ایک قدم روشنی کی طرف!……….
’’حیدرآباد میں اردو نثر کی ترقی و ترویج بیسویں صدی کے تناظر میں ‘‘
گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد میں منعقدہ ایک روزہ قومی اُردو سمینار کا رپورتاژ
از:۔ محمد محبوب ریسرچ اسکالریونیورسٹی آف حیدرآباد
جس طرح ہند وستان کے نقشہ میں ادبی علمی اور تہذیبی اعتبا ر سے دہلی اور لکھنو کو منفرد طرہ امتیاز حاصل ہے اور یہ دونوں شہر اردو ادب کی تاریخ میں دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنوکے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ اسی طر ح تلنگانہ کے نقشہ میں’ حیدرآباد‘ کو بھی علمی ‘ ادبی ‘ تہذیبی اور فروغ اردو کے اعتبار سے ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔ بہت کم شہر علمی وادبی طور پر اتنے ما لا مال ہو تے ہیں کہ ان کے آگے با دشاہوں کے خزانے بھی ہیچ معلوم ہو تے ہیں۔شہرحیدر آباد جسے’ اردو کے شہر‘ کے نام سے بھی جانا جاتاہے۔ ابتداء ہی سے حیدرآباد کی سرزمین اردو ادب کے لئے بہت زرخیز ثا بت ہوئی ہے۔ اسی سرزمین نے کئی ایسے نامور افسانہ نگار ‘ شاعر اور صحافی پیدا کئے جنہوں نے سا ری دنیا میں اپنا اور اپنے وطن کا نام روشن کیا ۔ قطب شاہی دور ہوکہ آصف جاہی دور ‘اردو کے فروغ کے لئے حیدرآباد کی ٖفضا ء ہمیشہ ساز گار رہی ۔ حصہ نظم ہوکہ حصہ نثر ہر دونوں کا حیدرآباد میں فروغ ہوا۔ البتہ بیسویں صدی میں اردو نثر کی ترقی و ترویج میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اسی مناسبت سے شہر حیدرآباد سے 100کیلو میٹر مغر ب کی سمت واقع ظہیرآباد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع و عریض میدان میں /30 جنوری 2016 ء کو اردو کا ایک روزہ قومی اردوسمینار بعنوان ’’ حیدرآباد میں اردو نثر کی ترقی و ترویج بیسویں صدی کے تناظر میں‘‘ منعقد کیا گیا ۔ جو انتہا ئی کامیاب رہا ۔ اس سمینار کی روح رواں اور کنوینر محترمہ عائشہ بیگم لیکچر ار و صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کا لج تھیں۔ سمینار کے لئے عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر موضوع کا انتخاب کیا گیا۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد ‘مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘ عثمانیہ یونیو رسٹی‘ تلنگانہ یو نیور سٹی ‘ گلبرگہ یونیورسٹی ‘ نانڈیڑ یونیورسٹی اور شاتاواہانا یونیورسٹی کے پروفیسروں اور ریسرچ اسکالروں نے شرکت کی۔ 30 /جنوری کی صبح سے ہی گورنمنٹ ڈگری کالج میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ کرناٹک ‘مہاراشٹرا ‘ مدھیہ پر دیش ‘ نئی دہلی اور آندھرا پردیش کے مختلف اضلاع سے مقالہ نگارظہیرآباد پہونچے۔ پروگرام کا آغا زصبح 10 ؍بجے سے ہو نے والا تھا لیکن مقررہ وقت سے بہت پہلے ہی گورنمنٹ ڈگری کالج کا وسیع و عریض میدان اپنی تنگ دامنی کا شکو ہ کر رہا تھا ۔ اسی ما حو ل میں مہمانا ن خصو صی جن میں ‘ پروفیسر بیگ احسا س ؔپروفیسر فاطمہ پروین‘ پروفیسر حشمت فاتحہ خوانیؔ‘ ڈاکٹر حبیب نثارؔ ڈاکٹر مقبول احمدمقبولؔ‘ ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد،ؔ ڈاکٹر آمنہ تحسین ‘ ڈاکٹر حمیرہ تبسم ‘ڈاکٹر عتیق اقبالؔ ‘ اور ڈاکٹرزاہدالحق تشریف لا تے ہیں۔ تالیوں کی گو نج میں مہمانوں کا استقبال ہو تا ہے اور مہمانوں کی آمد کے بعد قومی اردو سمینار کا باضابطہ آغا ز کیا گیا ۔
جناب سعد اللہ خان سبیلؔ(صدر لٹریری فورم) نے افتتاحیِ اجلاس کی نظامت کی۔ انہوں نے تمام مدعو مہمانوں کو شہ نشین پر بلایا۔ مہمانوں کو گلہا ئے عقید ت پیش کئے گئے۔ کا لج کے بی َکام سا ل ِاول کے طا لب علم عاصم نعمانی کی قرات کلام پاک اور کالج کی طالبات عطیہ بیگم ویاسمین بیگم کی نعت ِشریف سے سیمینارکا با ضا بطہ آغا ز کیا گیا ۔اس کے بعدسعد اللہ خان سبیل ؔنے شہ نشین پر تشریف فرما مہمانان ِ خصو صی پروفیسر بیگ احساسؔ ‘ پروفیسر فاطمہ پروین‘ ڈاکٹر ویرو پکشپا پرنسپل تارا ڈگری کالج (آئی ڈ ی کالج) ڈاکٹر سرینواس راجو‘ ڈاکٹر حبیب نثارؔ صاحب ‘کنوینر سیمنار محترمہ عائشہ بیگم ‘معاون کنوینرمحترمہ فرحت نا زنین ‘ ڈاکٹر آمنہ تحسین‘ ڈاکٹر عتیق اقبالؔ‘ ڈاکٹرزاہدالحق‘ ڈاکٹر نکہت آراء شاہینؔ‘ وغیرہ کا تعارف پیش کیا ۔ محترمہ عائشہ بیگم لیکچرروصدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کا لج نے تمہیدی خطاب کیا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو ادب کے فروغ میں حیدرآبادکی نمایاں خدمات ہیں اور معا شرہ اور انسانی زندگی اس صدی میں جن مسائل سے گذر رہی ہے ۔ ان میں اپنی زبان اور اپنی تہذیب کا تحفظ اہم مسئلہ ہے اور نو جوان نسل کو اردو سے واقف کروانا اور ان کے مسائل کا حل نکالنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور اس کے سا تھ سا تھ اردو کو عصر حا ضرکے تقا ضوں جیسے کمپیوٹر ‘ انٹر نیٹ ‘ وغیرہ سے ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے اوراردو نثر کے فروغ میں حیدرآباد کی خدمات سے نئی نسل کو واقف کروانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اسی لئے گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آبا د کے شعبہ اردو کے تحت اور ’’قومی کونسل برائے فروغ ِاردوزبان ‘‘ کے زیر اہتمام ایک روزہ قومی اردو سمینار کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ تا کہ اس سمینار کے ذریعہ نئی نسل کو اردو کے شاندار ماضی سے واقفیت‘ مستقبل کے چیا لنجس ‘ اور اس کے تحفظ اور اردو کے فروغ کے سلسلے میں لائحہ عمل طئے کیا جائے۔ ڈاکٹر کے سرینواس راجو پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہر ظہیر آبا د میں1991ء میں یہ کالج قائم کیا گیا۔ جہاں ابتداََ صرف ایک ہی گروپ ’ بی کام‘ تھا۔ لیکن2004 ء میں اردو میڈ یم میں متوازی گروپ ( بی اے )قائم کیا گیا ۔ تاہم اب یہاں یو جی سطح پر بی اے ‘ بی کام ‘ بی ایس سی ‘ کو رسیس اردو ‘ تلگو‘ اور انگریزی میڈیم ‘ سے دستیاب ہیں۔لیکن سب سے زیادہ تعداد اردو میڈیم طلباء کی ہی ہے۔ اور ــــــ’’NAAC‘‘ نے پہلی مرتبہ کا لج کو Bگریڈ کا درجہ عطا کیا ہے ۔ اُمید ہیکہ کا لج کے اسا تذہ کی کوششوںاور طلباء کی سخت محنت و جستجو سے کالج مستقبل قریب میں ’A‘ زمرہ کا درجہ حا صل کریگا۔پروفیسر فاطمہ پروین سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یو نیورسٹی نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ اردو ایک سیکولر‘شیریں اور دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔اس کی تعمیر میں ہندوستان کی تمام قومیں شامل ہیںاور یہ وہ زبان ہے جو مسلک اور سرحد تک محدود نہیںاور یہ نہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے بلکہ ہر اس شخص کی زبان ہے جس کے دل میں محبت ہے ۔ لیکن آج اردو کو مسلمانوں کی زبان کہہ کر اسے اس کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے جب کہ تاریخ گواہ ہیکہ اردو کے چوٹی کے ادیب ‘ شاعر ‘ صحافی ‘ ناول نگار‘ اور رائٹرس وغیرہ سب غیر مسلم تھے۔ جیسے رتن ناتھ سرشاؔر ‘ پریم چند ؔ‘ رگھو پتی سہائے فراقؔ گھورکھپوری ‘ راجندر سنگھ بیدی‘ؔ برج نارائن چکبستؔ ‘ کر شن چندرؔ ‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اردو زبان میں سا ری تہذیبوں اور سا ری قوموں کو سا تھ لے کر چلنے کی صلاحیت موجو د ہے ۔ انہوں نے تقریب کی روحِ رواں کنوینر سمینار محترمہ عائشہ بیگم کی پذیر ائی کر تے ہوئے کہا کہ وہ وقتاََ فوقتاََ مختلف پروگرامس کے ذریعہ مسلسل اپنے وجو د کا احسا س دلا تی رہتی ہیں۔ اردو دنیا کو ان سے بہت تو قعات وابستہ ہیں۔ اور انہوں نے اس عظیمُ الشان سمینار کے انعقاد کے مو قع پر محتر مہ کو مبارکبا د پیش کی ۔ پروفیسربیگ احساس ؔصاحب سابق صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ ہندوستان کے نقشہ پر علاقہ تلنگانہ کا ملک کی اُنتیسویں ریاست کی حیثیت سے وجود میں آنے کے بعد یہ ’’حیدرآباد میں اردو نثر کی ترقی و ترویج بیسویں صدی کے تناظر میں ‘‘ اہم مو ضوع ہے ۔ بلکہ یہ مو ضوع ہی سمینار کی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ اردو کے فروغ اور اس کی بقاء کے لئے اس کی ترقی و ترویج کا پس منظر بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔انہوں نے سلسلہُ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اردو کے فروغ کے لئے ہر ایک اہل اردو نمایا ں کر دار ادا کر سکتا ہے ۔صرف کام کر نے کا عزم اور حو صلہ ہو نا چا ہیے ۔ کیو نکہ کوئی بھی کا رنامہ’ ادارے نہیں بلکہ ارا دہ‘ کر تا ہے ۔ انہوں نے سمینار کے روحِ رواں محترمہ عائشہ بیگم کے متعلق کہا کہ وہ ایک طویل عرصہ سے ان سے رابطہ میں ہے۔ ماہنامہ ’سب رس‘کے توسط سے اُن سے میری بات ہوتی رہتی ہے علمی وادبی دنیا میں ا پنی ایک منفرد شناخت بنائی ہے،ڈاکٹر حبیب نثار ؔنے اپنے خطاب میں کہا کہ شہر حیدرآباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ شہر کی زمین نہ صر ف شاعری کے لئے بلکہ نثر کے فروغ کے لئے بھی بہت زرخیز ثابت ہوئی ہے۔سیمینار کا موضوع اکیسو یں صدی کے پس منظر میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اردو ایک ہندوستانی زبان ہے ۔ اور یہ تمام ہندوستانیوں کی زبان ہے ۔ اسے صرف مسلمانوں سے منسوب کرنا اردو کو قتل کر نے کے مترادف ہے ۔
ڈاکٹرویرو پکشپا پرنسپل تارا ڈگری کالج (آئی ڈ ی کالج)نے اپنے خطاب میں کہاکہ ڈگری کالج کے قیام کے 25 سالہ تکمیل کے موقع پر اردو سیمنار کا انعقاد بہت خوش آئند بات ہے۔انہوں نے اس سیمنار کو تا ریخی قرار دیااور شعبہ اردو کی صدر محترمہ عائشہ بیگم کو حرکیاتی اور فعال لکچرر قرار دیا ۔
محترمہ فرحت نازنین معاون کنوینر سیمینار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس سیمینار کے ذریعہ اُنہیں اردو نثر کی ترقی کا پس منظر سمجھنے کا موقع ملا۔ڈاکٹر ملیکارجن لکچرار کامرس نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے سال کا آغاز اردو کے قومی سیمنار سے ہو نا قابل ِ فخربات ہے۔انہوں اس موقع پر یہ خوش خبری سنائی کہ عنقریب کالج سے اردو کا سہ ماہی میگزین شائع ہوگا جو فی الوقت صر ف انگریزی میں ہی شائع ہو رہاہے۔مسٹر اشوک نائب پرنسپل نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہر ظہیرآباد میں اردو کا قو می سیمینار کا انعقاد اس لئے نا گزیر تھاکہ یہاں اردو میڈیم طلبا کی کٖثیر تعداد موجود ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ عائشہ بیگم اسی کالج سے فارغ ہو کر اسی کالج میںآج صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے فائز ہیں ۔اور محترمہ کے ظہیرآباد آنے کے بعد سے ظہیرآباد میں علمی ‘ادبی اور ثقافتی پروگراموں میں اضافہ ہواہے۔ بعد ازاں سو و نیئر کی رسم اجراء جناب پروفیسر بیگ احساسؔ صاحب کے ہا تھوں انجام دی گئی۔ اور مہمانوں کی شال پوشی اور انہیں مومنٹو دئے گئے۔محترمہ بدرسُلطانہ نے شکریہ ادا کیا۔اس کے فوری بعد طعام کا وقفہ دیا گیا۔ دوپہر ٹھیک 2:00 بجے سے مقالے پڑھنے کا سیشن شروع ہو ا ۔
ایک روزہ قومی سمینار کے پہلے مقالہ جاتی اجلاس کی صدارت پروفیسر بیگ احساسؔ صاحب سابق صدر شعبہُ اردویونیورسٹی آف حیدرآباد اور ڈاکٹر حبیب نثارؔصاحب اسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو یونیورسٹی آ ٓف حیدرآباد نے کی۔ اس اجلاس میں ڈاکٹراسلام ا لدین مجاہدؔ اسیوسی اسیٹ پروفیسر اردو آرٹس ایو ننگ کالج حیدرآباد نے نامور مورخ اور ممتاز محقق پروفیسرہارون خان شیرانی پر مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر مقبول احمد مقبول ؔ اسوسی ایٹ پروفیسر اُدگیر یو نیورسٹی نے ’ مجتبی حسین کی خاکہ نگاری ‘ کے عنوان پر،ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گورنمنٹ گری راج ڈگری کالج نے ’عزیز احمدــ۔ حیدرآباد کے نامور ترقی پسند فکشن نگار‘کے عنوان پر آن لائین مقالہ پڑھا،ڈاکٹر آمنہ تحسین مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے ’حیدرآباد میں اردو ادب کی تحقیق بیسویں صدی کے تناظر میں‘‘کے موضوع پر،ڈاکٹر غضنفر اقبالؔ ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ نے’’ ڈاکٹر حبیب نثارؔ بہ حیثیت محقق‘‘ کے موضوع پر، ڈاکٹر زاہدالحق یونیورسٹی آف حیدرآباد نے ’’چہرہ در چہرہ کے آئینہ میں مجتبی حسین ‘‘ کے موضوع پرڈاکٹر عتیق اقبال ؔنے سلیمان اطہرکی ادبی خدمات کے موضوع پر جناب سعداللہ خان سبیل ؔریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ نے ’پروفیسر سیدہ جعفر کی ادبی خدمات‘ پر اپنا مقالہ پڑھا جبکہ جناب محمد عبدالحی صاحب نائب مدیر ماہنامہ اُردو دنیا،نئی دہلی کا مرسلہ مقالہ بعنوان ’’اردو کی ترقی ترویج میں سب رس کا حصہ‘‘ کو محترمہ اسماء بیگم نے پڑھا ۔ اس طرح پہلے مقا لہ جا تی اجلاس میں تقریباََ 10مقا لہ نگاران نے اپنے مقالے پڑھے۔بعد ازاں چائے کا وقفہ دیا گیا۔ دوسرے مقالہ جاتی ا جلاس کا آغاز دو پہر :30 3بجے بعد فراغت چائے نوشی عمل میں آیا نظامت محترمہ عائشہ بیگم لکچرراردو گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیرآباد نے کی ، دوسرے مقالہ جاتی اجلاس کی صدارت پروفیسرحشمت فاتحہ خوانی اور ڈاکٹر مقبول احمد مقبولؔ نے انجام دی۔اس اجلا س میں تقریباََ14 مقالے پڑھے گئے۔ڈاکٹر جان نثار معینؔ،ڈاکٹر عشرت لطیفؔ، ڈاکٹر سمیع الدین بیجاپور، ڈاکٹر اسماء تبسم ‘ڈاکٹر زرینہ گلبرگہ، ڈاکٹر مسرور سُلطانہ کریم نگر،ڈاکٹررفیعہ سلطانہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ‘ ڈاکٹر حمیرہ سعید این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر، محمد یحیی پی ایچ ڈی اسکالر ساگر یونیورسٹی مدھیہ پردیش،محمد محبوب جنر ل سیکریٹری ٹرینڈ ٹیچرس اسوسی ایشن ، ڈاکٹر محمد عظمت الحق اُدگیر، انصار احمد ریسرچ اسکالر مانو، نغمہ پروین ،ڈاکٹر بدر سُلطانہ، محترمہ عرشیہ خانم،محمد توفیق وغیرہ نے اپنے اپنے مقالہ پیش کئے ۔ اسکے علاوہ ڈاکٹر ہاجرہ پروین بیجا پور، ڈاکٹر قاضی محمد شکیل الدین مہاراشٹرا،ڈاکٹر عبدالعزیزسہیل محبوب نگر، پروفیسر حشمت فاتحہ خوانی نے ان مقالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر عنوان کی اپنی ایک انفرادیت ہے جسطرح سے حکومت نے خواتین کو33فیصد تحفظات فراہم کیا ہے اسی طرح سے اس سمینا ر میں33 فیصد سے زائد خواتین نے مقالے پڑھے ہیں۔ڈاکٹر مقبول احمد مقبول ؔصدر شعبہ اردو اُدئے گری مہا ودیالیہ ،اُودگیر نے صدارتی خطا ب میں 14 مقالہ نگاروں کاانفرادی ‘ تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیا۔ اورکہا کہ ان 14 مقالہ پیش کرنے والوں نے اپنی محنت و لگن سے اردو کے در پیش مسائل اور ان کا حل تلاش کر نے کی کوشش کی ہے ۔تیسرا پروگرام6؍ بجے شام اختتام کو پہنچا۔محترمہ عائشہ بیگم نے مہمانان اور حاضرین جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔مقالہ نگاروں کو مہمانانِ خصوصی کے ہاتھوں سند اور مومنٹو پیش کئے گئے۔ اس موقع پرمحترمہ عائشہ بیگم اور محمد جمیل صاحب لکچرر نفسیات کی رافع التمش ایجو کیشنل سوسائیٹی اور فیاض علی سکندر (سداشیوپیٹ) کی جا نب سے گلپوشی و شال پو شی کی گئی۔ محترمہ عائشہ بیگم نے سیمینار کے اختتام پر پروفیسر مجید بیدار ‘ڈاکٹر اسلم فاروقی اور جناب خان ضیاء کا غا ئبانہ شکریہ ادا کیا جن کی رہنمائی ‘ ہمت افزائی اور زرین مشوروں کی بدولت ایک روزہ اردو سمینار کا کامیاب انعقاد عمل میں آیا۔سیمینار کے اختتام پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹرجناب پروفیسر ارتضی کریم کی سمینار کی منظوری و مالی تعاون دینے پر شکریہ اداکیا ۔ ا ورَاسی طرح سیَ جناب پروفیسر ایس اے شکور صاحبِ ، ڈائریکٹر اردو اکیڈیمی تلنگانہِ،جناب زاہد علی خان صاحب ایڈیٹر روزنامہ سیاست حیدرآباد،جناب جاوید معید صاحب صدرشعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی ،کاشکریہ اداکیا گیا۔ ان حضرات کے زرین مشوروں کی بدولت سیمینار کامیاب ہوا ۔ اختتام پر ایم اشوک کمار نائب پرنسپل‘ راجندر کمار‘ لکچرر ہندی‘ ڈاکٹر راجی ریڈی‘ ڈاکٹر ملیکارجن ‘ محمد جلیل صٓاحب لکچرر انگریزی ‘پی سُجاتا ‘ ویرا بابو‘ مسٹر موہن‘ محمد مظفر علی لکچرر کامرس‘ محترمہ بدر سُلطانہ ‘محترمہ رخسانہ بیگم‘ محترمہ عر شیہ خانم ‘محترمہ عشرت بیگم‘ محترمہ عرفانہ بیگم ‘مسٹربھگوان ریڈی ‘مسٹربوجداس اور محمد توفیق، محمد حبیب‘ محمد احمد‘ محمد افتخار، محمد نعیم الدین ،سیف الدین سیف ؔغوری ،اور سنتوش وغیرہ موجود تھے۔کالج کے طلباء کو انتظامی امور میں ساتھ دینے پر سرٹیفکیٹ دئے گئے۔
اس طرح محترمہ عائشہ بیگم کی مخلصانہ کوشش سے شہر ظہیرآباد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں یونیورسٹی سطح کا قومی اردو سمینار کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہوئے اپنی تاریخ رقم کرگیُ۔ اس سمینار سے نوجوان اسکالرز کو حوصلہ ملا۔ انہیں ماہر اساتذہ کے روبرو مقالے پڑھنے اور سمینار کے ماحول کو سمجھنے کا موقع ملا۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ سمینار اپنے مقاصد میں ضرور کامیاب رہے۔ اور اس سمینار کے ذریعے اردو کے جو مسائل اور ان کا جو حل ماہرین نے پیش کیا وہ ساری دنیا میں عام ہو۔ ّ ؎
اور ہو جہاں میں تیرا نام اردو ؔ تجھے نئی صدی کا سلام اردو