گاندھی جی کے وژن اور مشن کو زندہ کرنے کی آج زیادہ ضرورت ہے: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

گاندھی جی نے ہندی اور اردو کو ملا کر ایک زبان ہندوستانی بنانے کی کوشش کی: رام بہادر رائے

قومی اردو کونسل اور گاندھی بھون کے اشتراک سے منعقدہ  دو روزہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں  مقررین کا خطاب

\"\"

نئی دہلی:(اسٹاف رپورٹر) مہاتما گاندھی جی بیسویں صدی کی سب سے اہم اور اثر دار شخصیت ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ آزاد ہندوستان میں سبھی شہریوں کو مساوی آّزادی و حقوق حاصل ہوں۔ گاندھی جی کے وژن اور مشن کو زندہ کرنے کی آج زیادہ ضرورت ہے۔ گاندھی جی نے جو فکر اور نظر ہندوستانیوں کو دی ہے اس پر تمام باشندگان ہند فخر کے ساتھ چلیں۔ ان خیالات کا اظہار قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے گاندھی بھون دہلی یونیورسٹی میں منعقدہ دو روزہ قومی سمینار بعنوان ‘مہاتما گاندھی اور نظریہ قومی زبان’ کے افتتاحی اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران کیا۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی نے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اہم نظریات و تصورات عوام الناس کو دیے۔ گاندھی جی نے ہندوستانی زبانوں کے فروغ پر زور دیا اور ملک کے رابطے کی زبان پر خاص توجہ دی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں اپنی سبھی زبانوں کو شاندار بنانا چاہےے تھا۔ ہمیں اپنی زبان میں ہی تعلیم دینی چاہیے۔

سمینار میں بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے صدر آئی جی این سی اے جناب رام بہادر رائے نے کہا کہ گاندھی جی نے ہندی اور اردو کو ملا کر ایک زبان ہندوستانی بنانے کی کوشش کی۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ آئین ہندوستانی کو اپنائے۔لیکن بالآخر ہندوستانی کے بجائے ہندی کو اپنا لیا گیا۔ گاندھی جی نے اپنی زبان کے لیے محبت کا اظہار کیا اور تحریک بھی چلائی۔ انھوں نے کہا کہ انگریزی کو چھوڑیں اور اپنی زبان سے محبت کریں۔

مہمانِ اعزازی سکریٹری شکشا سنسکرت اتھان نیاس جناب اتل کوٹھاری نے قومی اردو کونسل اور گاندھی بھون کو اس موضوع پر سمینار  کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی کی مادری زبان گجراتی تھی لیکن چھوٹی عمر سے ہی وہ ہندوستانی سے محبت کرتے تھے۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ ہماری قومی زبان ایک  ہونی چاہیے لیکن انھوں نے ریاستوں سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی زبان سے ہی محبت کریں ااور انھیں فروغ دیں۔ ہمیں گاندھی جی کے ۱۵۰ویں یوم پیدائش پر اس بات کا عہد لینا ہوگا کہ ہم زیادہ سے زیادہ کام اپنی زبان میں انجام دیں گے اور انگریزی سے زیادہ مادری زبان پر توجہ دیں گے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی زبان کی عظمت کو دریافت کرنا ضروری ہے۔

دوسرے مہمانِ اعزازی اور آرگنائزر کے ایڈیٹر جناب پرفل کیتکر نے کہا کہ ہندوستان کی ترقی ہندوستان کے نظریے سے ہی ممکن ہے۔ یہ گاندھی جی کا نظریہ تھا۔ہندوستان کا نظریہ کسی بھی زبان سے نفرت نہیں سکھاتا۔زبان صرف زبان نہیں ہوتی بلکہ اس سے پوری تہذیب جڑی ہوتی ہے۔ اس زبان میں سماجی اقدار کی خوشبو رچی بسی رہتی ہے۔

پروفیسر رمیش بھاردواج نے پروگرام کی نظامت کی اور سمینار کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ انگریزی پڑھے لکھے لوگ آج تین فیصد ہیں اورباقی ۹۷ فیصد لوگ ہندوستانی زبان کے پڑھنے والے ہیں لیکن یہ تین فیصد لوگ ہندوستان کی تقدیر بنانے کا کام کررہے ہیں جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ گاندھی جی کا یہ ماننا تھا کہ یہ ہماری زبان ہی وہ نقطہ اشتراک ہے جو پورے ہندوستان کو ایک لڑی میں پرو سکتا ہے۔

پروگرام کا آغاز مہاتما گاندھی کے پسندیدہ بھجن سے ہواجسے دنیا کے درجنوں ممالک کے گلوکاروں  اور قابل قدر شخصیات نے آواز دی ہے۔
\"\"

Leave a Comment