کربِ باطن کا شاعر۔۔۔محمدایوب صابرؔ کی کتاب پر تبصرہ

\"Eram

ارمؔ زہراء۔کراچی
محمدایوب صابرؔ اس عہد کی ایک ایسی معتبر آواز ہیں جن کا اپنا ایک منفرد لب و لہجہ ہے ۔ان میں گھن گرج کے ساتھ وہ تڑپ ہے جوان کے خلوص اورسچائی کی دلیل ہے۔جہاں ان کی آواز کی کاٹ ان کے گزشتہ شعری مجموعے ’’اعزازکی قیمت‘‘اور’’اذانِ سحر‘‘میں اپنالوہا منواتی نظرآئی ہے۔ وہیں قارئین کو خوداحتسابی پراکساتی رہی ہے ۔ایک سچے قلم کار کی سب سے بڑی نشانی اور علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ زمانے کے درد کواپنے اوپر اس طرح طاری کرلیتا ہے کہ پھراس کے نفس سے ابھرنے والی ہرآواز،اس کی آواز نہیں رہتی بلکہ وقت کانوحہ اور زمانے کاراگ بن جاتی ہے ۔جیسے
شعورِ ذات میں شامل ہے گر اسلاف کی دستک
تو پھر کردار میں کیسے نہ ہو اوصاف کی دستک
جو تیری شاعری کے فن سے بہرہ مند ہیں صابرؔ
وہ کیسے بھول سکتے ہیں تری اصناف کی دستک

\"M
زیرِنظرشعری مجموعہ’’اسلاف کی دستک‘‘میں محمدایوب صابرؔ نے غزل کے قدیم مقبول اورمروج سانچے کوتوڑے بغیر اسے بلند تخیل کے پرتُو میں تبدیل کردیا ۔ویسے بھی یہ دور سیاسی اور اقتصا دی بحران ، سماجی اور اخلاقی اقدار میں ایک انقلابِ عظیم کا دور ہے ۔ایسے میں محمد ایوب صابرؔ نے ’’اسلاف کی د ستک ‘‘کے ذریعے زندگی اور سماج کے چھپے ہوئے ناسوروں پر طنز کے نشتر چلاتے ہوئے انہیں اپنی روایات تہذیب و تمدن کا آئینہ د کھایاہے۔ ان کی شاعری کے عقب سے جو تیرچلتے نظر آتے ہیں ان کی چبھن ناظر بڑی شدت سے محسوس کرتا ہے ۔ محمد ایوب صابرؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے مغربی تہذیب کی ساری بے اعتدالیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہ جب مغربی ہوا کے تھپیڑوں سے اپنی تہذیب کے تناور درختوں کی ٹہنیوں کو ٹوٹتا دیکھتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محمد ایوب صابرؔ ایک سچے تخلیق کار کے منصب پر فائزنظرآتے ہیں۔
ہر طرف روشن خیالی کے ترانے ہیں مگر
فکر و فن کے راستے میں روشنی نایاب ہے
بارہا پوچھا ہے صابر ؔ یہ میرے ہمزاد نے
بندہ پرور یہ بتا کیوں بندگی نایاب ہے
محمدایوب صابرؔ ہمارے عہد کے دردمند قلم کار ہیں ۔انہوں نے عصر کے مزاج کواس دردمندی کے ساتھ سمجھاکہ ان کاپورا لب ولہجہ ان کے عہد کی پکار بن گیا یہ دردِ آشوب مجھے اس عہد کی اردوشاعری میں خال خال ہی نظرآتا ہے ۔جیسے:
وہ جن کے دم سے ہم تھے زمانے میں معتبر
میں نسلِ نو میں پھر وہی آداب ڈھونڈ لوں
فرصت ملے کبھی تو میں کونے میں بیٹھ کر
اپنی تنزلی کے ہی اسباب ڈھونڈ لوں
*
عقل و دانش سے ملی پہچاں ، مرے اجداد کو
دنگ رہ جاتا ہوں اُن کے تجربے کو دیکھ کر
جلد بازی میں بگڑ جاتا ہے صابرؔ سلسلہ
فیصلہ کرتا ہوں میں ہر زاویے کو دیکھ کر
محمدایوب صابرؔ اس فن سے آگاہ ہیں کہ کون سی بات کس اندازمیں کس موقع پرکہی جائے تواس کی تاثیر دیر پاہوگی۔ان کااسلوب تصنع اور تکلف سے مبراہے۔ایک کھرے شاعرکی حیثیت سے ان کے احساسِ جمال اورداخلی آہنگ کی لے اپنی ہم عصرآوازوں سے قدرے تیز اور پُراثر ہے۔
وہ کیسے لائیں گے پتھر کے دور کو واپس
وہ تھوپ سکتے نہیں ہم پہ راج پتھر کا
جو اپنی روزی کماتا ہے توڑ کر پتھر
دیا ہے اس نے لہو سے بیاج پتھر کا
محمدایوب صابرؔ وقت کے نباض ہیں ۔ان کا لہجہ ہمدردانہ،سوچ مثبت ،شکست وریخت کے بجائے تغیروتشکیل کا عمل ان کی شخصیت کے رجائی پہلو کو نمایاں کرتا ہے ۔آج کے انسان کاکرب بھی ان کی ذات میں موجود ہے اور فخر بھی۔۔۔مصائب کے ہجوم میں گھرے انسان کی تصویر بھی ہے اور مسائل سے نکلنے کے راستے بھی۔فردکی تنہائی اوردکھ کا تذکرہ بھی ہے تو وہیں انسان ،دھرتی، فطرت سے محبت کا والہانہ انداز بھی۔
اک شخص کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے چیخ
اپنے مکاں کی گرتی وہ دیوار دیکھ کر
آنکھوں کا پانی پلکوں کی سرحد پر آ گیا
خیموں میں سر جھکائے وہ لاچار دیکھ کر
*
جس نے بٹھایا سکّہ صحر ا کی ریت پر
اس کا لگا ہے کتبہ صحرا کی ریت پر
میں ڈھونڈتا ہوں اپنے ماضی کا سلسلہ
بکھرا ہے عہدِ رفتہ صحرا کی ریت پر
یہ خاصا کڑا معیار ہے ۔ اردوشاعری کی چار سو سالہ تاریخ پر نگاہِ بازگشت ڈالیں تو کتنے شاعراس
کڑے معیار پر کھرے ثابت ہوتے ہیں۔ میر،ولی،آتش،غالب،فیض ، اقبال یہ وہ شعراء ہیں جو ہمیں آج کے شاعر بھی محسوس ہوتے ہیں ۔گویا تخلیق کی ایک صدی صرف ایک شاعر کے نام منسوب کی جا سکتی ہے ۔اس تناظر میں محمد ایوب صابرؔ کا یہ شعر دیکھئے:
اک آگ سی لگی ہے اقدار کے محل میں
تہذیب جل رہی ہے لیکن دھواں نہیں ہے
*
دانائی کی باتیں ہیں ہونٹوں پہ بزرگوں کے
پوشید ہ ہے علم وفن ا قوال کے سینے میں
تن من کی غلامی سے آزاد رہے مسلم
اک خواب تھا یہ صابرؔ اقبالؔ کے سینے میں
یہ وہی جوشِ نمو ہے جوعلامہ اقبال کے ہاں خونِ جگر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ شعر بھی ملاحظہ کیجئے:
جو مثبت سوچ اور خد مت کا جذبہ ساتھ مل جائے
تو ممکن ہے کہ توُ ہی قوم کا معمار بن جائے
جسے لکڑی سمجھ کر ہاتھ میں تُو نے لیا صابرؔ
وہی میدان میں جا کر تیری تلوار بن جائے
وجودِ انسانی کے پوشیدہ امکانات کے اشارے ،تشخص کی جستجو،زندگی کو بامعنی بنانے کی آرزو،خودی کی قوتوں کی تلاش محمدایوب صابرؔ کی شاعری کے سمندر میں موج درموج پھیلے ہوئے نظرآتے ہیں۔جیسے:
ملت کی تو بقا ہے فقط اتحاد میں
کیا مل گیا ہے نسخہء اکسیر چھوڑ کر
تاریخ کی کتابوں میں رہ جاتے ہیں وہ لوگ
جو کام کریں ذات کی تشہیر چھوڑ کر
*
زمانے میں نمایاں ہیں مرے افکار کی باتیں
زبانِ عام سے سنئے مرے کردار کی باتیں
کھڑا ہے شان سے اقبال کے پہلو میں جو تنہا
کبھی پوچھو بزرگوں سے اُسی مینار کی باتیں
محمدایوب صابرؔ اپنی شاعری میں نئی نئی زمینیں ایجاد کرتے نظرآتے ہیں وہ نئی تراکیب وضع کرتے ہیں توایساکسی میکانکی عمل کے ذریعے نہیں ہوتا بلکہ یہ فطری طورپران کے وجود میں شامل ہے۔جیسے:
اب فکر و فن ہے پیاسا دریائے نیل میں
اس بات کا ہے چرچا دریائے نیل میں
صابرؔ نہیں ہے کوئی امکان بارشوں کا
پڑنے لگا ہے سوکھا دریائے نیل میں
*
ایک صورت بناتا رہا کوزہ گر
حشر کیا کیا اٹھاتا رہا کوزہ گر
اس کے اندر کئی سال کی پیاس تھی
آب خورے بناتا رہا کوزہ گر
شاعر کا مشاہدہ اور تجربہ جب خون میں رچ بس جاتا ہے توپھر پُراثراشعارتخلیق ہوتے ہیں ’’اسلاف کی دستک‘‘میں محمدایوب صابرؔ کا اسلوبِ سخن ندرتِ خیال سے مزین ہے۔اس لئے ان کے ندرتِ اسلوب نے شاعری کے روایتی مضامین کوجدت کاآہنگ عطاکیاہے، پھرمضامینِ نوکے انبارخوشہ چینوں کوورطہ ء حیر ت میں ڈال دیتے ہیں کہ قطرے میں سمندر اور جزومیں کُل نظرآنے لگتاہے ۔ محمدایوب صابرؔ کی ادبی و شعری توانائی صرف جذبہ واحساس کی رعنائی سے معتبر نہیں بلکہ ان کا نئی تراکیب،مناسب ترین الفاظ کا برتاؤ اور موضوعات کے تنوع کے ساتھ بندش کاحسن بھی وافرمقدار میں
موجود ہے۔
جہاں میں اہلِ دانش نے نئے ابواب کھولے ہیں
نیا پہلو ہمیشہ علم کی ترسیل سے نکلا
ترے بس میں نہیں صا برؔ کو اپنی قید میں رکھنا
میں اپنے زورِ بازو سے تری تحویل سے نکلا
محمدایوب صابرؔ کی شاعری میں الفاظ کی پرکھ،مصرعوں کی بنت اور شاعری کے سُوتے ان کی زندگی اورمطالعے کے چشمے سے پھوٹتے دھارے ہیں جو فکروعمل کے راستوں میں شمع کی طرح روشن نظرآتے ہیں۔ان کے اشعار میں عہدِ رفتہ کی پراسرار تفسیریں ملتی ہیں تو کہیں احساسات کی شورش اورالجھنوں کی سرسراہٹ ۔۔۔محمدایوب صابرؔ کاکمالِ فن یہ بھی ہے کہ ایک ہی شعر میں شعور و جذبہ،فکرواحساس،مشاہدہ وتجربہ،حقیقت اورصداقت سمودیتے ہیں مجھے ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ لگتی ہے کہ وہ جدیدیت سے ہمکنار بھی ہے اور انسانی المیوں کواجاگر بھی کرتی ہے۔یوں کہاجاسکتا ہے کہ محمدایوب صابرؔ کربِ باطن کے شاعر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ محمدایوب صابرؔ کی غزلیات حال اور حقائق کی تصویر کشی کرتی ہوئی قاری کو ذوقِ تحسین اور تلاش وجستجو کی دعوت دیتی ہیں ۔میری خواہش اور دُعا ہے کہ محمدایوب صابرؔ کی جستجو کایہ سفر سدایونہی متحرک اور متجسس رہے اور وہ دائرۂ ادب میں ہمیشگی کاتاج سجاکر سدا شہرتِ عام کی مسند پر متمکن نظرآئیں۔آمین!
ارمؔ زہراء۔کراچی

\"aslaf

Leave a Comment