی سے گزرنے کے بعد بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ (مضمون: تنویر
بھدرواہی:شخصیت اور شاعری)
– لکھتے لکھتے اور پڑھتے پڑھتے جب کوئی آدمی خاصا مشاق اور تجربہ کار ہو جاتا ہے تو پھر وہ نہ عام قاری رہتا ہے اور نہ عام
لکھاری۔ (مضمون: شاہبازؔ راجوروی کا ’اعراف‘ گناہ وثواب کا اعتراف)
– کوئی بھی ادب پارہ صحیفہ نہیں ہوتا۔ انسان بشر ہے اور بشریت اس کی سرشت میں ہے اس لیے معائب و محاسن کا پایا جانا کوئی
غیر فطری بات نہیں ہے۔ (مضمون: شاہبازؔ راجوروی کا ’اعراف‘ گناہ وثواب کا اعتراف)
– قدریں چاہے اخلاقی ہوں یا روحانی و تہذیبی اُن کی بحالی کے بغیر ایک خوش گوار و پُروقار زندگی کا حصول ناممکن ہے۔
( مضمون: انجم عثمانی کی کہانی’ وہ ایک بوڑھا‘ کا تجزیہ)
– تمام علوم وفنون اور فکر و فلسفے کا بنیادی مقصد تو آدمی کو انسانی صفات سے متصف کرنا ہے۔ (مضمون: انجم عثمانی کی کہانی’ وہ
ایک بوڑھا‘ کا تجزیہ)
– یہ کائنات ایک خودکار مشین کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ ایک عظیم حکمت و قدرت رکھنے والی طاقت ہے جو اس
کائنات کے نظام کو چلا رہی ہے۔ (مضمون: چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے )
– مقدّر کا تعلّق نیک ارادے میں کامیابی یا ناکامیابی سے ہے۔ بُری نیت اور بُرے کام کے ساتھ مقدّر کا کوئی تعلّق
نہیں ہے۔ (مضمون: مقدّر کیا ہے اور کیا نہیں ہے)
– جدید فکر وفلسفے کے باعث یا مختلف ادبی رجحانات کی ہوڑ میں محاورات اور ضرب الامثال کا استعمال کسی حد تک ترک کر دیا گیا
ہے لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رہِے کہ محاورات اور ضرب الامثال کی اپنی اہمیت وافادیت رہی ہے۔ زبان کو پُرلطف
بنانے یا اُس میں چٹخارہ پیدا کرنے میں محاورات اور ضرب الامثال کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ (مضمون: شریف احمد قریشی
: بحیثیت محقق و شاعر)
– یہ دنیا ایک خودکار مشین کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی ذات کار فرما ہے جو اس پورے نظامِ عالم کو چلا
رہی ہے۔ (مضمون: تنویر بھدرواہی:شخصیت اور شاعری)
درس وتدریس کے باوقار پیشے سے وابستہ ہونے کے سبب ڈاکٹر مشتاق احمد وانی باذوق قارئین اور طلباء و طالبات کی نفسیات و ذہنیت سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی نگارشات سے عوام وخواص بھی محظوظ ہوں اور طلباء و طالبات بھی مستفیض ہوں ۔ اسی لیے وہ افسانوی تخلیقات اور مضامین و مقالات کو آسان ، عام فہم ، دل کش اور پُرکشش پیرایے میں تحریرکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ تخلیقی نثر لکھتے لکھتے اس قدر پختہ ہو گئے ہیں کہ ان کے یہاں تنقیدی ، تحقیقی ، معلوماتی ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے مضامین میں بھی تخلیقی نثر کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اُن کے مضامین کے بعض جملے شعریت سے اس قدر ہم آہنگ ہیں کہ جنہیں پڑھتے ہی درج ذیل شعراء کرام کے اشعار ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے :
– جب کسی شخص میں ادبی ذوق و شوق اور محنت و لگن کا جذبہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو پھر کسی بھی تھکان اور کٹھنائی کا احساس نہیں رہتا
بلکہ ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ (مضمون: وقارالحسن صدّیقی: حیات اور کارنامے)
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے اصغرؔ گونڈوی
رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں مرزا غالبؔ
– کتابیں بند الماریوں میں دیمک کی خوراک بن رہی ہیں۔ وہ ترس رہی ہیں کہ انہیں کوئی پڑھنے والا ملے مگر فیس بُک جیسی
سوتن نے کتاب سے اُس کا قاری چھین لیا ہے۔(فیس بُک آئی کتاب گئی :تماشوں میں مست و مگن آدمی ہے)
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہ کار پر دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ شکیبؔ جلالی
– ابتدائے آفرینش سے تحقیق کا جذبہ انسان کی زندگی میں کارفرما رہا ہے کیوں کہ مظاہرِ فطرت کی تمام پوشیدہ طاقتوں کو جاننے ،
اُن سے فیضیاب ہونے اور خوب سے خوب تر کی جستجو اور کرید کا جذبہ فطری طور پر انسان کی سرشت میں موجود ہے۔
(مضمون: جمّوںو کشمیر میں اُردو تحقیق)
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں الطاف حسین حالیؔ
– دراصل آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، اُسے انسان بننے کے لیے کافی وقت لگتا ہے۔ لوگ آسان سمجھتے ہیں آدمی سے انسان
بننا۔ (مضمون: تنویر بھدرواہی :شخصیت اور شاعری)
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا مرزا غالبؔ
– انجم عثمانی نے اپنے افسانوں میں زندگی کی صداقتوں کو فنّی جامہ پہنایا ہے۔ اُن کے بیشتر افسانوں میں انسانی اقدار کی
شکست و ریخت اور یادِ ماضی عذاب ہے یارب کا احساس جاگزیں ہے۔ (مضمون: انجم عثمانی کی کہانی’ وہ ایک بوڑھا‘ کا
تجزیہ)
یادِ ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا (اخترؔ انصاری)
مجموعی اعتبار سے اس مجموعہ کے تمام مضامین نہ صرف لائقِ مطالعہ ہیں بلکہ قارئین کو دعوتِ غور و فکر بھی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی عہدِ حاضر کے ایک ایسے معتبر قلم کار ہیں جو شہرت وناموری ، اعزازات و انعامات اور ادبی گروہ بندی سے بے نیاز نہایت سرگرمی ، مستعدی اور سنجیدگی سے اپنے علمی ، ادبی اور تخلیقی کاموں میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ وہ بعض رعب ڈالنے والے پیشہ ور قلم کاروں کی طرح بھاری بھرکم اصطلاحات کا نہ تو استعمال کرتے ہیں اور نہ وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ شستہ ، آسان اور عام فہم اسلوب کے ذریعہ اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچانے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہ اعتبارِ زبان و بیان نہ صرف پختگی کی طرف گامزن ہیں بلکہ ان کے یہاں خیالات و فکر کی گیرائی وگہرائی اور تجزیاتی قوّت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
¯¯¯¯¯

Leave a Comment