کاسۂ شب کا شاعر-راشد طراز

\"FB_IMG_1487996101609\"
٭خان محمد رضوان

ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی

شعر گوئی تخلیقی عمل کی معراج ہے۔ اچھا شاعر ہی بڑا تخلیق کار تصور کیا جاتا ہے۔اور تخلیق کے کوکھ سے ہی تنقید وجود میں آتی ہے، اسی لیے اسے دوم درجے کا تخلیقی عمل گردانا جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ کوئی معنی نہیں کہ کس نقاد نے کس تخلیق کار کے بارے میں کیا لکھا ہے ۔ جس طرح مذہبی رویے اور معاملاتِ شرعیہ میں مولوی یا مفتی کا فتویٰ محض ایک رائے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اسی طرح معاملاتِ ادب اور تخلیقی رویے میں کسی نقاد کا قول یا فرمان فقط اس کے عملی، علمی اور تفہیمی وضاحت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ راشد طراز ایک ایسے ہی شاعر ہیں جو نقادوں کی فکر کیے بغیر اپنا تخلیقی سفر تقریباً تیس سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی اور یجنل شاعر کے لیے ایسا ہونا ضروری ہے۔ راشد طراز کا فکری منطقہ وسیع ہے ، نرم لہجے اور گداز لفظوں کے سہارے مافی الضمیر کی ادائیگی کا انھیں ملکہ ہے ۔ ان کا تعارف میں ان کے ایک شعر سے کرانا چاہتا ہوں ۔ ان کا شعر ہے کہ:
مجھے بھی غیب سے نسبت تھی بے نیازی میں
میں بے حضور رہا آستاں کے ہوتے ہوئے
شاعر نے اس شعر میں اپنی شانِ بے نیازی کا اظہار جس خوبصورتی اور خوبی سے کیا ہے اس کا اپنا الگ ہی لطف ہے۔ شاعر نے اپنے خاندانی سلسلے کو ظاہراً تو ترک کردینے کا اظہار کیا ہے مگر ان کا باطن آج بھی اس روحانی کیف وسرورسے متلذِذ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے اس کے مست ملنگی کیفیت اور بے نیازانہ رویے کا احساس ہوتا ہے۔ جب شاعر کے دل ودماغ پر بے نیازی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اظہار عارفانہ ہوجاتا ہے ۔ اس لیے ہم ان کے اس اظہار کو ان کی بے خودی کا اظہار تصور کرتے ہیں ، دراصل اپنے خدا اور آستانۂ خاص سے والہانہ اوروارفتگانہ تعلق وربط کا یہ برملا اظہار ہے، جس سے ان کی فکری بالیدگی اور پختہ شعور کا احساس ہوتا ہے۔راشد طراز کی شاعری ایک خاص موڈاور مزاج کی شاعری ہے جس کا تعلق خود ان کی ذات اور فکر سے ہے۔ انھوں نے عمدہ غزلیں کہی ہیں اور ان میں اچھے اشعار کی بہتات ہے۔ مگر مجھے ذاتی طور پر یہ بات بہت خوش کرتی ہے کہ عموماً غزل کا مطلع کمزور اور مطلع برائے مطلع ہوتا ہے۔ پوری غزل میں ایک دو شعر بہتر نکال لینا یہ عام بات ہے مگر بیشتر غزلوں میں عمدہ مطلع کا ہونا کسی کمال سے کم نہیں اور راشد طراز نے یہ کارنامہ اکثر وبیشتر کر دکھایا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
تمام تابش منظر ہے تیرے ہونے سے
یہ کائنات منور ہے تیرے ہونے سے
اس شعر میں لفظ تیرے کا جواب نہیں شاعر نے لفظ تیرے کو کس بے ساختگی سے برتا ہے یہ صرف کمال ہنر مندی ہی نہیںبلکہ برملا اظہار میں اعترافِ ذات اور اعترافِ حقیقت دونوں شامل ہے۔
کبھی یوں بھی کرو شہر گماں تک لے چلو مجھ کو
جہاں تک روشنی ہے تم وہاں تک لے چلو مجھ کو
اس شعر میں شاعر نے اپنے فکر ی منطقے کو ماورائیت سے ہم آہنگ کرنے کی جہاں کوشش کی ہے۔ وہیں آرزئوں اور تمنائوں کی بے کنار دنیا کی سیر کا فطری اور بشری اظہار بھی کیا ہے۔ اس شعر میں ’کبھی یوں بھی کرو‘ اور ’تم وہاں تک چلو‘ واحد متکلم کی آرزو مندی کے اظہار کا خوبصورت بیانیہ ہے اور یہ اظہار واحد حاضر اور غائب دونوں سے ممکن ہے۔ اس طور پر اس اظہار کا فکری زاویہ وسیع اور فکر انگیز ہے۔
بساطِ شوق پہ کچھ باکمال رہنے دے
مرا عروج لیے جا زوال رہنے دے
اس شعر میں شاعر کے فکری تنوع کا اظہار ہوا ہے اور اس اظہار میں شاعر کی قلندری پوشیدہ ہے اس شعر میں شاعر نے بلا کی ہمت و جرات مندی دکھاتے ہوئے اپنے زوال کو عروج پر ترجیح دی ہے جو کہ بڑے دل گردے کا کام ہے اس شعر میں شاعرنے یہ کمالِ شاعرانہ کر دکھایا ہے کہ پہلے مصرے کو دوسرے مصرے کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سے شاعر کے مزاج ، اس کی حسیت اور تفکر عارفانہ کا احساس ہوتا ہے ۔اس شعر کے ظاہری برتائو سے شاعر کے فکری ابتذال کا احساس تو ہوتا ہے مگر یہ اس کے فکری استحکام ، سپردگی اور پیرایہ بیان کے انوکھے رویے کی خوبصورت علامت پرڈھل گیا ہے۔اسی قبیل کے چند اشعار مزید دیکھیے ۔
ترے خیال کی ضوچار سو تمام نہ ہو
میں مر بھی جائوں تو یہ آرزو تمام نہ ہو

دل سے عجیب طرح کی وحشت قریب ہے
شاید مری نجات کی ساعت قریب ہے

مرے عدو نے کیا ہے جہاں ہلاک مجھے
بلا رہی ہے انہیں بستیوں کی خاک مجھے

رات آخر ہو ستم پیسوںپہ ایس ابھی نہیں
وقت رک جائے کہیں آکے یہ ہوتابھی نہیں
چراغوں کے تسلسل میں ہماری ذات رہتی ہے
فروزاں ہم بھی رہتے ہیںجہاں تک رات رہتی ہے
غبار اُڑتا ہے گلیوں میں رنگ و بو کیا
لہو سے ترہوںجب آنکھیں تو جستجو کیا ہو
خاک اور خون میں لپٹاہوا منظر ہوگا
کس نے سمجھاتھا یہ بستی کا مقدر ہوگا
وحشتِ دل چشم ِ حیراں خواب صحرا اور میں
اک بساط شوق پر میرا تماشااور میں

دیکھ ائے مٹی وفا کرنے کی خاطر آ گئے
لوٹ کر اپنے وطن میں پھر مہاجر آگئے

وہ کیساتھ ضبطِ سخن تھا فغاں کے ہوتے ہوئے
خموش رہ گیا طائر زباں کے ہوتے ہوئے

مندرجہ بالا اشعار جو کہ غزلوں کا مطلع ہیں انہیںنمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان مطلعوں کے اشعار کو اگر ہم دیکھیں تو ہمیں شاعر کے فکری منطقے کی وسعت اور فکر کی بالیدگی کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔ ان اشعار میں شاعر کے متنوع خیالات اور جولانیِ فکر کی رنگا رنگی کے ساتھ موضوعات کی انفرادیت سے شعر کا حسن کس قدر دوبالا ہوگیا ہے یہ دیکھنے کے قابل ہے۔ ان اشعار میں جہاں وارداتِ قلبی کا برملا اظہار ہے وہیں وحشتِ غم سے نجات حاصل نہ کرنے کی آرزو مندی بھی ہے۔ اسے اپنی مٹی، اپنی زمین اور الفتِ خاک کے ربط خاص نے تمام مشکلات اور نامساعد حالات کے بعد بھی اپنی سرزمین سے اس کے رشتہ کو منقطع نہ ہونے دیا۔یہ کسی معجزے سے کم نہیں، شاعر نے اپنے جذبات کا اظہار جن الفاظ اور پیرائے میں کیا ہے وہ قابل قدر ہے۔
راشد طراز اپنے ہم عصروں میں انفرادی شناخت اس لیے بھی رکھتے ہیں کہ ان کا لہجہ توانا اور فکری اظہار بصیرت افروز ہے ۔ ان کی خاص بات ہے کہ انھوں نے جو سوچا، سمجھا اور محسوس کیا اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیا وہ کبھی فکر مخمسے سے دوچار نہیں ہوئے۔ انھوں نے جب کبھی کوئی شعر کہا تو بڑے بوتے، ہمت ، حوصلے اور جرات مندی سے کہا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو راشد کو اپنی شرطوں پر جینے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ وہ وقت وحالات کے دھارے پر کبھی نہیں بہتے۔ حالات کے سرد و گرم کے خوف سے گبھراتے نہیں، جابر وظالم حکمراں سے دست ِسوال ِامن دراز نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے جو روستم کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل جو ہر جس نے سید راشد احمد کو راشد طراز کے نام سے موسوم کیا۔ نمونے کے چند اشعار دیکھیں:
کوئی حاصل نہیں اس کارِ جنوں کا راشد
کھیلتا آگ سے ہوں اور تماشا بھی نہیں

وحشت میں جتنی بار اسے پھینکتا ہوں میں
سر پر وہ لوٹ آتا ہے پتھر عجیب ہے

دستِ ستم دراز کرائے میرے ہم نفس
تیری کماں کا تیر بھی مجھ کو قبول ہے

بادشاہ اپنی ہی تنہائی کا راشد میں رہا
میں وہ اک در یتیم آپ میں لاثا
اشعار کے حسن کا دارومدار فکری رچائو کے بعد الفاظ کا برتائو ، جملوں کے استعمال ،تراکیب اور محاورے کی پرکاری پر بھی ہوتا ہے۔ راشد طراز نے اپنے اشعار میں الفاظ کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے ،جو ایک خوش آئند پہلو ہے۔ انھوں نے لفظیات کا استعمال بڑی خوبصورتی کے ساتھ کی ہے۔ کہیں کہیں اانھوں نے الفاظ ،تراکیب اور محاورے کے انتخاب میںقاری کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ جیسے عکسِ غزال، طلسمِ شب ، شیشۂ پندار، غبارِ کوچۂ آورگاں ، حرمتِ سخن، رموزِ ذات، صوت افق گیر، غمِ آوارگی ، بساطِ شوق ، رنگ وصال، گردِ ملال، شوکتِ حرف وخیال، امر محال، کشتِ سر سبز ، دیدۂ حیراں ، ادان سفر، گریۂ شب، آشفتہ سر، شیشہ بد ست، باب فراق ، نشاط جہاں، فسونِ داغ، طلسم زار، چاک دامانی، سوز نطق ، بساطِ رقص ، طالع بیدار، عرصۂ ہجر، حرف عنایت، حصارِ ظلمتِ شب، ستارۂ داغ جبیں، حرج پوش چراغ خانۂ محراب، حلقۂ چراغ، معرکہ جاں، شعلۂ مضراب، ہیبت ِستم دراز، وصال حرفِ مقدم، نوکِ سناں، طبع رواں، آہِ نیم شبی، کاسۂ شب، صحرا بدوش، سرکوئے نشاط، فصل جنوں، بصیرت کا غبار، تمثیل شجاعت، منصب درد، جہانِ فضول ، نشاطِ سخن، نغمۂ امکاں، خاموشیٔ گراں ،بیاضِ شوق، تابش اسرار ، خاموشی گراں بار ، بساط دل، اور سر شیشۂ دل وغیرہ یہ وہ الفاظ اور تراکیب ہیں جنھیں شاعر نے بے حد خوبصورتی اور ہنرمندی سے برتا ہے اس کے علاوہ بے ساختگی کے اظہار نے نئی فضا قائم کردی ہے۔ راشد طراز نے اپنی بے ساختگی اور لہجے کی توانائی سے پرانے لفظوں کو نیا لباس عطا کرنے کا کام بحسن خوبی کیا ہے۔ انھوں نے اپنے خیالات اور محسوسات کو جس بے باکی سے برتا ہے وہ جامد ذہن وفکر کے جمود کو توڑنے اور جنھجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔

Leave a Comment