’’کتابیں‘‘
٭ڈاکٹر سیّد تقی عابدی، کنیڈا
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزرجاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے۔
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے اُدھڑے اُدھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گرپڑے ہیں
بنا پتّوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹّی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انھیں متروک کرڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گذرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردہ پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کر لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحیل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے، کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا؟
وہ شاید اب نہیں ہوںگے
گلزارؔ نظم کے مستند شاعر ہیں۔ ان کی نظم میں تخیّل جذبات، صداقت سلاست کے ساتھ زبان کا چٹخارہ بھی موجود ہے۔ ان کی نظم اکیسویں صدی کے عصری مزاج سے منسلک ہے اسی لیے مقبول ہے۔ عامی اور عالم دونوں ان کی شاعری کے شیدا ہیں۔ ان کی شاعری میں ترقی پسندی،روایت پذیری، جدیدیت، مابعدجدیدیت کے بعد کی عصری حِس نمایاں ہے جو آج ایک بڑی شاعری کی شناخت اور علامت بھی ہے۔ نکلسن کہتا ہے بڑی شاعری میں اپنے دور کی حسیّت کے ساتھ ساتھ ماضی کی قدروں کا احساس اور مستقبل کے امکانات کا محاسبہ بھی رہتا ہے۔
بیسویں صدی کے دو عظیم اردو شاعر علاّمہ اقبالؔ اور جوشؔ ملیح آبادی جنھوں نے تقریباً ہر صنف سخن میں ریاضت کی ہے مگر وہ نظم ہی کے شاعر تھے۔ مضمون کا تسلسل واقعات کا اُتار چڑھائو ، لہجہ کی رنگارنگی کو غزل کی تنگ دامنی برداشت نہیں کرسکتی ۔ اسی لیے اُردو نظم نے ڈیڑھ سو سال کے قلیل عرصے میں کثیر فتوحات کیے ہیں۔
گلزار کی نظم ’’کتابیں‘‘ اُردو کی شاہکار نظموں کی صف میں نمایاں ہے۔ یہ نظم اگرچہ برصغیر کی ہندوستانی زبان میں پڑھی اور لکھی جاسکتی ہے لیکن اس نظم کے اکثر موضوعات اور جذبات دنیائے ادب کی کتابوں سے بھی مربوط ہیں۔ چنانچہ گلزار کی نظم ’’کتابیں ‘‘دنیائے ادب کو تحفہ میں پیش کی جاسکتی ہے۔ گلزار کی شاعری ارتقائی منازل طے کرکے ندرت خیال و بیان کے میناروں پر جاگزیں ہوتی جارہی ہے۔ مولانا رومؔ نے کہا تھا میری عمر کو تین لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ میں کچاّ تھا پک گیا اور پھر فنا ہوگیا۔
حاصل عمرم سہ سخن بیش نیست
خام بودم پختہ شدم سوختم
یعنی انسان مہد سے لحد تک سفر کرتا ہوا ان کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ جب انسان پختہ ہوجاتا ہے تو اس کا جسم کمزور مگر اس کی ذہنی فکری قوت قوی اور تجربہ وسیع ہوجاتا ہے اس لیے ہرہنری کام جو اس پختہ اور فنا کے درمیان ہوتا ہے عظیم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لیے ہم گلزار سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اسی طرح شاہکار تخلیق کرتے رہیں۔
اس موقع پر سب سے پہلا یہ سوال اٹھتا ہے کہ شعر تخلیقی اُپج ہے یہاں تبصرہ تشریح اور تجزیہ کی گنجایش کہاں ہے؟ اسی لیے بعض شاعروں نے ظاہری طور پر اس نظریہ کی حمایت کی کہ ’’شعر مرا مدرسہ کی برد‘‘ اور باطنی طور پر مسلسل مدرسہ کی تختی پر اپنا شعر احباب اور شاگردوں سے لکھواتے رہے۔ جن شعرا کے کلام پر تبصرہ تشریح اور تجزیہ کیا گیا انہی کا اکثر کلام تشہیر ہوکر شعری تہذیب کی تربیت ثابت ہوا ۔ اگرچہ تنقید میں تنقیص اور تعریف دونوں پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی۔ مرزا غالبؔ جس کے آگے اُردو کے اغلب شعرا مغلوب ہیں درجنوں خطوں میں اپنے اشعار کی تشریح اور توضیح خود کرتے ہیں اس کے باوجود آج پچاس سے زیادہ شرحیں ان کے کلام پر نظر آتی ہیں۔ تنقید مدح سرائی کا نام نہیں۔ تنقید جانب داری کا کام نہیں۔ تنقید معماّ سازی اور چیستان کا جام نہیں اسی وجہ سے صحیح تنقید عام نہیں۔ تنقید نوک خار سے گل کو پَرپَر کردینے کا عمل نہیں بلکہ گُلوں کو شعری گلدستہ میں سجاکر پیش کرنے کا نام ہے ۔ اگرچہ اس گلدستے میں شامل خار و خاشاک کا بھی ذکر ہو۔ اسی لیے تو جوشؔ نے نقاد کو للکارا تھا۔
رحم اے نقاد فن یہ کیا ستم کرتا ہے تو
کوئی نوک خار سے چھوتا ہے نبض رنگ و بو
یعنی اک لَے سے لب ناقد کو کھلنا چاہیے
پنکھڑی پر قطرہ شبنم کو تلنا چاہیے
کون سمجھے شعر یہ کیسے ہیں اور کیسے نہیں
دل سمجھتا ہے کہ جیسے دل میں تھے ویسے نہیں
پس انسان جب خود اپنی پیٹھ کو دیکھنے کے لیے آئینہ کے چہرے یا کسی چہرے کی دو آنکھوں کا محتاج رہتا ہے تو شعری اُپج جو تحت شعور کا جذباتی سیلاب ہے اس میں تیر کر پار اُترنے کے لیے پیراکی کے ساتھ ساتھ ہوائوں کے مزاج موجوں کے دبائو اور ساحل کی سمت کے علم کا محتاج رہنا پڑتا ہے۔
ایک کامیاب اور کارآمد تشریح اور تجزیہ سے صاحب تصنیف، پڑھنے والے اور ادب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ادب برائے ادب اور ادب برائے ہدف پوری طرح سے صحیح اس لیے بھی نہیں کہ تخلیق زندگی سے جدا نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ادب سے ہدف مکمل طور پر علاحدہ نہیں ہوسکتا۔ آئیے اس گفتگو کے بعد نظم کا تحلیلی سفر تجزیاتی حوصلے کے ساتھ کریں۔
نظم منظر کشی سے شروع ہوتی ہے۔
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
یہاں گلزار نے ایک شیشے کی الماری میں رکھّی ہوئی کتابوں کو تخیّل کی نگاہ سے دیکھ کر صنعت حسن تعلیل کو جذبات کے ساتھ پیش کیا۔ چنانچہ اب ہر سننے اور پڑھنے والے کو الماری کی کتابیں شیشوں سے جھانکتی اور حسرت سے تکتی نظر آنے لگیں۔ یہ فطری شاعر کا ادنیٰ کرشمہ ہے کہ وہ ان کہی بات کو کہاوت اور ناموجود کو وجود کا جسم عطا کردیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے آنکھ وہ شئے نہیں دیکھ سکتی ذہن جس کو نہیں جانتا۔ ہم سب نے ہزار بار الماریوں میں کتابیں دیکھیں لیکن کسی نے گلزار کی طرح شعری بصیرت کو چشمی بصارت میں تبدیل نہیں کیا یعنی گلزار کی طرح قطرہ میں دجلہ نہ دیکھا اور نہ دکھایا۔
شاعری الفاظ سے زیادہ معنی سے سروکار رکھتی ہے۔ معنی کثیر اور لفظ قلیل ہونے کے باعث، معنی الفاظ کے اطراف بکھرے پڑے رہتے ہیں لیکن چونکہ معنی کا کوئی جسم نہیں ہوتا اس لیے سطروں سے زیادہ بین السطور مطالب تہہ در تہہ نامری طور پر موجود رہتے ہیں جنھیں ہر شخص اپنی فکر اور ہمّت کے مطابق حاصل کرسکتا ہے۔ یہاں شاعر الماری میں بند کتابوں کی منظر کشی کے دروازے سے ایک بہت بڑے ذہنی میدان میں ہمیں داخل کررہا ہے۔ جہاں جدید اور روایتی تہذیب کی قدروں کا منظر نامہ مناظرہ اور محاسبہ ہے۔
عشق کا سوز و گداز عاشق اور معشوق دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ ’’دل بہ دل راہ دارد‘‘ کے معنی بتاتے ہیں کہ یہ راستہ دوطرفہ ہوتا ہے۔ یہاں کتابیں معشوق اور قاری عاشق ہیں۔ یہاں معشوق حسرت کی نظر اور بے چینی سے یہ دیکھ رہا ہے کہ اس کا قدیم عاشق اب کمپیوٹر کے نظاروں میں اپنی شامیں گزارتا ہے۔ عاشق معشوق کے جلوے سے دوری اختیار کرچکا ہے۔ چنانچہ اب کتابیں بیداری میں نہیں بلکہ خواب میں قاری سے ملاقاتیں کرتی ہیں۔
جوشامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزرجاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
شاعر نے نظم کے چہرے میں کتابوں سے دوری، کتابی ریڈر شپ کی کمی اور موجودہ دور میں کمپیوٹر اور ڈیجیٹل ٹکنالوجی کی ترقی اور گلوبل ولیج کے ماحول سے وابستگی کے حقیقی اور سچے اثرات کو شعری رس میں گھول کر جذبات کے ساغر پیش کیا۔شاعر نے فوراً روایت سے رشتہ جوڑ کر ذہن کو جھنجھوڑا کہ انہی کتابوں میں جو انسانی، سماجی، علمی، اخلاقی اور مذہبی قدریں اشعار میں، خاکوں، کہانیوں، افسانوں، ڈراموں ، ناولوں میں پڑھی اور سُنی جاتی تھیں وہ ذہن کے خانوں میں ہمیشہ زندہ اور تازہ رہتی تھیں آج موجود نہیں۔ یہی نہیں بلکہ انسانی اور خاندانی رشتے جن سے سماج اور خاندان بندھا رہتا تھا وہ بندھن جس کا تذکرہ وہ تہذیب و تربیت، طور و طریقہ جو تخلیقی شہ پاروں کی وجہ سے کتابوں کے نقش کے ذریعے دل و دماغ پر ثبت ہوتا تھا آج بگڑ چکا ہے۔
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے اُدھڑے اُدھڑے ہیں
انسان اشرف المخلوقات صرف شعور ذات کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بدنی اور حسّی طاقتوں کے لحاظ سے دوسری مخلوقات سے بہت نیچے ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ پانچ چھ فٹ کے انسان کے سامنے پوری کہکشاں چھوٹی ہے۔ انسان اس قدر عظیم صرف انسانی عالی قدروں اور اس کے رشتے عبد اور معبود سے ہے۔ مقام انسان، حقوقِ انسان، احترام انسان کا تعین قدروں اور رشتوں سے ہے۔ قدروں کے آفتاب کی ایک شعاع اخلاق ہے ۔یہاں گلزار نے آج کے پُرآشوب مادّی ماحول میں روحانی بالیدگی کی کمی کا خوب صورت اشارہ کیا ہے کہ کتاب ہی وہ صحیفہ ہے جس میں اخلاقیات کا ہر درس نظر آتا ہے۔
اوپر کے مصرعوں اور فقروں میں ’’قدریں‘‘ ، ’’سیل‘‘ اور ’’رشتے‘‘ ، ’’ادھڑے‘‘ صنعت ایہام میں ہیں یعنی ایک تو ان کے قریبی معنی ہیں اور دوسرے ’’دور‘‘ بعید معنی ہیں جو شعر کی عظمت کے نقیب ہیں۔ کتابیں جو قدریں سناتی ہیں وہ ہمیشہ ہمارے ذہن میں زندہ رہتی ہیں، دوسرے معانی یہ ہیں کہ انسانی قدریں زندۂ جاوید ہیں ۔ ہمیشہ زندہ رہیں گی جن کی سخن گو کتاب ہے۔ رشتہ ایک معنی میں وہ دھاگا ہے جو باندھنے اور بُننے کے کام آتا ہے دوسرے معنی میں وہ تعلق ہے جو انسان سے انسان کو اور انسان کو معبود سے ہے۔
گلزارؔ نے نظم میں تخیّل کے ساتھ تنوع بھی برتا ہے جو آسان کام نہیں۔ نظم میں غزل کے مقابل آزادی تو ہے مگر یہ آزادی نظم کی بربادی ہوجاتی ہے اگر شاعر تخیّل کی آماج گاہ کو نظم کے بہائو کے ساتھ سازگار نہ رکھّے یا ذہنی مضمون کے تسلسل کو مجروح اور مخدوش کردے۔ گلزارؔ اس لیے بھی عمدہ نظم کے شاعر ہیں وہ ان نکات کی باریکیوں اور رموز سے واقف ہیں۔ یہ عمل ریاضت سے نہیں بلکہ سعادت سے ظاہر ہوتا ہے۔
’’کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے‘‘ یہ نظم کا سب سے اہم حصّہ ہے جس نے اس نظم کو شاہکار نظموں کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ اس حصّے میں شاعر نے کتاب کے صفحے پر یا کمپیوٹر کے پردے پر ظاہر ہونے والے کلام پر کلام کیا ہے۔ یہ درحقیقت آج کل کی بعض شائع ہونے والی کتابوں یا فیس بک پر تحمیل کی جانے والی شاعری اور تخلیق نما کاوشوں پر صحیح ریویو ہے۔ اگر کتاب کا صفحہ پلٹتے وقت سسکی نکلتی ہے تو کتاب جو درست اور عمدہ شاعری کا خزانہ تھی رو رہی ہے کہ یہ کیا میرے اندر بھرا جارہا ہے۔ اگر یہ کمپیوٹر پر صفحہ بدلتے سسکی ہورہی تو شاعری رو رہی ہے کہ آج کے دور میں میری کیا حالت ہوگئی ہے۔
یہاں گلزارؔ نے لفظ و معنی پر بحث کی ہے اور نادر تشبیہات اور استعارات سے ترسیل و ابلاغ کا کام نکالا ہے۔ یہاں شاعر نے روایتی اور جدید شاعری کا تقابل بھی کیا ہے۔ یہاں گلزار نے لفظوں کو استعاروں میں ڈھالا ہے۔ فیض احمد فیضؔ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا لفظ کو استعارہ بنانا میں نے غالبؔ سے سیکھا ہے۔ یہ سچ ہے کہ غالبؔ سے بڑا استعارہ کا خالق اردو ادب میں نہیں گزرا کیونکہ وہ لفظ شناس اور معنی پرور تھے۔ قدیم عظیم شعرا ایسے چنندہ اور حسب ضرورت الفاظ استعمال کرتے کہ ایک لفظ اگرچہ دیکھنے میں اک شجر کی طرح ہوتا مگر اس میں کئی معنی کے پھل اُگتے اور غالب اسی کو گنجینہ معنی کا طلسم کہتے ہیں۔ گلزار کہہ رہے ہیں کہ اب تو الفاظ کے درختوں پر معنی کے پھل نہیں اُگتے یہی نہیںبلکہ لفظ بغیر پتوں کے سوکھے ٹنڈ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بالکل نیا مضمون ہے۔ یہی ندرت فکر و بیان ہے یہی بڑی شاعری کی پہچان ہے۔ آج کل کی تحمیل کردہ کتابی یا ڈیجیٹل شاعری جس میں الفاظ اور معنی کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے ایک جدید بحرانی کیفیت کا حامل ہے جس کی اصل وجہ شعری ذوق کا فقدان ہے۔ایک کامیاب شاعر اپنے تجربات کو سننے والے کے تجربات سے جوڑ کر اس کا اثر دو آتشہ کردیتا ہے:
ع: میں نے یہ جانا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
کئی لفظوں کے معنی گرپڑے ہیں
بنا پتّوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے
گلزار یہاں لفظ و معنی سے گزر کر محاسن شعری سے دوری کو خود دیکھتے ہیں اور ہمیں دکھاتے ہیں۔ روایتی قدیم میخانوں کے اطراف واکناف میں آج بھی مٹی کے ٹوٹے پھوٹے پیالے جنھیںپھینک کر شیشے کے بلوری ساغروں میں شراب دینے کا طریقہ رواج پاچکا ہے یہ جدیدیت کا اثر ہے اگرچہ میخار جانتے ہیں سفالی سبو میں پینے کا مزا اور ہے ورنہ حضرت غالبؔ نہ کہتے: جام جم سے یہ میرا جام سفال اچھا ہے۔
اصطلاحات تلمیحات شعری خزانوں کی کنجیاں ہیں لیکن آگاہی اور علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ چمنستان چیستان میں تبدیل ہوچکا ہے اور اسے شاعری میں ترک کردیا گیا ہے جیسے سفالی سبو اب متروک ہوچکے ہیں۔
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انھیں متروک کرڈالا
شاعر ہر قدم پر سننے والے کو اپنے تجربے میں شامل کررہا ہے۔ وہ اسے اُن معمولی اور چھوٹے چھوٹے جزئیات میں شریک کرتا ہے جسے اُس نے لاشعوری طور پر کیا لیکن اب اس کا ذائقہ محسوس کررہا ہے جو کمپیوٹر پر انگلی سے کلک کرنے پر نہیں ہوتا اگرچہ یہاں صفحات لاتعداد کھلتے چلے جاتے ہیں۔
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردہ پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
انسانی ذہن مشق آموز ہے۔ وہ وہی کرے گا جس کی اُسے تعلیم دی گئی ہے۔ جس شخص نے کتابی مطالعہ کیا ہے وہ کمپیوٹر کے صفحہ پر اُسی کتاب کو ذوق و شوق سے نہیں پڑھ سکتا۔ عادت بدلنے کے لیے عمر کافی نہیں۔ چنانچہ کتاب کا صفحہ پلٹنے ہوئے ذہنی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پرانی کتابوں میں صفحات کے نیچے اُس لفظ کو لکھتے تھے جس سے آگے کا صفحہ شروع ہوتا تھا۔ جس کی ایک وجہ تو آئندہ صفحہ کا تعین تھا مگر اس سے زیادہ ذہنی موضوع اور خیال و فکر کا تسلسل تھا تاکہ اس میں فاصلہ نہ ہو ۔ چونکہ ذہن الکٹرونک موجوں کا کرشمہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ کتابی صفحہ ذہن میں موضوع کو متلاشی ہونے نہیں دیتا اور اسی کی طرف اس فکری نشّہ کا اشارہ ہے جسے گلزار نے ذائقہ نام دیا ہے۔
یہاں تک گلزار نے کتاب کی معنوی حیثیت کو اجاگر کیا ہے اب نظم کا وہ حصّہ ہے جس سے عوامی تعلق اور نظم کی شہرت کا تعلق ہے۔ یہاں شاعر نے کتاب کی صوری کیفیت اس کے جمال قدو خال اندرونی حال سے زعفران بکھیری ہے ۔ چنانچہ اس حصّے میں رنگارنگی کے ہمراہ پھولوں کی نرمی کے ساتھ ساتھ محبت کی خوشبو بھی شامل ہے جس سے ہر فکر عطرِ نظم سے معطّر ہوجاتی ہے۔
ایک عمدہ شاعر جب منظر کشی میں سہ بُعدیThree dimensionalحالت پیدا کرتا ہے تو وہ مرقع کشی ہوجاتی ہے۔ منظر سے منظر کو جوڑ کر یہاں مضمون کو رفعت دے کر عقیدتی بلندی پر گلزار نے کتاب کو رحیل پر نیم سجدہ حالت میں پڑھا کر آسمانی صحیفہ کردیا جو کتاب کی معراج ہے۔
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحیل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے
ان مصرعوں میں عشق مجازی اور عشق حقیقی کی جھلک بھی ہے۔ یہاں معشوق کے خدو خال اور معبود کے کلام و جلال کی نسبت سے سینے پر رکھ کر گودی میں لے کر اور رحیل کی صورت یا نیم سجدے کی حالت میں گفتگو ہے۔ یہ ہمارا معاشرتی نظام کی تہذیب ہے جس کو سومناتی خیال کہتے ہیں۔ اس تہذیب اور تربیت کا کسی خصوصی مذہب اور دھرم سے تعلق نہیں بلکہ یہ برصغیر کے کلچر اور ہزاروں سال سے پیوستہ پنڈتوں کے حیات و ممات کے فلسفہ سے مربوط ہے۔ جس کا ذکر امیر خسروؒ، کبیر داس، بیدلؔ،غالبؔ اور بیدیؔ کے پاس بھی ہے۔
اس نظم کا آخری حصّہ دلکشی کا محور ہے۔ یہاں نظم رومانی دائروں میں گھومتی ہے۔ شاعر یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی۔
یہ سچ ہے کہ گذشتہ بیس(۲۰) سالوں میں کمپیوٹر نے اتنا علم ذخیرہ کیا ہے جو دنیا نے کبھی ایک جگہ جمع نہیں کیا تھا چنانچہ علم کے پیاسے کو علم کا سمندر تو ملے گا
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
مہکے ہوئے رقّعے
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوںگے
یعنی کتابی متن تو کمپیوٹر اور موجوں میں آجائے گا لیکن کتابی خدو خال سے وابستہ حسن و عشق کے معاملات، ملاقات، تبرکات، یادداشت، واقعات وغیرہ کبھی بھی سحر بن کر ہماری اُفق پر ظاہر نہ ہوںگے۔نظم کے متن پر تفصیلی تبصرہ کرنے کے بعد ہم اس نظم کے اہم شعری ادبی نکات پر روشنی ڈالیں گے۔گلزار کی نظم کے سرسری اور دقیق مطالعے سے جو شعری ادبی فنّی قدریں ہمیں نظر آتی ہیں اُن میں سے چند کا ذکر ضروری ہے۔
ا۔ ’’کتابیں‘‘ اُردو نظم ہے لیکن ہندوستانی عام فہم زبان میں لکھّی گئی ہے۔ حالیؔ کی ’’مناجات بیوہ‘‘ سُن کر جب گاندھی جی روپڑے تو مولوی عبدالحق نے کہا تھا اس سے عامی اور عالم دونوں متاثر ہیں۔ یہ نظم ہندوستانی زبان میں لکھّی گئی ہے۔ چنانچہ ’’کتابیں‘‘ بھی اردو رسم الخط نستعلیق میں ہو یا ہندی دیونا گری یا انگریزی رومن حروف میں لکھّی جائے نظم کے بیان بہائو اور اثر میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ اسے صفائی ، سادگی اور سلاست کہہ سکتے ہیں جو ماحول اور مکان کے تحت اچھا شاعر اپناتا ہے۔
ب۔ پوری نظم میں ایک بھی اضافت یا ترکیب نظر نہیں آتی۔ اگرچہ عربی اور فارسی کے اردو میں مستعملہ الفاظ جیسے صحبت، الفاظ، معنی، اصطلاحیں، تہہ، علم ، رحیل، سجدے، جبین، رقعے، رشتے وغیرہ وغیرہ مصرعوں میں نگینوں کی طرح جُڑ دیے گئے ہیں۔ مصرعوں میں ان الفاظ کا کوئی حرف تلفظ میں ادھ بیان یادب نہیں گیا۔ شاعری میں یہ استطاعت کہنہ مشقی اور شعر کی نوک و پلک سنوارنے کی ریاضت سے حاصل ہوتی ہے۔ میر انیسؔ کے نواسے میر مانوسؔ نے مسعود حسن ادیبؔ سے گفتگو میں کہا تھا کہ یہ افواہ غلط ہے کہ انیسؔ چادر تان کر نیم نیند کی حالت میں شعر کہتے تھے بلکہ تمام رات کنول جلا کر محنت و ریاضت سے اشعار کی نوک و پلک سنوارتے یعنی سیروں خون خشک کرتے جب جاکر ایک آبدار شعر ظاہر ہوتا۔ ’’کتابیں‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ گلزار نے نظم کے مزاج لہجہ بنائو سنگار پر اپنی فطری شاعری کی ثروت کے ساتھ فنی رکھ رکھائو پر وقت صرف کیا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے شہکار عرق ریزی ، دیدہ وری اور پُرکاری سے وجود میں آتا ہے۔
ج: ’’کتابیں‘‘ آزاد نظم کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ اس کو مزید مغربی نیوورسNew Verseسے جوڑ سکتے ہیں جو آج کل برصغیر کی مختلف زبانوں کی شاعری میں رواج پا رہی ہے۔ یہاں عموماً زبان کتابی نہیں بلکہ تکلّمی رہتی ہے۔ یعنی نظم میں طرز بیان مصنوعی اور بناوٹی نہیں بلکہ اصلی اور فطری ہوتا ہے۔ جہاں تک بحر کے بہائو کا تعلق ہے مصرعوں کی بندش اُسی طرح ہوگی جیسے بات کرنے کا انداز یعنی جہاں رُکنا ہو، رُکیں ۔ جہاں زور دینا ہے وہاں زور دیں ، جہاں گفتگو کو ایک لہجے میں بیان کرنا ہو بیان کریں۔ چنانچہ مصرعوں کی لمبائی تکلّمی(Speech Rythm) آہنگ پر منحصر ہوتی ہے اسی لیے ’’کتابیں‘‘ میں بعض مصرعے تین لفظی اور بعض دس گیارہ لفظوں سے بنے ہیں۔
اس نیوورس اور تکلّمی آہنگ کی وجہ سے نظم کی ترسیل اور تفہیم میں بڑی مدد ملی ہے۔ چنانچہ جب گلزار اس نظم کو پڑھتے ہیں تو مصرعوں کے اُتار چڑھائو، لہجے کے زیرو بم سے اس کے اثر کو دو آتشہ کردیتے ہیں۔
یہ نظم ایک اچھی مثال ہے اُردو آزاد نظم میںنیوورس کی قدروں کو اپنانے کی اسے مابعد جدیدیت کے بعد کی عصری شاعری کا نمونہ سمجھا جائے۔
د: مصرعے فقرے بلکہ نظم روز مرہ میں ہے ۔الفاظ کی نشست اسی طرح کی ہے جیسے ہم بولتے ہیں جو نظم کا حُسن اور کمال بھی ہے۔
ھ: نظم میں ہندی کے رسیلے شبدوں کے علاوہ انگریزی کے مروجّہ الفاظ برتے گئے ہیں جو اکیسویں صدی اور گلوبل ولیج کی موجودہ شاعری کی پہچان بھی ہے۔ برصغیر کا مختلف زبانوں کا ماحول، انگریزی زبان کی ملکوں اور ٹکنالوجی پر دست اندازی اور تاثیر اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان انگریزی یا خارجی الفاظ کا متبادل لفظ جو فارسی یا عربی لوگ کرلیتے ہیں ہم بھی کرسکے ۔ اس لیے ہم اسے اپنی زبان میں مستعملہ لفظ بنالیتے ہیں۔ چنانچہ اس سے نظم کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی جیسے:
کمپیوٹر کے پردوں پر
انگلی کلک کرنے سے
گلاسوں نے انھیں
یہی نہیں بلکہ اگر کوئی ادق اور غیر مانوس انگریزی لفظ بھی آجائے تو اسے لفظوں کی نشست سے مانوس بنالیتے ہیں جیسے
کہ جن کے (Cell)کبھی مرتے نہیں تھے۔
گلزار کے اس تجزیہ سے دنیا کی زبانوں کے سائنٹفک مطالب آسانی سے اردو نظم و نثر ہوسکتے ہیں۔
و: اس نظم کے چند محاسن زبان و بیان اور صنائع لفظی و معنوی کو یہاں بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
.1 نظم میں سادگی شگفتگی روانی اور صفائی موجود ہے جو عموماً روز مرہ کی وجہ سے ہے۔
.2 نظم میں بعض مطالب منظر کشی کے ہیں جو مرقع کشی بن چکی ہیں۔
.3 محاورے حسب ضرورت اپنے صحیح مقام اور صحت کے ساتھ ہیں۔
جیسے حسرت سے تکنا
سسکی نکلنا
نیند میں چلنا وغیرہ
.4 زود فہم تشبیہات اور استعارات:
— جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں (سکوروں کی طرح)
— کبھی گھٹنوں کو اپنے رحیل کی صورت بنا کر (رحیل کی صورت)
— بنا پتّوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ (سوکھے ٹنڈ)
— گلاسوں نے انھیں متروک کرڈالا (گلاسوں)
.5 صنعت تعلیل : شاعر ایک عام کیفیت کو دوسرے معانی میں پیش کرتا ہے جیسے پتنگا جو شمع کے شعلے سے جل جاتا ہے وہ ایک حادثہ اور غفلت ہے مگر شاعر اُسے عشق قربانی اور پیار بتاتا ہے اور لوگ شاعر کے خیال کو مان لیتے ہیں۔
— کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے (زندہ شے دیکھ سکتی ہے)
— حسرت سے تکتی ہیں (زندہ شے جذبہ حسرت رکھتی ہے)
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا (انگلی کو تھوک لگاکر صفحہ ذائقہ کے لیے نہیں صرف ایک صفحہ
اٹھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں)
.6 صنعت مراعات النظیر: ایک ہی کیفیت، حالت، موضوع، مطالب کے الفاظ شعر میں لانا۔ جیسے: لفظوں، معنی، اصطلاحیں، متروک وغیرہ
پتّوں۔ سوکھے۔ ٹنڈ۔ اُگتے
— انگلی۔ سینے۔ گودی۔ گھٹنوں۔ جبیں
— پھول، سوکھے۔ مہکے وغیرہ
.7 صنعت تکرار: الفاظ کی مصرعوں میں تکرار
— ادھڑے ادھڑے
— تہہ بہ تہہ
یہی نہیں بلکہ صنعت تجنیس، ابداع، تضاد وغیرہ کی مثالیں اس نظم میں موجود ہیں۔ بعض ایسی بھی صنعتیں نظر آتی ہیں جن کے نام نہیں ۔ کیا ہم نے جنگل میں اگنے والے ہر پھول کو نام دیا ہے۔ شاید آئندہ وقت ان صنعتیوں کو بھی نامی گرامی گرے گا۔
ز: ایسی نظموں کو تدریسی نصاب میںشامل کیا جائے ۔ چونکہ گلدستہ کی طرح ان میں کلاسک موضوعات کے علاوہ ترقی پسند عناصر ، جدیدیت، مابعد جدیدیت اور عصری حسیّت کی جھلکیاں موجود ہیں جو زبان کے تحفظ اور ارتقا میں ضرور ہیں ۔ ہم نے مضمون کی طوالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نظم میں شامل علامات اشارات اور پیکر تراشی کے نمونے یہاں بیان نہیں کیے۔
ح: انسانی ذہن کی کیفیات شعور(Consious)تحت شعور (SubConsious)اور لاشعور(Un Consious) کے تحت ہیں۔ شعر کی تخلیق کا مبدا لاشعور ہے جسے ہم درک نہیں کرسکتے جیسے کائنات کے بلاک میٹریل کو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ اِسے شعری زبان میں الہام کہتے ہیں(Black Matter )لاشعور سے خیال جب تحت شعور کی فضا میں آتا ہے تو الفاظ کا جسم پہن کر آتا ہے کیونکہ تحت شعور اور شعور میں جسم کا ہونا ادرا ک کے لیے لازمی ہے۔ جب خیال کا پرندہ لفظوں کا جسم پہن کر ذہن کی فضا میں اُڑتا ہے تو فوراً شاعر اُسے صحیح اور موزوں کرکے قرطاس کے قفس میں ہمیشہ کے لیے قید کرلیتا ہے جس کو ہم شعر کہتے ہیں پھر اس کی شعور کی مدد سے نوک و پلک سنوارتا ہے۔ آمد اور آورد میں فرق یہی ہے کہ آمد کے آسمان پر خیالات کے نادر جھنڈ لہراتے رہتے ہیں جو مبدائے قدرت نے انھیں لاشعور میں بھردیے ہیں۔ چنانچہ فطری شاعری اچھے اشعار اور انتخاب در انتخاب کرکے شعر پیش کرتا ہے ۔ راقم نے گلزار کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اوریقینا وہ اس سعادت سے فیض یاب معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں چاہیے قلم ہاتھ میں رہے اور سینوں اور دماغوں کے صندوقوں میں بندخیالات یہیں اُگل دیں۔ ہم جانتے وہ بہت مصروف شخصیت ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے فلم انڈسٹری کی یاد بود کتنے عرصے تک رہے گی مگر یہ مجھے معلوم ہے وہ اپنی شاعری کی وجہ سے زندۂ جاوید رہیںگے۔
٭ تجزیہ سے حاصل ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ شاعر کو اپنے دور کے ماحول اور قاری ، سامع کے معیار کو دیکھ کر شاعری کرنا چاہیے یا اُسے کسی بھی عنوان پر اپنی فکری بلندی ، تجربہ اور علمیت سے حاصل ہوئی عظمت کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری نظر میں ایسے ہی شعرا آج بھی صدیاں گزرنے پر زندہ ہیں جنھوں نے تحسین ناآفرین کی خاطر اپنی آفرینی شاعری کو قربان نہیں کیا۔ شاعر کو چاہیے کہ تمام نادر مشکل فہم مضامین بھی جو اُس کی گرفت میں آسکے سادے یامشکل ادق الفاظ میں باندھے اور جو موقع پر سنانا ہے سنائے۔ اس طرح ’’چھپ نہیں سکتا ہے شاعر شعر کے چھپنے کے بعد‘‘ ہم نے بعض ویڈیوز میں دیکھا ہے گلزار ؔان مصرعوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ جو ماحول کی مناسبت اور سامعین کی موجودگی کے باعث ٹھیک عمل ہے۔اصطلاحیں اور متروک الفاظ آج کے سب سامعین سمجھ نہیں سکتے۔
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انھیں متروک کردیا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ تنقید اور تشریح سے صاحب تصنیف اور ادب کو بھی فائدہ پہنچا ہے جس طرح صاحب تجزیہ اور قاری و سامع اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اسی لیے تو حافظؔ نے ان لوگوں کو سراہا تھا جنھوں نے اُس پر تنقید کی تھی کہ ان کی وجہ سے میں سیدھے راستے پر گامزن ہوں۔ ہزار سال پرانے عربی شاعر ابونواس کا ذکر تجزیہ کے ذیل میں بے سود نہیں۔ ابونواس بغداد کی گلیوں سے گزر رہا تھا اُس نے ایک مکتب کے معلّم کی آواز سنی جو شاگردوں سے پوچھ رہا تھا اچھا یہ بتائو ابو نواس نے کیوں کہا۔(ترجمہ) اے ساقی شراب پلا اور یہ کہہ کر پلا کہ شراب ہے ۔ یہاں شاعر کیوں کہہ رہا ہے ۔ یہ کہہ کر پلا کہ شراب ہے۔ ابونواس چھپ کر سنتا رہا۔ شاگردوں نے باری باری سے جواب دیا پھر معلّم نے کہا کہ بات یہ ہے جب ساغر شراب اس کے ہاتھ سے لمس ہوگا تو قوت حسیّہ سے اُسے سرور ہوگا۔ جب ساغر شراب اس کی نظروں سے ٹکرائے گا تو قوت باصرہ سے اس کو نشہ چڑھے گا ۔ جب ساغر شراب اس کی ناک کے قریب آئے گا تو قوت شامّہ سے ترنگ حاصل ہوگا جب شراب کا قطرہ زبان پر پڑے گا تو قوت ذائقہ سے وہ مست ہوجائے گا۔ اب صرف ایک حواس سننے کا شامل نہ تھا۔ چنانچہ جب شراب کا نام سنے گا تو اس کا نشّہ دوآتشہ ہوجائے گا۔ یہ سن کر ابو نواس دوڑا ہوا معلّم کے پاس آیا اور اسے گلے لگاکر کہا کہ ’’بخدا شعر کہتے ہوئے میں نے کبھی یہ نہ سوچا تھا میں نے تو فقط یوں ہی کہہ دیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے شعر فہمی بعض اوقات شعر گوئی سے مشکل ہوتی ہے۔
جب ناقد تفصیل سے کسی کی تشریح ، تجزیہ اور تحلیل کرتا ہے تو صاحب تصنیف یعنی شاعر کے لیے نئے فکری زاویے قائم ہوتے ہیں اسی لیے تنقید بھی تخلیقی ادب میں شمار کی جاتی ہے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ راقم نے گلزارؔ صاحب کا تقریباً تمام مطبوعۂ کلام پڑھا ہے ۔ بعض اشعار پر تنقیدی تشریحی اور تجلیلی حاشیے کتابو ںمیں لکھّے ہیں۔ مغرب کی مشینی زندگی پھر ایک انار سو بیمار کی حکایت نے ابھی وہ موقع فراہم نہیں کیا جو ہم ایسے عمدہ شاعر کا مکمل تنقیدی اور تشریحی جائزہ لے سکیں ۔اگرچہ گلزار پر کئی تشریحی اور تنقیدی مضامین چھپ چکے ہیں لیکن پھر بھی یہ ایک بڑا قرض ہے جو اردو کے ناقدین اور شارحین کو چکانا چاہیے۔ شاید اس کی قسط جلد میں خود ادا کروں۔ ادب کی دھنک میں مختلف رنگوں کی آمیزش ہے۔ اس لیے اس کا حُسن اختلاف کے رنگ سے بھی بنا ہے۔ چنانچہ ہماری تحریر اگرچہ مستند حوالوں سے بنی اور بُنی گئی ہے مگر اس میں نظری اختلاف کی گنجائش ہے۔ توقع ہے کہ گلزارؔ اسی طرح مسلسل تخلیقی جواہر معدن فکر سے بازار سخن میں پیش کرتے رہیں۔ یہ سچ ہے جس کا اشارہ فیضؔ نے کیاتھا۔
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گُہر جائیں گی
’’کتابیں‘‘ بتاتی ہے افسردگی کی ضرورت نہیں۔ اب صرف بازاروں میں نہیں بلکہ میلوں ، کالجوں اور پردیس کے شہروں میں بھی جوہریوں نے دکان کھول رکھی ہے۔
٭٭٭