ھل من ناصرًا ینصر نا

ھل من ناصرًا ینصر نا
ایک دعائیہ نظم
\"11713906_10207226646725047_4366395033340366366_o\"
٭ ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں نہیں چاہتا ٹوٹنا پھوٹنا
میرا ڈھانچہ تو اس چکنی مٹّی کا ہے
جو مرا کوزہ گر گوندھ کر مجھ کو
اک ظاہری وضع ،اک شخصیت دے گیا
عزو بندی مری شیشہ وش ہے، اسے
ٹوٹنے سے بچائے گا اب کون، اے کوزہ گر؟

میرے چاروں طرف حملہ آور عدو ہیں ہتھوڑے اٹھائے ہوئے
مفسدوں ،حاسدوں کے گروہوں کا بس ایک ہی عزم ہے
مجھ کو توڑیں ، مجھے ریزہ ریزہ کریں
جان سے مار دیں

کوزہ گر ،تو نے جب
مجھ کو تشکیل دی تھی تو اتنا تو کرتا
مجھے اک مبارز بناتا
مرے ہاتھ میں ایک تلوار دیتا
کہ اپنی حفاظت مرا کام ہوتا
مگر میں نہتّا، اکیلا کھڑا دیکھتا ہوں
عدو چاروں جانب سے یلغار کرتے ہوئے آ رہے ہیں

میں نہیں چاہتا ٹوٹنا پھوٹنا، میرے مولا، مرے کوزہ گر  

                                           

[ایک]  عنوان عربی میں ہے۔ میں کربلا کے سانحے پر، جو اب مذہب کی حدود سے نکل کر ایک آفاقی سمبل بن چکا ہے، اتھارٹی نہیں ہوں۔  شعیہ دوست شاید مجھ سے زیادہ جانتے ہوں لیکن میں نے اسے اوائل بیسویں صدی کے ایک مرثیہ سے لیا ہے۔ یہ وہ صدائے استغاثہ ہے جو امام حسینء نے کربلا میں اپنے آخری سجدے سے پہلے بلند کی کہ وہ بظاہر اکیلے اور نہتے رہ گئے تھے (ان الفاظ کا استعمال نظم میں کیا گیا ہے) اس کا مطلب سیدھا سادہ ہے، \”کوئی ناصر باقی ہے؟\” مجھ نا چیز کی سمجھ میں یہ صدا اس بات پر دال ہے کہ جو نہیں کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ناصر باقی ہے، جو تلوار اٹھائے ہوئے میری معاونت کو آئے ۔۔۔  یہ صدا جواز و مواخذہ دونوں کا فرض ادا کرتی ہے، یعنی اگر ہے تو آئے ۔۔۔ لیکن شاید کوئی نہیں رہا ۔۔۔ اس کے بعد امام حسین ء سجدہ ٔ آخر میں گر جاتے ہیں۔

[دو] واحد متکلم کا جسم ، جس پر عدو حمہ آور ہیں ، کیا ہے؟ اور عدو کون ہیں جو اس پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔؟ یہ طبیعی جسم بھی ہو سکتا ہے، جس پر عوارض حملہ آور ہیں۔ سرطان وغیرہ موذی عوارض کے خلاف جسم ایک مبارز کی طرح بر سر پیکار ہوتا ہے۔ علم طب کی اصطلاح میں لفظ

Fight against cancer استعمال ہوتا ہے۔

 اور یہ جنگ ہارنے والے کے بارے میں یہی کہتے ہیں

He lost his fight against cancer OR he won his fight against cancer

[تین]ایک دوسری سطح پر جسم ایک ایسی کارپوریٹ باڈی ہے (انگریزی حروف نہیں لکھ رہا ہوں)، جو ایک خاندان بھی ہو سکتا ہے، ایک مذہبی سیکٹ بھی، ایک معیشت بھی، ایک ملک بھی ۔۔۔۔ عدو جو اس کو تباہ کرنے کے درپے ہیں، قدرتی آفات بھی ہو سکتی ہیں، (زلزلہ، سونامی، سیلاب وغیرہ)، وبا بھی ہو سکتی ہے،( طاعون، ہیضہ، ڈینگی وغیرہ)، کسی بیرونی طاقت یا طاقتوں سے جنگ بھی ہو سکتی ہے، اور داخلی دہشت گاور مفسدین  بھی ہو سکتی ہیں ۔۔۔ وہ حریص حاکم بھی ہو سکتے ہیں، ےجوطاقت کے نشے میں ملک کو تباہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔۔۔۔۔

[چار] عدو کون ہیں، جو واحد متکلم کے جسم پر  پر حملہ آور ہو رہے ہیں؟ ایک اور (ذرا زیادہ گہری سطح پر) یہ جسم طبیعی نہیں ہے، بلکہ وہ داخلی اسپرٹ ہے، جس نے انسان کو حیوان کی نسل سے آزاد کر کے اس قابل بنایا کہ فرشتے بھی اسے سجدہ کر سکیں۔ اس پر شیطان اور اس کی فاسد طاقتیں ایک بار پھر حملہ آور ہیں۔ بدی کی دو جہات ہیں۔ انسان کے اندر کی خود پید بدی اور بیرونی شیطانی محرکات جو اسے نیکی کے راستے سے پھسلا کر بدی پر مجبور کر دیتی ہیں  ۔۔  لفظ مجبور کی کئی شکلیں اس نظم میں موجود ہیں، جنہیں اپنے مولا، یعنی اپنی بنانے والے کوزہ گر کے سامنے پیش کرتے ہوءے متکلم یہ کہتا ہے کہ وہ اب مجبورِ محض ہے۔ گلہ اور شکایت بھی کرتا ہے کہ اس کا \”جسم\”( معنی کی  کسی بھی جہت میں) کمزور ہے، \”شیشہ وش\” ہے۔ کاش اسے طاقتور بنایا گیا ہوتا، کاش آب و گل و ریح کے اس مجسمے میں کچھ نوری عنصر بھی شامل کیا گیا ہوتا۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

اب کچھ الفاظ پر غور کرنا ضروری ہے۔ میں حتےٰ الوسع تصویری مفہوم کے الفاظ استعمال کرتا ہوں، تا کہ سامع یا قاری اپنے ذہن میں اس تصویر کو اجاگر کر سکے۔ \”شیشہ وش\” ہی دیکھ لیں۔ میں کہنا چاہتا تھا، کمزور، نازک، جلد ٹوٹنے والا۔ چینی کا برتن نازک، صیقل شدہ اور جلد ٹوٹنے والا ہوتا ہے، لیکن میں ایک پوری سطر توضائع نہیں کر سکتا تھا۔ انگریزی میں ہے  لفظ \”برِٹل\”

 Brittle

میرے ذہن میں یہ لفظ آیا لیکن اس کا اردو ترجمہ کیا ہے اور اگر ہے تو وہ کیا کوئی تصویر اجاگر کر سکتا ہے؟ \”شیشہ وش\” (جو کہ میری ہی اختراع ہے) کہنے سے یہ معاملہ حل ہو گیا۔ اسی طرح ایک درجن کے قریب الفاظ پر غور کرنا ضروری ہے،جن میں \”نہتا\”، \”اکیلا\” \”ڈھانچہ\”، \”عزو بندی\” بھی شامل ہیں،   جنہیں میں طوالت کے خوف سے زیر بحث نہیں لا رہا۔  

دوستو، میں اور زیادہ نہ لکھتا ہوا اس پر ہی قناعت کرتا ہوں۔ شاید اب نظم کو غور سے پڑھا جاءے۔   اب ان امور کی روشنی میں نظم کو ایک بار پھر پڑھیں۔

 

Leave a Comment