کراچی میں منعقدہ دسویں عالمی اردو کانفرنس کی روداد

فضا میں بکھرے اُردو کے رنگ

ادب، ثقافت، سیاست اور سماج کے موضوعات پر ہونے والی نشستیں، محافل موسیقی اور فنون لطیفہ پر اجلاس
\"RANA-ASIF\"
٭رانامحمد آصف

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام دسویں عالمی اردو کانفرنس کا افتتاح ہو 21 دسمبر کو ہوا اور پانچ روزہ کانفرنس 25 دسمبر تک جاری رہی۔ ممتاز شاعر زہرہ نگاہ نے کہا کہ ایسی کانفرنسوں سے علم و ادب کے ساتھ ساتھ محبتیں بھی پھیلتی ہیں۔ ہندوستان سے آئے ہو ئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہاکہ فنون لطیفہ پر باتیں کرنا سرکش ہواؤں میں اپنا راستہ تلاش کرنے کے مترادف ہے۔افتخار عارف نے کہاکہ اردو کو نادان دوستوں نے بہت نقصان پہنچایااور متنازعہ بنادیا گیا۔ پاکستان کے ہر علاقے کے لوگ اردو سے کوئی فاصلہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ پہلی کانفرنس میں باہر روڈ پر فائرنگ ہورہی تھی اور اندر کانفرنس ہورہی تھی یہ احمد شاہ کو اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے ایسے ماحول میں کانفرنس کو زندہ رکھا اور آج دسویں کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے۔ رضا علی عابدی نے کہاکہ برطانیہ میں وائرس کا ایک ٹیکہ لگایا جاتا ہے جس کے بعد انسان پورے سال تندرست رہتا ہے اور ہم اس کانفرنس میں ہر سال ٹیکہ لگوانے آتے ہیں۔اسد محمد خاں نے کہاکہ ستر سالہ ادبی تاریخ کے حوالے سے یہ دسویں کانفرنس بلاشبہ ہم سب کے لئے افتخار کا باعث ہے۔ کشور ناہید، امجد اسلام امجد ، یاسمین طاہر، مسعود اشعر، زاہدہ حنا، قاضی افضال حسین،جاپان سے آئے ہوئے مہمان دانشور ہیروجی کتاؤکا، عارف نقوی، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، نعیم طاہر، اور امینہ سید نے بھی دسویں کانفرنس کے انعقاد کو سراہا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہاکہ سیاست نے برصغیر کو توڑا تھا اور اردو نے برصغیر کو جوڑ رکھا ہے ، ہم ہر طرح کی شدت پسندی کا مقابلہ ادب و ثقافت سے کرسکتے ہیں دہشت گردوں اور تنگ نظروں کے خلاف تخلیق کاروں کا بڑا کردار ہے۔اس اجلاس میں شمیم حنفی اور مبین مرزا نے کلیدی مقالے پیش کیے۔ پہلے روز ہونے والے دوسرا اجلاس ’’عہد مشتاق احمد یوسفی‘‘ کے عنوان سے ہوا جس میں معروف فن کار ضیا محی الدین نثر پارے پڑھے۔
کانفرنس کے دوسرے روز کا پہلا اجلاس ’’حمد و نعت۔تحقیقی وفکری تناظر ‘‘ کے عنوان سے ہوا جس کی صدارت اردو کے معروف شاعر افتخار عارف نے کی۔ انہوں نے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نعت کہنے والوں کو اتنا علم ضرور ہونا چاہئے کہ ان کا کلام ادب کے معیار پر بھی پورا اترتا ہو۔اس سے قبل جہاں آراء لطفی نے ’’غیر مسلم شعرا کے نعتیہ کلام‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نعتیہ شاعری نے مسلمانوں اور غیرمسلمانوں میں رواداری کو فروغ دیا۔ فراست رضوی ’’جدید نعت کے ارتقا‘‘ کے موضوع پر بات کی۔ڈاکٹر عزیز احسن کا موضوع ’’نعت کا تخلیقی سفر‘‘ تھا۔ اس کا روز کا دوسرا اجلاس ’’بچوں کے ادب‘‘ کے موضوع پر تھا جس کی صدارت معروف براڈ کاسٹر اور ادیب رضا علی عابدی نے کی۔ انہوں نے بچوں کے ادب پر خصوصی توجہ دینے ضرورت پر زور دیا اور عالمی کانفرس میں اس موضوع پر اجلاس کے انعقاد کو سراہا۔منیر احمد راشد، ابنِ آس اور رومانہ حسین نصابی کتب کے معیار، بچوں میں ادبی ذوق کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور بچوں کی ادیبوں کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ اجلاس کی نظامت علی حسن ساجد نے کی۔ اسی روز ’’اْردو شاعری،ایک مطالعاتی تناظر‘‘کے موضوع پر ہونے والی نشست کی صدارت کشور ناہید، افتخار عارف، امجد اسلام امجد اور افضال احمد سید نے کی۔ ڈاکٹر نعمان الحق نے ’’کلاسیکی غزل کے جدید شعری اسلوب پر اثرات‘‘،جاویدحسن نے ’’رثائی ادب کے ستر برس‘‘ اور تنویر انجم نے ’’نثری نظم کے تخلیقی تجربات ‘‘ پر اپنے اپنے مقالے پیش کئے۔ کشور ناہید نے کہاکہ نثری نظم میں اتنے موضوعات تھے جو غزل نے چھوڑ دیے تھے انہوں نے کہا ملک جن حالات سے گزررہا ہے اس پر ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ اس موقع پر امجد اسلام امجد اور افتخار عارف نے خوبصورت نظمیں پیش کیں ۔
’’ہمارا ادبی و سماجی تناظر اور خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ نشست کی صدارت کشور ناہید، یاسمین طاہر،امینہ سیداور زبیدہ مصطفی نے کی جبکہ نجیبہ عارف ،ڈاکٹر فاطمہ حسن، یاسمین حمید، مہتاب اکبر راشدی اور زاہدہ حنا نے اپنے مقالے پڑھے۔کشور ناہید نے کہاکہ ہماری خواتین اچھا ادب تخلیق کررہی ہیں ، ہماری سب سے پہلی نقاد ممتاز شیریں تھیں۔ جب تک عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہوں گی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ زبیدہ مصطفی نے کہاکہ جو خواتین آگے بڑھیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اْن کا ساتھ اچھے مردوں نے دیا ہے۔ہمیں ان خواتین کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا جن کے پاس تعلیم و شعور کی کمی ہے ۔ زاہدہ حنا نے کہاکہ مرزا عظیم بیگ چغتائی پہلے ادیب تھے جنہوں نے اپنی چھوٹی بہن عصمت چغتائی کے دل میں شعور جگایا اور پھر یوں چراغ سے چراغ جلتا گیا، ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ عصر حاضر کے ادبی منظر نامے پر ہمیں نسائی شعور کا اظہار واضح نظر آتا ہے۔
کانفرنس کے دوسرے روز چارکتابوں کی تقریبِ رونمائی ہوئی جن میں محسن بھوپالی کی کتاب’’کلیاتِ محسن بھوپالی‘‘، انور شعور کی کتاب ’’آتے ہیں غیب سے‘‘، محبوب ظفر کی کتاب ’’احمد فراز شخصیت اورفن‘‘ جبکہ عرفان صدیقی کی کتاب ’’سخن آباد(کلیاتِ عرفان صدیقی) شامل تھیں۔ کانفرنس کے تیسرے روز کا پہلے اجلاس ’’ہماری تعلیمی و تدریسی صورتحال‘‘ کے موضوع پر تھا جس میں ممتاز ماہرین تعلیم نے اظہار خیال کیا اور طبقاتی نظام تعلیم اثرات و اسباب ، ملک میں تعلیم کی مجوعی صورت حال، اس حوالے سے حکومتی ترجیحات اور تاریخی تناظر زیر بحث رہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ افسوس ناک خبر ہے کہ خواندگی کی شرح اس سال 2 فیصد کم ہوئی ہے۔ اس اجلاس کی صدارت ممتاز ماہر تعلیم اور اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین جبکہ ماہرین تعلیم ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی انوار احمد ،جعفر احمد، پروفیسر ہارون رشید اور پروفیسر اعجاز فاروقی نے اظہارِ خیال کیا۔حاضرین نے پینل سے تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے سوالات کے علاوہ تجاویز بھی دیں۔ تیسرے روز ’’ہمارا سماج اور پاکستانی زبانیں‘‘ کے موضوع پر ہونے والے اجلاس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف نے کی۔ انہوں نے کہاکہ اْردو اور دیگر پاکستانی زبانیں مظلوم ہیں ان کا جھگڑا انگریزی سے ہے سندھی، بلوچی اورپنجابی زبانوں سے نہیں، جو لوگ اپنی زمینوں کا حق ادا نہیں کرتے وہ بدنصیب ہیں اگر ہم لینن سے استفادہ کرسکتے ہیں تو ہم اپنے یہاں صوفی شعراء سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ امداد حسینی نے کہاکہ سندھی بہت قدیم زبان ہے موہنجودڑو سے بھی اس کے آثار ملے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ لغت پر کام ہوتے رہنا چاہئے فہمیدہ ریاض خواتین میں سندھی زبان کی سب سے بڑی وکیل ہیں۔

انوار احمد نے کہاکہ کسی کے وجود یا اس کی شناخت سے انکار اس کی توہین اور تذلیل ہے جس طرح میں نہیں چاہتا کہ کوئی میری مادری زبان کی توہین کرے اسی طرح کوئی دوسرا بھی کسی اور کی مادری زبان کی توہین نہ کرے،علی بابا تاج نے کہاکہ یہ خطہ خوش نصیب ہے کہ مختلف بولیاں بولنے والے لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں، 7ہزار سے زائد زبانیں دنیا بھر میں بولی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں تقریباً74زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مظہر جمیل نے کہاکہ پاکستان لسانی اور تہذیبی گلدستے کی مانند ہے، زبانیں محض رابطے کا اظہار نہیں ہوتیں بلکہ اس میں ہمارے وجود کے سب رنگ موجود ہوتے ہیں۔
اردو کانفرس میں ہمارے عہد کے ممتاز شعرا افتخار عارف اور امجد اسلام امجد کے ساتھ خصوصی گفتگو کی نشستیں بھی ہوئیں۔ معروف صحافی اور کالم نگار وسعت اللہ خان نے افتخار عارف کے ساتھ دل چسپ مکالمہ کیا جس میں کی زندگی اور شعری سفر پر بات ہوئی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنا منتخب کلام بھی پیش کیا۔ امجد اسلام امجد کے ساتھ ایک شام کی نشست میں میں امجد اسلام امجد نے کہاکہ بہت سارے لوگ ایک سے زیادہ میڈیا میں اپنا اظہار کرسکتے ہیں اس لئے میں ڈرامے ، کہانیاں اور شاعری میں اظہار کرسکتا ہوں۔ لوگوں نے میرے ان صلاحیتوں کو پسند کیا۔انہوں نے بھی اپنا منتخب کلام بھی پیش کیا۔
کانفرس کے چوتھے روز ’’اردو فکشن پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے سیشن منعقد ہوا۔ جس میں اسد محمد خان، حسن منظر، مسعود اشعر، انیس اشفاق، محمد حمید شاہد، قاضی افضال، زاہدہ حنا، آصف فرخی، زیب اذکار حسین نے اظہار خیال کیا اور نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے ادا کیے۔ اسی روز ’’اردو کی نئی بستیاں اور تراجم کی صورت حال‘‘ پر بھی ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔
پانچویں روز کا پہلا اجلاس ’’اردو تنقید ایک جائزہ‘‘ کے موضوع پر تھا۔اس اجلاس میں بھارت کے معروف نقاد مصنف شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین سمیت انوار احمد، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، نجیبہ عارف اور سرور جاوید نے اظہارِ خیال کیا۔ شمیم حنفی نے صدارتی خطاب میں کہاکہ وہی تنقید اچھی اور بامقصد ہوتی ہے جو تخلیقی لوگوںنے لکھی ہو ، جدیدیت کے تصور نے بھی بڑے نقاد پیدا کئے ہیں، ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔’’یادِرفتگاں‘‘ کے عنوان سے ہونے والے اجلاس میں نیئر مسعود ،خلیق انجم، ابراہیم جویو، شان الحق حقیق، ندا فاضلی، تصدق سہیل، فارغ بخاری اور مسعود احمد برکاتی کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور ان شخصیات کی خدمات پر گفتگو بھی کی گئی۔
کانفرنس کے آخری روز بابائے قوم محمد علی جناح کی سالگرہ کی مناسبت سے ’’قائداعظم کا پاکستان‘‘ کے عنوان سے نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت چیئرمین سینٹ رضا ربّانی نے کی۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم کا تصور حکومت صدارتی نہیں بلکہ پارلیمانی تھا، یومِ قائد پر ہمیں ماضی کی غلطیوں پر گفتگو کرکے چھوڑ نہیں دینا چاہیے بلکہ ان کو درست کرنا ہوگا۔ قائداعظم کی جدوجہد دراصل حقوق کی جدوجہد تھی جو بعد میں پاکستان کی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ ہمیں پاکستان کی وفاقیت کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے ۔ پاکستان میں صدارتی نظام 7مرتبہ آزماچکے اور قائداعظم کے خیال کی نفی کی۔ غازی صلاح الدین ، ڈاکٹر جعفر احمد اور حارث خلیق نے اظہار خیال کیا جب کہ میزبانی ڈاکٹر ہما بقائی نے کی۔نشست کا آغاز قومی ترانے اور اختتام قائداعظم کی سالگرہ کا کیک کاٹ کر کیا گیا۔ حسب روایت کانفرنس میں مشاعرہ بھی منعقد ہوا جس میں بیرون ملک سے آنے والے شعرا نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ انور مقصود کے نام کیا گیا اجلاس حسب توقع دل چسپ ثابت ہوا ، جس میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں حالات حاضرہ، اردو کی صورت حال اور اردو کانفرس پر دل چسپ انداز میں تبصرہ بھی کیا۔ پُرہجوم اختتامی اجلاس کے انعقاد کے ساتھ پانچ روز تک جاری رہنے والی اس رنگارنگ بزم کا اختتام ہوا۔
بشکریہ ایڈیٹر محترم جناب سید خاور \”روز نامہ 92 نیوز\” کراچی
www.roznama92news.com

Leave a Comment