کشمیر کی اردو شاعری میں’’شہرخاص‘‘کا حصہ:ایک جائزہ

\"\"
٭سہیل سالمؔ
کشمیر یونیورسٹی شعبہ اردو،سری نگر،کشمیر۔
ہمالہ کے دامن میں ابلتے ہوئے چشموں،آبشاروں،لالہ زاروں،سر سبز وشاداب کھیتوں،زعفران زاروںکے ہوشربا اور پر کشش قدرتی مناظر سے بھر پور ہماری وادیِ جسے بقول علامہ اقبالؔ’’اہل نظر نے ایران سے تعبیر کیا ہے‘‘ اور جس کی سرحدیںہندوستان،پاکستان، روس،افغانستان اور چین کے ساتھ ملتی ہیں،ہماری وادی عہد قدیم سے ہی علم وادب کی گہوارہ رہی ہے۔ہماری وادیِ کا خاص کر وہ حصہ جسے ’’شہر خاض ‘‘یعنیdown town کے نام سے بھی جانا جاتا ہیں۔ ’’ شہر خاص ‘‘ کشمیر کا ایک تاریخی شہر ہے جو کہہ تقریبا چالیس کلو میٹر پر لاچوک کے شمال میں واقع ہے۔یہ شہر (۳۴) علاقوں پر مشتمل ہیں جن کے نام نوہٹہ ، رجواری کدل،گوجوارہ،کا ئو ڈور،صراف کدل ،بھوری کدل،نوا کدل،صفا کدل ،خانیار،سیکہ ڈافر،عالی کدل،حبہ کدل، کنہ کدل ،فتح کدل، قادی کدل، ڈمبہ کدل، واتل کدل ،نوابازار،مہارج گنج ،زینہ کدل ،خانقاہ محلہ ،گرٹہ بل، تارہ بل ،براری پورہ ،بلبل لنکر، نر پرستان،خواجہ بازار،رعناراری ،بابا ڈیم ،ملا روٹھ ،نروہ رہ ،گندر پور،ہ عیدگاہ اور حول ہیں۔شہر خاص کی مٹی ِفطری استعداد کے اعتبار سے نہایت ہی زرخیز ہیں۔یہاں کی مٹی نے ایسے ادباء‘شعراء ،علماء وفضلاء کو جنم دیا جنہوں نے تعلیم، سائنس ،سیاست،سماجیت ،اقتصادیت اور علم وادب جیسے علو م کی تاریخ میں اَن گنت نقوش چھوڑے ہیں۔کشمیر کی اردو شاعری کو فروغ دینے میں شہر خاص نے جو کردار ادا کیا ہے جموں وکشمیرکی ادبی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔یہاں کے شعراء نے اپنی مادری زبانوں کو چھوڑ کر زیادہ تر اسی زبان میں اظہار خیال کیا ہے۔جن میں مندرجہ ذیل شعراء سہرفہرست ہیں:
شہ زور کاشمیریؔ: شہ زور کا شمیری سرینگر کے شہر خاص علاقے کنہ کدل چوٹہ بازار میں ۱۹۱۵ء میں تولد ہوئے ۔آپ کا اصلی نام غلام قادر ہے۔شعروسخن کا مذاق بچپن ہی سے تھا۔مرحوم فرید پربتی نے ان کے کلام کو منظر عام پر بہ عنوان( شہ روز کاشمیری ) لایا۔شہ زور فطری ذوق کی وجہ سے شعر کہتے تھے۔انھوں نے غزلیں لکھی ہیں اور عزل میں وہ استادی کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔اپنے آس پاس کے ماحول کی عکاسی کرتے رہے اور نئی نئی تبدیلیوں اور تقاضوں سے نشووتما پاتے رہے۔ابتدا میں اگر چہ حسن وعشق ،لب ورخسار،ہجروصال، جام ومینا سے بھی ٹکرائے ۔مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہیںرہا۔انھوں نے اپنے عہد کے فنی اور سماجی شعور کو اپنے فن میںسمونے کی کوشش کی۔ ؎
ہیں بلند اتنے عزائم تیرے دیوانوں کے
خود جنوں سیتا ہے چاک انکے گریبانوں کے
ہے قفس ہی میں یہ تاثیر کہ اس میں رہ کر
دیکھے جاتے ہیں عجب خواب گلستانوں کے
حامدی کاشمیریؔ:آپ کا نام حبیب اللہ ہے۔حامدی ؔ تخلص کرتے ہیں۔آپ ۱۹۳۲ء میں سرینگر کے شہر خاص علاقے بہوری کدل میں پیدا ہوئے۔حامدی صاحب نے اپنی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور ہندو پاک کے ممتاز رسائل میں پابندی سے شائع ہوتے رہے۔پھر انھوں نے شاعری کی طرف توجہ کی اور شہ زور کا شمیری سے چند تخلیقات پر اصلاح لی۔اب تک ان کے کئی شعری مجموعے اردو دنیا میں متعارف ہوچکے ہیں جن کے نام عروس تمنا،نایافت،لاحرف،شاخ زعفران اور وادی امکان ہیں۔حامدی کاشمیری ؔکی شاعری پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد بعد ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس نے اپنے شعری اسلوب کو کلاسکیت سے صقیل کیا،رومانیت سے چمکایا،سوزدل اور حقیقت پسندی سے آب دار بنایا،امید اور یقین سے گرمایا اور مقامی روایت کے صحت مند عناصر سے اس میں حرارت و توانائی پیدا کی اور بیان کی دلکشی ،زبان کی چاشنی اور تزنم آمیز الفاظ سے شیرینی و حلاوت عطا کی ہے ۔جس سے اس میں غیر معمولی اثر آفرینی اور نغمگی پیدا ور ہوگئی ہے ؎
کہتے ہیں سب برس گئے بادل
کس کی آنکھوں میں بس گئے بادل
سبزہ زاروں سے زہر اگتا ہے
کیا زمینوں کو ڈس گئے بادل
غلام نبی خیالؔ:جموں وکشمیرمیںجناب غام نبی خیال ؔ کا شمار صف اول کے ادباء میں ہوتا ہے۔انھوں نے اردو ادب کی جو گراں قدر خدمت کی ہے اس کا معترف ایک زمانہ ہے۔شاعری ،صحافت،ڈرامہ نگاری اور ترجمہ نگاری ہر صنف میں انھوں نے اپنی جدت وانفردیت کے گل بوٹے کھلائے ہیں۔آپ کا شہر خاص کے مشہور علاقے حول میں4 مارچ1939 کو تولد ہوئے ۔ان کی آج تک شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد پینتیس (۳۵) ہے۔جن میں خیابان کشمیر،کاروان خیال ،اظہار خیال ،خیالات ،فکر خیال ،خیال قلم ،چنار رنگ، شبنم کا آتش کدہ اور جہان خیال قابل ذکر ہیں۔غلام نبی خیالؔ نے اپنی نظموں میں حسن و عشق سے لے کرسیاسی افکار ،فلسفیانہ خیالات اور سماجی رجحانات کو رمزیت ،اشاریت ،تخیل کی بلندی ،احساس کی شددت ،پیرایہ بیان کی دلآویزی کے ساھ پیش کر کے اردو نظم میں تنوع پیدا کیا ہے۔انھوں نے بلند آہنگ اور بارعب الفاظ کا بھی سہارا لیا ہے ۔خار جیت کے ساھ ساتھ داخلیت اور دروں بینی ،اجتماعیت کے ساتھ ساتھ انفرادیت اور اپنے خاص لب و لہجے کو معاصر حالات سے ہم آہنگ کرکے انھوں نے اپنی نظموں میں ایک خاص پسم کی جمالیاتی شان پیدا کی ہے۔نظم (تمہارے نام ) کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
جو تو اداس رہے چاندنی بھی مرجھائے
جو حسن ناز پہ اترا کے تو گزر جائے
تو موج نور اندھیروں میں رہ بنانے لگے
جو آنکھ نم ہو تیری تو بسنت لوٹ چلے
جو تو ہنسے تو بہاروں میں زندگی آئے
فرید پربتیؔ : شہر خاص کے ادبی ستاروں میں ایک نام ڈاکٹر فرید پربتی ؔکا بھی ہے ۔آپ کا اصلی نام غلام نبی بٹ ہیں۔۱۹۶۱ء شہر خاص کے سنگین دروازہ حول سرینگر میں تولد ہوئے۔فرید پربتیؔ نے اردوشاعری کا باقاعدہ آغاز1980 میں کیا۔آب تک اردو میں ان کے اٹھ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔جن میں’’ابر تر1987 ‘‘، ’’آب نیساں1992 ‘‘ ،’’اثبات1997 ‘‘ ، ’’فریدنامہ2003 ‘‘ ، ’’گفتگو چاند سے2005 ‘‘، ’’ہزار امکاں2006 ‘‘،’’خبر تحیر2008 ‘‘ اور ’’ہجوم آینئہ2010 ‘‘اردو دنیا میں متعارف ہوچکے ہیں۔
فرید پربتی ؔکی شعری کائنات کا سفر کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے حالات کی تعبیر اور اس کی تر جمانی کے لئے جن استعاروں اور تشبیہات کا استعمال کیا ہے ،ان میں کثیر العلمیت پورے طور نمایاں ہے۔انہوں نے اپنے وقت کے اعتبار سے جو شعری اساسہ چھوڑا ہے۔
وہ جدید شاعری کا عمدہ نمونہ ہے۔انہوں نے اپنے شعری بیان کو تبصرے کی شکل نہیں دی بلکہ اپنی حسیات اور اس سے منسلک شعری تقاضوں
سے معاشرتی رشتوں کو ظاہر کرنے کی ضمن میں اپنی مخصوص شعری بصیرت کو بھی ماضی قدروں کے طور پر اور کبھی حال کی ذہنی الجھنوں کے طور پر برتا ہے۔چند اشعار ؎
دنیا نئے سانچے میں ڈھل جائے گی
ہاں فطرت آدم بھی سنبھل جائے گی
حالات بدل جائیں گے پھر اس کے بعد
اس ظلم کی بنیاد بدل جائے گی
حکیم منظورؔ:محمد منظور ۱۹۳۷ء میں شہر سرینگر کے شہر خاص کے علاقے گوجوارہ میں پیدا ہوئے۔حکیم منظور کو کالج کے زمانے سے ہی شعرو شاعری کا شوق رہا پھر انہتائی مشق اور ریاضت کے سبب کشمیر کے جانے مانے شاعروں میں شمار ہونے لگے۔ حکیم منظورؔ نے اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز 1964 میں کیا ۔اب تک اردو میں ان کے دس شعری مجموعہ منظر عام پر آچکے ہیں ۔جن میں ’’ناتمام1977‘‘، ’’لہو لمس چنار1982 ‘‘، ’’برف راتوں کی آگ1990‘‘ ، ’’خوشبو کا نیا نام1991 ‘‘ ، ’’پھول شفق آنگن1993 ‘‘ ، ’’شعر آسمان1997 ‘‘، ’’صبح،شفق،تلاوت1998 ‘‘، ’’برفافتاب2000‘‘ ،’’سخن برف زاد2002 ‘‘ ، ’’قلم ،زبان ،شگاف2005‘‘۔ان کے یہ تمام تر مجموعے کئی حوالوں سے اردو کی شعری دنیا میں گرا قدر سرمایے کی حیثیت رکھتا ہیں، جس طرح ان کے شعری مجموعوں کے نام تازے اور نئے ہیں اسی طرح ان کے اندر بسی شعری دنیا تازہ ،ان دیکھی اور نامانوس ہے۔’’ لہو لمس چنار‘‘کی غزلیں الفاظ ،اسلوب اور افکار کا یکسر مختلف منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔شاعر کشمیر کا شدید تاثر بھر پور انداز میں پیش کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔حکیم منظورؔ کے ہاں کشمیریت اور کشمیری ماحول اور موسمیاتی عمل اپنی سفاکیت کے ساتھ پوری طرح جلو گرہے۔موسمیاتی عمل اور اس کی سفاکیت کشمیری ماحول کا وہ جبر ہے جو شاعر کو سخت جانی کے عمل پر مجبور کرتا ہے۔یہی سخت جانی ان کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ؎
کس نے توڑے ، میرے آئینے ،کہو
گم چناروں کے ہیں کیوں سائے،کہو
شجر دیوار کا جنگل کے پودوں سے یہ کہتا تھا
مرے کشمیر کا اس پوری دنیا میں نہیں ثانی
رفیق رازؔ:آپ کا نام رفیق احمد ہے۔رازؔ تخلص کرتے ہیں۔آپ ۱۹۵۰ء میں سرینگر کے شہر خاص علاقے براری پورہ میں پیدا ہوئے۔پہلے فارسی میں شعر کہتے تھے۔اب تک ان کے تین شعری مجموعے جن کے نام انہار،مشراق اور نخل آب منظر عام پر آچکے ہیں ۔رفیق رازؔنے اپنی غزلوں میں کہیںکہیں اپنی بات کی تاثیر میں اضافے کے لئے طنزسے بھی کام لیتے ہیں۔اشعار امیں آشوب آگہی کا بیان بھی ہے اور زمانے کی بدحالی کا کرب بھی۔سیاست کی پیچیدگیوں اور اس کی خامیوں کااظہار بھی ہے اور اس سے نبردآزما ہونے کا جذبہ بھی ،وہ لمحہ لمحہ سیاست پر نظر رکھتے ہیں۔تبھی تو طوفان کے آثار وہ قبل از وقت محسوس کرلیتے ہیں۔رفیق رازؔنے شاعری کی بنیاد جن عناصر پر رکھی ہے وہ بڑے جامع اور بلند ہیں۔فکر کی ہم گیری،ذہن کی تہہ در تہہ رسائی،نکتہ رسی ،مشاہد کی تازہ کاری،انوکھا اسلوب اور موثر پیرائیہ اظہار رازؔکی شعری کائنات کی خصوصیت ہیں۔ ؎
گرجتا ہوا قلزم بے کراں کا سماں ہر طرف
لکھ نہ دے پیاس کی چلچلاتی ہوئی داستاں ہر طرف
وقفے وقفے سے اذانوں کا دھواں اٹھتا ہے
سانس لیتا ہے ابھی شہر کا مینار سیہ
مظفر ایرجؔ:محمد مظفر نقشبندی نام اور ایرج تخلص ۔آپ ۱۹۴۴ میں سرینگر کے شہر خاص کے علاقے صفا کدل میں تولد ہوئے۔شعر وسخن کا فطری ذوق تھا۔ابجد،انکسار،شہر آشوب،ثبات،دل کتاب،ہوادشت دیار اور سخن آئینہ ان کے شعری مجموعے منصہہ شہود پر آچکے ہیں۔ ان کی غزلوں میں سچے جذبات کی ترجمانی اور تجربے کا خلوص ملتا ہے۔تغزل کی شیرینی ہے،حق تو یہ ہے کہ شاعر نے لطیف جذبات و احساسات کو تغزل کے آب ورنگ ساتھ انتہائی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔مظفر ایرج ؔنے اپنے شاعرانہ خیالات میں جو سیاسی ،سماجی اور فلسفیانہ عناصر شامل کیے ہیں وہ دراصل جدید ماحول کے خاص اور عام دونوں طبقوں کے محسوسات ہیں۔انہوں نے موجودہ زندگی اور معاشرے کے مختلف اور متضاد پہلوں میں ممثلت تلاش کرتے ہوئے مختلف جذبات میں وحدت قائم کرنے کی سعی کی ہے۔ ؎
نفش کہن مٹائیں گے آج نہیں کل سہی
جوت نئی جلائیں گے آج نہیں تو کل سہی
کہتا رہا دنیا میں خود اپنی حکایات
خوشبو کے کسی بولتے منظر کی طرح چپ
رخسانہ جبینؔ:رخسانہ جبین ۱۹۵۵ میں شہر خاص کے خواجہ باراز علاقے میں تولد ہوئی۔شاعری کی شروعات ۱۹۷۷ء میں کشمیر یونیورسٹی سے کی۔آپ کا شعری مجموعہ’’چراغ چہرہ ‘‘جلد شعری دنیا میں متعارف ہوگا۔رخسانہ جبین ؔکی بصیرت اور ان کا وجدان وسیع ہے اور ان کی فکر کسی مخصوص خطئہ ارض کا احاطہ نہیں کرتی ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی قدروں کو پامال اور بے عزت کیا جارہاہو۔ان سب کے لئے رخسانہ جبین ؔ اپنے قلبی رنج وغم کا اظہار کرتی ہیں۔چونکہ ہر نثری شہ پارہ اور ہر شعری تخلیق اپنے دور کی عکاسی کرتی ہے ،اس لیے یہ عکاسی اور سماج کی نباض رخسانہ جبین ؔکے کلام میں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔وہ اہل نظر شاعرہ تھی۔اس لیے ان کی شاعری میں سطحیت نہیں بلکہ گہرائی ہے۔اپنے گردو پیش کی منظر کشی یوں بیان کرتی ہیں ؎
یہ درد درد جگر کے سوا کچھ اور نہیں
علاج اس کا نظر کے سوا کچھ اور نہیں
کٹا تو سکتے ہیں اس کو جھکا نہیں سکتے
تمام جسم میں سر کے سوا کچھ اور نہیں
اقبال فہیمؔ:اقبال فہیم کا پورا نام محمد اقبال اور تخلص اقبال ہے۔اقبال فہیم کی پیدائش 15 مارچ 1952 کو شہر خاص کے گوجوارہ میں ہوئی۔اب تک آپ کے تین شعری مجموعے بہ عنوان سنگ بر آب،ندائے آوارگی اورموج نفس اردو دنیا میں معتارف ہو چکے ہیں۔انہوں نے اپنے شاعری کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ان کی شاعری آج کے زمانے کی شاعر ہے۔آج انسان اپنے آپ کو اکیلا ،
مجبور، تنہا اور بے بس محسوس کرتا ہے۔انہوں نے انسانی دکھ کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔آج محبت ،انسانیت ،اچھائی ،ہمدردی جیسی قدریں گم ہوتی جارہی ہیں۔معاشرہ اور لوگوں کے درمیان انسانی رشتے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔انہوں نے اپنے تخلیقی شور کے ذریعے
ان جذبات کی نمائندہ عکاسی کی ہے۔نظم سنگ بر آب کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
ایک لمحے کے تصور میں کئی لمحے اگے
اور رقصاں ہوگیا دشت صدا
میں نے تم کودیکھنا چاہا مگر
آیئنہ احساس میں لمحہ احساس میں
تو مقید گر نہیں لمحات کا
انکشاف ذات میں لمحات کا سایا نہیں
اشرف عادلؔ:نام محمد اشرف شیخ اور عادل ؔتخلص۔آپ ۱۹۶۶ میں شہر خاص کے خانیار علاقے پیدا ہوئے۔شعری کا ذوق شوق کالج کے زمانے میں پروان چڑھا۔لذت گریہ کے نام ان کا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ادیب ،فنکار، اور شاعر بڑے حساس دل کے ملک ہوتے ہیں۔اشرف عادلؔ بھی حساس ورنے کے ساتھ ساتھ رحم دل انسان ہی نہیں بلکہ حقیقت پسندی اور انسانیت ان کے اندر نہاں ہے۔ان سب کی غمازی ان کا شعری مجموعہ ’’لذت گریہ ‘‘کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ایسی بات نہیں ان کا دل عشق ومحبت ،خوشی وغم سے خالی ہے۔ان کی غزلوں میں محبوب سے شکوہ وشکایت کے علاوہ زمانے کے تغیر پزیر حالات اور ان میں رونما ہونے والے حوداث کو اپنا موضوع بنایا ہے۔اشرف عادلؔ نا گہاں آئی ہوئی پرشانیوں اور حالات سے گھبراتے نہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ؎
یہ میرے جذبات کہتے ہیں کچھ
شہر کے حالات کہتے ہیں کچھ
کیسی فیاضی کہاں کی نیکیاں
یہ ترے اوقات کہتے ہیں کچھ
مشتاق مہدیؔ:مشتاق مہدی کا اصلی نام مشتاق احمد شاہ ہیں۔ آپ ۱۹۵۲ کو شہر خاص کے خانیار علاقے میں تولد ہوئے۔شاعری کی شروعات ریڈیو کشمیر سے کی۔ات تک ان کے دو شعری مجموعے نعمہ دل اور بات پھولوں کی شائع ہوچکے ہیں۔مشتاق مہدی ؔنے زندگی سے وابستہ مسائل کو اپنی شاعری میں سنورانے کی کوشش کی ہے۔اس کے لئے روٹی ہی کی جدوجہد سب کچھ نہیں ہے وہ اپنے عہدے کے انتشار اور ابتری کے اسباب پر بھی نظر رکھتا ہے ۔وہ دیکھتا ہے کہ عصر حاضر کا آدمی انسانی ،سماجی اور صالحہ قدروں سے دور ہوجانا ہے۔وہ ان اعلی قدروں کو کھوچکاہے۔جس کے ساتھ انسان نے صدیوں کا سفر طے کیا ہے ۔وہ ایک ایسے سماج میں سانس لے رہا ہے ۔جہاں انسانی جذبوں کی کوئی قدر نہیں۔وہ رشتوں کو نفع نقصان کی نظر سے دیکھتا ہے۔نئی نسل انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اسیر بھی ہے ۔اس کی نظر صرف خارجی مسائل پر نہیں رہتی بلکہ باطنی دردو کرب کو شدت سے محسوس کرتا ہے ۔
ہوا کی تال پر سب ڈھولتے ہیں
جو کہنا تھا نہیں وہ بولتے ہیں
نوازے گے گلابی آنکھ سے بھی
مگر پیالے میں پیلا گھولتے ہیں
نسرین نقاشؔ:نسرین ؔ تخلص اور اصلی نام نسرین نقاش۔آپ ۱۹۶۳ کو شہر خاص کے نواکدل علاقے میں پیدا ہوئی۔کم عمری میں ہی شعر وسخن کی طرف راغب ہوئی۔ان کا شعری مجموعہ دشت تنہائی کے نام ادبی دنیا میں متعارف ہوچکا ہیں۔ان کی شاعری میں فرد کے ذاتی دکھ درد ،اس کی ناکامیوں اور محرمیوں اور انسانی ہمدردی کے گہرے جذبات کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔نیز ان کی شاعری کی وسعت کے باعث ،اس کا تجزیہ کسی ایک مخصوص موضوع یا مختصررویہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی شاعری کے معتدد پہلو ہیں اور ہر پہلو کی تفصیل اور تفہیم کے لیے ان کے بہت سے اشعار بطور نمونہ پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ؎
بہار نو سوگوار ہے ملے جو فرصت تو اس پہ سوچو
قبائے گل تا ر تار کیوں ہے ملے جو فرصت تو اس پہ سوچو
کرکے جو انصاف و حق کی چاہت جو ظلم کا تاج روند ڈالے
وہ دل سزا کا شکار کیوں ہے ملے جو فرصت تو اس پہ سوچو
شہر خاص کے شعری افق پر اور بھی کئی نوجوان شعراء کے نام ہیںجن کے قلم فعال ہیں اور اردو شاعری میں اضافہ کر رہے ہیں۔ان میں قتیل مہدیؔ،راشد مقبولَؔ،غضنفر علی شہبازؔ اور عارض ارشادؔ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ نوجوان شعراء اردو شاعری کو نئی جہتوں سے روشناس کر وارہے ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر خاص میں اردو شاعری کا مستقبل تابناک ہے۔
Suhail Saalim
University Of Kashmir,Dept Of Urdu
Srinagar,190003

Leave a Comment