کراچی آرٹس کونسل میں ’’دل کی مسند‘‘ کی تقریب رونمائی

رپورٹ: انعم ظہیر

\"13241702_992199467484654_1434271809_o\"
کتاب ہی وہ دستاویز ہے جس کے ذریعے علم کی ترسیل کا فریضہ انجام پاتا ہے۔ کتا ب ایک نسل کی سوچ اور تہذیب و تمدن کو دوسری نسل تک منتقل کر تی ہے۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے اس کے باوجو د کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ جو لطف تکیے کی ٹیک لگا کر کتا ب کے اوراق پلٹنے میں ہے وہ سکون کمپیوٹر کی مائوس سے پیج بدلنے میں نہیں ہے۔ کتاب جب زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر بازار میں پہنچ جاتی ہے تو ادبی روایات کے امین اس کی تقریب ِ رونمائی کر کے تخلیق کار کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں شہرِ قائد کراچی کی شاعرہ، ناول نگار، مدیرہ، افسانہ نگار اورکالم نگار ارمؔ زہراء کے پہلے شعر ی مجموعہ کلام ’’دل کی مسند‘‘ کی تقریب کراچی آرٹس کونسل کی لائبریری کمیٹی کے زیرِ اہتمام اور اردو لٹریری ایسوسی ایشن کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ اس تقریب کی صدارت بین الاقوامی شہرت کے حامل ادیب ،شاعرو نقاد پروفیسر سحر انصاری (ستارہ امتیاز) نے فرمائی۔ مہمان خصوصی کی نشست پر معروف شاعر و ادیب ایڈوکیٹ مسلم شمیم تشریف فرماتھے۔ مہمانانِ اعزازی کی نشستوں پر بزم ِ اساتذہ سندھ کی صدر پروفیسر فرزانہ خان اور ارمؔ زہراء متمکن تھیں۔ نظامت کے فرائض معروف شاعرہ آئرین فرحت نے اپنے مخصوص خوبصورت انداز میں ادا کر کے سامعین کے دل جیت لئے۔
\"13235909_992232464148021_764653438_n\"
\"13226933_1070563443010918_3493165690686969396_n\"
\"13245453_1070563493010913_477373872040362563_n\"
نشست کا آغاز تلاوتِ کلام ِ پاک اور نعت ِ رسول مقبول ؐ سے ہوا جس کی سعادت اریب باری نے حاصل کی۔ چیئرمین لائبریری کمیٹی سہیل احمد نے کہا آج کی تقریب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسٹیج پر تشریف فرماشخصیات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کی کریم یہاں پر جلوہ افروز ہے۔ انہوں نے تمام مقررین اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر صدرِ مجلس پروفیسر سحر انصاری نے خوبصور ت کاغذ میں ملفوف کتاب ’’دل کی مسند ‘‘کی رونمائی فرمائی۔ شہناز نصیر ، صدیق راز ایڈوکیٹ، نسیم نازش، انیس جعفری اور آئرین فرحت نے ارمؔ زہراء کو پھول پیش کئے۔ سید انیس جعفری اور ارمؔ زہراء نے اسٹیج پر تشریف فرما مہمانوں کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے تو ساری فضاء خوشبو سے مہک اٹھی۔ ارم زہراء نے تما م مقررین کو خوبصورت تحائف بھی پیش کئے جس کو سامعین نے تالیاں بجا کر سراہا۔ مقالہ نگاروں نے ارمؔ زہراء کے فن پر روشنی ڈالی۔ نسیم نازش نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ارمؔ زہراء نے نئی نئی ردیفیں بھی تخلیق کی ہیں۔ اِن ردیفوں کے استعمال سے غزلوں میں ایک مسلسل تاثر ملتا ہے۔ یہ ردیفیں شعری کیفیت سے لبریز ہیں اور غزل کی معنویت میں اضافہ کرتی ہیں۔سید انیس جعفری نے منظوم خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔
\"13256194_1080684178644476_2822598194222163047_n\"
مبارک باد میں دیتا ہوں دل کی مسند کو
ارم ؔ نے جہدِ مسلسل سے جو لکھی کتاب
شاہدہ خورشید کنول نے اپنے مقالے میں کہا کہ یہ شعری مجموعہ ایک منفرد باطنی تجربات کا آمیزہ ہے ۔ ہر شعر میں تجربات کے اظہار کے لئے کئی ایک شعری وسائل کو بروئے کا ر لایا گیا ہے۔ ارم زہراء سراپا محبت ہیں اور ان کے یہی جذبہ اِن کے اشعار میں جھلکتا ہے۔ ارم زہراء
کا شعر ی سفر رواں دواں ہے ، اِن کی غزلوں میں بہت سے ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں حوصلہ ہمت اور جرأت کے تیور پائے جاتے ہیں۔ طاہرہ سلیم سوز نے اپنے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ارم ؔزہراء کی شاعری دل سے لکھی گئی ہے اِس لئے دل میں اترتی ہے۔ اِن کی نظم ’’پاگل‘‘ مجھے بے حد پسند آئی اس میں انہوں نے منفرد اندا ز میں پاگل کو پیش کیا ہے۔
\"13239235_1568627733437049_3296698528111645884_n\"
پروفیسر فرزانہ خان نے اپنے مقالے میں کہا کہ ارم زہراء کی شاعری عصری آگہی سے پیوستہ ہے ۔ محبت کی رنگین دنیا ہی نہیں بلکہ تلخ لمحات پر بھی اِن کی گہری نگاہ ہے ۔ میرے خیال میں ’’دل کی مسند‘‘ ارم زہراء کے خواہش سے نہیں بلکہ اِن کی ریاضت سے ممکن ہوئی ہے۔ ’’دل کی
مسند ‘‘ کی غزلوں اور نظموں میں لفظیات کا استعمال سلیقے سے کیا گیاہے جس سے شاعری نے متنوع معنی کشید کئے ہیں۔ ارم ؔزہراء نے اپنے جذبات کو من وعن سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے ، لفاظی اور مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا ۔ اِن کا تخیل ندرت کے ساتھ فکرانگیز ہے۔ ریحانہ احسان نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ارمؔ زہراء اُس شخصیت کا نام ہے جو دلوں کی فتح کر لے۔ میں پوری ذمہ داری سے کہتی ہوں کہ ارم ؔ زہراء ایک سچی اور جینئون لکھنے والی ہستی ہے ، اِ س کے شعری مجموعے میں کہیں بھی وہ عناصر نہیں پائے جاتے جو آجکل درجنوں کی صورت ادبی فضائوں میں شامل ہوگئے ہیں ، ایسے خطرناک وائرس خصوصاً نوجوان نسل کے ذہنی رحجانات بگاڑ رہے ہیں ارمؔ زہراء کی شاعری ایسے رحجانات سے مبرا ہے ۔ ارمؔ زہراء اپنی فطرت میں ایک بہادر لڑکی ہے اِس نے اپنے راستے خود بنائے ہیں اور جہاں ضرورت پڑی وہاں رسم و رواج سے بغاوت بھی کی ہے اور اپنی شخصیت ،احساسات اور جذبات کی بھر پو ر عکاسی بھی کی ہے جس کا ایک بھرپور ثبوت ’’دل کی مسند‘‘ کا ٹائٹل ہے۔ذیب اذکار حسین نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ارم زہراء کی شاعری میں امکانات بڑے واضح ہیں ۔ اِن کی نظم ’’مزدور‘‘ میں مزدورکو انسان کے حوالے سے دیکھا گیا ہے ۔ انسان کی محنت اور انسان ہونے کے عمل کو بڑا کریٹیکل اور کریٹیویٹی سے پیش کیا گیا ہے۔ اِ ن کی ڈکشن میں ’’میرے شہر کی کہانی‘‘ کا اگر میں حوالہ دوں تو وہ شہر کراچی کے بہترین حوالہ ہے ۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ارم زہراء صرف رومانٹک شاعری ہی نہیں کرتیں بلکہ کرائم کے حوالے سے بھی اِن کی گہری نظر ہے۔ اب ارم زہراء کو کلامِ شاعر بزبان ِ شاعر کے لئے دعوت دی گئی۔ ارمؔ زہراء نے کراچی آرٹس کونسل ، اردو لٹریری ایسوسی ایشن ، تمام مقررین اور سامعین کا شکر یہ ادا کیا جنہوں نے اپنے قیمتی وقت سے کچھ لمحات میری حوصلہ افزائی کے وقف کئے ۔ ارم زہراء نے کہا کہ آج کا دن میرے لئے بہت عظیم دن ہے کیونکہ ادب کی قدآور شخصیات میری حوصلہ افزائی کے لئے یہاں جمع ہیں۔ آج میری مرحوم والدہ بھی اس محفل میں کہیں موجود ہوں گی۔ انہوں نے اِس موقع پر اپنے خاندان خصوصاً اپنے والد مرزا احمد لطیف کا شکریہ ادا کیا جن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے وہ اِس مقام تک پہنچی ہیں۔اب ارمؔ زہراء نے اپنا کلام سنانا شروع کیا تو داد و تحسین سے ارمؔ زہراء کے فن کو خراج پیش کیا گیا۔
\"13245305_1568627606770395_68373894646452821_n\"
مسلم شمیم نے اپنے مقالے میں کہا کہ ارمؔ زہراء ایک خوش فکر شاعرہ ہیں ،انہوں نے ٹائٹل پر جلوہ افروز ہو کر ایک نیا انداز اور نیا روپ پیش کیا ہے۔ ارم ؔ زہراء کی شاعری فطرت کی عطا ہے جو اِن کے شعری مجموعہ کی تخلیقات میں نمایا ں ہے ۔ ارمؔ زہراء نے جہانِ تخلیق میں رجائیت کی روشنی نمایاں نظر آتی ہے۔ ’’دل کی مسند‘‘ اِن کا پہلا شعر ی مجموعہ ہے۔ شاعری کے حوالے سے ایک صائب نظریہ یہ ہے کہ شاعری فطرت کا عطیہ ہوتی ہے جسے فطرت نے یہ وصف عطانہیں کیا ہے وہ ادب و علم کے دیگر شعبوں میں پذیرائی حاصل کر سکتا ہے مگر شاعری میں
کوئی جگہ نہیں پا سکتا ۔ ارمؔ زہراء کو شاعری فطرت کی عطا ہے جو اِن کے شعری مجموعہ کی تخلیقات میں نمایاں عنصر کے طور پر نظر آتی ہے پروفیسر سحر انصاری نے صدارتی کلمات میں کہا کہ ارم زہر ادب کی دیوانی ہے ۔ کلاسیکی رخ اور نیا پن ’’دل کی مسند ‘‘ میں نمایاں ہے۔ مشتاق احمد مشتاق نے کیا خوب کہا کہ نئے دیوانوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے بالکل ایسے ہی مجھے بھی یہ آرزو ہے کہ ارمؔ زہراء ادب کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں اور خوب سے خوب تر کا سفر طے کرتی جائیں ۔ سجاد ہاشمی، حمیدہ کشش، شوکت علی شوکت، نیل احمد ، سبین حشمت قاضی، ہدایت سائر، شبیر نازش، عرفان شاہ جنرل سیکریٹری بزم اساتذہ سندھ، شہاز صدیقی خازن آرٹس کونسل، صدیق راز ایڈوکیٹ، شہناز نصیر سیکریٹری نشرو اشاعت بزمِ اساتذہ سندھ، یامین اختر، محمد سلیم ایڈوکیٹ، علی حسن کامیڈی نے دوسرے سامعین کے علاوہ خصوصی شرکت کی۔ اِس طرح نصف شب کے قریب یہ یادگار محفل اختتام پذیر ہوئی۔
\"13249330_992231814148086_1030735538_n\"
\"13265877_1070564179677511_3011879594759394708_n\"

Leave a Comment