٭صبانازنین(گورکھپور)
ہر سال پندرہ اگست بڑی دھوم دھام سے منا یا جاتا ہے ۔ہندستان کا بچہ بچہ اس جشن میں شرکت کرتا ہے ۔لیکن کیا یہ جشن کافی ہے؟ چند گھنٹوں کی خوشی ہندستان کی حقیقت کو بدل سکتی ہے ؟ہندستان جن حالات سے گزر رہا ہیں اس میں تبدیلی آجائے گی؟ کیا پندرہ اگست کو یوم آزادی منا لینے کے بعد ان کا ذہن بھی آزاد ہو جائے گا؟ شاید نہیں ؟ ان تمام سوالوں کے جواب بہت مشکل ہیں ؟ کیونکہ لوگ ابھی تک ذہنی طور پر قید کی زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہیں ۔افسوس کی بات تو یہ ہندستان انگیریزوں سے آزاد ہو گیا لیکن لوگوں کی فطرت آج بھی آزاد نہیں ہوئی ۔آج ہندستان ۷۴ واں جشن آزادی منا رہا ہے لیکن اتنے برسوں میں لوگوں کا ذہن نہیں بدلا ۔یہ کس طرح کی آزادی ہے جہاں آج بھی ہندو ،مسلم ،مندر ،مسجد کے نام پر قتل و غارت،نفرت اور بے رحمی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔آج جس مہاماری نے پوری دنیا کو اپنی چنگل میں پھنسا رکھا ہے اور ترقی یافتہ ممالک اس کا ہمت اور تیاری کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں وہیں ہمارے ہندستان میں دوا تک کی محتاجی ہے ۔غریب علاج نہ ملنے کے سبب موت کے منھ میں جا رہا ہے ۔ان کو اپنے حقوق کا علم نہ ہونے کے سبب سرکاری اسکیموں کا استفادہ حاصل نہیں کر پا رہے ۔ہمارا ملک ایک تاریک گوشے کی طرف راغب ہیں ۔
بہر حال ان تمام مصیبتوں کا علاج تعلیم میں پوشیدہ ہے ۔اس لیے میرے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دے۔ان فرقہ پرستی اور شر پسندی میں الجھنے کی بجائے اپنے حقوق کو سمجھے اور جانے ۔تبھی صحیح معنی میں ترقی ممکن ہیں اور صحیح آزادی بھی ۔بند ذہن سے انسان اگر آزاد نہیں ہوا تو ایسے ہی ہم ظلم و استحصال کا شکار رہیں گے ۔
صبانازنین(گورکھپور)
SABA NAZNEEN
St, Dews College Gorakhpur.