اُردواکیڈمی کے سپرنٹنڈنٹ اورایگزیکیٹیوآفیسرکےمطابق حکومت کی کوشش ہے کہ اُردوزبان و ادب کے فروغ میں کوئی کسرنہیں چھوڑی جائے
مہاراشٹر اسٹیٹ اردوساہتیہ اکیڈمی کے سپرنٹنڈنٹ اورایگزیکیٹیو آفیسرکے خالی عہدے پر مقبول صحافی شعیب ہاشمی کی ۲۸؍جون ۲۰۱۸ کو تقرری سے مہاراشٹر کے اردوحلقے میں خوشی کا اظہار کیا جارہاہے۔ہاشمی سید شعیب قمر الدین کاتعلق ضلع لاتورکے ادگیر نامی شہرسے ہے جو ریاست کرناٹک کی سرحد سے کافی نزدیک ہے۔شعیب ہاشمی نے ادگیر سے گریجویشن کرنے کے بعدحیدرآباد کی مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سےماس کمیونیکیشن اینڈجرنلزم کاکورس کیا اوراپنی ذہانت اورقابلیت کی چھاپ چھوڑتے ہوئے اس فیکلٹی میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی اورگولڈ میڈل کے حقدار قرار دیئے گئے۔انہوں نے کہا’’گھر میں لکھنے پڑھنے کا ماحول تھااورمیرے بڑے بھائی کی خواہش تھی کہ میں اردو صحافت میں اپنا کیرئیر بناؤں۔شروع میں مجھے سائنس میں دلچسپی تھی۔بارہویں کے بعدانہوں نے مجھے آرٹس لینے کامشورہ دیااور میں نے ان کے خواب کو پورے کرنے کی غرض سے آرٹس میں داخلہ لیا اورگریجویشن کیا۔گریجویشن میں امتیازی نمبرات سے کامیابی کے بعد میں نے مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کارُخ کیا۔ماس کمیونیکیشن اینڈجرنلزم کی تعلیم کے دوران مجھ میں اردو صحافت کی شُدبُدپیدا ہوئی اورمیں نے اپنے طور سے اردو صحافت پر ریسرچ کی۔حیدرآباد میں بودوباش کے دوران ای ٹی وی سے بھی رغبت پیدا ہوچکی تھی لہٰذا ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے ای ٹی وی اردو جوائنٹ کرلیا۔مجھے سولاپور میں رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی گئی اورچھ سال تک میں نے سولاپورمیںاردوصحافت کی خدمت انجام دیں۔‘‘شعیب ہاشمی اب غیر معروف نہیں تھے اورانہیں صحافی کی حیثیت سے شہرت مل چکی تھی۔ان کی اس شہرت اورصلاحیت نے انہیں روزنامہ’’انقلاب‘‘سے وابستگی میں مدد کی۔وہ روزنامہ ’’انقلاب‘‘کے ساتھ ساڑھے چار برسوں تک منسلک رہے اورسب ایڈیٹر کے فرائض انجام دئیے۔شعیب ہاشمی بتاتے ہیں’’میں روزنامہ ’’انقلاب‘‘سے وابستگی کے لیے آج بھی اللہ کاشکر ادا کرتا ہوں۔مجھے وہاں رہتے ہوئے پرنٹ میڈیا کی باریکیوں کوسیکھنے کاموقع ملا۔وہاں بہترین صلاحیت رکھنے والے صحافیوں کی پوری ایک ٹیم ہے جن کے درمیان رہتے ہوئے میں نے اپنی معلومات اورتجربے میں اضافہ کیا۔میں قومی اوربین الاقوامی حالات حاضرہ کے علاوہ دلچسپ اسٹوریزبھی لکھا کرتاتھا۔اقلیتوں کے حقوق کی پامالی پر بھی میں نے کافی کچھ لکھا ہے۔میں نے صحافتی کیرئیر کے دوران کبھی اپنے قلم کو بیچا نہیں اورپوری دیانتداری سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا۔صحافیوں کو زردصحافت کی طرف راغب کرنے میں سیاستدانوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے لیکن میں نے ہمیشہ اپنادامن بچائے رکھا۔‘‘شعیب ہاشمی اب اردواکیڈمی کی گذشتہ کارکردگی کے علاوہ اردوداں حلقے کی شکایتوں کاگہرائی وگیرائی سے مطالعہ کر رہے ہیں۔انہو ںنے کہا’’اس عہدے پر تقرری سے میں بے حد خوش ہوں اورایک چیلنج بھی سامنے ہے۔ایک حلقے کی طرف سے اردواکیڈمی کو مسلسل نشانہ بنایا جارہاتھا۔ممکن ہے کہ کمیاں بھی رہی ہوں گی لیکن میرا ماننا ہے کہ سب کومل کر بھلائی اوربہتری کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔کچھ لوگ درختوں کے پتو ں کو پانی دیتے ہیں جب کہ میں جڑوں اورتنوں میں پانی ڈالنے کاقائل ہوں۔میں زمینی سطح پر بھی فوکس رکھوں گاتاکہ ڈھانچے کو مضبوط کیا جاسکے۔میں حکومت اورجی آرکے مطابق کام کروں گا۔اردو اورادب کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘اکثراساتذہ اورسماجی کارکنوں کو دئیے جانے والے اعزازات اورانعامات پر اعتراض کیا جاتاہے۔انہوں نے کہا’’اردووالوں کو دل بڑا رکھناچاہیے۔اساتذہ بھی اردو کی خدمت کرتے ہیں اوربعض سماجی کارکن بھی۔دیکھنایہ چاہیے کہ اردو کی خدمت کون،کس زاویے سے کررہاہے۔البتہ میری کوشش یہ ہوگی کہ اردو کی حقیقی معنوں میں خدمات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔بائیو ڈیٹا اورججوں کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔‘‘شعیب ہاشمی کے بقول’’اردو والوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کاخیال رکھناچاہیے۔میں نے چارج سنبھالنے کے بعدفائلوں کا جائزہ لیا جس میں پتہ چلاکہ درخواستیں توبہت آتی ہیں لیکن ان کے ساتھ بائیوڈیٹا نہیں ہوتا ہے۔درخواست گذاروں کو چاہیے کہ وہ اپنی درخواستوں کےساتھ بائیو ڈیٹابھی روانہ کریں تاکہ ججوں کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔اردو اکیڈمی اسکولوں اورکالجوں میں اردوکے مختلف پروگراموں کے لیے بھی مالی اعانت کرتی ہے لہٰذا اسکولوں اورکالجوں کو اس سلسلے میں بھی رابطہ کرناچاہیے۔اردواکیڈمی کے اشتہار میں شرائط وضوابط درج ہوتے ہیں ۔اکثردرخواست گذار اشتہار پڑھے بغیر اورآخری تاریخ کے بعددرخواستیںروانہ کرتے ہیں جب کہ یہ طریقہ یا وطیرہ سراسرغلط ہے۔‘‘اردواکیڈمی کی ویب سائٹ کے بارے میں انہوں نے بتایا’’اکیڈمی اپنے کاموں میں شفافیت کولے کر ویب سائٹ تیار کر رہی ہے۔ریاستی سرکار،وزارت اورسیکریٹریز کی خواہش ہے کہ اردواکیڈمی کوجلدفعال بنایاجائے اوراردو زبان وادب کے فروغ میں کوئی کسرنہیں چھوڑی جائے۔حکومت کی طرف سے مجھے ہر ممکن تعاون مل رہا ہے اورمیری کوشش ہوگی کہ اردواکیڈمی کے فنڈکاپورا استعمال ہو اوراس میں ہر سال اضافہ ہو۔انشاء اللہ میں سہ ماہی’’امکان‘‘کو بہت جلدریگولر کرنے کی بھی سعی کروں گا۔اس کے علاوہ جو ایوارڈس بند ہو چکے ہیں انہیں دوبارہ شروع کرنے کابھی میں خواہش مندہوں۔اردوداں حضرات سے میری ایک درخواست ہے کہ وہ اپنے قیمتی مشوروںسے نوازیں،مثبت سوچیں اوربلاوجہ کی تنقیدسے پرہیز کریں۔ہرآنےوالادن بیتے ہوئے دن سے بہترہو سکتا ہے۔‘‘